• KHI: Fajr 5:35am Sunrise 6:55am
  • LHR: Fajr 5:13am Sunrise 6:38am
  • ISB: Fajr 5:21am Sunrise 6:48am
  • KHI: Fajr 5:35am Sunrise 6:55am
  • LHR: Fajr 5:13am Sunrise 6:38am
  • ISB: Fajr 5:21am Sunrise 6:48am
شائع January 2, 2018 اپ ڈیٹ January 9, 2018

نلتر جھیل کی سیر؛ اب بھی سوچتا ہوں، یہ خواب تھا یا حقیقت!

رمضان رفیق

میں کل سے کئی بار اپنی بنائی ہوئی یہ تصاویر دیکھ بیٹھا ہوں۔ ہر دفعہ اِس طرح کے خیالات ذہن پر آتے ہیں، خوبصورت، بہت خوبصورت، اُف خوبصورت، کیا چیز ہے یہ رنگ برنگی جھیل۔

کبھی کبھی تو سوچتا ہوں کہ کیا اِسے جھیل بھی کہنا چاہیے یا ابسٹرکٹ آرٹ کا قدرتی نمونہ؟ پہلی نظر میں ہَرا رنگ جھیل کے رنگ پر غالب نظر آتا ہے، اگلی نظر میں کہیں دور ایک نیلگوں رنگ کا بھی احساس ہوتا ہے، کہیں کہیں قوس قزاح کی جھلک بھی دکھائی دیتی ہے، ایسی جگہ جو اشجار کے عکس کو تصویر کردے، بالکل شیشے کی بوتل میں بند کسی آرٹ کے نمونے کی طرح۔

کئی بار سوچ بیٹتھا ہوں کہ دیکھنے والے اِن تصاویر کو شاید فوٹو شاپ فیکٹری کا کمال ہی سمجھیں، لیکن دوستو، دستِ قدرت کی صنائیاں وہاں شروع ہوتی ہیں جہاں انسانی عقل ختم ہوتی ہے۔

موسم خزاں میں اکتوبر کی 28 تاریخ کو مجھے اِس رنگ برنگی جھیل کو دیکھنے کا موقع ملا، جو دیکھا وہ بیان سے باہر ہے۔ وہ سب لمحے جو اِس چھوٹی سی جھیل کے کنارے گزرے، لگتا ہے کسی اور جہاں میں گزرے۔ عطا آباد جھیل کا نیلگوں رنگ ہو یا سیف الملوک کے رنگوں کا تصور، اِس جھیل کا رنگ اتنا گہرا سبز دکھائی دیا کہ لگتا ہے کہ کسی نے ہَرے رنگ کا پینٹ پانی میں ملا رکھا ہے۔ قریب آئیں تو پتہ چلتا ہے کہ خرد بینی مخلوق یا کائی کی طرز کی دبیز سبز تہیں اِس جھیل کے اِس رنگ کا اصل سبب ہیں۔ اِس سے پہلے کہ میں ایک ہی سانس میں جھیل کنارے رنگوں کے تذکرے میں کھو جاؤں، میں تھوڑا سا نلتر اور اِس کے علاقے کا تعارف کروا دوں۔

شاہراہِ قراقرم سے نلتر کی جانب جانے والا راستہ— فوٹو رمضان رفیق
شاہراہِ قراقرم سے نلتر کی جانب جانے والا راستہ— فوٹو رمضان رفیق

شاہراہِ قراقرم سے نلتر کی جانب جانے والا راستہ— فوٹو رمضان رفیق
شاہراہِ قراقرم سے نلتر کی جانب جانے والا راستہ— فوٹو رمضان رفیق

نلتر کا جیپ ٹریک— فوٹو رمضان رفیق
نلتر کا جیپ ٹریک— فوٹو رمضان رفیق

شاہراہِ قراقرم پر چلاس سے ہنزہ کی طرف جائیں تو نومل نامی علاقے سے اِس جھیل کے لیے جیپیں جاتی ہیں۔ یہاں شاہراہِ قراقرم کے کنارے ’نلتر 17 کلو میٹر‘ کا بورڈ لگا ہوا ہے۔ نومل کی جن گلیوں سے ہوکر ہم جھیل کی جانب آئے تھے، اُس پر ایک آدھ بینک، دو میڈیکل اسٹور، اور اسکول کے بچوں کے انگریزی طرز کے یونیفارم دیکھ کر احساس ہو رہا تھا کہ نومل ایک گاؤں سے بڑھ کر کچھ ہے۔

کیوں کہ اُن دنوں ٹوئرسٹ سیزن نہیں تھا، اِس لیے جیپ کا ڈرائیور ہمارا منتظر تھا ورنہ تو شاید ہمیں اُس کے انتظار میں کتنا وقت بتانا پڑتا۔ اُس راستے پر پولیس کی ایک چوکی بھی موجود تھی جہاں سیاحوں سے شناخت طلب کی جاتی ہے۔ اِس کی ایک وجہ اُس علاقہ میں 3 چھوٹے ڈیم ہونا بھی ہوسکتا ہے۔ اِن میں سے 2 ڈیم کامیابی سے چل رہے ہیں اور ایک نیا بنایا جا رہا ہے۔

جیپ کا یہ 17 کلومیٹر طویل راستہ خاصا دشوار گزار ہے بلکہ اِس راستے کو راستہ کہنا بھی مناسب نہ ہوگا۔ کچھ جگہوں پر تو جیپوں کے ٹائروں کے نشانات سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں راستے یا سڑک طرز کی کوئی چیز ہوگی، وگرنہ موسمی نالوں، پائن کے درختوں کے درمیان سے جیپ یوں گزرتی ہے کہ آپ اگر ہاتھ بھر ہاتھ دروازے سے باہر نکالیں تو کسی درخت کے تنے کو چھو جائے۔

ایسے راستے پر جیپ چلانا انتہائی مہارت کا کام ہے۔ محمد عباس جو ہماری جیپ چلا رہا تھا، 16 سالوں سے اُسی سڑک پر جیپ چلا رہا ہے۔ اُس کی جیب ایسے درجنوں واقعات سے بھری ہوئی تھی کہ کیسے من چلے اپنی قیمتی گاڑیوں کے زعم میں اُس راستے پر چلے آتے ہیں، اور بالآخر اپنی گاڑی کا نقصان کروا بیٹھتے ہیں۔ اُس نے ایک واقعہ ایسا بھی سنایا جس میں ایک جوڑا آٹو میٹک گاڑی سمیت نلتر نالے میں جاگرا تھا اور جان کی بازی ہار گیا۔

ساتھ ساتھ چلتا دریائے ہنزہ— فوٹو رمضان رفیق
ساتھ ساتھ چلتا دریائے ہنزہ— فوٹو رمضان رفیق

نلتر تک جانے کے لیے راستہ کچے اور پیڑوں سے بھرے علاقے سے گزرتا ہے— فوٹو رمضان رفیق
نلتر تک جانے کے لیے راستہ کچے اور پیڑوں سے بھرے علاقے سے گزرتا ہے— فوٹو رمضان رفیق

راستے کے ہمسفر چند درخت— فوٹو رمضان رفیق
راستے کے ہمسفر چند درخت— فوٹو رمضان رفیق

نلتر نالے کے کنارے چلتے چلتے ہم ایک گاؤں میں آ پہنچے جس کا نام نلتر پائن ہے۔ چند درجن گھروں پر مشتمل یہ گاؤں پہاڑوں کے دامن میں ایک پُرسکون بستی دکھائی دیتا ہے۔ گھریلو پیمانے پر لگائی گئی سبزیاں، مکئی کے ایک دو چھوٹے چھوٹے کھیت، دودھ دینے والے جانور، بکریاں اور بھیڑیں اِس بات کی غمازی کرتی ہیں کہ یہ گاؤں ابھی شہری مصنوعات سے خاصا دور ہے۔ اِس گاؤں کے بعد اگلا گاؤں نلتر بالا ہے، یہاں پر چائے پینے کے لیے ایک چھوٹی سی بریک لی گئی۔

جھیل پر پہنچنے سے پہلے خزاں رسیدہ درختوں کا ایک جھرمٹ نظر آیا، میں چشمِ تصور سے دیکھ سکتا تھا کہ ایک مہینہ پہلے یہاں درختوں کے پتے گرنے سے پہلے اپنے رنگوں سے ماحول کو طلسماتی بنائے ہوئے ہوں گے، اُسی جھنڈ سے آگے ڈرائیور نے گاڑی روکی تو دور سے مجھے یہ چھوٹی سی جھیل ایک جوہڑ کی صورت دکھائی دی۔ چند ہی لمحوں بعد بصارت نے اُس کے سبز رنگ کو دیکھنے کا آغاز کیا، جوں جوں قدم اُس جھیل کی جانب بڑھ رہے تھے، سبز رنگ گہرا سبز ہونے لگا، اور بالآخر پہلی بھرپور نظر نے نگاہ کو حیران کرکے رکھ دیا کہ کیا ایسا بھی ہوسکتا ہے؟ جیسے اوپر شفاف شیشے کی برف کی تہہ ہو اور اُس کے نیچے ہرے رنگ کی جھالریں بنی ہوئی ہوں، سبز کائی کی دبیز تہیں قدرتی طور پر اِس رنگ کو پیدا کر رہی تھیں، کچھ جگہ پر ایسا لگ رہا تھا کہ مٹی کے تیل میں ہَرے رنگ کا پینٹ گرا ہوا ہو۔ جہاں کائی کی تہہ گہری اور مکمل تھی وہاں اُس پر ایک خوبصورت پینٹگ کا سا گماں ہو رہا تھا۔

یہ سچ ہے کہ اِس سے ملتی جلتی جھیل میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی، یہ چھوٹی سی جھیل بس قدرت کے ہاتھوں بنی ہوئی ایک تصویر تھی جو اِن برف پوش پہاڑوں کے دامن میں رکھی گئی تھی۔ جس کنارے پر میں کھڑا تھا وہاں اُس پر سبز رنگ غالب تھا، لیکن کچھ جگہ تبدیل کرنے سے دور نیلگوں رنگ کے کچھ شیڈز بھی سُجھائی دیتے تھے، میں نے جھیل کے 3 اطراف کھڑے ہوکر اِس کی تصویر کشی کی اور مجھے ہر انداز سے یہ جھیل ایک شاہکار محسوس ہوئی۔

نلتر جھیل— فوٹو رمضان رفیق
نلتر جھیل— فوٹو رمضان رفیق

نلتر جھیل— فوٹو رمضان رفیق
نلتر جھیل— فوٹو رمضان رفیق

نلتر جھیل— فوٹو رمضان رفیق
نلتر جھیل— فوٹو رمضان رفیق

نلتر جھیل— فوٹو رمضان رفیق
نلتر جھیل— فوٹو رمضان رفیق

17 کلو میٹر جیپ کا یہ سفر کم از کم دو، اڑھائی گھنٹے کی مسافت پر مشتمل ہے، اور اتنا ہی وقت واپس جانے کے لئے درکار ہے، جاتے وقت یہ 17 کلو میٹر بہت کٹھن معلوم ہوتے ہیں، لیکن واپسی کے 17 کلومیٹر اور اڑھائی گھنٹے کا سفر ایک نشے سے لبریز تھے۔ قدرت کے ایک شاہکار کو دیکھ لینے کا نشہ، بہت دیر تک یہ گماں ہوتا رہا کہ شاید کسی خواب کی کھڑکی سے کوئی رنگ برنگا منظر دیکھا ہو، لیکن میرے کیمرے کی تصاویر گواہ ہیں، اِن سبھی دیدہ زیب لمحوں کے جو اِس جھیل کنارے بسر ہوئے۔

واپسی پر اُسی راستے پر برفانی چیتے کا ایک کنزرویشن سینٹر دیکھنے کا بھی اتفاق ہوا۔ یہاں اِس سینٹر میں صرف ایک چیتا موجود تھا، یہ دنیا کے نایاب جانوروں میں سے ایک ہے۔ اِس سینٹر کے رکھوالے کے بقول اُس نے اِس علاقے میں 9 کے قریب ایسے چیتے دیکھ رکھے ہیں، لیکن اِن چیتوں کو پکڑنا بہت مشکل کام ہے۔ پاکستان کی نایاب ڈولفن ہو یا سنو لیپرڈ، ہمیں اپنے ملک کی ایسی اقسام کو محفوظ کرنے کے لئے ابھی بہت کام کی ضرورت ہے۔ اِس کنزرویشن سینٹر کا قیام ہی درست راستے پر ہمارے قدموں کی نشاندہی کرتا ہے۔

نلتر جھیل— فوٹو رمضان رفیق
نلتر جھیل— فوٹو رمضان رفیق

برفانی تیندوا— فوٹو رمضان رفیق
برفانی تیندوا— فوٹو رمضان رفیق

واپسی کے راستے میں نلتر بالا کے پاس ہماری گاڑی کا ایک ٹائر اپنی ہوا قائم نہ رکھ سکا۔ اب جب تک عباس بھائی ٹائر بدلتے ہم نے گاوں میں پیدل چلتے ہوئے پہلے والے ریسٹورنٹ تک جانے کا فیصلہ کیا، گاوں کی یہ شام مجھے بچپن کی اُن شاموں میں لے گئی جہاں اسکول کے بعد کھیلنے کے لئے فرصت ہی فرصت ہوا کرتی تھی۔ بچے اور بچیاں اپنے گھروں سے باہر کھیل کود میں مصروف تھے، کہیں کہیں دھواں شام کے کھانے کی تیاری کا پتہ دے رہے ہوتے تھے۔ ایسے سادہ لوگوں کی ایسی خوبصورت شام دل میں اترتی جا رہی تھی۔ ہماری مصروف زندگیوں کی دوڑتی بھاگتی شامیں اب فراغت سے نا آشنا ہیں، صرف میڈیا کے رنگ زندگی سے نکال کر دیکھئے دوستوں سے ملنے کا ڈھیروں وقت ہماری جیب میں پڑا ہے۔

اب بھی نلتر جھیل کی یہ تصاویر کسی خواب کے سفر کی کہانی لگتی ہیں، آپ بھی کبھی اِس خواب کے سفر کے نکلیے اور اِس گوہر رنگ دار سے اپنی آنکھوں کو خیرہ کیجئے۔


رمضان رفیق کوپن ہیگن میں رہتے ہیں، اور ایگری ہنٹ نامی ویب سائٹ چلاتے ہیں۔

انہیں فیس بک پر یہاں فالو کریں


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

رمضان رفیق

رمضان رفیق دنیا گھومنے کے خواہشمند ہیں اور اسی آرزو کی تکمیل کے لیے آج کل مالمو، سویڈن میں رہائش پذیر ہیں۔

انہیں فیس بُک پر فالو کریں: ramzanblog.انہیں یوٹیوب پر سبسکرائب کریں Aazadtv.

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (13) بند ہیں

Irfan niaz Jan 02, 2018 02:14pm
Excellent What a nice pictures. Ramzan sahib you are doing a great job. You can promote tourism in Pakistan
Arif Kisana Jan 02, 2018 02:49pm
جناب رمضان رفیق صاحب کے ٹریول بلاگ اپنی مثال آپ ہیں۔ الفاظ سے خوبصورت منظر کشی اور ساتھ دلفریب تصاویر تو پھر کوئی کیوں نہ سحر میں مبتلا ہو۔ ان کے دیگر قارئین کی طرح مجھے بھی ان کے بلاگ کا انتظار رہتا ہے اور جونہی نیا بلاگ آتا ہے پہلی فرست میں ہی پڑھنے کا عزم ہوتا ہے۔ اس بلاگ میں اس خوبصورت جھیل اور سرزمین کی انہوں نے سیر کرائی ہے جس سے ہم آگاہ نہیں۔ اگر بلاگ میں علاقائی اہم تہوار اور کھانوں کا ذکر ہوتا رہے تو اور بھی بہتر ہو گا۔
TRUMP Et Jan 02, 2018 03:19pm
Amazing.
چودھری محمد اسفندیار جاوید Jan 02, 2018 04:31pm
نہایت عمده کام، یوں ہی پاکستان کا پازیٹو امیج لوگوں کو دیکھا تے ریہن
dead man walking Jan 02, 2018 04:52pm
Heaven on Earth... Mind Blowing...
Ziaul Islam Jan 02, 2018 05:27pm
Excellent but short, need to more detail, overall fantastic.
Saad Mallik Jan 02, 2018 06:46pm
Very nice pictures and write-up. I was there two years ago in Oct. But only went up to the lower Naltar Valley where the Air Force camp and the skiing resort are located. Part of the road near the river crossing was so dangerous, even for 4-wheel drives, that I abandoned the idea of going further to the upper lake which is the main attraction. I was told that the torrential rains in the summer had washed away the roads. Perhaps it has been repaired by now. But what an adventure it was!
Naeem Jan 02, 2018 08:32pm
It's great work Mr. Ramazan Rafiq. I really appreciate your efforts and please keep it up good work.
فیاض احمد صدیقی Jan 02, 2018 08:41pm
شاندار منظر کشی کی ہے رمضان صاحب نے ۔۔ دل چاہ رہا ہے اس بار آفس سے چھٹی لے کر اس جگہ کا رخ کیا جائے۔ انہیں اس بات کی بھی تفصیل بیان کرنی چاہیے تھی کہ کون سا مہینہ یہاں جانے کے لیے بہتر ہوگا اور سفری اخراجات کیا ہوں گے۔
Humayun Khan Jan 02, 2018 09:04pm
Such a wonderful road way of journey towards lake and the lake is no doubt looking beautiful we will insha Allah visit there soon. Thanks for sharing
manzoor hussain sahi Jan 02, 2018 09:48pm
Mashallah, really nice and tremendous pictures :) love it..
Khalid H Khan Jan 02, 2018 10:50pm
Bohat Khubsoorat.
محمد رمضان رفیق Jan 04, 2018 11:56pm
محترم عرفان نیاز، اسفند یار ، ضیاء السلام ، نعیم ، فیاض احمد صدیقی، ہمایوں خان، منظور حسین ساہی، خالد خان، آپ کے تبصروں سے ہی سفر کرنے کا حوصلہ ملتا ہے، عارف کسانہ آپ جیسے سنئیرز لکھنے کے لئے روشنی اور روشنائی مہیا کرتے ہیں، سعد ملک پھر سے جائیے اور دیکھ کر آئیے۔ دیگر احباب کے تبصروں اور تعریف کا بھی بہت شکریہ، مجھے بلاگ چھاپنے کے بعد انہی تبصروں کا انتظار رہتا ہے۔ شکریہ ڈان ٹیم جو بلاگ کی نوک پلک سنوارتی ہے اور تصویروں میں رنگ بھرتی ہے۔