ٹرمپ انتظامیہ پاکستان کا غصہ ‘کم’ کرنے میں متحرک
اسلام آباد: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پاکستان مخالف بیان سے دونوں ممالک کے درمیان ابھرنے والی سول اور عسکری کشیدگی کو کم کرنے کے لیے گزشتہ روز ڈپٹی اسسٹنٹ سیکریٹری اسٹیٹ ایلس ویلز نے پاکستانی حکام سے ملاقات میں واضح کیا کہ امریکا ‘پاکستان سے نئے خطوط پر تعلقات’ کا خواہش مند ہے جس کی بنیاد ‘دوطرفہ مفادات‘ پر ہو۔
ملاقات کے دوران ایلس ویلز نے پاکستانی حکام پر زور دیا کہ پاکستانی اپنی جغرافیائی دائرے میں موجود حقانی نیٹ ورک اور دیگر دہشت گردوں کے خلاف مؤثر کارروائیاں کرے۔
اس سے قبل امریکی فوج کے اعلیٰ عہدیداران نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی اور ٹرمپ کی ٹوئیٹ سے کیشدہ حالات پر قابو پانے کی کوشش کی تھی جبکہ ایلس ویلز کا دورہ بھی اس ہی کی ایک کڑی ہے۔
یہ پڑھیں: امریکا نے پاکستان کو 15 سال تک امداد دے کر بیوقوفی کی، ڈونلڈ ٹرمپ
دو روزہ دورے کے اختتام پر ایلس ویلز نے کہا کہ دونوں ممالک کے تعلقات میں انٹیلی جنس خصوصاً انسدادِ دہشت گردی تعاون کے ذریعے بہتری آسکتی ہے جو دراصل پاکستان اور امریکا کے لیے بڑا مسئلہ ہے۔
اسی دوران پاکستان کی جانب سے بھی واضح پیغام دیا گیا کہ پاکستان بھی امریکا سے بہتر تعلقات کا خواہاں ہے لیکن یہ صرف اس وقت ہی ممکن ہے جب دونوں جانب اعتماد اور عزت کے جذبات ہوں۔
صحافیوں سے گفت و شنید
امریکی سفارتخانے میں محدود صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ایلس ویلز نے کہا کہ ‘کوئی اچھا یا برا دہشت گرد نہیں ہوتا’۔
ایلس ویلز نے انتہائی نرم لب و لہجہ میں دونوں ریاستوں کی طویل اور مشترکہ تاریخ کے بارے میں بھی بات کی۔
انہوں نے پاکستان میں امریکی کولیشن سپورٹ فنڈ (سی ایس ایف) کے حوالے سے گزشتہ روز پاکستانی حکام کو آگاہ کیا کہ امریکا کے نزدیک کولیشن فنڈز کی اہمیت کیا ہے اور دونوں ممالک کے مابین موثر شراکت داری اور پیشہ ورانہ معنیٰ خیز ملاقاتوں کے لیے کتنا ضروری ہے۔
امریکی سفارتکار نے زور دیا کہ واشنگٹن پاکستان میں کسی بھی علیحدگی پسند تحریک کی مخالفت کرتا ہے جبکہ انہوں واضح کیا کہ امریکا بلوچ علیحدگی پسند تحریک کی حمایت نہیں کرتا۔
یہ بھی پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹوئٹ پر پاکستانی سیاستدانوں کا سخت ردعمل
ایلس ویلز نے واضح کیا کہ امریکا، پاکستان کے خلاف جارحیت کے لیے افغان سرزمین استعمال نہیں ہونے دے گا جبکہ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ خطے میں تمام دہشت گرد طاقتوں کے خلاف جنگ لڑنی ہوگی۔
اسلام آباد میں دورانِ ملاقات انہوں نے پاکستانی حکام کو واضح کیا کہ امریکا کسی بھی ملک کے خلاف ’دہشت گرد پراکسی‘ کو استعمال کرنے کی مخالفت کرتا ہے’۔
واضح رہے کہ ایلس ویلز کی اسلام آباد میں وزیر خارجہ خواجہ آصف، وزیراعظم کے مشیربرائے خزانہ مفتاح اسماعیل اور نیشنل سیکیورٹی ایڈویزر لیفٹننٹ جنرل (ر) ناصر خان جنجوعہ سے ملاقات کے بارے میں امریکی سفارت خانہ ہی کوئی بیان جاری کرسکتا ہے۔
مزید پڑھیں: امریکا کو پاکستان کے جوہری اثاثوں کی حفاظت سے متعلق نئی تشویش
اس ضمن میں خیال رہے کہ ایسا بہت کم ہی دیکھنے میں آیا ہے کہ پاکستان میں امریکی حکام اپنے دوروں میں جنرل ہیڈکواٹرز میں حاضر ہو کر عسکری قیادت سے ملاقات نہ کریں جبکہ بظاہر موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق ایلس ویلز نے عسکری قیادت سے تاحال ملاقات نہیں کی۔
انہوں نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور جماعت الاحرار کے خلاف اسلام آباد کی کارروائیوں پر اطمیان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ‘امریکا اس قسم کی کارروائیاں ان گروپس کے خلاف بھی چاہتا ہے جو افغانستان کو غیر مستحکم کرنا چاہتے ہیں’۔
انہوں نے وضاحت کی کہ امریکا کا مقصد محض طالبان کو جیتنے سے روکنا ہے اور اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ افغان طالبان کے جائز سیاسی مفاد سے بھی انکار کردیا جائے جبکہ طالبان خود افغان معاشرے کے سماجی اور سیاسی نظام کا حصہ رہے ہیں تاہم امریکا چاہتا ہے کہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لا کر تمام امور نمٹائے جائیں۔
یہ خبر 17 جنوری 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی