• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
رواں برس ایسا سیارہ بھی دریافت ہوا، جو ہماری زمین سے تین گنا بڑا ہے—فائل فوٹو

2017 کی وہ دریافتیں جو تاریخ بدل دیں گی

ہرسال سائنسدانوں کوکئی کامیابیاں حاصل ہوتی ہیں،ہرسال نئی ایجاد بھی سامنے آتی ہیں،رواں برس بھی10 نئی دریافتیں ہوئی ہیں۔
شائع December 29, 2017 اپ ڈیٹ December 30, 2017

سال 2017 بیسویں صدی اور 21 وین صدی کے آغاز میں ہونے والی دریافتوں کے لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل رہا، سال کے آغاز میں دور کائنات میں کہیں سے 2 اجسام کے تصادم کی خبر لیے ثقلی موجیں، آئی تو سال کے اختتام پر زمینی آسمان میں ایک سیارچہ رونما ہوا، جو خلائی مخلوق کی جانب سے بھیجی ہوئی خلائی گاڑی بھی ہو سکتی ہے، تو آئیے! 2017 میں ہونے والی 10 بہترین دریافتوں کے بارے میں جانتے ہیں۔

ثقلی لہروں کے ذریعے سونے کی دریافت

—فائل فوٹو
—فائل فوٹو

ویسے تو یہ ثقلی موجیں 2015 کے وسط سے سائنسدانوں کو موصول ہورہی ہیں، لیکن 2017 میں حاصل ہونے والی یہ موجیں کچھ خاص اہمیت کی حامل ہیں، فلکیاتی اصطلاح میں ثقلی موجیں کائنات میں بڑے اجسام کے تصادم کے نتیجے میں زمان و مکاں کی چادر میں پیدا ہونے والی لہروں کو کہا جاتا ہے، یہ لہریں اربوں نوری سالوں کا سفر طے کر کے زمین تک پہنچتی ہیں۔

سال کے آغاز میں یہی ثقلی موجیں زمین پر محسوس کی گئیں، لیکن ایک صدی پہلے مشہور زمانہ سائنسدان آئن اسٹائن نے اپنے ریاضی کے حسابات کے ذریعے یہ بتایا تھا کہ ثقلی موجیں زمان و مکاں کی چادر پر روشنی کی رفتار سے سفر کرتی ہیں، تو سائنسدان اس بات کے صحیح یا غلط ہونے پر تحقیق میں لگے ہوئے تھے، کہ کیا واقعی یہ پیشگوئی حقیقت ہے یا پھر وہ اعدا وشمار غلط تھے؟ 2017 سے پہلے جب بھی یہ موجیں موصول ہوئیں تو اس جگہ پر آسمان میں کوئی روشنی دکھائی نہ دی جس سے ہم اس بات کا جواب دے سکیں لیکن اکتوبر 2017 میں زمین سے 150 نوری سال دور 2 نیوٹران ستاروں کے تصادم سے پیدا ہونے والی موجیں زمین تک پہنچی اور اس علاقے میں روشنی بھی دیکھی گئی۔

اس مرتبہ روشنی اور ثقلی موجوں کے موصول ہونے کا وقت دیکھا گیا، تو آئن اسٹائن کی بات حقیقی نکلی، یہ بات ثابت ہوگئی کہ ثقلی موجیں زمان و مکاں کی چادر میں روشنی کی رفتار سے سفر کرتی ہیں، یہ دیکھا گیا کہ ان 2 ستاروں کے تصادم کے نتیجے میں کثیر تعداد میں سونا اور تامبے جیسی قیمتی دھاتیں بنیں اور اب سائنسدان یہ جان چکے ہیں کہ کائنات میں یہ تصادم ہی قیمتی دھاتیں بنانے والے مقامات ہیں۔

پیدائشی بیماریوں کے خاتمہ ممکن

—فائل فوٹو
—فائل فوٹو

آج بھی دنیا میں بہت سے ایسے لوگ موجود ہیں جو پیدائشی بیماریوں کا شکار ہیں، اور اذیت کی زندگی بسر کر رہے ہیں، مثلاً ایک بچہ جسے پیدائشی "تھلیسیمیا" کی بیماری لاحق ہو تو اس معصوم کو ہر ماہ خون لگے گا، اور ساتھ ہی ساتھ اس کے والدین کے لیے بھی اخراجات اٹھانا آسان کام نہیں، تکلیف دہ بات یہ ہے کہ اس میں والدین چاہ کر بھی کچھ نہیں کر سکتے۔

آج جب سائنس نے ان پیدائشی بیماریوں سے چھٹکارہ پانے کے لیے کوششیں شروع کر رکھی ہیں تو سائنسدانوں نے ایسا مالیکیول تیار کر لیا ہے کہ جس وقت ماں کے پیٹ میں بچہ بننے کا عمل شروع ہوتا ہے، اس وقت وہ مالیکیول بچے کے ڈی این اے پر اثر انداز ہو کر اس میں موجود پیدائشی بیماری کو جڑ سے ختم کر سکتا ہے اور بچہ 9 مہینے نشونما پانے کے بعد صحت مند پیدا ہوگا، سائنسدانوں کا یہ قدم انسانیت کے تحفظ کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگا، لیکن اس پر بہت سے معاشرتی اور مذہبی مسائل درپیش ہیں، اسی وجہ سے ابھی تک اس تجربے کو لیب کی حد تک ہی محدود رکھا گیا ہے۔

آٹھویں براعظم کی دریافت

—فائل فوٹو
—فائل فوٹو

ہم بچپن سے ارضیاتی علوم کی کتب میں پڑھتے آئے ہیں کہ دنیا میں 7 براعظم ہیں، جن میں ایشیاء سب سے بڑا براعظم ہے، لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ 8 واں براعظم بھی دریافت کر لیا گیا ہے؟ جی ہاں، اس کا نام "زیلینڈیا"رکھا گیا ہے اور یہ آسٹریلیا کے مشرق میں واقع ہے۔

ماہر ارضیات نے اس دریافت کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ"یہ دریافت اچانک نہیں ہوئی بلکہ یہ حقیقت رفتہ رفتہ عیاں ہوئی" اس براعظم کا رقبہ 50 لاکھ مربع کلومیٹر ہے، لیکن اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ براعظم سائنسدانوں کی نظر میں پہلے کیوں نہیں آیا؟تو اس کا جواب یہ ہے کہ زیلینڈیا پہلے اس لیے نظر نہیں آیا، کیونکہ اس براعظم کا 93 فیصد حصہ پانی میں چھپا ہوا ہے، اور صرف 7 فیصد ہی پانی سے باہر ہے جو قدر کم ہے، زیلینڈیا کو دنیا کا سب سے چھوٹا براعظم بھی کہا جا رہا ہے، تاہم دنیا بھر میں اسے دلی طور پر قبول کیا جانا ابھی باقی ہے۔

نزلہ زکام سے حفاظت ممکن

—فائل فوٹو
—فائل فوٹو

جیسا کہ آج کل سردیوں کا موسم ہے اور ہر کوئی اس سے لطف اٹھانے کی خواہش رکھتا ہے، لیکن بعض لوگوں کی ناک بہہ رہی ہوگی، تو کچھ بھاپ لے کر زکام سے نپٹنے کی کوششوں میں لگے ہوں گے، لیکن ان سب افراد کے لیے خوشخبری یہ ہے کہ سائنسدانوں نے ایسا مالیکیول دریافت کیا ہے، جو نزلے کے وائرس کو مار دیتا ہے، یہ مالیکیول مینڈک کی جلد پر پیدا ہونے والی بلغم میں پایا جاتا ہے۔

یہ مالیکیول اس لیے فائدہ مند ہے کیونکہ ہر سال تقریبا 5 لاکھ لوگ نزلے جیسے وبائی مرض کے پھیلنے سے مر جاتے ہیں، تو مینڈک کی بلغم کو ناک میں ڈالنے سے نزلے سے محفوظ رہا جا سکتا ہے،اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ ابھی کسی بھی مینڈک کو جا کر چوم لیں کہ اس سے آپ کا زکام ٹھیک ہو جائے گا، بلکہ سائنسدان اس پر تجربات کر رہے ہیں کہ یہ مالیکیول کسی بھی طرح سے نقصان دہ تو نہیں، اور اسے کیسے عام ادویات میں استعمال میں لاکر اس سے فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔

بڑھاپے سے نجات

—فائل فوٹو
—فائل فوٹو

آج کی دنیا میں نظر گھومائی جائے تو خواتین کے ساتھ ساتھ مرد بھی یہی خواہش دل میں رکھے ہوئے ہیں کہ "بڑھاپا نہ آئے اور ہم ہمیشہ جوان رہیں"، تو ایسے افراد کی یہ بات شاید کسی سائنسدان نے سن لی اور چوہوں پر یہ تجربہ کر کے کامیابی اپنے نام کر لی، لیب میں بوڑھے چوہوں کو لیا گیا اور ان کے کھانے میں این اے ڈی نامی ایک مالیکیول (جو ڈی این اے کا بنیادی مالیکیول ہے) ڈال دیا، تو نتائج دیکھ کر سائنسدان حیران رہ گئے کہ 2 دن میں ہی ان بوڑھے چوہوں کی جوانی واپس آنے لگی، یہ تجربہ انتہائی متاثر کن تھا، اور سائنسدانوں کا خیال ہے کہ یہی تجربہ اب انسانوں پر بھی آزما کر دیکھا جائے گا،اگر یہ تجربہ انسانوں پر کامیاب ہو گیا تو پھر دنیا کے کروڑوں افراد ہمیشہ شباب میں رہیں گے۔

دنیا میں خلائی مخلوق کی سواری کا انکشاف

—فائل فوٹو
—فائل فوٹو

زمین کے گرد بہت سے پتھریلے مادے موجود ہیں، جو کبھی زمین کی فضا میں داخل ہو جاتے ہیں، اور ہمیں فضا میں جلتے دکھائی دیتے ہیں، لیکن نومبر 2017 میں زمینی آسمان میں ایسی چیز نمودار ہوئی جو سائنسدانوں کے مطابق ہمارے نظام شمسی کا حصہ نہیں تھی، بلکہ کسی اور سیارے سے آئی تھی، یہ نظام شمسی میں پائے جانے والے سبھی سیارچوں سے جسامت میں مختلف تھی اور یہ ایک لمبوترے پتھر جیسے تھی، اس کا نام "اُو مُعَہ مُعَہ"رکھا گیا، اور یہ پتھر اپنے ساتھ تجسس بھرے سوالات لے کر آیا، اس طرح کا پتھر سائنسدانوں نے پہلی بار دیکھا اور اس کے بارے میں تحقیق جاری ہے۔ یہ پتھر زمین کے پاس سے ہوتا ہوا اب ہمارے نظام شمسی سے باہر جارہا ہے اور ویگا نامی ستارے کی جانب بڑھ رہا ہے، اس سے متعلق خیال کیا جا رہا ہے کہ یہ ممکنہ طور پر کوئی خلائی مخلوق کی سواری ہوگی، تاہم اس سے متعلق حتمی طور پر کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔

چھپکلی کا خون فائدہ مند

—فائل فوٹو
—فائل فوٹو

حال ہی میں سائنسدانوں نے روئے زمین پر موجود سب سے بڑی چھپکلی، کوموڈو ڈریگن، کے خون میں ایسی پروٹین دریافت کی ہیں جو انسانوں میں بہت سے جراثیموں سے پیدا ہونے والی بیماریوں کو ختم کرتی ہے، اس دریافت کو پڑھنے کے بعد اگر تو آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ یہ چھپکلی آپ کو کاٹ بھی لے تب بھی آپ بچ سکتے ہیں، تو آپ غلط سوچ رہے ہیں، اس چھپکلی کے منہ میں بہت سے جان لیوا جراثیم بھی موجود ہوتے ہیں، جو انسان کو یا کسی اور شکار کو ہلاک کر سکتے ہیں۔

سائنسدانوں کا خیال ہے کہ یہ فائدہ مند پروٹین مستقبل میں ادویات میں استعمال کی جاسکتی ہے، تاہم اس پر ابھی تحقیق جاری ہے، اور اس حوالے سے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔

دیو کی دریافت

—فائل فوٹو
—فائل فوٹو

کائنات شروع سے ہی انسان کو متجسس کرتی آئی ہے، اور ہر نئی دریافت پر انسان اس کے دوسرے رازوں سے پردہ اٹھانے میں لگ جاتا ہے، اکتوبر 2017 میں سائنسدانوں نے ایک ایسا سیارہ دریافت کیا، جو اپنے ستارے سے آدھے حجم کا تھا، اس دریافت سے پہلے سائنسدانوں کا یہی خیال تھا کہ سیارے کا حجم ہمیشہ اپنے سیارے سے 10 فیصد یا اس سے کم ہی ہوتا ہے لیکن این جی ٹی ایس ون بی نامی یہ سیارہ اس قدر بڑا تھا کہ سائنسدانوں کا دعویٰ تھا کہ انہوں نے اس سے قبل ایسا سیارہ نہیں دیکھا، اس دریافت سے سائنسدانوں میں تجسس کی لہر دوڑ گئی،اور اب وہ کائنات میں اسی طرح کے دوسرے سیارے ڈھونڈھنے میں لگ گئے ہیں۔

زمین سے تین گنا بڑا بھنور دریافت

—فائل فوٹو
—فائل فوٹو

مشتری کی جانب بھیجی گئی خلائی گاڑی "جُونُو" آج سیارے کے گرد چکر لگا رہی ہے، 2016 میں سیارے کے گرد مدار میں پہنچنے کے بعد اس نے زمین کی جانب مختلف تصاویر بھیجنا شروع کردیں، اور سائنسدانوں نے سیارے کو اور قریب سے دیکھا، سیارہ مشتری پر آندھیاں چلتی رہتی ہیں اور ان میں المشہور "سرخ بھنور"بھی شامل ہے۔

تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ یہ بھور تقریبا 350 سالوں سے مشتری کی سطح پر چل رہا ہے، جونو نے اس کا سائز دیکھا تو یہ سائز ہماری زمین کے قطر سے 3 گنا زیادہ تھا، یعنی اس میں 3 زمینیں آرام سے سما سکتی ہیں، یہ ایک حیرت انگیز دریافت تھی۔

واضع رہے کہ یہ وہی بھنور ہے جو 1600 میں سائنسدان گلیلیو نے خود کی بنائی دوربین سے دیکھا تھا۔

مصنوعی بچہ دانی کی ایجاد

—فائل فوٹو
—فائل فوٹو

اس کو دریافت تو نہیں ایجاد کہا جاسکتا ہے، لیکن پھر بھی اسے دریافتوں کی فہرست میں شامل کیا جا رہا ہے، آسٹریلوی سائنسدانوں نے مصنوعی بچہ دانی تیار کر لی ہے، اس بچہ دانی کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ اسی طرح ہی کام کرتی ہے، جیسے قدرتی بچہ دانی کام کرتی ہے، اس میں بچے کی نشوونما کے لیے ایک ٹیوب کے ذریعے بچے کو ہوا اور خوراک دی جاتی ہے، اور اس کے گرد لیب میں تیار کردہ وہی مائع ڈالا جاتا ہے، جو ماں کی بچہ دانی میں بچے کو میسر ہوتا ہے۔

سائنسدانوں کا خیال ہے کہ مستقبل میں یہ مصنوعی بچہ دانی وقت سے پہلے پیدا ہونے والے بچوں کو مکمل خوراک دے گی، کیونکہ آج کے دور میں بھی ایسے بچوں کو زندہ رکھنا مشکل ہے اور بہت سوں کی وفات بھی ہو جاتی ہے۔



سید منیب علی پنجاب کالج لاہور کے طالب علم، "لاہور آسٹرونومیکل سوسائٹی (LAST)" اور "دی پلانیٹری سوسائٹی (TPS) کے رکن اور علم فلکیات کے شوقین ہیں۔

سید منیب علی 2013 سے آسمان کا مشاہدہ کر رہے ہیں، علم فلکیات کے موضوعات پر لکھنا ان کا من پسند مشغلہ ہے۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔