کابل حملے: افغان دفاعی وفد کی پاکستان سے ‘تعاون’ کی درخواست
اسلام آباد: افغانستان کے وزیر داخلہ اور خفیہ ادارے کے سربراہ غیر اعلانیہ دورے پر پاکستان پہنچے اور دوطرفہ سلامتی امور پر باہمی تعاون سے متعلق تبادلہ خیال کیا۔
مذکورہ ملاقات ایسے وقت میں ہوئی جب کابل میں سیکیورٹی فورسز پر گزشتہ 10 روز میں 3 بڑے حملے ہوئے اور مجموعی طور پر ڈیڑھ سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے، دوسری جانب امریکا کا موقف تھا کہ افغان حکومت اپنے علاقوں پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔
یاد رہے کہ افغانستان میں 2001 سے امریکا کی مداخلت کے بعد 2017 میں سب سے زیادہ قتل و غارت ریکارڈ کی گئی اور یہ سلسلہ 2018 میں بھی جاری ہے۔
یہ پڑھیں: افغانستان: ایک ہزار امریکی اہلکاروں کے خصوصی دستے کی تعیناتی پر غور
پاکستان اور افغان حکام کی حالیہ ملاقات کو دونوں ممالک کے لیے انتہائی اہم تصور کیا جارہا ہے۔
اس ضمن میں پاکستان کی سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ 3 فروری کو وفد کے ہمراہ افغانستان کا دورہ کریں گی۔
افغانستان کے انٹیلی ایجنسی ادارے نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سکیورٹی (این ڈی ایس) کے سربراہ معصوم ستانکزئی اور افغان وزیرِ داخلہ ویس برمک نے پاکستان کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سمیت سیاسی و عسکری قیادت سے ملاقات کی۔
پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان محمد فیصل نے دورے کی تصدیق کرتے ہوئے ٹوئٹ کیا کہ ‘افغان حکومت نے درخواست کی تھی کہ این ڈی ایس کے سربراہ اور افغانستان کے وزیرِ داخلہ پر مشتمل ایک اعلیٰ سطحی وفد صدر اشرف غنی کے پیغام کے ساتھ پاکستان کا دورہ کرنا چاہتا ہے تاکہ دوطرفہ تعاون پر بات چیت کی جا سکے’۔
یہ بھی پڑھیں: کابل کے ریڈ زون میں ایمبولینس دھماکا،95 افراد جاں بحق
واضح رہے کہ افغٖانستان میں حکومت اور طالبان کے مابین جاری پر تشدد لڑائی کی وجہ سے ملک میں ‘انتہائی خطرناک’ صورتحال جاری ہے، گزشتہ 10 روز میں کابل پر ہونے والے 3 حملوں سے خراب سیکیورٹی اور حکام کے بارے میں قیاس آرائیاں زور پکڑ گئی ہیں۔
اسی حوالے سے افغانستان نے پاکستان پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ سرحدی علاقوں میں دہشت گردوں کے ٹھکانے پر کارروائیاں کرنے سے گریزاں ہے جس پر پاکستان کی جانب سے بھرپور انداز میں تردید کی گئی۔
دوطرفہ عدم اعتماد کے باعث پڑوسی ممالک تعلقات میں بہتری نہیں لاسکے۔
مزید پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ کا تمام ’اقوام‘ سے طالبان کے خلاف جنگ کا مطالبہ
افغانستان سے پاکستان آنے والے اعلیٰ سطح کے وفد کی پاکستان آمد سے قبل امریکی ڈپٹی سیکریٹری آف اسٹیٹ جون ایلن نے افغانستان میں اپنے دورے کے دوران کابل حکام کو اسلام آباد سے تعلقات استوار کرنے کا اشارہ دیا تھا۔
جون ایلن نے کابل میں افغان صدر اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ سے ملاقات کے بعد وائس آف امریکا کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ‘ہم پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے خواہاں ہیں، ہم افغان حکام کو پاکستان کے ساتھ دوطرفہ تعلقات قائم کرنے پر حوصلہ افزائی کریں گے اور پاکستان کو بھی مسئلے کے حل میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے’۔
دوسری جانب افغان سفیر ڈاکٹر عمر زاخیلوال نے مذکورہ دورے کو وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی جانب سے کابل حملے کے بعد پیغام کا رد عمل قرار دیا ہے۔
ڈاکٹر عمر زاخیلوال نے کہا کہ ‘کابل میں حالیہ دہشت گردی کی لہر کے بعد پاکستان کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے افغان صدر کو پیغام ارسال کیا تھا، جس کے جواب میں اعلیٰ سطح کا وفد افغان صدر کا پیغام لے کر پہنچا ہے’۔
دفتر خارجہ کے ترجمان نے بتایا کہ ‘افغان وفد صدر اشرف غنی کا ‘ذاتی پیغام’ لے کر پہنچا ہے تاہم ملاقات کا ایجنڈا ‘دوطرفہ تعلقات میں بہتری’ پر مرکوز تھا۔
واضح رہے کہ ملاقات کا طویل دورانیہ وزیراعظم ہاؤس میں رہا جبکہ دونوں جانب سے کوئی اعلامیہ جاری نہیں کیا گیا۔
ڈاکٹر فیصل نے بتایا کہ سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ کا دورہ افغانستان سیکیورٹی وفد کے تناظر میں نہ سمجھا جائے کیوں کہ یہ دورہ بہت پہلے طے تھا۔
اس سے قبل دفتر خارجہ نے انکشاف کیا تھا کہ پاکستان نے حقانی نیٹ ورک اور طالبان کے 27 مطلوب افراد کو گزشتہ برس نومبر میں افغانستان کے حوالے کیا تھا۔
جس کے بعد ڈاکٹر عمر زاخیلوال نے ٹوئٹ پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ‘یہ یقیناً میرے لیے خبر ہے اگر ایسا ہوا ہے تو یہ دونوں ممالک کے لیے بہترین تعلقات میں مفید ثابت ہوگا’۔
یہ خبر 01 فروری 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی