پدماوت: برصغیر کی مسخ شدہ تاریخ پر مبنی مگر شاندار فلم
بولی وڈ کی متنازعہ ترین فلم ’پدماوت‘ کے فلم ساز سنجے لیلا بھنسالی دو مرتبہ مبارک باد کے حقدار ہیں۔ پہلی مبارک باد ایک شاندار فلم بنانے کی ہے، جس میں اسکرپٹ کو نظر انداز کردیا جائے تو فلم سازی، ہدایت کاری، موسیقی اور تمام پوسٹ پروڈکشن کے شعبوں میں اپنے تخلیقی فن کا لوہا منوا لیا ہے۔ دوسری مبارک باد، برِصغیر کی تاریخ مسخ کرنے کی ہے، کیونکہ جس طرح ایک فکشن فلم میں حقیقی حکمران کی تذلیل کی ہے، وہ اپنی مثال آپ ہے۔
سنجے لیلا بھنسالی نے اس بار کمال ہنرمندی سے مسخ شُدہ تاریخ کو فلم کے پردے پر دکھا دیا، صرف یہی نہیں بلکہ فلم میں برِصغیر کے مقبول اور تاریخی حکمران، اس خطے میں ہندو مسلم مثبت تعلقات کی بنیاد رکھنے اور معاشی اصطلاحات کرنے والے سلطان علاؤالدین خلجی کو ولن بنا کر پیش کردیا جبکہ فلم کی ابتداء میں ہی یہ Disclaimer چلادیا گیا کہ ’اِس فلم میں کسی کردار کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے،‘ تاکہ فلم دیکھنے والوں کو بہلایا جاسکے۔
فلم کے افسانوی اور غیر حقیقی کردار ’پدماوتی‘ کی خاطر، ہندوستان میں راجپوت برادری سراپا احتجاج ہے۔ کیا مسلمانوں کا احتجاج نہیں بنتا تھا، سب سے زیادہ حیرت انگیز بات فلم کو پاکستان میں نمائش کے لیے پیش کردیا گیا۔
اس سے بھی زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں کچھ عرصہ قبل ہی ’ورنہ‘ اور ’مالک‘ جیسی عام سی فلموں پر پابندی لگانے والے پاکستان کے سینٹرل بورڈ آف فلم سنسر (CBFC) کو فلم ’پدماوتی‘ کے مرکزی خیال میں کوئی اعتراض نہیں ہوا؟ لیکن اعتراض تو دور کی بات کیونکہ CBFC کے موجودہ چیئرمین مبشر حسن نے ٹوئٹر پر خود عوام کو مطلع کیا تھا کہ اس فلم کو پاس کردیا گیا ہے۔
Central Board of Film Censors #CBFC has declared a feature film containing Indian cast & crew #Padmaavat without any excision suitable for public exhibition in the cinemas with a ‘U’ certification. #CBFC #Unbiasedforartscreativity&healthy entertainment
— Mobashir Hasan (@BABUCRATE) January 24, 2018
فلم سازی
ہندوستانی سینما کے زیرک فلم ساز سنجے لیلا بھنسالی کی یہ فلم آخرکار بہت سارے تنازعات کے بعد بھارت، پاکستان، یورپی ممالک سمیت دنیا بھر کے سینما گھروں میں نمائش کے لیے پیش کردی گئی۔ ’ویا کوم 18 موشن پکچرز‘ کے اشتراک سے بنی ہوئی اس فلم کے بین الاقوامی تقسیم کار میں ’پیراماؤنٹ فلمز‘ جیسا ادارہ بھی ہے۔
190 کروڑ بھارتی روپے کے بجٹ میں بولی وڈ کی پانچ مہنگی ترین فلموں میں سے ایک یہ فلم بھی ہے، جس کو ’ٹو ڈی‘، ’تھری ڈی‘ اور ’آئی میکس تھری ڈی‘ جیسی جدید ٹیکنالوجی میں بھی پیش کیا گیا۔ اس ایڈوانس ٹیکنالوجی میں ریلیز ہونے والی بولی وڈ کی یہ پہلی فلم بھی بن گئی ہے۔
فلم سازی میں سینمیٹوگرافی، ایڈیٹنگ، کاسٹیومز، لائٹنگ، وژؤل اَفیکٹس، لوکیشنز سمیت تمام پہلوؤں سے بہت بہتر اور جدید انداز میں کام کیا گیا، یہی وجہ ہے کہ پونے 3 گھنٹے کی فلم میں کہیں ایک بھی لمحے کے لیے فلم کے طویل ہونے کا احساس نہیں ہوتا۔ فلم کی مرکزی عکسبندی راجستھان کے شہر جے پور کے ’جے گڑھ قلعے‘ کے مقام پر کرنے کے فیصلے پر بھی فلم ساز کو داد دینی پڑے گی۔
ہدایت کاری
سنجے لیلا بھنسالی بولی وڈ میں ایسے تخلیق کار ہیں جنہوں نے موجودہ ہندوستانی سینما کو یہ بات سکھائی ہے کہ کس طرح کم وقت میں سنجیدہ موضوعات پر تجارتی لحاظ سے فلمیں بنانی چاہئیں۔ انہوں نے اپنی دیگر فلموں کی طرح اس فلم میں بھی ہدایت کاری کے جوہر دکھائے ہیں۔ بڑے اور وسیع کینوس پر کرداروں کی حرکات و سکنات، بڑے اور طویل فریم، تاریخی مقامات کے جادوئی حُسن میں رنگے ہوئے مناظر، نیم تاریکی اور دیگر وہ سب پہلو جن سے بھنسالی اپنی کسی بھی فلم پر اپنے مزاج کے دستخط کرتے ہیں، اس فلم پر بھی وہ مہر ثبت ہوتی محسوس ہوئی۔
موسیقی
فلم میں کل 6 گیت ہیں، جن میں ’گُھومر‘، ’ایک دل ایک جان‘، ’کھلبلی‘، ’نینوں والے نے‘، ’ہولی‘، ’بنت دل‘ شامل ہیں۔ فلم کے پس منظر میں موسیقی ’سنچیتا بالہارا‘ نے دی ہے، جبکہ مرکزی گیت سمیت تمام گانوں کی موسیقی سنجے لیلا بھنسالی نے مرتب کی ہے۔ اِن گیتوں کو اے ایم تراز، سؤروپ خان، سدھارتھ گریمیا نے لکھا ہے، جبکہ شیریا گھوشال، سؤروپ خان، شیوام پھاٹک، شائل ہادا، نیتی موہن، ریچا شرما اور ارجیت سنگھ نے اپنی آواز دی ہے۔ ان میں سب سے مقبول گیت ’گُھومر‘ ہے، اس کے علاوہ ’ہولی‘ کا گیت پرانا ہندوستانی لوک گیت ہے، دیگر چار نئے گیتوں کو بہت زیادہ پسند نہیں کیا گیا، لیکن پھر بھی تخلیقی اعتبار سے کافی متوازن اور قابلِ سماعت گیت ہیں۔
فلم کی موسیقی مزید شاندار ہوسکتی تھی کیونکہ اس فلم میں جو دور دکھایا گیا اس وقت برِصغیر کے معروف موسیقار امیر خسرو بھی موجود تھے اور علاؤالدین خلجی کے ہمراہ ہوتے تھے، مگر افسوس فلم ساز کی ساری توجہ تاریخ مسخ کرنے پر ہی مرکوز رہی۔ سوائے ایک بار سرسری تذکرہ کرنے کے، فلم میں ان کو یاد نہیں کیا گیا، ان سے زیادہ اہم ایک خواجہ سرا غلام جنرل ملک کافور کو سمجھا گیا، اس پر ایک پورا گانا ‘بنت دل‘ بھی فلما دیا گیا۔
اداکاری
فلم کے 3 مرکزی کردار ہیں، علاؤالدین خلجی (رنویر سنگھ) راجا رتن سنگھ (شاہد کپور) پدماوتی (دیپکا پڈوکون)۔ فلم کی پوری تشہیر ’پدماوتی‘ کے کردار پر منحصر رہی، سب سے زیادہ معاوضہ بھی دیپکا پڈوکون نے وصول کیا لیکن پوری فلم پر علاؤالدین خلجی کے کردار کی چھاپ دکھائی دی۔ فلم کے متاثرکن مناظر کے واسطے علاؤالدین خلجی کے کردار کا کندھا ہی استعمال ہوا، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بھنسالی کے لیے یہ کردار کتنا ضروری تھا۔
رنویر سنگھ نے ایک اداکار کے طور پر کامیابی سے اپنا کردار نبھایا، بلکہ وہ اپنے کردار میں ایسے مگن ہوئے کہ فلم کے پردے پر اپنی اداکاری میں وہ باقی سارے کرداروں کو بھی کھا گئے۔ اس فلم کا نام ’پدماوت‘ نہیں ’خلجی‘ ہونا چاہیے تھا، بلکہ ہمیں ایک قدم آگے جاکر یہ بھی کہہ دینا چاہیے کہ رنویر سنگھ نے کیریئر کی بہترین اداکاری سے خود کو ایک بہترین اداکار بھی ثابت کردیا ہے۔ اس فلم کے لیے وہ کئی مہینوں تک ہفتے کے 6 دن اس کردار پر محنت کرتے رہے، اور حقیقت یہ ہے کہ اُن کی یہ ریاضت بہت کام آئی اور فلم سے اگر اس کردار کو نکال دیا جائے تو فلم میں باقی کچھ نہیں بچتا۔
شاہد کپور اور دیپکا پڈوکون سمیت دیگر معاون اداکاروں نے اپنی اپنی جگہ متوازن اداکاری کی، بالخصوص اس فلم میں ادیتی راؤ حیدری کا حُسن اور اداکاری دونوں خوب چمکے، مگر فلم کی تشہیر میں اسے کہیں جگہ نہیں ملی، مگر پھر بھی شاندار اداکاری کی وجہ سے وہ کہانی میں اور اسکرین پر جگہ بنانے اور متاثر کرنے میں کامیاب رہیں۔
کہانی
اس فلم کی کہانی کیا ہے اور کہاں سے متنازعہ ہوئی، ان تمام تاریخی حوالوں کے لیے میری گزشتہ تحریر پڑھی جاسکتی ہے، اس کے بعد کسی بحث کی گنجائش باقی نہیں بچتی کہ اس فلم میں کہانی اور اس کے تنازعات کیا ہیں۔
اگر ایک پل کے لیے یہ فراموش کردیا جائے کہ اِس فلم کا تعلق کسی حقیقی حکمران کی زندگی سے ہے، اور صرف کہانی اور کرداروں پر توجہ دی جائے تو ہدایت کار نے بہت مہارت کے ساتھ اِس فلم کی طوالت پر قابو پائے رکھا، جس کی وجہ شاندار وژؤل ٹیکنالوجی، پس منظر میں اچھی موسیقی اور شاندار مقامات کا انتخاب ہے، جس کا تذکرہ میں اوپر کرچکا ہوں۔
فلم میں کہیں کہیں مکالمے بہت عمدہ ہیں، جس طرح کہانی میں مہارانی اور راجا کی پہلی ملاقات پر ہونے والا مکالمہ، یا پھر سلطان کی تخت پر قابض ہونے کے مناظر میں بولے جانے والے مکالمات اور بالخصوص، جب وہ اپنے سسر کو قتل کرکے تاج پہننے کے بعد اپنی بیوی سے پہلی ملاقات کرتا ہے اور راجا اور مہارانی کی وہ گفتگو، جب زندگی کی آخری ملاقات ہورہی ہوتی ہے۔ مسخ شدہ تاریخی کہانی میں بھی عمدہ مکالمات نے کافی جان ڈال دی ہے۔ یہ الگ بات ہے ’پدماوتی‘ کا موضوع بھنسالی کا پرانا اور پسندیدہ موضوع ہے، وہ 2008ء میں اس کہانی کو بطور ہدایت کار اسٹیج پر بھی پیش کرچکے ہیں۔
کچھ وضاحتیں
پاکستانی سینما کی تاریخ میں بھی ریاض شاہد جیسے فلم ساز گزرے ہیں، جنہوں نے ’زرقا‘، ’شہید‘، ’فرنگی‘ اور ’یہ امن‘ جیسی تاریخی موضوعات پر مبنی شاندار فلمیں بنائیں۔ زیادہ پرانی بات نہیں، پاکستانی فلم ساز ’جمیل دہلوی‘ نے اپنی فنی صلاحیتوں کے ذریعے ہولی وڈ میں فلم ’جناح‘ بنا کر عالمی سینما میں پاکستان کا نام روشن کیا۔
بولی وڈ تقسیم کے موضوع پر ابھی تک ایسی فلم نہیں بنا پایا، لہٰذا اب جیسی فلم ’پدماوت‘ بنی ہے، کیا ہمارا کوئی موجودہ فلم ساز اس کے جواب میں کوئی فلم بنانے کی ہمت رکھتا ہے، یا بس باتیں کرنی ہیں اور فلم فیسٹیول ہی کرنے ہیں۔
کیا برِصغیر کی تاریخ پر ساری فلمیں بولی وڈ ہی بنائے گا یا پاکستان میں موجودہ سینما کے فلم ساز بھی کچھ کریں گے۔ جاوید جبار، جمال شاہ، شعیب منصور، سرمد کھوسٹ، بلال لاشاری، یاسر نواز، عاصم رضا اور جامی کوئی جواب دینا چاہیں گے فلم ’پدماوت‘ کا؟ کوئی ریاض شاہد اور جمیل دہلوی کے مقام تک آنا چاہے گا؟ ہم پاکستانیوں کو جواب کا انتظار رہے گا بے شک اپنے گریبان میں بھی ضرور جھانکنا چاہیے۔
نتیجہ
تخلیقی اور تکنیکی اعتبار سے فلم ’پدماوت‘ ایک شاندار فلم ہے۔ وقت ملے تو ضرور دیکھیے، اس کو دیکھ کر آپ سیکھیں گے کہ آج کی کمرشل دنیا میں ایک اچھی، سنجیدہ، تاریخی اور پروپیگنڈا فلم کیسے بنائی جاتی ہے۔ اِس فلم کو دیکھنے کے بعد مجھے یہ یقین ہوچلا ہے کہ یہ فلم دنیا بھر میں باکس آفس پر کامیابی کے نئے ریکارڈز قائم کرے گی۔
تبصرے (3) بند ہیں