'کُڑی باغ': فرانسیسی لڑکی کے مقبرے کی لاہور میں تلاش
تپتی دوپہر کی گرمی سے برا حال ہو رہا تھا۔ میں مسلم مسجد کی طرف انار کلی بازار میں ایک لڑکی کی قبرتلاش کر رہا تھا۔ میری کوشش تھی کہ یہاں کے پرانے رہائشی مل جائیں تو ان کی فراہم کردہ معلومات کی بنیاد پر مطلوبہ جگہ تک پہنچ جاؤں۔
میرے پاس اس کے علاوہ کوئی اشارہ نہیں تھا کہ قبر ایک فرانسیسی لڑکی کی ہے، مگر تمام تر کوشش کے باوجود کوئی ایک اشارہ بھی نہ مل سکا۔ گرمی مجھے بے حال کر رہی تھی اور امید کے تمام دیے بھی ایک ایک کر بجھ چکے تھے۔ میں اپنی اس تلاش کے بارے میں مایوس ہو چکا تھا۔ میں محکمہ اوقاف کے ذریعے آسانی سے اس جگہ تک پہنچ سکتا تھا مگر میں اس جگہ کو اپنی کوشش اور لوگوں سے پوچھ کر خود تلاش کرنا چاہتا تھا۔
دراصل میں 'کُڑی باغ' کی تلاش میں تھا جہاں اس فرانسیسی لڑکی کی قبر تھی۔ یہ لڑکی ایک فرانسیسی جنرل الارڈ کی بیٹی تھی اور اس کا نام 'میری شارلوٹ' تھا۔
جنرل الارڈ نیپولین بونا پارٹ کی فوج کا قابل جنرل تھا۔ نیپولین کو واٹر لو کے مقام پر شکست کے بعد گرفتار کر لیا گیا تو جنرل الارڈ میدان جنگ سے فرار ہوا اور در در کی ٹھوکریں کھانے کے بعد اپنے ساتھی اطالوی جنرل وینچورا کے ہمرا ایران پہنچا۔ یہاں اس نے ولی عہد عباس مرزا کے پاس ملازمت اختیار کر لی اور کچھ عرصہ بعد ایران سے افغانستان، اور وہاں سے پنجاب میں داخل ہوا۔ یہاں پر اس کی رسائی مشہور سکھ حکمران مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دربار میں ہوگئی۔
رنجیت سنگھ نے جنرل الارڈ اور جنرل وینچورا کی قابلیت کو دیکھتے ہوئے فوج کی تربیت کی ذمہ داری سونپ دی لیکن مہاراجہ رنجیت سنگھ ان یورپی جنرلوں کودربار سے دور رکھنا چاہتا تھا، اس لیے جنرل الارڈ دربار سے دور مقبرہ انارکلی میں رہائشی فراہم کی گئی۔ جنرل الارڈ نے مقبرہ انارکلی کے سامنے ایک اور عمارت تعمیر کروائی جہاں آج کل چیف سیکرٹری پنجاب براجمان ہیں۔ اس جگہ پر جنرل وینچورا نے رہائش اختیار کر لی۔
پڑھیے: نازک مزاج امن اور لاہور کا والمکی مندر
جنرل الارڈ نے رنجیت سنگھ کی فوج کی جدید خطوط پر تربیت کرتے ہوئے اس کی تنظیم نو کی۔ سکھ فوج نے تربیت حاصل کرنے کے بعد مختلف مواقع پر شاندار کارکردگی کا مظاہرہ بھی کیا۔
کچھ عرصے بعد جنرل الارڈ نے اپنی لاڈلی بیٹی میری شارلوٹ کو بھی ہندوستان بلا لیا۔ میری شارلوٹ حسن و جمال کی تمام خوبیوں سے مالامال تھی۔ اسے فرانس میں ایک نوجوان سے محبت ہو گئی تھی چنانچہ ہندوستان جانے کی باتوں نے اُسے پریشان کر دیا۔ سفر پر روانہ ہونے سے پہلے فرانس میں ہی شارلوٹ کی ملاقات ایک راہبہ سے ہوئی۔ راہبہ نے شارلوٹ کو مخاطب کر کے کہا تمہیں محبت نہیں ملے گی اور ہندوستان میں موت تمہارا انتظار کر رہی ہے۔
میری شارلوٹ نے راہبہ کی باتوں کو سنجیدگی سے نہیں لیا البتہ ہندوستان آمد کے بعد وہ پریشان رہتی تھی۔ پھر وہی ہوا جس کی نشاندہی فرانسیسی راہبہ نے کی تھی میری شارلوٹ پانچ اپریل 1827 کی ایک شام اچانک وفات پا گئی. میری شارلوٹ کی اچانک موت نے جنرل الارڈ کو شدید پریشان کر دیا۔ اس نے مقبرہ انارکلی چھوڑ دیا اور جنرل وینچورا کے ساتھ آ کر رہنے لگا۔
مہاراجہ رنجیت سنگھ نے میری شارلوٹ کو سرکاری اعزاز کے ساتھ دفن کیا اور مغل مقبروں کی طرح شارلوٹ کی قبر کی جگہ پر ایک باغ بنا دیا۔ یہ بات قابل تحقیق ہے کہ آیا 'کڑی باغ نام سرکاری طور پر رکھا گیا تھا یا عوام نے اس لڑکی کی قبر کی وجہ سے اس باغ کو 'کڑی باغ' نام دے دیا۔
اس مقبرے کو مشرقی اور فرانسیسی طرز پر تعمیر کیا گیا تھا۔ جنرل الارڈ بھی 1839 میں پشاور میں انتقال کر گئے۔ جنرل الارڈ کی میت کو وصیت کے مطابق لاہور لا کر بیٹی کے پہلو میں دفن کیا گیا۔ اس باغ اور مقبرے کے لیے 48 کنال اراضی مختص کی گئی تھی.
بعض مؤرخین کے مطابق جنرل الارڈ کے قریبی ساتھ جنرل ونتورا کو بھی یہی دفن کیا گیا تھا بے انتظامی اور وقت کی دھول کڑی باغ کو کھا گئی۔ میں نے تلاش کا ارادہ ترک کر دیا اور واپسی کا سوچنے لگا اس پہلے میں نیلا گنبد بازار میں واقع حاجی عبد الرازق کے مزار پر فاتحہ خوانی کے لیے چلا گیا. آج بھی مجھے ایسے لگتا ہے کہ جیسے اس جگہ میں نے پہنچنا تھا۔
مزید پڑھیے: آدھی رات کا لاہور
فاتحہ خوانی کے دوران ایک لڑکا نے مجھ سے پوچھا کہ یہ مزار کس بزرگ کا ہے. میں نے اُسے کچھ تاریخی حوالوں کے ساتھ بتا دیا. باتوں کے دوران ہی مزار کے احاطے میں سوئے ہوئے ایک بزرگ اُٹھ کر بیٹھ گئے. کہنے لگے بیٹا میرے پاس آؤ کہنے لگا آپ نے ساری معلومات درست فراہم کیں ہیں.
بزرگ نے تقسیم ہندوستان پر بات کی اس دور میں انار کلی کیا تھا، شاہ عالم مارکیٹ کو آگ لگنے کے مناظر ان کی آنکھوں کے سامنے آگئے انہوں نے مسلمانوں کی تقسیم کے وقت کی حالت زار کا ذکر کیا بتایا کہ انارکلی میں ہندو اور سکھوں کی دکانیں تھیں مسلمان صرف دودھ دہی کی دکانیں چلا رہے تھے اور کشمیری مزدوری کرتے تھے۔
ان کی باتین سن کر مجھے اندازہ ہو رہا تھا کہ بزرگ کو اس علاقے سے خاصی واقفیت تھی. میں نے انہیں اپنی تلاش کے بارے میں بتایا کچھ سوچ کر بولے 'کڑی باغ' کا تو پتا نہیں البتہ جین مندر کی طرف ایک منشی رام بلڈنگ موجود ہے وہاں جاؤ، شاید آپ کو کچھ مل جائے۔
میں ان کو سلام کر کے پرانی انار کلی روڈ پر آگیا۔ مہربان بزرگ نے کہا تھا کہ کہ کڑی باغ کا نہیں بلکہ منشی رام بلڈنگ کا پوچھنا، تھوڑی دریافت کے بعد منشی رام بلڈنگ مل گئی. اس کے ساتھ ہی ایک گلی تھی جو آگے جا کر بند ہو رہی تھی.
اسی گلی کے اختتام پر دائیں ہاتھ پر ایک جنگلا لگا ہوا تھا اور اس جنگلے کے پیچھے جھاڑ جھنکار تھی اور کچھ بھی نظر نہیں آ رہا تھا. مجھے اب یقین ہو گیا تھا کہ میر ی شارلوٹ کا مدفن اسی جگہ پر ہے جو آج سے 190 سال پہلے کڑی باغ کی صورت میں موجود تھی آج یہاں گنجان آبادیاں قائم ہو چکی تھیں.
یہ کہنا مشکل ہے کہ کڑی باغ کہاں سے کہاں تک واقع تھا لیکن جین مندر سے پہلے کی ساری آبادی اس کڑی باغ میں قائم ہوئی اور باغ سمٹ کر صرف میری شارلوٹ کی قبر تک محدود ہو گیا۔
دوسرا، اگر انارکلی بازار کی تاریخ کو دیکھیں تو وہ وہ بھی کم و بیش 170 سال پر مشتمل ہے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہو سکتا ہے انارکلی بازار اسی کڑی باغ کے گرد و نواح میں قائم ہوا ہو. ایک بات تو طے ہے کہ کڑی باغ سکھوں دور حکومت میں یہ بنایا گیا تھا اور سکھ دور حکومت کے اختتام اور انارکلی بازار اور اس ملحقہ آبادیاں جلد ہی اس باغ کو کھا گئیں جہاں کبھی لہلہاتے پودوں اور پھولوں کے درمیان میری شارلوٹ اپنی آخری آرام گاہ میں سو رہی تھی۔
تبصرے (8) بند ہیں