پاکستان اور تازہ افکار: وقت کی ضرورت
مشال خان کیس کئی ماہ سے عدالتوں میں ٹھوکریں کھا رہا تھا کہ اب سریر خان قتل کی خبر بھی آچکی۔ جن انتہا پسندوں کا ہمیں سامنا ہے وہ سرکاری تعلیمی اداروں سے اب نجی تعلیمی اداروں کی طرف گامزن ہیں اور ہم ہیں کہ ’لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ‘ کی عملی تفسیر بنے ’کرپشن‘ کا گھما ایک دوسرے پر چلا کر رانجھا راضی کرنے میں غلطاں ہیں۔ انفرادی آزادیوں، سٹیزن شپ حقوق اور رنگا رنگیوں کے حوالے سے تازہ افکار کی جتنی ضرورت آج ہے وہ پہلے کبھی نہ تھی۔
ایک زمانہ تھا جب پنڈی، پشاور، کوئٹہ، کراچی اور لاہور کے چائے خانوں اور تھڑوں پر بیٹھکیں لگتی تھیں، جہاں عالمی و مقامی سیاست پر سیر حاصل گفتگو ہوا کرتی تھی۔ ادبی و سیاسی حلقوں کا بھنڈار تھا کہ یہ ایسے غیر رسمی ادارے تھے جہاں بلاامتیاز امارت و عہدہ بندگانِ خدا جوق در جوق آتے تھے۔ امیر، غریب، مڈل کلاسیے، عالم، عام سیاسی کارکن سبھی یہاں نظر آتے تھے۔ کالجوں و یونیورسٹیوں کے طلباء و اساتذہ ہی نہیں بلکہ عام لوگوں کے لیے بھی یہ غیر رسمی تربیت گاہیں ازحد کارآمد تھیں۔ اشرافیہ کے سرکاری و غیر سرکاری دانشور بھی انہی تھڑوں پر آتے تھے کہ آمروں کے خلاف چلنے والی تحریکوں میں بھی ان غیر رسمی اداروں کا کردار تھا اور سی ایس ایس کے طلباء بھی یہاں سے مستفید ہوتے تھے۔
پھر مشرق وسطیٰ، افغان جہاد اور مادر پدر آزاد نجکاریوں کازمانہ آیا جس کے بعد خدمت اور رضاکارانہ جذبوں کے ساتھ ساتھ علم و فکر کو بھی پسِ پشت ڈال دیا گیا اور پیسہ ہی قدرِ واحد ٹہرا۔ ضیاء شاہی میں غریبوں کے لیے اسلامائزیشن اور اشرافیہ بشمول اپر مڈل کلاس کے لیے انگلش میڈیم اسکولوں اور کالجوں کا نظام بنادیا گیا جسے اسٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ پروگرام کی ٹیک میسر تھی۔ یوں میٹرک پسماندگی کی علامت جبکہ او یا اے لیول جدت کا پیمانہ بنے۔ شاید ہی کسی ڈکشنری یا لغت میں ہمیں جدت اور پسماندگی کی ایسی تعریف ملے۔ بڑی جانفشانی سے اس انگلش میڈیم سلسلے کو پروان چڑھایا گیا کہ لبرلائزیشن آف اکانومی کے تحت دی گئی مراعات کے سب سے زیادہ حقدار بھی یہی ٹہرے۔
پڑھیے: 'متبادل بیانیہ' تشکیل دینے کے لیے کیا کرنا ہوگا؟
پھر ہائر ایجوکیشن کے غلغلے سے نجی یونیورسٹیوں کا ظہور ہوا اور ان سب پالیسیوں کے نتیجے میں انگلش میڈیم سلسلے کے حجم میں قابلِ قدر اصافے ہوئے۔ یہی وہ ماضی قریب کا زمانہ ہے جب پاکستان میں ادبی میلوں کی خبریں زبان زدِ عام ہوئیں۔ ادب و علم کی باتیں ہونے لگیں، ملک سے باہر رہنے والے ادیب و دانشوروں نے ان میلوں کو عزت بخشی اور آزاد میڈیا نے انہیں سر آنکھوں پر بٹھایا۔
گوکہ اب تھڑوں اور چائے خانوں کی باتیں قصہ پارینہ بن چکی ہیں مگر علم و فکر کے اس نئے در کے کھلنے سے تازہ ہوا ’بہ زبان انگریزی‘ وارد ہوئی۔ وہ میلے صرف اشرافیہ کے لیے مخصوص سے لگے، مگر علم و فکر ایسا دریا ہے جو کبھی کسی ایک طبقے کی میراث نہیں رہتا اور یہی اب ہو بھی رہا ہے۔ لاہور، حیدرآباد اور فیصل آباد میں افتادگان خاک نے بھی ادبی، علمی میلوں کا قصد شروع کردیا ہے۔
یہی وہ ماحول تھا جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے لاہور کی ایک نیم سرکاری یونیورسٹی، انفارمیشن ٹیکنالوجی یونیورسٹی (آئی ٹی یو) نے ’افکارِ تازہ‘ کے عنوان سے علمی و فکری میلے کا اہتمام کیا۔
پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن نے بھی اُن کا ساتھ دیا، یوں ایک سرکاری تعلیمی ادارے میں پڑھنے والوں نے بھی کم مائیگی کے احساس کو تج ڈالا۔ دیگر ادبی میلوں کے برعکس یہاں انگریزی کے ساتھ ساتھ اْردو اور پنجابی کی نشستیں بھی رکھی گئیں اور پنجاب کی تاریخ پر بحث کا سامان بھی۔
افکارِ تازہ کی کلیدی تقریر نوبیل انعام یافتہ خاتون صحافی توکل کرمان نے کی اور انہوں نے اپنی تقریر میں وہ سب باتیں کر ڈالیں جن کا آج پاکستانیوں کو سامنا ہے۔ 3 سال سے جنگ اور بھوک میں گھرے یمن جیسے ملک میں انسانی حقوق اور صحافت کا علم بلند رکھنے والی توکل کا اصرار تھا کہ آمروں سے بڑا دہشت گرد کوئی نہیں اور دہشت گردوں سے زیادہ آمر کوئی نہیں۔
یہ بات پاکستانیوں سے بہتر کون جانتا ہے کہ ہم نے ہر قسم کے رجحان رکھنے والے ڈکٹیٹروں کو بھگت رکھا ہے۔ اسلام کی من پسند اور مار دھاڑ پر مبنی تشریحات کو توکل نے نشانہءِ خاص بناتے ہوئے کہا کہ ایسے لوگوں نے اسلام کو ازحد بدنام کیا ہے۔ ان کا یہ استدلال بھی معنی خیز تھا کہ جب جب انسانی حقوق اور جمہوریت کو خطرہ لاحق ہو تو ہمیں اس کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار رہنا چاہے۔ جب انسانی حقوق کے علمبردار جمہوریت کی جدوجہد میں صفِ اول میں لڑتے پائے جاتے ہیں تو عوام میں انسانی حقوق کی توقیر بڑھتی ہے۔ طاقتور ممالک کی پھیلائی عالمی سازشوں سے کما حقہ واقف توکل کی استدا تھی کہ حقوق کی جدوجہد کو عالمی طاقتوں کے خارجی ایجنڈوں سے الگ کرکے چلانا ضروری ہے۔
پڑھیے: سندھ لٹریچر فیسٹیول کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
دو دنوں میں 30 سے زائد نشستیں، اب بندہ کس کو سنے اور کس کو چھوڑے، بلاشبہ موضوعات اور شخصیات کا ایک بھنڈار تھا یہ میلہ۔ کتابوں پر پروگرام بھی تھے جس میں نئے ابھرتے ہوئے پنجابی لکھاری نین سکھ کی 6 کہانیوں پر مشتمل باکمال کتاب ’آئی پرے دی وا‘ بھی شامل تھی۔ مشہور کیمونسٹ دادا امیر حیدر، انقلابی عالم مولانا عبید اللہ سندھی، زبور مقدس کے پنجابی مترجم پادری آئی ڈی شہباز اور دلتوں کے رہنما آغا خاں سہوترا کے بارے میں لکھی یہ کہانیاں برٹش دور کی اُس جدوجہد کی نشانیاں ہیں جنہیں نصاب میں شامل کرنا تادم تحریر گناہ کبیرہ ہے۔
پروفیسر اشتیاق کی کتاب ’گریژن اسٹیٹ‘ کے حوالے سے سیشن نجم سیٹھی نے چلایا اور اس سیشن میں بھی حاضرین کی بھرپور شرکت رہی۔ صوفیوں کی دھرتی کو گریژن میں بدلنے کی تاریخ نو آبادیاتی دور سے شروع ہوتی ہے مگر کچھ دانشور بوجوہ اس کو دوسری جنگ عظیم کے بعد سے شروع کرتے ہیں۔ پاکستان کو یہ ذہنیت ورثے میں ملی کہ سرد جنگی بندوبست میں اسے مقام خاص حاصل رہا، جس میں ’دہریہ‘ روس سے لڑنے کے لیے اسلام کی مخصوص تشریحات کو عالمی و مقامی اشرافیہ نے خوب بڑھاوا دیا۔
قانون، مہاجرین، عورتوں کے حقوق اور لاتعداد موضوعات پر سیر حاصل بحثیں ہوئیں، یوں ڈاکٹر یعقوب بنگش اور ان کی ٹیم نے ایک ایسی روایت کو آگے بڑھایا جس کی آج پاکستان کو بہت ضرورت ہے۔
انتہا پسندی اور دہشت گردی کے حوالے سے آج جس خوفناک صورتحال کا ہم مجموعی طور پر شکار ہیں اس کی ایک اہم ترین وجہ یہ ہے کہ آج پاکستان کے تمام سرکاری و غیر سرکاری اداروں میں ’ضیاء دور کی باقیات‘ بکثرت موجود ہے۔ بنیاد پرست و قدامت پرست ہی نہیں بلکہ سیکولر و لبرل بھی انتہا پسندی کا جواب انتہا پسندی سے دینا چاہتے ہیں۔ پھانسیوں اور فوجی عدالتوں کی حمایت وہ بھی کرتے ہیں جو انسانی حقوق کے علمبردار ہیں۔ ایسے میں محض ضربِ عضب یا رد الفساد کارگر نہیں بلکہ آج معاشرے میں ہر سطح پر مکالمے کے دیے جلانے کی بھی اشد ضرورت ہے۔
اس ریت کو محض اشرافیہ اور اپر مڈل کلاس میں رواج دینے سے بات نہیں بنے گی بلکہ اب ’شودروں‘ کو بھی مکالمے میں شامل کرنا ہوگا۔ ایک ایسا ماحول بنانا ہوگا جس میں پہلے سے فیصلے کرنے کے بجائے مل بیٹھ کر فیصلے کرنے کے رجحان کو ترجیح حاصل ہو، اختلافات کو ختم کرنے کے بجائے اختلافات کے ساتھ نبھا کرنے کا ویژن ہو، فتوے بازیوں اور مناظروں کے بجائے تحقیق اور دلیل کو اولیت حاصل ہو، اور میڈیا، ہائر ایجوکیشن کمیشن اور سول سوسائٹی ایسا ماحول تشکیل دینے میں کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔
ریاستی و عوامی سطح پر تازہ افکار کی ہمیں اشد ضرورت ہے جو محض انگریزی زبان میں نہ ہوں، بلکہ معاملہ کچھ ایسا ہونا چاہیے کہ جن میں سندھی، اْردو، پشتو، بلوچی اور پنجابی بھی شامل ہوسکیں۔ بصورت دیگر رکے ہوئے پانی میں تعفن پیدا ہونا مقدر ٹھہرتا ہے۔
تبصرے (1) بند ہیں