بانی ایم کیو ایم اشتعال انگیز تقریر: ڈی آئی جی کے خلاف وارنٹ جاری
کراچی: متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے بانی کی جانب سے 22 اگست 2016 کو کی جانے والی پاکستان مخالف اشتعال انگیز تقریر اور میڈیا کے دفاتر پر ہونے والے حملوں سے متعلق انسداد دہشت گردی کی عدالت میں زیر سماعت کیس میں ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) ایسٹ سلطان علی خواجہ کو چالان پیش نہ کرنے پر توہین عدالت کا نوٹس جاری کردیا گیا۔
بانی ایم کیو ایم کی تقریر سے متعلق 24 کیسز کی سماعت میں ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ فاروق ستار، رہنما خواجہ اظہار الحسن، عامر خان، رؤف صدیقی، محفوظ یار، قمر منصور اور دیگر عدالت میں پیش ہوئے جبکہ ایم کیو ایم رہنما ریحان ہاشمی عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔
یہ پڑھیں: فاروق ستار کو گرفتار کرکے 20 مارچ کو پیش کیا جائے، عدالت
عدالت نے پولیس کی جانب سے چالان اور ایف آئی آر پیش نہ کرنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے سپریٹنڈنٹ آف پولیس (ایس پی) انویسٹی گیشن الطاف سرور ملک سمیت تمام تفتیشی افسران کے خلاف ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتار ی جاری کردیئے۔
خیال رہے کہ آج (20 جنوری) کو آئی جی سندھ پولیس کے دفتر سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق الطاف سرور ملک کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے۔
بعد ازاں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے تمام تفیشی افسران کی تنخواہ بند کرنے کا حکم جاری کرتے ہوئے ڈی آئی جی ایسٹ سلطان علی خواجہ، ایس پی الطاف سرور ملک اور دیگر تفتیشی افسران کو 10 فروری تک ذاتی طور پر عدالت میں پیش ہونے کا حکم دے دیا۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز کراچی میں مبینہ پولیس مقابلے میں نقیب اللہ محسود کی ہلاکت کے معاملے پر محکمہ انسدادِ دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل (آئی جی) ثناء اللہ عباسی کی سربراہی میں قائم تحقیقاتی کمیٹی، جس میں ڈی آئی جی ایسٹ سلطان علی خواجہ بھی شامل تھے، نے راؤ انوار کو قصور وار جبکہ نقیب اللہ محسود کو بے گناہ قرار دیا تھا.
یہ بھی پڑھیں: الطاف حسین اور فاروق ستار کے وارنٹ گرفتاری دوبارہ جاری
واضح رہے کہ ایس پی الطاف سرور ملک کی جگہ اب عابد حسین قائم خانی بطور ایس اپی تعینات ہیں اس لیے وہ عدالت میں پیش ہوں گے۔
عدالت نے ایم کیو ایم رہنما ریحان ہاشمی کی عدم پیشی پر ان کے خلاف بھی ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیئے۔
احاطہ عدالت سے باہر ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار نے دعویٰ کیا کہ تمام الزامات بے بنیاد اور جھوٹے ہیں۔
انہوں نے سابق ایس ایس پی ملیر کی جانب سے مبینہ پولیس مقابلے میں مارے جانے والے نقیب اللہ محسود کے قتل کا ذمہ دار پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کو قرار دیتے ہوئے اس کیس کی شفاف تحقیقات کرانے کا مطالبہ کیا۔
مزید پڑھیں: اشتعال انگیز تقریر: فاروق ستار،عامر خان کے خلاف ضمنی چارج شیٹ پیش
انہوں نے واضح کیا کہ ایم کیو ایم پاکستان کی طرح دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی پاکستان میں امن کی بحالی کے لیے بڑی قربانیاں دی ہیں۔
یاد رہے کہ 22 اگست 2016 کو کراچی پریس کلب پر بھوک ہڑتالی کیمپ پر بیٹھے ایم کیو ایم کارکنوں سے خطاب کے دوران بانی ایم کیو ایم نے پاکستان مخالف نعرے لگوائے تھے، جس کے بعد کارکن مشتعل ہوگئے تھے اور انہوں نے ریڈ زون کے قریب ہنگامہ آرائی کی۔
مشتعل کارکنان نجی ٹی وی چینل اے آر وائی نیوز کے دفتر میں گھس گئے اور وہاں نعرے بازی کرتے ہوئے توڑ پھوڑ کی جبکہ فائرنگ سے ایک شخص ہلاک ہوگیا۔
مزید پڑھیں: ڈی جی رینجرز کو فاروق ستار،عامر خان کی گرفتاری کی ہدایت
بعدِ ازاں کراچی پریس کلب پر میڈیا سے گفتگو کے لیے آنے والے ایم کیو ایم کے سینئر رہنما ڈاکٹر فاروق ستار اور خواجہ اظہار الحسن کو رینجرز نے حراست میں لے لیا گیا تھا جبکہ ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو اور شہر کے مختلف علاقوں میں قائم متحدہ کے سیکٹر اور یونٹ آفسز کو بھی سیل کردیا گیا تھا۔
ایم کیو ایم کے سابق رہنما عامر لیاقت حسین کو بھی ان کے دفتر سے حراست میں لیا گیا تھا، جنہیں کچھ دیر بعد رہا کردیا گیا تھا، بعدِ ازاں انہوں نے ایم کیو ایم چھوڑنے کا اعلان کردیا تھا۔
بانی ایم کیو ایم کی پاکستان مخالف تقریر کے بعد ڈاکٹر فاروق ستار نے بانی ایم کیو ایم سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہوئے پارٹی معاملات پاکستان سے چلانے کا اعلان کیا تھا، جبکہ پارٹی منشور میں بھی تبدیلی کردی گئی تھی۔
واضح رہے کہ 22 اگست 2016 کو ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کی جانب سے پاکستان مخالف تقریر اور میڈیا ہاؤس پر حملوں میں سہولت کاری پر فاروق ستار، خالد مقبول صدیقی اور عامر لیاقت حسین سمیت دیگر پر کراچی کے مختلف تھانوں میں مقدمات درج کیے گئے تھے اور عدالت نے متعدد رہنماؤں کے وارنٹ گرفتاری بھی جاری کیے تھے۔