مشتاق یوسفی کی سلیپنگ بیوٹی اور وادئ زیارت
1988ء کا موسمِ گرما تھا۔ مجھے رابطہ انٹرنیشنل نامی ماہنامے نے ایک ایسا عجیب اسائنمنٹ دیا کہ جس میں مجھے پاکستان کے چاروں صوبوں کی خاک چھاننی تھی۔ بلوچستان میں زیارت اور لورالائی اور صوبہ سرحد (موجودہ خیبرپختونخوا) میں نوشہرہ اور چترال۔ اس کام کے لیے مجھے سندھ سے بلوچستان اور پھر بلوچستان سے براستہ پنجاب صوبہ سرحد تک سفر کرنا تھا، یعنی چاروں صوبے۔
روٹ کچھ یوں بننا تھا کہ پہلے مرحلے میں کراچی سے کوئٹہ، پھر کوئٹہ سے زیارت، زیارت سے لورا لائی، لورالائی سے براستہ فورٹ منرو پنجاب میں داخل ہوکر ڈیرہ غازی خان اور پھر مزید آگے بڑھتے ہوئے پورا پنجاب عبور کرکے راولپنڈی پہنچنا تھا۔ راولپنڈی سے بذریعہ جرنیلی سڑک دریائے سندھ کو عبور کرکے نوشہرہ تک رسائی اور پھر آگے مردان، مالاکنڈ اور دیر سے ہوتے ہوئے چترال۔ یہ ایک خاصا طویل، دشوار مگر انوکھا سفر تھا۔ میں نے اپنے دوست باسط کو بھی اس آوارہ گردی کے لیے آمادہ کیا اور ہم پہلے مرحلے میں کراچی سے کوئٹہ کے لیے نکل پڑے۔
کراچی سے کوئٹہ کے لیے جدید آرام دہ ایئر کنڈیشنڈ بسیں چلنا شروع ہوگئی تھیں جو صبح شام کوئٹہ کے لیے نکلتی تھیں۔ ہم بھی صبح سویرے والی ایک کوچ میں سوار ہوگئے اور ٹھنڈے ٹھار اے سی کے مزے لیتے ہوئے سندھ کی حدود سے نکل کر بلوچستان میں داخل ہوگئے۔ بے آب و گیاہ ویرانوں اور خشک پہاڑوں سے آنکھ مچولی کھیلتی آر سی ڈی ہائی وے پر فراٹے بھرتے ہوئے دوپہر تک خضدار پہنچ گئے۔ مجھے یاد ہے کہ دوپہر کا کھانا ہم نے چمروک ہوٹل میں کھایا تھا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس دن کے 30 سال بعد جب میں پچھلے سال خضدار میں رُکا تو یہی چمروک ہوٹل اسی آن بان سے مسافروں کی خدمت کرتا نظر آیا۔ لفظ ’چمروک‘ کا مطلب کیا ہے؟ یہ تو ہمارے بلوچ دوست ہی بتائیں گے۔
ہمارے ساتھ ایک ایسا خاندان بھی سفر کررہا تھا جو براستہ بلوچستان ایران جا رہا تھا۔ میں نے اس وقت تک ایران نہیں دیکھا تھا، البتہ سینے میں اسے دیکھنے کی آرزو پال رکھی تھی اور مجھے علم نہ تھا کہ یہ خواب چند سال بعد ہی شرمندہ تعبیر ہونے والا ہے۔
کوچ جب مستونگ سے آگے آئی تو آرسی ڈی ہائی وے بائیں طرف مڑگئی، ایران جانے کے لیے۔ میں نے اس سڑک پر ایک حسرت آمیز نگاہ ڈالی۔ جبکہ ہماری بس کوئٹہ کی طرف چلتی رہی اور پھر لَک پاس کا پہاڑی درّہ آگیا، جس کو عبور کرتے ہی ایک میلوں طویل ڈھلواں میدان نظروں کے سامنے آگیا جس کے آخر میں سرمئی پہاڑوں کی حد بندی نظر آرہی تھی۔ یہ کوہِ زرغون، کوہِ چلتن اور کوہِ مردار کے مٹیالے خشک سلسلے تھے۔
ان پہاڑوں کا نظر آنا کوئٹہ کے قریب آنے کی علامت ہوتا ہے۔ فراٹے بھرتی بس کے ٹائر سڑک کو تیزی سے لپٹاتے ہوئے کوئٹہ کو نزدیک لارہے تھے۔ سریاب روڈ شروع ہوا، بولان یونیورسٹی گزری اور پھر کوئٹہ آگیا۔
کوئٹہ خشک پہاڑوں میں گِھرا ہوا پیالے نما شہر ہے۔ پہاڑی ڈھلوانوں کے ملاپ پر آباد یہ شہر اپنی 5 ہزار فُٹ بلندی کے باعث پاکستان کا بلند ترین شہر ہے۔ اس بلندی اور خشکی کے باعث یہاں گرمی اور حبس بالکل نہیں، البتہ سردی خوب پڑتی ہے بلکہ برف باری بھی خوب ہوتی ہے۔
کراچی کے رہائشی جن دنوں حبس اور پسینے سے پریشان رہتے ہیں، اُن دنوں کوئٹہ ٹھنڈا اور خشک ہوتا ہے۔ جب کراچی کی گرمی میں پریشان لوگوں کا دن میں تین تین مرتبہ نہانے کو جی کرتا ہے، تب کوئٹہ میں تین دن میں ایک مرتبہ نہانا بھی کافی ہوتا ہے۔ جب کراچی میں پانی میں برف ڈال کر نہانا کوئی حیرت کی بات نہیں کہلاتی، تب کوئٹہ میں جون جولائی میں بھی پانی گرم کیے بغیر نہانا ممکن نہیں ہوتا۔ جب کراچی میں پنکھے کی ہوا زندہ رہنے کے لیے لازمی ہوتی ہے اس وقت کوئٹہ میں پنکھا ہی لازمی نہیں ہوتا۔ یہاں کی آب و ہوا بھوک بھی بڑھا دیتی ہے اور کراچی میں دن میں ایک مرتبہ کھانے والے کو کوئٹہ میں تین مرتبہ کھانا بھی ناکافی لگتا ہے۔ تو جناب ہم اس ٹھنڈے ٹھار، باغ و بہار اور لالہ زار کوئٹہ پہنچ گئے۔
کوئٹہ میں ہمارے عزیز بھائی وارث کا ڈیری فارم تھا۔ وہ دودھ کا کاروبار کرتے تھے اور وہاں رہنے والے ہر دم دُودھوں نہاتے تھے۔ ہمیں بھی وہیں وارث بھائی کے باڑے پہنچنا تھا اور سجاول سے ملنا تھا۔ سریاب روڈ پر برما ہوٹل کا اسٹاپ آتے ہی ہم نے (رُکی ہوئی) بس سے چھلانگ لگا دی۔ یہ برما ہوٹل بھی عجیب نام تھا، ہم سمجھے کہ یہاں کوئی برمی مہاجرین کی کالونی ہوگی، لیکن تحقیق کی تو کچھ اور ہی قصہ برآمد ہوا۔ لفظ برما دراصل ’ورما‘ ہے، یعنی ڈرل بِٹ Drill bit۔ وہ ڈرل بِٹ کہ جس کی مدد سے زیرِ زمین پانی کے حصول کے لیے بورنگ کی جاتی ہے۔ اس ’برمے‘ کی نسبت سے بلوچستان میں بورنگ کو ہی برما کہا جاتا ہے۔
تو جناب یہاں کسی زمانے میں بورنگ سے پانی نکالا جاتا تھا اور اس پانی کی قربت میں ایک ہوٹل بھی ہوا کرتا ہوگا کہ جس کا نام ہی برما ہوٹل پڑگیا۔ اب تو نہ وہ برما ہے اور نہ وہ ہوٹل، بس برما ہوٹل کا بس اسٹاپ باقی ہے جہاں لوگ بغیر سوچے سمجھے اُتر جاتے ہیں۔ میں اور باسط بھی یہاں اُتر گئے اور ٹامک ٹوئیاں مارتے ہوئے بھائی وارث کے باڑے تک پہنچ گئے جہاں ہمیں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ خُوب کھانا کھایا اور خوب دودھ پیا بلکہ دودھ پتیاں نوش کیں۔ زیارت روانہ ہونے سے پہلے دو ایک دن کوئٹہ میں بھی گزارنے تھے اور یہاں ہمارا پروٹوکول بھائی سجاول کے ذمے تھا۔
ہم صبح سویرے ہی کوئٹہ میں آوارہ گردی کے لیے نکل آئے۔ کوئٹہ ایک بے حد قدیم، مگر ساتھ ہی خاصا جدید شہر ہے۔ قدیم یوں کہ 11ویں صدی میں محمود غزنوی بھی اس پر حکومت کرچکا ہے اور جدید یوں کہ 1935ء کے خوفناک زلزلے میں مکمل تباہی اور 35 ہزار انسانوں کی ہلاکت کے بعد جو شہر دوبارہ آباد ہوا وہ آج تک بالکل نیا نویلا بلکہ ’نواں نکور‘ ہے۔ قدیم زمانوں سے ایران اور افغانستان کے تجارتی قافلوں کے لیے برِصغیر میں داخلے کا دروازہ کوئٹہ، آج بھی تجارت کا مرکز ہے۔
میں نے کچھ ہی دن پہلے مشتاق احمد یوسفی کی کتاب خاکم بدہن میں کوئٹہ کی ’سلیپنگ بیوٹی‘ کا ذکر پڑھا تھا اور کوئٹہ کے اطراف میں ایستادہ پہاڑوں کے نشیب و فراز میں اُس خوابیدہ حسینہ کے خد و خال تلاش کر رہا تھا جو اپنے بال پیچھے کی طرف پھیلائے سورج طلوع ہونے کے باوجود محو خواب رہتی ہے اور دعوت نظارہ دیتی ہے۔ سورج طلوع ہوئے خاصی دیر ہوچکی تھی لیکن ابھی مشرقی سمت کے آسمانوں کا نارنجی رنگ کچھ باقی تھا کہ میری آنکھوں میں ایک جھماکا ہوا۔ شہر کے مشرقی پس منظر میں اٹھتے پہاڑوں کی منڈیروں کے نشیب و فراز نے اچانک ایک خوابیدہ حسینہ کے دلفریب خدو و خال کی شکل اختیار کرلی اور میں اچھل پڑا۔
’باسط، وہ دیکھو، وہ خوابیدہ حسینہ، وہ پہاڑوں میں!‘ میں نے دوست کا کندھا جھنجھوڑا۔
’کہاں ہے بھئی حسینہ؟ پاگل ہوگئے ہو کیا؟‘ باسط آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اس طرف دیکھنے لگا۔
’بھائی وہ دیکھ، دائیں طرف کھمبے کے اوپر سے اُدھر بائیں طرف والی بلڈنگ تک۔ پہاڑ کے اوپر والی دیوار کا شیپ دیکھ۔ کچھ محسوس ہوا؟‘ میں نے منظر کو واضح کرنے کی کوشش کی۔
’ہاں یار واقعی!‘ اسے بھی حسینہ دکھائی دے ہی گئی اور ہم دونوں کچھ دیر وہیں ماتھے پر ہتھیلیاں جمائے کھڑے وہ منظر دیکھتے رہے اور مشتاق یوسفی کو یاد کرتے رہے۔
سب سے پہلے ہمیں کوئٹہ میں پاکستان ٹؤرزم ڈولپمنٹ کارپوریشن (پی ٹی ڈی سی) کے دفتر جاکر زیارت کی بکنگ کروانی تھی۔ کوئٹہ سے روزانہ زیارت کے لیے پی ٹی ڈی سی کی کوسٹر جاتی تھی اور اس کے لیے ایڈوانس بکنگ کروانی پڑتی تھی۔ پی ٹی ڈی سی کا آفس جناح روڈ پر مسلم ہوٹل میں تھا۔ ہم دفتر پہنچے تو پی ٹی ڈی سی کوئٹہ کے مینیجر قمر میر صاحب سے ملاقات ہوئی۔ کوسٹر کی بکنگ دو طرفہ ہوتی تھی، لیکن ہمیں تو زیارت سے کوئٹہ واپس نہیں آنا تھا، آگے لورالائی چلے جانا تھا۔ قمر میر حیران ہوئے کہ ہم لورالائی کیوں جا رہے ہیں؟ ’ہمیں تو لارالائی ہی نہیں، مزید آگے پنجاب سے ہوتے ہوئے چترال تک جانا ہے۔‘ میں نے اُنہیں بتایا۔
’کراچی سے چترال براستہ بلوچستان!‘ قمر میر نے مجھے غور سے دیکھا۔ ’زبردست روٹ لیا ہے آپ نے۔ بہت اچھی بات ہے۔ نوجوانوں کو ایڈونچر کرنا چاہیے۔‘
’جی بالکل۔‘ میں نے خوش ہوکر دانت نکال دیے۔
’ابھی کچھ دن پہلے آپ کی طرح کا ایک نوجوان کراچی سے چین تک چلا گیا بائی روڈ ۔اس نے اپنا سفرنامہ لکھا ہے مشرق اخبار میں، مجھے وہ سفر نامہ پڑھ کر بڑی خوشی ہوئی۔‘ قمر میر بولے۔ میں نے اور باسط نے چونک کر ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔
’آپ عبیداللہ کیہر کی بات تو نہیں کر رہے؟‘ باسط بولا۔
’جی جی بالکل۔ آپ جانتے ہیں انہیں۔‘ قمر میر نے ہماری طرف دیکھا۔
’جی ہاں‘ باسط نے قہقہہ لگایا۔ ’یہ آپ کے سامنے بیٹھے ہیں، عبیداللہ کیہر‘ اس نے میری طرف اشارہ کیا۔
’ارے!‘ قمر میر اچھل پڑے، پھر کھڑے ہوکر مجھ سے گلے ملے۔ ملازم کو آواز لگائی، چائے بسکٹ کا آرڈر دیا اور اگلی صبح زیارت جانے والی کوسٹر کے ڈرائیور کو بلالیا۔
’دیکھو خان، یہ عبیداللہ صاحب اور ان کے دوست ہمارے مہمان ہیں۔ صبح انہیں زیارت لے کر جانا ہے اور راستے میں چائے پانی کا خیال رکھنا ہے۔ ڈرائیور نے احترام آمیز نظروں سے ہم دونوں کی طرف دیکھا اور ہمارا خیال رکھنے کا وعدہ کرکے چلا گیا۔ میں نے زیارت کا کرایہ پوچھا تو میر صاحب نے قہقہہ لگایا۔ ’اب تو آپ ہمارے مہمان ہیں جی۔ کوئی کرایہ شرایہ نہیں۔‘
یعنی ہم بیٹھے بٹھائے وی آئی پی بن گئے۔ چائے پی کر میر صاحب سے اجازت لی اور باہر نکل آئے۔
اگلے دن ہم صبح وقت پر مُسلم ہوٹل پہنچ گئے۔ کوسٹر ساڑھے 10 بجے زیارت کی طرف روانہ ہوگئی۔ گاڑی میں پاکستانیوں کے ساتھ دو غیر ملکی سیاح بھی ہمارے ہم سفر تھے، وہ نوجوان انگریز جوڑا تھا۔ لڑکی نے خوبصورت پاکستانی لباس پہن کر خود کو انتہائی جاذب نظر بنایا ہوا تھا۔ یہ لوگ انگلینڈ سے یہاں تک بائی روڈ سفر کرکے پہنچے تھے۔ ڈرائیور نے سفر شروع کرنے سے پہلے ہی ہماری طرف اشارہ کرتے ہوئے اعلان کردیا کہ بس میں یہ دو صحافی بھی سفر کر رہے ہیں، پھر نہ صرف اس نے ہمارا خیال رکھا، بلکہ کئی ہم سفروں سے بھی اچھی دوستی ہوگئی۔
زیارت کوئٹہ سے سَوا 100 کلومیٹر دور ہے۔ کوئٹہ سے جانے والی گاڑیاں تقریباً 3 گھٹنے میں زیارت پہنچا دیتی ہیں۔ زیارت سے کوئٹہ تک بڑی اچھی سڑک ہے۔ پہلے ہم اس سڑک پر سفر کرتے رہے جو پاک افغان بارڈر چمن کی طرف جاتی ہے۔ کچلاک میں اس سڑک کو چھوڑ کر ہم دائیں ہاتھ کچلاک ژوب روڈ پر مُڑ گئے۔ کچھ دیر تک میدانی علاقوں سے گزرتے رہے پھر اونچے اونچے پہاڑ شروع ہوگئے۔ قصبہ بوستان کے قریب ہم نے ژوب روڈ کو بھی چھوڑا اور زیارت روڈ پر چڑھ گئے۔ یہاں سے زیارت کی طرف جاتے ہوئے سڑک کے برابر میں چھانگا مانگا کی ریلوے لائن جیسی چھوٹے گیج کی متروک ریلوے لائن بھی کچھ دیر ہمارے ساتھ ساتھ چلتی رہی۔ راستے میں ’کچھ‘ نامی قصبے میں ایک قدیم ریلوے اسٹیشن کی عمارت آج بھی موجود ہے۔
زیارت سے پہلے زندرہ، کاواس اور سنڈیمن کی سبز وادیاں آئیں اور پھر گاڑی پیچی ڈیم سے گزر کر زیارت کے قریب پہنچی تو سڑک پر بابِ خیبر جیسا ایک خوبصورت محرابی دروازہ ایستادہ نظر آیا۔ یہ بابِ زیارت تھا۔
’آگیا جی زیارت۔‘ ڈرائیور نے بلند آواز سے اعلان کیا اور مسافر سیٹوں پر سنبھل کر بیٹھ گئے۔
ان دنوں زیارت خود ضلع نہیں تھا، بلکہ ضلع سبی کی ایک تحصیل ہوا کرتا تھا۔ سبی اپنی شدید گرمی کی وجہ سے مشہور ہے، مگر اسی گرم ترین خطے میں حیرت انگیز طور پر یہ سرد، فرحت بخش اور جاں فزاء مقام زیارت بھی واقع ہے کہ جہاں جون کے مہینے میں بھی کوئی رات کو کمبل اوڑھے بغیر نہیں سو سکتا۔
لفظ ’زیارت‘ کا مطلب ہے کسی مقدس جگہ کو دیکھنا۔ برگزیدہ شخصیت کی قبر کو بھی زیارت کہتے ہیں۔ قصبہءِ زیارت سے 8 کلومیٹر کے فاصلے پر ایک بزرگ بابا خرواریؒ کا مزار ہے۔ اسی مزار کی نسبت سے اس پورے علاقے کو زیارت کہا جاتا ہے۔ زیارت گرمیوں میں فرحت بخش ٹھنڈک سے بھرپور اور سردیوں میں برف باری کے دلفریب مناظر سے سجا ہوتا ہے۔ زیارت کا حسن اس کی صنوبر کے درختوں سے ڈھکی پہاڑی ڈھلوانوں اور شور مچاتی آبشاورں میں ہے۔
صنوبر کے جنگل اس وادی کی شہرت کی سب سے بڑی وجہ ہیں اور زیارت کا ایک نام وادیٔ صنوبر بھی ہے۔ یہاں صنوبر کے ہزاروں سال پرانے درخت موجود ہیں۔ اس درخت کی خصوصیت یہ ہے کہ جب اس کے پتوں پر پانی ڈالا جائے تو ایک بھینی بھینی خوشبو پھیل جاتی ہے۔ چنانچہ جب زیارت میں بوندا باندی ہوتی ہے تو اس وقت پوری وادی خوشبو سے مہک رہی ہوتی ہے۔ حیرت انگیز طور پر یہ خوشبو ٹی بی کے مریضوں کے لیے خصوصی شفا کا ذریعہ ہے، چنانچہ وہ اکثر اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ یہاں ایک سینی ٹوریم بھی ہے جہاں ٹی بی کے مریض طویل قیام کرتے ہیں۔
بابائے قوم قائدِ اعظم محمد علی جناح بھی اکثر زیارت کے اس صحت افزاء مقام پر قیام کیا کرتے تھے، بلکہ زیارت کی ایک اہمیت اس کی خوبصورت تاریخی عمارت ’قائدِ اعظم ریزیڈنسی’ کی وجہ سے بھی ہے۔ لکڑی کی بنی ہوئی تکونی چھت اور طویل راہداریوں والی یہ منفرد وضع کی عمارت صنوبر اور چنار کے درختوں سے ڈھکی، رنگ برنگے پھولوں کی خوشبوؤں سے مہکتی اور ایک وسیع سبزہ زار میں گِھری ہوئی دعوتِ نظارہ دیتی ہے۔ یہ عمارت 1882ء میں تعمیر ہوئی تھی۔ اس وقت زیارت بلوچستان کا گرمائی صدر مقام ہوا کرتا تھا اور یہ عمارت بلوچستان کے گورنر ہاؤس کا کام دیتی تھی۔ پاکستان بننے کے بعد قائدِ اعظم کی آخری رہائش گاہ ہونے کی وجہ سے اس کی شہرت امر ہوگئی۔
بلوچستان میں پانی کی بے حد قلت ہے، چنانچہ یہاں آب پاشی کے لیے ایک عجیب طریقہ استعمال ہوتا ہے جسے ’کاریز‘ کہتے ہیں۔ کاریز دراصل پہاڑی چشموں اور برساتی ندی نالوں کا وہ پانی ہوتا ہے جو میلوں تک سرنگوں کے اندر یا اونچے پہاڑوں کے تنگ دروں میں سے گزار کر مختلف علاقوں میں پہنچایا جاتا ہے۔ جب یہ پوشیدہ پانی پہاڑی سرنگوں یا تنگ دروں سے نکل کر کہیں جھرنوں اور کہیں آبشاروں کی صورت گرتا ہے تو وہ منظر دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ زیارت میں بھی باغات کی آبپاشی کا ذریعہ کاریز ہی ہے۔ یہاں اکثر مقامات ایسے ہیں جہاں پانی پہاڑوں کے بیچ میں اس طرح بہتا ہے کہ اس کے دونوں طرف طویل سنگی دیواری سینکڑوں فٹ تک اٹھتی چلی گئی ہیں۔
ہماری بس گرینڈ ہوٹل کے سامنے رُکی جس میں کوئی کمرہ خالی نہ تھا۔ پھر کچھ دیگر ہوٹل بھی دیکھے مگر تمام کے تمام مسافروں سے بھرے تھے کیونکہ آج جمعرات کی وجہ سے رش بہت تھا۔ کل قمر میر صاحب کی جانب سے عزت افزائی اور آج بس ڈرائیور کے وی آئی پی پروٹوکول نے دماغ ویسے ہی آسمان پر چڑھا دیا تھا۔ میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، باسط کو لے کر سیدھا ڈپٹی کمشنر زیارت عمران فضل چیمہ کے آفس میں دندناتا ہوا داخل ہوگیا۔ چیمہ صاحب کو جب رابطہ کا اتھارٹی لیٹر دکھایا جس میں زیارت پر آرٹیکل لکھنے کے سلسلے میں مجھ سے تعاون کی اپیل کی گئی تھی، اور پھر کہیں رہائش دینے کے لیے گزارش کی تو انہیں رحم آہی گیا۔ ایک ملازم ہمارے ساتھ کردیا گیا جو ہمیں لے کر کمشنر آفس کے سامنے والے پہاڑ پر چڑھ گیا۔ بلندی پر سرکاری افسران کا عالیشان ریسٹ ہاؤس تھا۔ اس ریسٹ ہاؤس کا ایک کمرہ ہمارے حوالے کردیا گیا۔ وہاں کیا نہیں تھا، اٹیچ باتھ، کچن، لاؤنج، لان، یوں سمجھیے کہ عیاشی ہوگئی۔
ہم اپنا سامان وغیرہ رکھ کر باہر نکل آئے اور پہاڑ سے نیچے اتر کر مین روڈ پر ایک ہوٹل میں کھانا کھانے بیٹھ گئے۔ ہوٹل کے سامنے والے لان میں ہمارا ہمسفر انگریز جوڑا اپنا خیمہ ایستادہ کرنے کی کوشش میں مصروف تھا۔ شاید انہیں بھی کسی ہوٹل میں کمرہ نہیں مل سکا تھا۔ میں نے فاتحانہ نظروں سے باسط کی طرف دیکھا تو وہ ایک زہریلی ہنسی ہنس دیا۔ پاکستانی لباس میں پھنسی انگریز دوشیزہ کو خیمہ لگاتا دیکھنے کے لیے زیارت کے نوجوانوں کا ایک غول جمع ہوچکا تھا اور کھی کھی کھی ہنسے جارہا تھا۔ انگریز جوڑا زیارت کی ٹھنڈ میں بھی پسینے سے شرابور ہو رہا تھا۔
ہم کھانا کھا کر نکلے۔ میں نے انگریز جوڑے سے ہیلو ہائے کی تو وہ دونوں خیمہ ادھورا چھوڑ کر ہماری طرف لپک آئے۔
’آپ کو کس ہوٹل میں کمرہ ملا ہے؟‘ مائیکل نے بے تابی سے پوچھا۔
’ہم سرکاری ریسٹ ہاؤس میں ٹھہرے ہیں۔‘ میں نے فخریہ کہا اور اپنے دل کی کسی گوشے میں ایک کمینگی بھی محسوس کی۔
’تم ہمیں اپنا ریسٹ ہاؤس نہیں دکھاؤ گے؟‘ الزبتھ نے لجاجت سے کہا۔
’کیوں نہیں کیوں نہیں۔‘ میں جلدی سے بولا۔ مائیکل اور الزبتھ نے اپنے خیمے کی زپ بند کی اور ہمارے ساتھ ساتھ پہاڑ پر چڑھنے لگے۔ پتہ نہیں کیوں ہم راستہ بھول کر اپنے ریسٹ ہاؤس کے بجائے قائدِ اعظم ریزیڈنسی جا پہنچے۔ خیر موقع ملا تو پہلے ریزیڈنسی کی سیر کی اور پھر پوچھتے پاچھتے اپنے ریسٹ ہاؤس تک بھی پہنچ گئے۔ الزبتھ نے جب ہمارے کمرے میں ایک بڑا سا آرام دہ ڈبل بیڈ دیکھا تو چھلانگ لگا کر اس پر چڑھ گئی اور آلتی پالتی مار کر ایسے بیٹھ گئی جیسے یہ اسی کا کمرہ ہو اور ہم دونوں اس سے ملنے آئے ہیں۔
’لو بھئی!‘ باسط نے میری طرف دیکھا اور ہم ہنس دیے، ہم چپ رہے۔
وہ دونوں بڑی دیر تک ہمارے کمرے میں موجود رہے۔ مجھے کچھ شک ہونے لگا کہ وہ شاید اسی کمرے میں رات گزارنا چاہتے ہیں۔ لیکن بالآخر وہ اٹھ کر اپنے خیمے کی طرف لوٹ گئے۔ مجھے دکھ بھی ہوا، لیکن انہیں اپنے کمرے میں مہمان ٹھہرانا بھی مناسب نہیں لگتا تھا۔ شام کو ہم پھر ہوٹل تک گئے تو اس کے لان میں ان کا خیمہ خاموش کھڑا نظر آیا۔
زیارت کے بعد ہماری اگلی منزل لورالائی تھی۔ زیارت سے لورالائی براستہ سنجاوی 100 کلو میٹر دور ہے اور اس رُوٹ پر لوکل بسیں چلتی ہیں۔ دوپہر 11 بجے لورالائی جانے والی بس زیارت پہنچی مگر پوری بس مسافروں سے بھری ہوئی تھی، چنانچہ ہمیں اس کی چھت پر اگلے حصے میں بنے تاج کے اندر جگہ ملی۔ بس نے ابھی کچھ ہی فاصلہ کیا ہوگا کہ بوندا باندی ہونے لگی اور سفر سہانا ہوگیا۔ بارش تیز ہوگئی تو ہم نے اپنا واٹر پروف سلپنگ بیگ کھول کر اوڑھ لیا اور چھت پر بیٹھے بیٹھے بھیگے ہوئے موسم کا مزا لیتے سفر کرتے رہے۔
بالآخر تھک ہار کر بارش بھی بند ہوگئی اور پھر چمک دار دھوپ نکل آئی جس کی وجہ سے ہوا میں خوشگوار ٹھنڈک شامل ہوگئی۔ راستے کے اطراف میں سیب، انگور، آلوچہ اور خوبانی کے ایسے باغات تھے کہ جن میں درخت پھلوں سے بوجھل ہو رہے تھے۔ یہ درخت سڑک سے اتنے قریب تھے کہ ہم بس کی چھت پر بیٹھے بیٹھے ہاتھ بڑھا کر ان سے پھل توڑ سکتے تھے، لیکن چونکہ ہم کچھ مہذب سے ہیں، اس لیے ایسا کرنے سے گریز کیا۔ راستے میں کئی چھوٹے چھوٹے گاؤں آئے جن میں رنگ برنگے کپڑے پہنے چھوٹی چھوٹی بچیاں دوڑتی پھر رہی تھیں۔ دل کرتا تھا کہ سب چھوڑ چھاڑ کر یہیں اتر جائیں اور پھر کہیں نہ جائیں۔
شام چار بچے بس لورالائی پہنچ گئی۔
سفر کا دوسرا حصہ یہاں پڑھیے
عبیداللہ کیہر پیشے کے لحاظ سے میکینیکل انجینیئر، مگر ساتھ ہی سیاح، سفرنامہ نگار، پروفیشنل فوٹوگرافر اور ڈاکومنٹری فلم میکر ہیں۔ آپ کی اب تک 7 کتابیں بھی شائع ہوچکی ہیں۔ آبائی تعلق سندھ کے شہر جیکب آباد سے ہیں۔ عمر کا غالب حصہ کراچی میں گزارا اور اب اسلام آباد میں رہتے ہیں.
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تبصرے (14) بند ہیں