• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:07pm
  • LHR: Maghrib 5:10pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:12pm Isha 6:37pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:07pm
  • LHR: Maghrib 5:10pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:12pm Isha 6:37pm

سعودی عرب کی معاشی تبدیلیوں سے پاکستان کیسے فائدہ اُٹھا سکتا ہے؟

شائع January 9, 2018 اپ ڈیٹ January 12, 2018

سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان ایک قومی اصلاحاتی منصوبے کے ذریعے سعودی وژن 2030ء کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ اِس حوالے سے 2 کھرب ڈالر مالیت کی کمپنی ارامکو کے شیئرز کی اسٹاک مارکیٹ میں دستیابی (آئی پی او) پر بھی پس منظر میں کام جاری ہے۔ جو چیز توجہ اپنی جانب مبذول کرواتی ہے وہ محمد بن سلمان کی خواہش ہے جس کے تحت اب تک صرف تیل پر منحصر معیشت کو ایک جدید اور کثیر الجہت معیشت میں تبدیل کیا جانا ہے۔

آدھی سے زیادہ سعودی آبادی 25 سال سے کم عمر کی ہے، اور سعودی عرب کے مستقبل کے نوجوان بادشاہ اِس قدامت پسند ملک کو جدت کی راہ پر ڈال رہے ہیں۔

محمد بن سلمان کی حالیہ سیاسی مہم جوئی کو کچھ لوگ 'اقتدار پر قبضہ' قرار دیتے ہیں، اور پھر انہوں نے جس طرح ریاض کے رٹز کارلٹن ہوٹل کو شہزادوں کے لیے جیل میں تبدیل کیا، اِسے دیکھ کر یہ پیغام واضح ہوتا ہے کہ ’ولی عہد‘ بس کام سے کام رکھتے ہیں۔ سعودی معیشت کے وسعت پانے اور پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان موجود دوستانہ تعلقات کو دیکھیں تو یہ سوال اُٹھ سکتا ہے کہ اِس سب میں پاکستان کے لیے کیا ہے؟

پڑھیے: سعودی شاہی خاندان کے اندرونی جھگڑوں کی داستان

ایک مضبوط مذہبی تعلق کے علاوہ سعودی عرب پاکستانی لیبر کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے۔ وزارتِ اوورسیز پاکستانیز کے مطابق 16 لاکھ پاکستانی روزگار کی تلاش میں سعودی عرب جاچکے ہیں۔

مگر سعودی عرب میں مقیم پاکستانی افرادی قوت اکثریتی طور پر ڈرائیوروں اور مزدوروں پر مشتمل ہے۔ اُن کے لیے یہ جدت نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔ محمد بن سلمان کی جانب سے خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت دینے کے تازہ ترین اعلان کے بعد ڈرائیور کے طور پر کام کررہے زیادہ تر ورکر، جن میں سے اکثریت اوبر میں ہے، اپنے گاہکوں کی ایک بڑی تعداد گنوا دیں گے۔ بلومبرگ کے مطابق سعودی عرب میں اوبر کے صارفین کا 80 فیصد خواتین پر مشتمل ہے۔

اِس کے علاوہ پاکستان کا شمار اُن ملکوں میں ہوتا ہے جو سعودی عرب سے سب سے زیادہ ترسیلاتِ زر حاصل کرتے ہیں۔ مالی سال 2018-2017 میں یہ جولائی سے نومبر تک 2.1 ارب ڈالر تھیں۔

اتنی زیادہ ترسیلاتِ زر کی وجہ سے ہمیں وہاں موجود غیر ہنرمند مزدوروں کو ہنرمند افراد سے بدلنا پڑے گا۔ سعودی عرب کی کان کنی کی صنعت ہماری نوجوان افرادی قوت کے لیے ایک اور راستہ ہے۔ سلطنت بھلے تیل سے اپنا انحصار ختم کرنا چاہ رہی ہو مگر اُس کی کان کنی کی صنعت کم از کم مستقبل قریب میں زوال پذیر ہوتی نظر نہیں آرہی۔

پڑھیے: سعودی عرب میں غیر معمولی فیصلوں کے پیچھے چُھپی اصل کہانی

سعودی معیشت میں آنے والی یہ تبدیلیاں پاکستان کے لیے اپنی معاشی صورتحال بہتر بنانے کا ایک نادر موقع ہے۔ مہارت فراہم کرکے ہم کئی معاہدے حاصل کرسکتے ہیں۔ ریاض میں سعودی وزارتِ تجارت و سرمایہ کاری کے ساتھ پاکستان کے 7 رکنی وفد کی حالیہ ملاقات ابتدائی پیش رفت کا اشارہ ہے۔

مستقبل کا شہر نیوم، کنگ فہد اکنامک ڈسٹرکٹ اور ایسے دیگر منصوبوں کو سرمایہ کاروں کی منزل کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ وہاں جلد ہی ہوٹلز اور ریزورٹس کی تعمیر کا آغاز کیا جائے گا۔ اگر سعودی وژن وہی ہے جس کا دعویٰ کیا جا رہا ہے تو یہاں مہمانوں کی آمد یقینی ہے۔

اِس کے علاوہ سلطنت اپنی سرمایہ کاری کو ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت جیسے دیگر شعبوں تک بھی پھیلا رہی ہے۔ ڈیجیٹل انفراسٹرکچر بھی ایک پھلتا پھولتا شعبہ ہے۔

سعودی وژن 2030ء کے تحت سلطنت 90 فیصد گھروں اور 66 فیصد شہری علاقوں تک انٹرنیٹ سروس کا جال بچھانا چاہتی ہے۔

غیر ملکی ورکروں کو جائیداد خریدنے کی اجازت دینے سے پاکستانی کاروباری افراد کے لیے بے تحاشہ نئے مواقع پیدا ہوسکتے ہیں۔ اِس کے علاوہ ریٹیل کے شعبے میں ای کامرس کو 80 فیصد تک بڑھانے کا منصوبہ بھی پاکستان کے لیے ’کاروبار کے نئے مواقع‘ کی نوید ہے۔

پڑھیے: قطر یا سعودی عرب، امریکا یا روس؟ پاکستان کس کس کو راضی کرے گا

اِس کے علاوہ سعودی عرب یہ بھی منصوبہ بنا رہا ہے کہ انجینیئرنگ فرمز کو 100 فیصد غیر ملکی ملکیت کی اجازت دی جائے۔ چونکہ ہمارے دو طرفہ تجارتی اور سفارتی تعلقات دوستانہ بنیادوں پر قائم ہیں، چنانچہ یہ سارے مواقع ہمارے لیے مزید ممکن، آسان اور عملی ہوسکتے ہیں۔

ہاں، لیکن ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اِس سب کی ایک قیمت بھی ہوسکتی ہے۔ یہ نہایت بچکانہ سوچ ہے کہ دو ممالک کے درمیان دوستی ایک دوسرے کے لیے فکر، ہمدردی، اور محبت پر قائم ہوتی ہے۔ ادلا بدلی کا اصول ہمیشہ کارفرما ہوتا ہے۔

چین ہمیں پاک چین اقتصادی راہداری دیتا ہے، ہم بدلے میں اُنہیں نرم کاروباری ضوابط دیتے ہیں۔ سعودی ہمیں سرمایہ کاری کی اجازت دیں گے تو ہم اپنا غیر جانبدار مؤقف برقرار نہیں رکھ سکیں گے۔ پاکستان کو نہایت سوچ سمجھ کر چلنا پڑے گا۔

جب ہم سلطنت میں آنے والی معاشی تبدیلیوں کے فائدوں پر غور کریں تو یہ بھی غور کرنا چاہیے کہ کیا ہم میں اتنی صلاحیت ہے کہ ان مواقع سے فائدہ اُٹھا سکیں؟ کیا ہمارے پاس وہ ہنر اور مہارت موجود ہے جس کی اِس وقت سعودی عرب کو تلاش ہے؟

اپنا گھر ٹھیک کرنے اور معیشت کے لیے بہتر فیصلے کرنے کا ایک دیانتدارانہ اور مضبوط منصوبہ اِس وقت ہماری اہم ضرورت ہے۔ الفاظ کو اقدام میں بدلنا ہوگا۔

انگلش میں پڑھیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار کے بزنس اینڈ فنانس ویکلی میں 8 جنوری 2018 کو شائع ہوا۔

اسامہ رضوی

لکھاری سے ان کے ای میل ایڈریس [email protected] پر رابطہ قائم کیا جا سکتا ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024