‘ڈاکٹر صاحب، دھماکا کر دیں‘
اسلام آباد: پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن (پی اے ای سی) کے سابق چیئرمین ڈاکٹر اشفاق احمد کو سرکاری اور فوجی اعزاز کے ساتھ گذشتہ روز سپردخاک کردیا گیا۔
اس موقع پر فوجی حکام اور سائنسدانوں نے ڈاکٹر اشفاق احمد کی ملڑی اور سول جوہری پروگرامز میں گراں قدر خدمات پر اظہار خیال کیا اور خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ان کی قبر پر پھول چڑھائے۔
اسٹریٹجک پلاننگ ڈویژن، نیشنل کمانڈ اتھارٹی، نیول اسٹریٹجک فورس کمانڈ، نیسکوم، خان ریسرچ لیبارٹی، پی اے ای سی، پاکستان نیو کلیئر ریگولیٹری اتھارٹی اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف فزکس سے وابستہ اعلیٰ حکام نے ڈاکٹر اشفاق احمد کی نماز جنازہ میں شرکت کی۔
یہ پڑھیں: پاکستان کا ایٹمی پروگرام اور اسرائیلی جاسوس
چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل زبیر محمود حیات نے مسلح افواج کے سربراہان کی نمائندگی کرتے ہوئے نماز جنازہ میں شرکت کی اور مرحوم کی قبر پر پھول چڑھائے۔
مرحوم ڈاکٹر اشفاق احمد کی گراں قدر خدمات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 60 برسوں کے دوران وہ ملک کے جوہری پروگرام سے متعلق تمام اہم اداروں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔
وہ پاکستان نیوکلیئر منرل سینیٹر کے سربراہ، پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف نیوکلیئر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے ڈائریکٹر اور پی اے ای سی کے چیئرمین رہے۔
ڈاکٹر اشفاق احمد مرحوم ملتان میں وزیراعلیٰ صادق قریشی کے اس تاریخی اجلاس میں شریک تھے جس میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا کہ انہیں ‘تین برس کے اندر جوہری طاقت چاہیے’۔
وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے پرجوش اور مختصر جملے کو سن کر چند ایک بڑے سائنسدان خوشی سے بھنگڑا ڈالنے لگے اور اسی دوران ذوالفقار علی بھٹو نے منیر احمد خان کو پی اے ای سی کا چیئرمین اور ڈاکٹر اشفاق احمد کو کمیشن کا چیئرمین منتخب کیا جہاں آپ نے 20 برس اپنی خدمات پیش کیں۔
یہ بھی پڑھیں: ایٹمی پروگرام میں سعودی فنڈنگ کی پاکستانی تردید
ذوالفقار علی بھٹو نے جوہری طاقت کے حصول کے لیے تین برس کا وقت دیا تھا لیکن جوہری ماہرین مقررہ وقت میں ایسا کرنے میں ناکام رہے تھے تاہم بطور سائنسدان ڈاکٹر اشفاق احمد نے ڈیرہ غازی خان میں کیمیکل پلانٹ کمپلکس میں کام کیا جہاں یورینیم کی کان تعمیر کرکے ‘ہیکس’ نامی گیس بنانے کے لیے پلانٹ لگایا گیا اور اسی گیس میں یورینیم کو خان ریسرچ لیبارٹی میں منتقل کیا جاتا رہا۔
1980 میں جنرل ضیاء الحق نے منیر خان کو ہیکس کی ترسیل کے حوالے سے ڈیڈ لائن دی اور پی اے ای سی کے چیف ڈاکٹر احمد خان کو سائنسدانوں کی مدد کے لیے بھیجا، ہیکس کو سلینڈر میں بھر کر خان ریسرچ لیبارٹری تک ٹرک میں پہنچایا جاتا تھا جس کو صرف ڈاکٹر ثمر مبارک مند چلاتے تھے۔
1998 میں جب ڈاکٹر اشفاق احمد پی اے ای سی کے چیف تھے تب انہیں جوہری ہتھیار ٹیسٹ کرنے کا ہدف دیا گیا۔
11 مئی 1998 میں بھارت کی جانب سے جوہری ٹیسٹ کے بعد نواز شریف نے ڈاکٹر اشفاق احمد کو کہا کہ ‘ڈاکٹر صاحب، دھماکا کردیں’۔
1986 میں ان کی نگرانی میں ٹنل اور چاغی پہاڑ کی عمودی شافٹ تعمیر کی گئی تھی جہاں 28 اور 31 مئی کو پاکستان نے چھ جوہری ہتھیار ٹیسٹ کیے۔
مزید پڑھیں: پاکستان اور بھارت میں ایٹمی جنگ کا خطرہ نہیں
اس سے قبل ڈاکٹر اشفاق احمد کو اپریل 1991 میں پی اے ای سی کا چیئرمین مقرر کیا گیا تھا، اس حوالے سے ڈاکٹر اشفاق نے ماضی میں ایک ملاقات میں بتایا تھا کہ ‘جب میں نواز شریف کے پاس پہنچا تو انہوں نے کہا میں پی اے ای سی کے لیے نوجوان کو چیئرمین منتخب کرنا چاہتے ہوں لیکن غلام اسحٰق خان آپ کو اگلا چیئرمین بنانا چاہتے ہیں’۔
ڈاکٹر اشفاق احمد کا ہی خاصہ تھا کہ انہوں نے پاکستان کے پہلے 300 میگا واٹ نیوکلیئر پاور پلانٹ کے معاہدے کو دسمبر 1991 میں منطقی انجام تک پہنچایا جبکہ انہیں داخلی اور خارجی سطح پر مخالفت کا سامنا تھا۔
آپ نے بطور ایڈمنیسٹریٹر اور سائنسدان کی حیثت سے اپنی صلاحیتوں کی بدولت دنیا بھر سے تعریف اکھٹی کی۔
بینظر بھٹو دور حکومت میں پہلی مرتبہ چشمہ پلانٹ معاہدہ طے پایا جبکہ مالی اور تکنیکی امور سے متعلق معاہدہ 31 دسمبر 1991 میں ہونا تھا لیکن بیروکریسی نے مالی معاملات میں روڑے ڈالے اور یوں معاہدے کا عمل سست روی کا شکار ہو گیا۔
اس حوالے سے پڑھیں: ’شمالی کوریا کے پاس پاکستان سے بہتر جوہری ٹیکنالوجی موجود ہے‘
تاہم سابق خارجہ سیکریٹری ریاض کھوکھر نے وزیراعظم سے بیرونی دورے کے دوران ہی تصدیق حاصل کی اور اس طرح 31 دسمبر 1991 کو ڈاکٹر اشفاق احمد اور چینی وزیر کے مابین معاہدہ طے پایا۔
ڈاکٹر اشفاق احمد مختلف حوالوں سے ہمیشہ ہماری یاداشت کا حصہ رہے ہیں لیکن تصنیف Long road to Chaghai in May 1999 کے مصنف کو جیل کی کوٹھری سے بچانے کے لیے ڈاکٹر اشفاق احمد کو خصوصی طور پر یاد رکھا جائے گا۔
مذکورہ کتاب پاکستان کے جوہری پروگرام سے متعلق تاریخی واقعات پر مبنی ہے۔
اسلام آباد میں کتاب کی رونمائی سے قبل ڈاکٹر اشفاق احمد نے مصنف کو ایک جانب لے جا کر ہدایت کی کہ کتاب کے اگلے ایڈیشن کے بارے میں ہرگز نہ سوچے کیوں کہ کابینہ مصنف کی گرفتاری کے بارے میں سوچ رہی ہے، وہ میری حفاظت کے لیے یہ کہتے ہوئے آگے بڑھے کہ انہوں نے کتاب کی تکمیل کے لیے مصنف کی مدد کی۔
امریکا کے دباؤ میں آکر جنرل (ر) پرویز مشرف نے ڈاکٹر عبدالقدیر کو خان ریسرچ لیبارٹی کی سربراہی سے سبکدوش کیا اور اسی دوران ڈاکٹر اشفاق احمد بھی پی اے ای سی میں بطور چیئرمین ریٹائر ہو گئے۔
بعدازاں دونوں شخصیات کو ریٹارڈمنٹ کے بعد وزیراعظم کا مشیر خاص بنادیا گیا۔
بطور مشیر ڈاکٹر اشفاق احمد نے پی اے ای سی کے سابق سائنسدان ڈاکٹر محمد افضل کی ہمت افزائی کی کہ وہ جوہری پروگرام کی تاریخ قلمبند کریں، تاہم بتایا گیا کہ جن کمپیوٹرز میں ان کے دستاویزات تھے انہیں تحویل میں لیے لیا گیا۔
ڈاکٹر اشفاق احمد 3 نومبر 1930 کو گرداس پور جنوبی پنجاب میں پیدا ہوئے تھے، گورنمنٹ کالج لاہور سے ماسٹر کیا اور 1957 میں پی اے ای سی میں شمولیت سے پہلے اور کچھ وقت کے لیے اسی کالج میں بطور معلم تدریس سے وابستہ رہے، ڈاکٹر اشفاق احمد نے یونیورسٹی آف مانٹریال سے ڈاکٹریٹ مکمل کی۔
ڈاکٹر اشفاق احمد مرحوم نے سوگوار ن میں بیوا اور دو بیٹوں کو چھوڑا ہے۔
مضمون نگار تصنیف ‘Long road to Chaghai’ کے بھی مصنف ہیں۔
یہ مضمون 22 جنوری 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوا