• KHI: Asr 4:12pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:04pm
  • ISB: Asr 3:26pm Maghrib 5:04pm
  • KHI: Asr 4:12pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:04pm
  • ISB: Asr 3:26pm Maghrib 5:04pm

ڈرامہ 'باغی' کا اختتام تنازعے کے ساتھ

شائع February 1, 2018
باغی کی یکم فروری کو آخری قسط نشر ہوگی—اسکرین شاٹ
باغی کی یکم فروری کو آخری قسط نشر ہوگی—اسکرین شاٹ

2 سال قبل غیرت کے نام پر قتل کی گئیں ماڈل قندیل بلوچ کی زندگی پر بننے والے ڈرامے ’باغی‘ سے متعلق نیا موڑ سامنے آیا ہے، اور انکشاف ہوا ہے کہ ڈرامہ ہلاک کی گئی ماڈل کے اہل خانہ کی اجازت کے بغیر بنایا گیا۔

اگرچہ ڈرامے نے اب تک کامیابی سمیٹٰی اور اسے اندرون ملک سمیت بیرون ملک بھی پذیرائی ملی اور یکم فروری کو اس کا اختتام ہوا۔

تاہم ڈرامے کے اختتامی لمحات سے قبل قندیل بلوچ کے اہل خانہ نے انکشاف کیا ہے کہ ان سے کسی نے بھی ڈرامے بنانے کی اجازت نہیں لی، اور انہیں ڈرامے بننے کا پتہ بھی کسی اور سے کچھ ہفتے قبل معلوم ہوا۔

واضح رہے کہ ’باغی‘ کو نجی ٹی وی چینل ’اردو ون‘ پر نشر کیا جاتا ہے، ڈرامے میں معروف اداکارہ صبا قمر نے قندیل بلوچ کا کردار ادا کیا ہے۔

ڈرامہ گزشتہ برس کے آخری ایام میں شروع ہوا، جب کہ یکم فروری کو آخری قسط نشر ہوئی۔

اسکرین شاٹ
اسکرین شاٹ

’باغی‘ سے متعلق سب سے پہلے سماجی کارکن نگہت داد نے اپنی فیس بک پوسٹ میں اس بات کا انکشاف کیا کہ ڈرامے کو قندیل بلوچ کے خاندان کی اجازت کے بغیر بنایا گیا، جب کہ ڈرامے میں کہانی کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا۔

نگہت داد کا اپنی پوسٹ میں کہنا تھا کہ ڈرامے کی ٹیم نے ’باغی‘ میں قندیل بلوچ کے خاندان کا ایک طرح سے استحصال کیا، انہوں نے دعویٰ کیا ’اردو ون‘ اور ڈرامے کی ٹیم نے منافع کمانے کے باوجود ماڈل کے خاندان کو رقم کی ادائگی نہیں کی۔

ساتھ ہی انہوں نے قندیل بلوچ کے اہل خانہ کی مدد کرنے اور ان کا یہ مقدمہ عدالت میں لے جانے سے متعلق ان کے تعاون کا بھی اعلان کیا۔

ڈان ڈاٹ کام نے جب اس حوالے سے قندیل بلوچ کے والد سے فون پر رابطہ کیا اور معاملہ جاننے کی کوشش کی تو انہوں نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ ان سے بیٹی کی زندگی پر ڈرامے بنائے جانے کی اجازت نہیں لی گئی۔

صبا قمر اور خالد عثمان ڈار نے ڈرامے میں مرکزی کردار ادا کیے
صبا قمر اور خالد عثمان ڈار نے ڈرامے میں مرکزی کردار ادا کیے

مقتول قندیل بلوچ کے والد عظیم بابا نے بتایا کہ کچھ وقت قبل کچھ لوگ ان کے پاس آئے تھے اور ان سے ان کی بیٹی پرایک کتاب لکھنے کی اجازت لی تھی، تاہم انہیں کسی نے بھی ڈرامے کے حوالے سے آگاہ نہیں کیا گیا تھا۔

انہوں نے تسلیم کیا کہ کتاب کی اجازت لینے والوں نے انہیں کچھ رقم دی، ان کے مطابق انہیں کتاب کے حقوق دیے جانے کے 50 ہزار روپے دیے گئے۔

انہوں نے اس پر بات پر متعدد مرتبہ زور دیا کہ جو لوگ ان کے پاس کتاب لکھنے کی اجازت لینے آئے تھے، وہ انہیں نہیں جانتے، اور نہ ہی ان سے پہلے کبھی ان کی ملاقات ہوئی تھی۔

ایک سوال کے جواب میں عظیم بابا کا کہنا تھا کہ ان سے مذکورہ افراد نے ایک ’کاغذ‘ پر دستخط کرائے تھے، تاہم وہ ان لوگوں کی شناخت کرنے سے قاصر ہیں۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ انہوں نے مذکورہ افراد سے مزیررقم کا مطالبہ کیا تھا، تاہم ان افراد نے مزید رقم سے متعلق کوئی جواب نہیں دیا۔

ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ بلوچ ہیں اور وہ ایسے ڈرامے کی ہرگز اجازت نہیں دے سکتے، جس میں بے حیائی اور اس قسم کی دیگر چیزیں دیکھائی گئی ہوں۔

قندیل کے والد نے اس بات کی بھی تصدیق کی ان کی بیٹی کے قتل سے متعلق کیس کی پیروی کرنے والے وکیل اس موقع پر موجود تھے، تاہم انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے وکیل کو بھی ڈرامے سے متعلق معلومات نہیں تھیں۔

جب ان سے سوال کیا گیا کہ اب تو ڈرامہ مکمل چلایا جاچکا ہے اور حال ہی میں اس کی آخری قسط بھی نشر کردی جائے گی تو وہ اب کیا مطالبہ کرتے ہیں، جس پر قندیل بلوچ کے والد کا کہنا تھا کہ ’ان کا کوئی مطالبہ نہیں ہیں، تاہم وہ غریب لوگ ہیں، اگران کی مالی مدد کی جائے تو وہ ان لوگوں کے شکر گزار ہوں گے۔

ڈان ڈاٹ کام کی کی جانب سے جب قندیل بلوچ قتل کیس کی پیروی کرنے والے وکیل صفدر شاہ سے رابطہ کیا تو انہوں نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ وہ قندیل کے والدین اور کچھ افراد کے درمیان ہونے والے ایک معاہدے کا حصہ تھے۔

تاہم انہوں نے بتایا کہ جب وہ لوگ ان کے پاس آئے تو اس وقت رات کا وقت تھا اور اندھیرے اور پریشانی کے باعث مذکورہ معاہدے کو نہیں دیکھ سکے اور اس پر دستخط کردیے۔

لیکن یہاں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ ایک وکیل کی جانب سے ایسی غلطی کرنے کا مطلب کیا ہے؟

صفدر شاہ نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے زور دیا کہ معاہدے کے لیے آنے والے افراد نے ان سے واضح الفاظ میں کہا تھا کہ وہ قندیل پر ڈاکومنٹری بنائیں گے یا پھر کتاب لکھیں گے، تاہم ان افراد نے ڈرامہ بنانے کی بات نہیں کی۔

انہوں نے بتایا کہ ان سے گزشتہ سال حق مہر نامی شخص نے رابطہ کیا، جو خود کو ڈی آئی خان کا رہائشی بتارہا تھا، جس نے بعد ازاں یوسف نامی ایک اور شخص سے ملاقات کروائی، جو کتاب لکھنے کی اجازت طلب کرتے وقت ہونے والے معاہدے کے وقت موجود تھا اور بعد میں بھی رابطے میں رہا۔

جب وکیل صفدر شاہ سے سوال کیا گیا کہ قندیل بلوچ کے والد کی جانب سے دستخط سے قبل انہوں نے معاہدے کو خود پڑھا تھا توانہوں نے اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ ان کی غلطی ہے کہ انہوں نے معاہدہ نہیں پڑھا اوراس پر دستخط کردیے۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ معاہدے پر دستخط سے قبل انہیں ڈرامے کے حوالے سے نہیں بتایا گیا، تاہم بعد ازاں انہیں اپنے ایک دوست نے بتایا کہ قندیل بلوچ پر ایک ڈرامہ بنایا گیا، جس کی ایک قسط چلائی جاچکی ہے۔

ان کے مطابق پتہ چلنے کے بعد انہوں نے یوسف سے فون پر رابطہ کیا اور ان سے اس معاملے پر استفسار کیا، جس پر یوسف نے انہیں جواب دیا کہ آپ نے جو معاہدہ کیا اس میں ڈرامے کے حوالے سے تمام چیزیں موجود تھیں، آپ کو معاہدہ پڑھنا چاہیے تھا، اب وہ کچھ نہیں کرسکتے۔

خیال رہے کہ اس ڈرامے کو تحریر شازیہ خان جبکہ ہدایات فاروق رند نے دیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

Nadeem Ahmad Feb 01, 2018 09:33pm
اصل بات پیسے کی ہے۔ ورنہ گھر والے بھی سب نہیں تو کچھ پوری طرح شامل تھے اس قتل کے پیچھے۔ قندیل ایک پبلک پرسنیلٹی تھیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024