• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
شائع December 29, 2017 اپ ڈیٹ December 30, 2017

2017: ٹرمپ کی ناکامیوں اور یورپی انتہاپسندوں کی کامیابیوں کا سال

ڈاکٹر آصف شاہد

یورپ میں 2017 کو انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کا سال کہا جاسکتا ہے۔ آسٹریا وہ پہلا یورپی ملک ہے جس نے انتہائی دائیں بازو کی جماعت کو حکمرانی سونپی۔ فرانس سے پولینڈ تک یورپ کے کئی ملکوں میں تارکینِ وطن اور اسلام کے معاملے پر انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کو پذیرائی ملی۔

یوں یہ کہنا بجا ہوگا کہ یورپی سیاست 2016 کی نسبت کچھ خاص نہیں بدلی۔ 2016 میں بھی کئی ایسے واقعات ہوئے جنہوں نے یورپی سیاست کو ہلاکر رکھ دیا جیسے کہ بریگزٹ، مہاجرین کی آبادکاری کے مسائل، فرانس کے قومی دن پر نیس میں دہشتگرد حملہ وغیرہ، تاہم 2017 کی اہم بات یہ ہے کہ انتہائی دائیں بازو کی مقبولیت بڑھنے کے باوجود اعتدال پسندوں نے اکثر ملکوں میں انہیں اقتدار میں آنے سے روک دیا۔

دوسری جانب امریکا میں 2017 صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا اقتدار میں پہلا سال تھا اور انہوں نے اقتدار سنبھالتے ہی کئی تنازعات کھڑے کیے۔ امریکی سیاست کو ٹرمپ کے اقتدار کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہ تنازعات کا سال ہی کہلائے گا، جس میں امریکی صدارتی الیکشن میں روس کی مبینہ مداخلت، اس کی تفتیش میں صدر ٹرمپ کی الیکشن مہم کے دو اہم افراد پر فرد جرم کا عائد کیا جانا، ان کے سابق نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر مائیکل فلن کا ایف بی آئی کے سامنے بولا گیا جھوٹ پکڑا جانا، میکسیکو بارڈر پر دیوار کی تعمیر پر مزاحمت، اوباما کیئر کے خاتمے میں ناکامی، گورسچ کا سپریم کورٹ کا جج بننا اور سب سے بڑھ کر ٹرمپ کا بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنا شامل ہیں۔

مزید پڑھیے: بحرانوں میں ڈوبتے اور اُبھرتے مشرق وسطیٰ کا سال 2017ء

2016 میں ٹرمپ کی صدارتی الیکشن میں کامیابی اور بریگزٹ نے 2017 کو انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کا سال بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ انتہائی بائیں بازو کی مقبولیت اور چند کامیابیوں کو یورپ کے اعتدال پسند طبقے فکرمندی کے ساتھ دیکھتے تو ہیں لیکن انہیں یہ بھی یقین ہے کہ اچانک ابھر کر سامنے آنے اور چند کامیابیاں سمیٹنے کے باوجود یہ جماعتیں اسی طرح اچانک گم بھی ہو جائیں گی۔ اسے خوش گمانی ہی کہا جائے تو بہتر ہوگا۔

یورپی اعتدال پسندوں کی امیدوں کو خوش گمانی اس لیے قرار دیا جا سکتا ہے کہ 2018 ایک بار پھر کئی یورپی ملکوں میں الیکشن کا سال ہے جبکہ امریکا میں بھی وسط مدتی الیکشن ہونے ہیں۔ 2018 کے الیکشن ٹرمپ کی 2016 کی کامیابی اور بریگزٹ کے اثرات سے خالی ہرگز نہیں ہوں گے۔

ڈونلڈ ٹرمپ جب سے صدر بنے ہیں، امریکا اور امریکا سے منسلک ہر عالمی معاملہ تنازعات کا شکار رہا ہے۔ — اے ایف پی۔
ڈونلڈ ٹرمپ جب سے صدر بنے ہیں، امریکا اور امریکا سے منسلک ہر عالمی معاملہ تنازعات کا شکار رہا ہے۔ — اے ایف پی۔

2017 کا آغاز ہی جرمنی میں انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کے کنونشن سے ہوا۔ جرمنی میں 21 جنوری کو یورپ آف نیشنز اینڈ فریڈم گروپ کی طرف سے بلائے گئے اس کنونشن میں فرانس کے نیشنل فرنٹ کی مارین لی پین اور ہالینڈ کے گیرٹ ولڈرز سمیت کئی سرکردہ رہنماؤں نے شرکت کی۔

اس کنونشن میں مقررین نے ٹرمپ کی انتخابی کامیابی اور بریگزٹ کو دائیں بازو کی بڑی کامیابی قرار دیا۔ ان دو اہم واقعات کو بڑی کامیابی قرار دینے کی وجہ ٹرمپ کا مسلمانوں کے خلاف سخت مؤقف تھا جبکہ بریگزٹ کو سخت بارڈر کنٹرول کے موقف کی تائید کے طور پر دیکھا جانا ہے۔ اس کنونشن کے موقع پر تین ہزار افراد نے اس کے خلاف احتجاج بھی کیا۔

مزید پڑھیے: ٹرمپ کی کامیابی کا ایک سال، امریکا میں دہشت گردی کے واقعات

مارچ میں ہنگری میں صدر ایدر یانوس دوبارہ منتخب ہوئے، ان کی جماعت کو بھی انتہائی دائیں بازو کی جماعت گردانا جاتا ہے۔ جبکہ مارچ ہی میں ہالینڈ میں مسلم دشمنی کے لیے بدنام گیرٹ ولڈرز کی جماعت پی وی وی دوسری بڑی جماعت بن کر ابھری اور کل ووٹوں کا 13 فیصد اس کے حصے میں آیا اور اس کی پارلیمنٹ میں بھی پانچ نشستیں بڑھ گئیں۔

انتہائی دائیں بازو کو ایک اور بڑی کامیابی فرانس میں ملی جہاں مارین لی پین کے ووٹوں میں ایک کروڑ کا اضافہ ہوا اور صدارتی الیکشن دوسرے مرحلے تک پہنچا، تاہم عمانویل ماکروں صدارتی الیکشن جیت گئے اور مارین لی پین کا راستہ روک دیا، لیکن مارین لی پین ہار کر بھی فرانس میں انتہائی دائیں بازو کی مقبولیت ثابت کر گئیں۔

ستمبر میں جرمنی کے عام انتخابات میں آلٹرنیٹو فار جرمنی (اے ایف ڈی) تیسری بڑی جماعت بن کر ابھری۔ اس جماعت نے ملک میں تمام مساجد کی تالہ بندی اور حجاب اوڑھنے کو جرم قرار دینے کا نعرہ لگایا تھا۔ جرمن چانسلر اینجلا مرکل کی وسطی دائیں بازو کی جماعت کرسچین ڈیموکریٹک یونین پارٹی نے 33 فیصد ووٹ حاصل کیے جو 2013 کے الیکشن کی نسبت 9 فیصد کم تھے۔

اس الیکشن کے بعد اب تک اینجلا مرکل اب تک حکومت بنانے کے لیے مذاکرات کر رہی ہیں۔ اگر اینجلا مرکل کو صرف تین سے چار فیصد ووٹ مزید مل جاتے تو وہ نہ صرف اب تک حکومت بنا چکی ہوتیں بلکہ انتہائی دائیں بازو کی جماعت کی مقبولیت اور کامیابی کا تاثر بھی کم ہوتا۔

پندرہ اکتوبر کو ہونے والے الیکشن میں آسٹریا کی انتہائی دائیں بازو کی جماعت فریڈم پارٹی تیسری بڑی جماعت بن کر ابھری اور سیبیسٹیئن کرز کی آسٹرین پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت میں حصہ پالیا۔ دونوں جماعتوں نے تارکین وطن کے لیے سخت قوانین اور مہاجرین کی ملک بدری کا سلوگن اپنایا تھا۔

اکتوبر میں ہی جمہوریہ چیک میں اسلام مخالف فریڈم اینڈ ڈائریکٹ پارٹی گیارہ فیصد کے قریب ووٹ لے کر پہلی بار پارلیمانی پارٹی بن گئی۔ اس جماعت کا فرانس کی مارین لی پین کی جماعت کے ساتھ بھی تعلق ہے۔ دسمبر میں جمہوریہ چیک کی اس جماعت نے پراگ میں یورپ کے انتہائی دائیں بازو کے سیاست دانوں کا اجلاس بلایا اور یورپی یونین کے خاتمہ کا مطالبہ کیا۔

ایک تارکِ وطن جرمن چانسلر اینجلا مرکل کے ساتھ سیلفی لے رہا ہے.
ایک تارکِ وطن جرمن چانسلر اینجلا مرکل کے ساتھ سیلفی لے رہا ہے.

نومبر میں پولینڈ میں فاشسٹوں اور انتہائی دائیں بازو کے کارکنوں نے آزادی مارچ کیا جس میں کم از کم 60 ہزار افراد شریک ہوئے، اس مارچ میں اسلام اور یورپی یونین کے خلاف نعرے لگے اور شرکاء نے صرف کیتھولک عیسائیت کو قومی مذہب قرار دیا۔

یورپ میں انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کی کامیابیوں کی وجہ عوام میں بڑھتی بے چینی، اقتصادی بے چینی، وطن پرستی کے جذبات اور غیرملکیوں یعنی تارکین وطن سے نفرت ہے۔ یورپ میں انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کی مقبولیت میں جرمن چانسلر اینجلا مرکل کو قصوروار ٹھہرایا جا رہا ہے جنہوں نے تارکین وطن کو قبول کرنے کا اعلان کیا۔

مزید پڑھیے: بریگزٹ: 'برطانوی حکومت پارلیمنٹ سے منظوری لے'

اینجلا مرکل نے تارکین وطن کی قبولیت کا اعلان شامی یا کسی اور ملک کے مہاجرین کی محبت میں نہیں کیا بلکہ یہ ان کی مجبوری تھی۔ جرمنی میں شرح پیدائش تیزی سے کم ہو رہی ہے اور جرمنی میں کام کرنے والوں کی مانگ زیادہ ہے، اس لیے اینجلا مرکل نے تارکین کے لیے دروازے کھولے۔ وقتی طور پر اس کا نقصان بھی مرکل اٹھا رہی ہیں لیکن مبصرین کا کہنا ہے کہ جرمنی کو طویل مدتی فائدہ ہوگا اور اس کی ورک فورس کی طلب پوری ہونے سے معاشی فوائد ہوں گے۔ آسٹریا میں انتہائی بائیں بازو کی حکومت بھی مرکل کے اقدامات کے ردعمل میں بنی۔

مشرقی اور مغربی یورپ کے درمیان معاشی تفاوت بھی اختلافات کا باعث بن ہا ہے۔ پولینڈ، ہنگری، جمہوریہ چیک اور کروشیا نے یورپی یونین کی پالیسی کی کھلی مخالفت کرتے ہوئے مہاجرین کے لیے دروازے بند کیے۔ مسلم تارکین وطن کا خوف بھی یورپ میں وطن پرستی اور دائیں بازو کی سخت گیر جماعتوں کو بڑھاوا دے رہا ہے۔ روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن کی توسیع پسندی کے عزائم بھی یورپ کو خوفزدہ کیے ہوئے ہیں۔

وطن پرستی اور انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کی مقبولیت کے باوجود یورپ کے لیے 2017 معاشی اعتبار سے بہترین سال قرار دیا جا رہا ہے۔ آئی ایم ایف کے مطابق یورپ کی معاشی بحالی نے باقی دنیا کو پیچھے چھوڑ دیا اور یورپ عالمی تجارت کا انجن بن گیا۔ یورپی کمیشن کے مطابق یورو زون کی شرحِ ترقی دو اعشاریہ دو فیصد رہی جو دس برسوں میں بلند ترین ہے۔ یورو کرنسی بھی ڈالر کے مقابلے میں تیرہ فیصد مضبوط ہوئی اور جی ٹین ممالک میں سب سے بہترین کرنسی رہی۔

28 جون 2016 کو لندن میں بریگزٹ کے خلاف مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ — اے ایف پی۔
28 جون 2016 کو لندن میں بریگزٹ کے خلاف مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ — اے ایف پی۔

دوسری طرف امریکا میں صدر ٹرمپ کے اقتدار کا پہلا دن ہی ٹرمپ انتظامیہ کے لیے ایک جھٹکا تھا، ٹرمپ کی تقریب حلف برداری میں عوام کی شرکت اوباما کی حلف برداری تقریب سے کہیں کم رہی۔ ٹرمپ کی تقریب حلف برداری کی رپورٹنگ اور تصاویر پر ٹرمپ انتظامیہ نے پریس کو آڑے ہاتھوں لیا اور کہا گیا کہ ٹرمپ کی مخالفت میں غلط رپورٹنگ کی گئی۔ میڈیا سے شروع ہونے والی یہ جنگ اب بھی جاری ہے اور ٹرمپ گاہے بگاہے میڈیا ہاؤسز کو تنقید کا نشانہ بناتے رہتے ہیں۔

تقریب حلف برداری میں عوام کی کم دلچسپی اور میڈیا سے جنگ پہلا جھٹکا تھا ، لیکن آخری نہیں، ٹرمپ کے اقتدار کے پہلے سال کو احتجاج کا سال بھی کہا جا رہا ہے۔ ٹرمپ کے حلف اٹھانے کے دوسرے دن ہی ہزاروں خواتین نے ٹرمپ مخالف احتجاج کیا۔ اقتدار سنبھالنے کے ایک ہفتے بعد ٹرمپ نے ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے جس کے تحت سات مسلم ملکوں کے شہریوں کے امریکا داخلے پر پابندی لگائی گئی۔ اس ایگزیکٹو آرڈر کے خلاف امریکا بھر میں مظاہرے ہوئے۔

ورجینیا میں سیاہ فاموں اور سفید فام شہریوں نے ایک دوسرے کے خلاف احتجاج کیا تو ٹرمپ نے ایک بار پھر توپوں کا رخ اپنی طرف موڑ لیا، ٹرمپ سے کہا گیا کہ سفید فام شہریوں کے مظاہروں پر ردعمل دیں تو انہوں نے کہا کہ دونوں طرف برے لوگ موجود ہیں۔ ٹرمپ کے اس بیان پر عوام کا ردعمل تو آنا ہی تھا اس کے ساتھ ٹرمپ کی بزنس کونسل سے بھی بڑے بڑے سرمایہ کار استعفیٰ دے گئے۔

تصاویر دیکھیے: مسلمانو خوش آمدید!

ٹرمپ کے پہلے سال کا اہم مسئلہ ان کی الیکشن مہم میں روس کی مبینہ مدد اور امریکا کے انتخابی نتائج پر اثر انداز ہونے کی کوشش کا الزام ہے۔ ٹرمپ نے اس الزام کی تفتیش کرنے والے ایف بی آئی کے سربراہ جیمز کومے کو برطرف کرکے بڑا سیاسی طوفان کھڑا کیا۔

ٹرمپ کے اس اقدام کے فوری بعد محکمہ انصاف نے اس الزام کی تحقیقات کے لیے ایف بی آئی کے سابق سربراہ رابرٹ ملر کو سپیشل کونسل مقرر کر دیا۔ رابرٹ ملر نے اکتوبر میں ٹرمپ کی الیکشن مہم سے وابستہ رہنے والے پاؤل منافرٹ اور سابق کاروباری دوست رک گیٹس پر منی لانڈرنگ اور غیرملکی حکومتوں کے لیے غیر قانونی لابنگ کی فرد جرم عائد کی۔

ایک ماہ بعد ٹرمپ کے ساتھ مختصر عرصہ کے لیے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر کے طور پر کام کرنے والے مائیکل فلن پر روسی سفیر کے ساتھ رابطوں کے حوالے سے ایف بی آئی کے سامنے جھوٹ بولنے کا الزام ثابت ہو گیا۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے خلاف امریکا بھر میں مظاہرے ہوئے. - اے ایف پی.
ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے خلاف امریکا بھر میں مظاہرے ہوئے. - اے ایف پی.

ٹرمپ شمالی کوریا کے صدر کم جونگ ان کے ساتھ زبانی جنگ میں بھی مصروف رہے۔ ٹرمپ اور کم جونگ ان نے ایک دوسرے کو دھمکیاں دیں اور ایک دوسرے کے بارے میں غلط الفاظ کا استعمال کیا۔ اندرونی طور پر بھی ٹرمپ اپنی الیکشن مہم کے وعدے پورے کرنے کے سلسلے میں جھگڑوں اور مسائل کا شکار رہے۔

ٹرمپ نے نارتھ امریکن فری ٹریڈ ایگریمنٹ (نافٹا) کو ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن کاروباری حلقوں نے انہیں اس پر نظرثانی کے لیے مجبور کر دیا، ٹرمپ نے اس معاہدے پر سہ فریقی مذاکرات کے لیے ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا لیکن اب تک کینیڈا اور میکسیکو کے ساتھ مذاکرات تعطل کا شکار ہیں۔ اوباما کیئر ختم کرنے کا وعدہ بھی اس سال پورا نہ ہو سکا۔ ٹرمپ کا ٹیکس پلان بھی تاخیر کا شکار ہوا جس پر اب اتفاق ہو پایا ہے لیکن منظوری باقی ہے۔

مزید پڑھیے: بیت المقدس سے متعلق ٹرمپ کے فیصلے پر دنیا بھر میں تنقید

ٹرمپ کا سب سے بڑا قدم بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنا ہے جس پر دنیا بھر کے مسلمانوں نے احتجاج کیا اور اقوام متحدہ میں ٹرمپ کے اقدام کے خلاف قرارداد بھی منظورہوئی۔ اس قرارداد کی منظوری کے موقع پر ٹرمپ کی جانب سے اقوامِ متحدہ میں امریکی سفیر نکی ہیلی نے دھمکی دی کہ اربوں ڈالر امداد لینے والے اس قرارداد کے حق میں ووٹ کیسے دے سکتے ہیں، امریکا ہر ووٹ پر نظر رکھے گا، اس دھمکی کے باوجود نہ صرف قرارداد منظور ہوئی بلکہ قرارداد کے حق میں ووٹ دینے والے ملکوں کا سخت درعمل بھی آیا۔ یہ ٹرمپ کی بڑی سفارتی ناکامی ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ٹرمپ کی پالیسیاں امریکا کو سفارتی تنہائی کی جانب دھکیل رہی ہیں۔

امریکا کو سفارتی تنہائی کی جانب دھکیلنے کا عمل ٹرمپ نےپیرس معاہدے سے نکلنے کا اعلان کرکے شروع کیا، جون میں اعلان ہوا لیکن ابھی تک امریکا کا اس پر دوبارہ واضح مؤقف سامنے نہیں آیا کہ اس معاہدے کی حیثیت اب کیا ہے۔

ٹرمپ جنگی محاذوں پر بھی اب تک ناکام دکھائی دیتے ہیں۔ افغانستان سے فوج نکالنے کے وعدے کرکے اقتدار میں آنے والے ٹرمپ نے نہ صرف فوج بڑھائی بلکہ افغانستان پر اربوں ڈالر جھونکنے کے بعد بھی وہ افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر نہیں لا سکے۔ افغانستان محفوظ ملک بننے کی بجائے داعش کے ابھرنے سے مزید خطرناک بن گیا جہاں روس کے خصوصی ایلچی کے مطابق کم از کم دس ہزار داعش جنگجو موجود ہیں۔

ٹرمپ کے پہلے سال کو کسی بھی طرح ٹرمپ یا امریکا کے لیے کامیابیوں کاسال نہیں کہا جاسکتا اور ٹرمپ کا سب سے بڑا امتحان 2018 کے وسط مدتی الیکشن ہیں۔ وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ کی ٹیم کے اکثر افراد ٹرمپ کے رویئے اور غیریقینی ماحول سے اکتا چکے ہیں کئی ایک کو ٹرمپ فارغ کرنے کو ہیں۔

2018 میں ٹرمپ اگر کچھ کر دکھانا چاہتے ہیں تو انہیں اپنی ٹیم میں چند قابل افراد کو لانا ہوگا اور یہی اصل امتحان ہے کیونکہ ٹرمپ انتظامیہ سے وابستگی بھی واشنگٹن میں بہت بڑا چیلنج ہے، اس چیلنج کو نبھانے کے لیے کم لوگ ہی آمادہ ہوں گے۔


ڈاکٹر آصف شاہد 20 سال سے زائد عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ اردو زبان کے مختلف قومی اخبارات سے وابستہ رہنے کے بعد ان دنوں نجی ٹی وی چینل میں انٹرنیشنل ڈیسک کے سربراہ کی حیثیت سے ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

آصف شاہد

دو دہائیوں سے زائد عرصہ سے صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔ بین الاقوامی تعلقات بالخصوص مشرق وسطیٰ ان کی دلچسپی کے موضوعات ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔