• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 5:05pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 4:41pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 4:48pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 5:05pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 4:41pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 4:48pm

‘اگر ٹرین آپ کو بائے بائے کہہ دے تو‘

شائع February 5, 2018 اپ ڈیٹ March 14, 2018

اردو کا سفر اور انگریزی کا سفر (تکلیف) اگرچہ ان کا آپس میں کوئی تعلق نہیں مگر بعض اوقات سگے بھائی بن جاتے ہیں۔ کبھی کبھار سفر بہت کچھ سکھلاجاتا ہے تو کبھی صفر بٹا صفر ثابت ہوتا ہے، گزشتہ دنوں میں نے بذریعہ ٹرین بہاولپور، اوکاڑہ، ملتان اور لاہور کا سفر کیا اور میرا وہ سفر صفر بٹا صفر نہیں بلکہ تجربات سے بھرا سفر ثابت ہوا۔

مسافر کو 2 اہم باتوں کا خیال رکھنا ہوتا ہے، اول یہ کہ وہ محدود مالی وسائل کے ساتھ سفر پر گامزن ہے اور دوران سفر تمام اخراجات جیب میں جھانکتے ہوئے ہی کرنے ہوں گے۔ دوسرا یہ کہ سفر مسافر کے فیصلوں کے گرد چکر کاٹتا ہے اور غلط فیصلہ آپ کو گھن چکر بنا سکتا ہے، اس لیے سفر کے دوران قلیل وقت میں زیادہ فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔

اگر آپ ٹرین کو بطورِ سفر استعمال کرتے ہیں تو یہ تحریر آپ کے لیے ہی ہے۔

کراچی کے مسافر متوجہ ہوں!

اگر آپ کو کینٹ اسٹیشن پہچنا ہے تو خصوصی طور پر ان 3 مقامات کے بارے میں محتاط رہیں۔

  1. کراچی میں ایکسپو سینٹر عالمی و مقامی نمائش کے لیے مختص ہے اور شہریوں کی بڑی تعداد نمائش میں محض تفریح کے لیے بھی شریک ہوتی ہے، اس لیے دیکھنے میں آیا ہے کہ ایکسپو سینٹر میں داخل ہونے کے لیے گاڑیوں کی لمبی قطار ہوتی ہے اور شہریوں کو گھنٹوں انتظار کی اذیت جھیلنی پڑتی ہے۔ ان تمام باتوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے میرا مشورہ ہے کہ آپ جیل روڈ پر پہنچ کر براستہ طارق روڈ سے شاہرہ فیصل کا راستہ اختیار کریں۔
  2. محمد علی جناح شاہراہ المعروف ایم اے جناح روڈ سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے لیے ‘احتجاج گاہ’ ہے جہاں کبھی بھی اور کوئی بھی اپنے مطالبات کے حق میں بیٹھ جاتا ہے اور شہر بھر کا ٹریفک سڑکوں اور گلیوں میں ٹکریں مارتا پھرتا ہے جس کے باعث پیپلز سیکریٹریٹ بھی بُری طرح متاثر ہوتا ہے۔
  3. اسٹیشن جانے کے لیے کبھی بھی صدر یا اس کے اطراف بشمول لکی اسٹار کا راستہ اختیار کرنے سے گریز کریں۔

پڑھیے: ایک اداس ریلوے اسٹیشن کی کہانی

اس ضمن میں 2 مختصر واقعات بیان کرتا چلوں کہ کینٹ اسٹیشن پہنچنے کے لیے اہلخانہ کے ہمراہ یونیورسٹی روڈ سے سیدھا پیپلز سیکریٹریٹ پہنچا تو ہاتھ پاؤں پھول گئے کیونکہ گاڑیاں ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑی تھیں اور آگے نکلنے کے لیے کوئی راستہ سوجھائی نہیں دے رہا تھا۔

نوٹ: یاد رہے کہ دورانِ سفر قلیل وقت میں فیصلہ لینا ہوتا ہے۔

پیپلز سیکریٹریٹ کا ایک راستہ ایم اے جنا ح روڈ اور دوسرا شاہراہ فیصل کی طرف نکلتا ہے۔ گھبراہٹ اور پریشانی کے عالم میں، میں نے گاڑی کا رخ ایم اے جناح روڈ کی طرف کردیا، کیونکہ میں اس حقیقت سے بے خبر تھا کہ احتجاج دراصل ایم اے جناح روڈ پر جاری ہے اور اس کے اثرات متصل شاہراوں پر پڑ رہے تھے۔ مختصراً میرا فیصلہ غلط ثابت ہوا اور یوں 10 منٹ کی تاخیر سے اسٹیشن پہنچا لیکن ٹرین اپنی منزل کی طرف روانہ ہوچکی تھی۔

دوسرا واقعہ کچھ یوں ہے کہ میری والدہ چھوٹے بھائی کے ہمراہ اسٹیشن پہچنے کے لیے ڈھائی گھنٹے پہلے گھر سے نکلیں، بھائی نے ارادہ ظاہر کیا کہ شاہراہ فیصل سے اسٹیشن پہنچا جائے لیکن والدہ کا کہنا تھا کہ صدر سے گزر کر جلدی اسٹیشن پہنچ سکتے ہیں۔

اس دن ایم اے جناح روڈ پر کوئی احتجاج نہیں تھا لیکن صدر اور متصل شاہرواں پر بدترین ٹریفک جام تھا۔

طے شدہ پلان کے مطابق مجھے آفس سے ہی اسٹیشن پہچنا تھا لیکن بھائی نے اطلاع دی کہ ‘لکی اسٹار اسٹاپ پر ٹریفک جام ہے اور پچھلے ایک گھٹنے سے ایک ہی جگہ کھڑے ہیں۔’

پریس کلب میں بائیک پارک کرکے میں پیدل لکی اسٹار اسٹاپ پہنچا تو دیکھ کر حیران رہ گیا کہ موٹرسائیکل تو درکنار پیدل چل کر سڑک کی دوسری طرف جانے کے لیے بھی جگہ نہیں ہے۔ اس مرتبہ میرا فیصلہ درست ثابت ہوا۔ میں نے امی کو ساتھ لیا اور پیدل چل کر ایسی شاہراہ پر پہنچا جہاں سے اسٹیشن کا راستہ صاف تھا۔ اسی دوران چھوٹے بھائی کو کہہ دیا کہ اگر بروقت اسٹیشن نہ پہنچ سکو تو اگلی ٹرین سے سامان بلٹی کرادینا۔

میں امی کے ہمراہ وقت پر اسٹیشن پہنچا اور اسٹیشن منیجر کے دفتر میں اس سے ملاقات کرکے صدر میں بدترین ٹریفک جام کے بارے میں مختصراً بتایا اور انسانی ہمدردی کی بنیادیوں پر 15 سے 20 منٹ کی تاخیر سے ٹرین روانہ کرنے کی درخواست کی۔

واضح رہے کہ اس دن صدر کی ہیجان زدہ ٹریفک میں متعدد ایسی گاڑیاں اور رکشے دیکھنے کو ملے جو کینٹ اسٹیشن جارہے تھے، اسٹیشن ماسٹر نے قدرے تعجب سے کہا، ‘میاں اِدھر تو ہم بیٹھے ہی اس لیے ہیں کہ ٹرین وقت پر چلے۔‘ خیر، ٹرین 15 منٹ کی تاخیر سے چلی اور ہم نے چلتی ٹرین میں اپنا سامان اندر پھینکا اور یوں بروقت فیصلے سے اس بار ٹرین چھٹنے سے رہ گئی۔

اگر آپ کی ٹرین چھوٹ جائے

اگر آپ اہلخانہ کے ہمراہ ٹرین پکڑنے میں ناکام رہے تو اس کے 2 نقصان ہوسکتے ہیں۔ پہلا، ٹکٹ کی کُل رقم کا نصف حصہ ملے گا یعنی مالی نقصان۔ دوسرا، ساری زندگی کے لیے آپ پورے خاندان میں ایک ‘مثال’ بن جائیں گے اور جب کبھی ٹرین اور اسٹیشن کا ہیش ٹیگ ہوگا ‘آپ کا ذکر‘ برمحل مذاق ہوگا۔

ٹکٹ واپسی کا مرحلہ

ٹرین چھوٹ جانے کی صورت میں آپ ٹکٹ لے کر فوراً بکنگ کاؤنٹر پر جائیں۔ اسٹاف ٹکٹ کے اوپر مارکنگ کے بعد آپ کو ایک سلپ دے گا، جس کی مدد سے آپ بعد ازاں سٹی اسٹیشن جاکر وہ لیڑ مع شناختی کارڈ اور ٹکٹ جمع کرائیں گے اور چند دنوں بعد ٹکٹ کی رقم کا نصف حصہ مل جائے گا۔ رقم کی ادائیگی میں عممومی طور پر 15 دن کا وقت درکار ہوتا ہے۔

جب میری ٹرین چھوٹ گئی تو کسی نے مشورہ دیا کہ تیزگام ٹرین پلٹ فارم پر کھڑی ہے۔

نوٹ: قلیل وقت، فیصلے زیادہ

پڑھیے: اچھے دنوں میں پاکستان سے بھارت ریل یاترا

ٹرین کے روانہ ہونے میں 20 منٹ باقی تھے۔ میں اہلخانہ کے ہمراہ تیزی سے پلٹ فارم پر پہنچا۔ اس ضمن میں 2 باتیں یاد رکھیں۔ پہلی بات یہ کہ اگر آپ کو ٹرین کے ٹکٹ پر سرکاری رعایت حاصل ہے تو اس کا اطلاق ٹرین میں دوران سفر ٹکٹ بنواتے وقت نہیں ہوگا۔ یعنی آپ بکنگ کاؤنٹر سے ٹکٹ بنواتے وقت ہی رعایت کے حق دار ہیں۔ دوسری بات یہ کہ اگر آپ اہلخانہ کے ہمراہ ٹکٹ کے بغیر سوار ہو رہے ہیں تو آپ بنیادی طور پر کھلے دل سے پریشانیوں کو دعوت دینے جارہے ہیں، کیونکہ عمومی طور پر ٹرین کی اکانومی کلاس میں برتھ پہلے سے بُک ہوتی ہے اور اوپن ٹکٹ بنوانے کا یہ مطلب نہیں کہ آپ کو برتھ یا سیٹ مل جائے۔ اس لیے مشورہ ہے کہ اوپن ٹکٹ پر اہلخانہ کے ہمراہ سفر سے گریز کریں۔

اوپن ٹکٹ پر سفری پریشانیاں

جیسا کہ اوپر ذکر ہوچکا ہے کہ عام طور پر اکانومی کلاس میں برتھ پہلے سے ہی بُک ہوتی ہیں۔ اوپن ٹکٹ پر کبھی بھی مذہبی تہوار اور اسکولوں کی سالانہ چھٹیوں کے موقعوں پر سفر نہ کریں کیونکہ برتھ تو دور کی بات سیٹ بھی نہیں ملتی اس لیے ٹرین کے فرش پر کھڑے یا بیٹھ کر سفر کرنے پر مجبور ہوں گے جو کہ انتہائی تکلیف دہ اور تھکا دینے والا ہوتا ہے۔

ایک تجربہ لاہور اسٹیشن پر

میں امی کے ہمراہ تیزگام ٹرین کے ذریعے لاہور اسٹیشن پہنچا۔ مجھے لاہور اسٹیشن رُک کر اسی دن شام کو کراچی ایکسپریس سے واپس کراچی پہنچنا تھا جبکہ امی کو تیزگام ٹرین سے ہی کھاریاں جانا تھا، لیکن مسئلہ یہ تھا کہ ٹکٹ صرف لاہور تک کا بنا ہوا تھا۔

مجھے امی کے لیے کھاریاں تک کا ٹکٹ بنوانا تھا اس لیے ٹہلتا ہوا ٹکٹ کلیکٹر کے پاس پہنچا تو موصوف نے نوید سنائی کہ اے سی اور اکانومی کی تمام سیٹیں اور برتھ پر کوئی جگہ نہیں۔

امی کو لاہور سے کھاریاں کا سفر تنہا کرنا تھا اور سامان بھی زیادہ تھا۔ ٹکٹ کلیکٹر کو ساری صورتحال سے آگاہ کیا تو اس نے اتنی رعایت دی کہ اے سی ڈبے کی سیٹ پر امی کو بیٹھنے کی اجازت دے دی۔ اگرچہ اے سی ڈبے میں ہرگز بغیر بکنگ بیٹھنے یا کھڑے ہو کر سفر کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔

یاد رکھنے والی باتیں

ایسی کسی صورتحال میں آپ فوراً ٹکٹ کلیکٹر کے پاس پہنچیں اور ٹکٹ پر نئی سیٹ کا نمبر درج کرالیں۔ واضح رہے کہ لاہور اسٹیشن پر بیشتر مسافر اترتے اور سوار ہوتے ہیں اور سوار ہونے والے عموماً مقامی لوگ ہوتے ہیں جو اوپن ٹکٹ پر سفر کرتے ہیں۔

اچھی چائے کا حصول کیوں کر ممکن ہو؟

ٹرین کے سفر میں چائے کے شوقین حضرات کے لیے ایک بڑی پریشانی اچھی چائے کا حصول ہوتا ہے۔ بیشتر مسافر ٹی بیگ والی چائے پسند نہیں کرتے، انہیں چولہے پر پکی ہوئی روایتی چائے ہی پسند ہوتی ہے۔

پڑھیے: پاکستان کا وہ ریلوے اسٹیشن جو تاریخ کا حصہ بن گیا

اس حوالے میں 2 اسٹیشن ایسے ہیں جہاں اچھی چائے کا حصول ممکن ہے۔ پہلا سکھر روہڑی اسٹیشن، جہاں کے پلیٹ فارم نمبر 3 پر بالائی گزر گاہ کی سیڑھیوں کے نیچے ایک چھوٹا سا ہوٹل ہے جہاں روایتی چائے مل سکتی ہے۔ اس کے علاوہ ملتان میں ٹرین 10 منٹ کا اسٹاپ کرتی ہے۔ اگر آپ نوجوان ہیں، دوڑ سکتے ہیں تو اسٹیشن کی پارکنگ کے پاس چائے کے ٹھیلے ہیں جہاں پکی ہوئی چائے سمیت سالن اور روٹیاں بھی لے سکتے ہیں۔ خیال رہے کہ 10 منٹ کے بعد ٹرین آپ کا انتظار نہیں کرے گی۔

اوکاڑہ اسٹیشن پر شناختی کارڈ کی نقل کی اہمیت

اسلام آباد میں ہونے والے ایک دھرنے پر پولیس آپریشن ہوا تو پورے ملک میں دھرنے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ مرکزی شاہراوں سے لے کر ٹرین کی اہم گزرگاہوں پر بھی دھرنے سے ٹرین کی آمد و رفت شدید متاثر ہوئی۔

جب میں کراچی جانے کے لیے اوکاڑہ اسٹیشن پہنچا تو محسوس ہوا کہ ماحول میں بے چینی ہے۔ دیگر مسافروں اور عملے سے معلوم کیا تو پریشانی سے ہاتھ ملنے لگا کیونکہ کچھ مظاہرین نے راولپنڈی کے پاس کسی مرکزی ٹریک پر دھرنا دے دیا تھا جس کے باعث ٹرینوں کی آمد و رفت کا سلسلہ معطل ہوگیا تھا۔

ٹرینوں کی آمد کا سلسلہ معطل ہونا عارضی تھا یا مستقل، اس بارے میں اسٹیشن کا عملہ کچھ بھی کہنے سے قاصر تھا۔ شام کی سرخی رات کی سیاہی میں بدل رہی تھی، مشکل یہ تھی کہ اگر ٹکٹ واپس کرواتے تو کٹوتی ہو رہی تھی جو کسی مسافر کو قبول نہیں تھی کیونکہ ٹرین معطلی کی وجہ سے پریشانی مسافروں کو ہورہی تھی، اور اِس میں محکمہءِ ریلوے کی کوئی کوتاہی بھی نہیں تھی۔

یاد رکھنے والی بات

اگر اسٹیشن کا عملہ اعلان کرتا ہے کہ ٹرین نہیں آئے گی اور اپنے ٹکٹ کینسل کروا دیں تو اس صورت میں مسافر کو ٹکٹ کے بدلے پوری رقم واپس ملے گی۔ یہ بھی ضرور یاد رکھیں کہ جس کے نام بھی ٹکٹ کی بکنگ ہوگی کینسل کرواتے وقت اس کے شناختی کارڈ کی نقل ضرور ساتھ رکھیں بصورت دیگر آپ کو رقم واپس نہیں ملے گی۔ اس حوالے سے میری دور اندیشی کارگر رہی کہ سفر سے پہلے اپنے کارڈ کی متعدد کاپیاں کرالی تھیں ورنہ مجھے شناختی کارڈ کی کاپی کرانے کے لیے ایک گھنٹے کی الگ سے زحمت اٹھانی پڑتی۔ کاؤنٹر پر بے شمار مسافر وہ تھے جنہوں نے اپنے کسی عزیز کو کہہ کر بکنگ کرائی تھی، جو وہاں پریشان ہورہے تھے۔ محکمہءِ ریلوے میں بکنگ کا نظام مکمل طور پر کمپیوٹرائزڈ ہوچکا ہے اس لیے بکنگ کے وقت جس کا شناختی کارڈ ہوگا اسی کے نام پر ساری تفصیلات ہر اسٹیشن پر موجود ہوگی اس لیے راہِ فرار کا راستہ نہیں۔

پڑھیے: I-سٹیم انجن کی کہانی

اے سی ڈبے میں عملے کی کارستانیاں

دورانِ سفر ٹرین کا ویٹر ناشتے کی ٹرے تھامے اے سی ڈبے کی طرف بڑھ رہا تھا۔ میری موجودگی کا احساس کیے بغیر اس نے ٹرے سے مکھن کی ٹکیہ اپنی جیب میں ڈال لی۔ اس کی پھولی ہوئی واسکٹ کی جیب سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اے سی کمپاؤنڈ میں سفر کرنے والے متعدد سفر کرنے والے اپنے ناشتے یا کھانے میں کتنی چیزوں سے محروم ہوجاتے ہیں۔ کوشش کریں کہ ناشتہ یا کھانا منگوانے کے بجائے ٹرین کی کینٹن میں جائیں اور خوشگوار ماحول میں طعام کا مزا لیں۔

یہ تو میری سیٹ تھی؟

فرض کریں آپ نے کراچی سے لاہور کے لیے ٹرین میں اپنی سیٹ بُک کروائی ہے، لیکن آپ حیدرآباد اسٹیشن سے ٹرین میں داخل ہوئے اور اپنی مطلوبہ سیٹ پر پہنچ کر دیکھتے ہیں کہ وہاں تو کوئی دوسرا شخص مزے سے بیٹھا ہے۔ اب آپ اپنا ٹکٹ دکھا کر اسے سیٹ سے اٹھنے کا کہتے ہیں مگر سامنے سے وہ بھی آپ کو اُسی سیٹ کا ٹکٹ دکھاتا ہے تو پریشانی ہوگی نا؟

بس اس پریشانی سے بچنے کے لیے یہ بات اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ ریلوے قوانین کے مطابق اگر کوئی مسافر اپنی بک کردہ سیٹ پر ٹرین چلنے کے 10 منٹ تک واپس نہیں آتا تو ٹکٹ کلیکٹر اس سیٹ کو کسی دوسرے کو تفویض کرسکتا ہے۔ یاد رکھیں اگر سیٹ کراچی سے بُک ہے اور آپ حیدرآباد اسٹیشن سے ٹرین میں بیٹھیں گے تو حیدرآباد اسٹیشن پہنچ کر فوری طور پر اسٹیشن عملے کے پاس جا کر اطلاع دیں تاکہ وہ ٹرین میں موجود ٹکٹ کلیکٹر کو آگاہ کردیں اور یوں آپ کی بک کردہ سیٹ کسی دوسرے مسافر کو الاٹ نہ ہوسکے۔

وقاص علی

وقاص علی ڈان کے سابق اسٹاف ممبر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

Right Feb 05, 2018 03:38pm
Zabardast

کارٹون

کارٹون : 20 اپریل 2025
کارٹون : 19 اپریل 2025