ملک کی عدالتوں میں دائر ’19 لاکھ کیسز نمٹانے کیلئے صرف 4 ہزار ججز‘
اسلام آباد: جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کہا ہے کہ پورے ملک کی عدالتوں میں 19 لاکھ متفرق مقدمات زیر التوا ہیں جبکہ ججز کی تعداد صرف 4 ہزار ہے اگر عدالت عظمیٰ، تمام ہائی کورٹس اور ماتحت عدالتیں دن رات بھی کام کریں تو 4 ہزار ججز کیسز نہیں نمٹا سکتے’۔
جسٹس آصف سعید نے یہ ریمارکس ایک مدعی کی جانب سے لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے قتل کیس فیصلے کے خلاف دائر درخواست میں عدالتوں کے حوالے سے دیئے۔
انہوں نے کہا ‘پورے ملک میں 19 لاکھ کیسز کے لیے صرف 4 ہزار ججز تعینات ہیں’۔
یہ پڑھیں: قانون سازی عدالتوں کا نہیں پارلیمان کا کام ہے، چیف جسٹس
جسٹس آصف کھوسہ نے ریمارکس دیئے ‘انصاف کی فراہمی بہتر بنانے کے لیے حکومت سے ججز کی تعداد بڑھانے کے لیے کہا جائے تو فنڈز کی کمی کا جواب ملتا ہے’۔
تین رکنی بینچ کے رکن جسٹس دوست محمد خان نے تجویز دی کہ ایل ایل بی یا ایل ایل ایم کی ڈگری اور پانچ سالہ پراسیکیویشن کا تجربے کے حامل امیدوار کو پولیس اسٹیشن میں بطور اسٹیشن ہاؤس آفیسر (ایس ایچ او) تعینات کیا جائے جس کا گریڈ بھی 17 ہو۔
یہ بھی پڑھیں: چیف جسٹس کا ملتان میں پرانی عدالتیں بحال کرنے کا حکم
جسٹس دوست محمد خان نے حکومت پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ‘ملک میں دہشت گردی کے واقعات ہو رہے ہیں لیکن حکومت صوبوں میں فرانزک لیبارٹری کے قیام میں ناکام ہو چکی ہے’۔
انہوں نے کہا کہ صرف پنجاب میں ایک فرانزک لیباٹری ہے اور دیگر صوبوں میں کہیں بھی دہشت گردی کے واقعے کے بعد اجزا ایک ہی لیبارٹری کو بھیجے جاتے ہیں۔
جسٹس دوست محمد خان نے افسوس کا اظہار کیا کہ ‘سپریم کورٹ کی جانب سے حکومت کو متعدد مرتبہ حکم دیا گیا کہ صوبوں میں فرانزک لیبارٹریز کی بنیاد رکھی جائے لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا تمام حکام پر کوئی کام نہیں ہوا’۔
انہوں نے بتایا کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کی 62 ہزار آبادی کے لیے صرف ایک جج ہے جبکہ لاہور ہائی کورٹ میں 22 لاکھ شہریوں کے لیے 1 جج ہے۔
مزید پڑھیں: پاکستانی عدالتوں کے بڑے فیصلے
ان کا کہنا تھا کہ پنجاب میں فی جج 660 کیسز نمٹا رہا ہے، عدلیہ انصاف کی فراہمی کے لیے سنجیدہ ہے اور محدود وسائل میں اپنی پوری کوشش کررہی ہے۔
چیف جسٹس نے جوڈیشل آفیسرز پر زور دیا کہ وہ تمام تر صلاحیتوں کو بروکار لاتے ہوئے زیر التوا کیسز کو قانون کے مطابق نمٹائیں جبکہ موجودہ قانون دور حاضر کے مسائل اور ضروریات کو پورا نہیں کرتا۔
واضح رہے کہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ججوں کو حاصل سہولیات کے فقدان کو اجاگر کرتے ہوئے کہا تھا کہ عدالت مقننہ نہیں ہے، قانون سازی اور اس میں اصلاحات کا اختیار پارلیمنٹ کے ہاتھ میں ہے۔
کراچی میں آل پاکستان چیف جسٹس کانفرنس میں ان کا کہنا تھا کہ لوگوں کو انصاف کی فراہمی میں شکایت ہے، عوام کو ملک میں سستا انصاف ملنا چاہیے۔
انہوں نے سوال کیا کہ جو قانون پاکستان کے وجود میں آنے سے پہلے ہی یہاں موجود تھا، کیا اس میں کبھی پارلیمنٹ کے ذریعے کوئی تجدید کروائی گئی؟
جسٹس ثاقب نثار نے کہا تھا کہ فیصلوں میں تاخیر کے ذمہ دار صرف ہم نہیں، آپ قوانین میں ترمیم کردیں، جج کوتاہی کرے تو میں ذمہ دار ہوں۔
یہ خبر 16 جنوری 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی