• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:33pm Maghrib 5:10pm
  • ISB: Asr 3:34pm Maghrib 5:12pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:33pm Maghrib 5:10pm
  • ISB: Asr 3:34pm Maghrib 5:12pm
بلاول بھٹو زرداری گڑھی خدا بخش میں اپنی والدہ کے قبر پر نعرے بلند کر رہے ہیں — وائٹ اسٹار
بلاول بھٹو زرداری گڑھی خدا بخش میں اپنی والدہ کے قبر پر نعرے بلند کر رہے ہیں — وائٹ اسٹار
شائع December 27, 2017 اپ ڈیٹ December 30, 2017

زندگی کا بہترین حصہ والدہ کو پدرسری قوتوں کے خلاف لڑتے دیکھنا تھا: بلاول بھٹو

ہیرالڈ میگزین

یہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے لیے تاریخی وقت ہے۔ یہ جمعیت علمائے اسلام اور جماعتِ اسلامی کے بعد پاکستان میں مرکزی دھارے کی تیسری سیاسی جماعت ہے جس نے 50 سال مکمل کیے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ ملک کی واحد سیاسی جماعت ہے جو 5 دہائیوں میں 4 مرتبہ حکومت کرنے کے ساتھ ساتھ متعدد بار حزب اختلاف کا کردار ادا کر چکی ہے۔ اس نے جنرل ضیاء الحق کی بے رحم فوجی حکومت کے عتاب کا بھی سامنا کیا، جس میں اس کی پہلی حکومت کا خاتمہ اور اس کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی تھی۔

پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے 1977ء سے سیاسی مخالفین کے ساتھ ساتھ 2000ء کی دہائی میں جنرل (ر) پرویز مشرف کی حکومت کے میں مقدمات، گرفتاری اور قید، یہاں تک کہ جلا وطنی کا بھی سامنا کیا۔

گزشتہ 10 سال میں اس کے لاتعداد کارکن دہشت گردی کے واقعات میں اپنی جانیں گنوا چکے ہیں، جن میں سب سے بڑا واقعہ بینظیر بھٹو کی شہادت ہے، جو دو مرتبہ وزیرِ اعظم اور کسی بھی مسلم ملک کی پہلی خاتون سربراہِ حکومت بنیں۔ اس دوران کئی دفعہ اس پارٹی کی سیاسی موت کا مژدہ سنایا گیا مگر یہ بات ہر دفعہ غلط ثابت ہوئی۔

گزشتہ چند سال سے پیپلز پارٹی سندھ سے باہر تیزی سے اپنی انتخابی حمایت کھوتی جا رہی ہے۔ کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ سفر ناقابلِ واپسی ہے۔ پارٹی کے نوجوان چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور ان کے والد آصف علی زرداری بالخصوص پنجاب میں اس کی گرتی ہوئی حمایت اور ووٹ کم ہونے پر قابو تو پانا چاہ رہے ہیں مگر انہیں اب تک محدود کامیابی ہی مل سکی ہے۔ اس دوران اس کے خاتمے کی پیشگوئیاں کرنے والے پھر سے متحرک ہوچکے ہیں۔ کیا وہ ایک بار پھر غلط ثابت ہوں گے؟ یہاں ہیرالڈ بلاول بھٹو زرداری سے ایک بے باک گفتگو میں پی پی پی کے ماضی، حال اور مستقبل سے متعلق سوالات کر رہا ہے۔

ہیرالڈ: پیپلز پارٹی کے سابقہ رہنماؤں میں سے آپ کا رول ماڈل کون ہے؟ اسلامی سوشلسٹ ذوالفقار علی بھٹو، سوشل جمہوریت پسند بینظیر بھٹو، یا وسیع تر قومی مفاہمت کے چیمپیئن آصف علی زرداری؟

بلاول: ان تینوں شخصیات نے ہی متاثر کیا ہے مگر قدرتی طور پر میری والدہ (بینظیر بھٹو) نے میری سوچ اور نظریات پر گہرا اثر چھوڑا ہے۔ ان میں سے ہر کسی نے اس سیاست کا مظاہرہ کیا جو اس وقت کی ضرورت تھی۔ میرے نانا (ذوالفقار علی بھٹو) نے جب دیکھا کہ اشرافیہ پاکستان کا گلا گھونٹ رہی ہیں تو وہ انتہائی بائیں بازو کا ایجنڈا لائے اور انہوں نے اشرافیہ کے خلاف وہ اقدامات کیے جو ملک نے پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے۔ انہوں نے کمزور طبقات کو سیاست میں شامل کیا اور میں کمزوروں کی حمایت کے اصول کا سختی سے حامی ہوں۔

میری زندگی کا سب سے بہترین حصہ اپنی والدہ کو مختلف سطحوں پر مطلق العنانیت اور پدرسری قوتوں کے خلاف لڑتے ہوئے دیکھنا تھا، اور یہ مزاحمت میری سوچ کے کئی حصوں میں گہرائی تک سرائیت کر چکی ہے۔ اس بات کا دوسرے ہی فیصلہ کرسکتے ہیں کہ اس نے میری شخصیت کو کس طرح ڈھالا ہے۔

میرے والد نے پاکستان کی قیادت اس وقت سنبھالی جب ملک کو نفرت اور انتقام کی آگ نے لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ مفاہمت کا ان کا تصور میری والدہ کی آخری کتاب اور ان کے خیالات سے لیا گیا تھا جس میں انہوں نے خوف اور نفرت کا مقابلہ ہمت اور سب کو ساتھ لے کر چلنے سے کرنے پر زور دیا تھا۔ ملک نے ایک نئے سماجی معاہدے مثلاً 18ویں ترمیم جیسی بڑی تبدیلیاں لانے کے لیے مفاہمت سے فائدہ اٹھایا اور حقیقت میں ہماری کوئی بھی پالیسی پیپلز پارٹی کی بنیادی اقدار سے منحرف نہیں ہے۔

ہیرالڈ: آپ کے نقاد کہتے ہیں کہ بلاول بھٹو زرداری استحقاقی حیثیت رکھتے ہیں، ان کے پاس کسی بھی چیز کو کامیابی سے چلانے کا کوئی تجربہ نہیں ہے، انہوں نے اپنے موجودہ عہدے کو حاصل کرنے کے لیے کسی بھی قسم کی مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا نہیں کیا ہے، وہ اُن کڑے حالات سے نہیں گزرے جن سے اُن کی والدہ اپنے والد کی قید اور پھانسی کے دوران گزری تھیں۔ آپ کو اپنی پارٹی کی قیادت کرنے کے لیے موزوں ترین شخص کیا چیز بناتی ہے؟

بلاول: لوگوں کے پاس میری عمر اور تجربے کے بارے میں جائز سوالات پوچھنے کا حق ہے۔ میں صرف یہ کہہ سکتا ہوں کہ میری تقدیر اور پیپلز پارٹی کی مرکزی مجلسِ عاملہ (سی ای سی) نے مجھ سے میری جوانی چھیننے کی سازش کی مگر جب میں نے دیکھا کہ میری والدہ کے قتل کے بعد پاکستان صدمے اور بحرانوں کا شکار ہے، تو میں خود اِس بات پر راضی ہوگیا۔

میں سمجھتا ہوں کہ ملک کی 60 فیصد آبادی میری طرح نوجوان ہے، اس لیے مجھے اگر اور کچھ نہیں تو اسٹریٹجک فائدہ ضرور حاصل ہے۔ وقت بلاشبہ میری جانب ہے۔

پی پی پی کے سابق شریک چئیرمین آصف علی زرداری اپنے بیٹے اور پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کے ساتھ اسلام آباد میں — تنویر شہزاد/وائٹ اسٹار
پی پی پی کے سابق شریک چئیرمین آصف علی زرداری اپنے بیٹے اور پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کے ساتھ اسلام آباد میں — تنویر شہزاد/وائٹ اسٹار

ہیرالڈ: آپ کی پارٹی کو اکثر کرپشن اور خراب گورننس کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ جمہوریت کے لیے اس کی حمایت کو خود کو محفوظ رکھنے کی کوشش قرار دیا جاتا ہے، جبکہ اس کے پارلیمانی/آئینی اقدامات (جیسے کہ اٹھارہویں ترمیم) کو عام آدمی کے لیے بے فائدہ تصور کیا جاتا ہے۔ کیا یہ پبلسٹی کی ناکامی ہے یا پھر پالیسی کی؟

بلاول: میں اس بات سے انکار نہیں کروں گا کہ پارٹی اپنے ارتقاء کی کہانی اچھی طرح نہیں سنا سکی ہے، خاص طور پر پنجاب کو پنجاب میں ارتقاء کی کہانی۔ یہ صوبہ مسلم لیگ (نواز) کے کنٹرول میں رہا ہے جنہوں نے میری والدہ کے دور میں پی پی پی کے خلاف سازشیں کرنے اور انتخابات چرانے کے لیے کھلے عام ریاستی دولت کا استعمال کیا۔

تب سے لے کر اب تک انہوں نے سیاست کو ماضی میں لے جانے کے لیے تمام ریاستی وسائل کا استعمال کیا ہے۔ اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی) ہماری ایجاد نہیں تھا، مگر ہاں ہم اس کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہمارے خلاف موجود کھلے گٹھ جوڑ کی کہانی عوام کو بھرپور انداز میں سنا کر فائدہ نہیں اٹھا سکے۔ مہران بینک اسکینڈل اب دھندلا چکا ہے اور ہم نے (ن) لیگ کو اس کی خراب گورننس اور اقتدار پر قابض رہنے کے لیے چھوڑ دیا ہے۔ میں مانتا ہوں کہ اسے تبدیل ہونا چاہیے۔

ہمیں پروپیگنڈا کا توڑ کرنے کے لیے بھی زیادہ کام کرنا چاہیے۔ اپنی رائے کا حق ہر کسی کو حاصل ہے مگر حقائق نظرانداز کرنے کا نہیں، اور حقیقت یہ ہے کہ 1973ء کے آئین کو بحال کرکے ہم نے وفاق کو بچایا۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) ہمارے ملک کا پہلا اور واحد سوشل سیفٹی نیٹ ہے اور ثابت کرتا ہے کہ ہم اپنے نعرے روٹی، کپڑا اور مکان کو ہر سطح پر پہنچا رہے ہیں۔ ہم نے پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کا آغاز گوادر پورٹ چین کو دے کر کیا۔ یہ ایسی تاریخی کامیابی تھی جس کی حمایت اب تمام سیاسی جماعتیں کرتی ہیں۔ ہم نے پُرتشدد انتہاپسندوں کے خلاف فقید المثال کارروائی شروع کی اور جنوبی وزیرستان سے طالبان حکومت کے صفائے کا آغاز کیا۔ اس طرح کی تاریخی کامیابیاں وہ کریڈٹ حاصل نہیں کر پاتیں جو ان کا حق ہوتا ہے۔

ابھی ہمارے سامنے بہت کام باقی ہے، مگر ایجادِ نو راتوں رات نہیں ہوجاتی۔

ہیرالڈ: آپ کی پارٹی پر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ سمجھوتے اور ڈیل کرنے پر باقاعدگی سے تنقید کی جاتی ہے۔ آپ اس تنقید کا جواب کیسے دیتے ہیں؟

بلاول: میرے اقدامات کو میرے الفاظ سے زیادہ بلند آواز ہونا چاہیے۔ یہ بھی یاد رکھیے کہ 21ویں صدی میں پاکستان 1990ء کی دہائی سے کہیں مختلف ہے۔ ملک کو مرہم کی ضرورت ہے اور میرے نزدیک ہمارا سب سے بڑا دشمن ’پُرتشدد انتہاپسندی‘ ہے، جو اس بات کا تقاضہ کرتا ہے کہ ہم پاکستان کی جنگ لڑنے کے لیے ایک دوسرے کا ساتھ دیں، جو نہ صرف ایک عسکری جنگ ہے، بلکہ ایک سیاسی اور نظریاتی جنگ بھی ہے۔ ہم اسٹیبلشمنٹ کے ہوتے ہوئے بھی حکومت میں آجاتے ہیں جبکہ دوسری تمام جماعتوں کو حکومت بنانے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمیں جمہوریت کا مفاد دیکھتے ہوئے کئی کڑوی گولیاں نگلنی پڑی ہیں۔

شہید محترمہ بینظیر بھٹو کو ان لوگوں کے ساتھ بھی کام کرنا پڑا جو ان کے والد کے قاتل کے اتحادی تھے۔ انہوں نے یہ ذاتی قربانی اس لیے دی تاکہ پاکستان 10 سال طویل ضیاء آمریت کے بعد جمہوری بن سکے۔ اسی طرح میرے والد کی حکومت پاکستان کی تاریخ میں پہلی حکومت تھی جس نے اپنی مدت مکمل کی۔

یہ ہماری نوجوان جمہوریت کے لیے ایک سنگِ میل تھا۔ یہ کرنے کے لیے کئی قربانیاں دینی پڑیں، کئی سمجھوتے کرنے پڑے۔ ہم نے مقبول فیصلوں کے بجائے صحیح فیصلوں کو ترجیح دی۔ تاریخ اس کے لیے ہماری تعریف کرے گی۔ مرحلہ شاید خوشگوار نہ ہو، مگر اس کا انعام جمہوریت ہے۔

بینظیر بھٹو، آصف علی زرداری، اور بلاول بھٹو زرداری کا ایک فیملی پورٹریٹ — وائٹ اسٹار
بینظیر بھٹو، آصف علی زرداری، اور بلاول بھٹو زرداری کا ایک فیملی پورٹریٹ — وائٹ اسٹار

ہیرالڈ: پنجاب نے 1977ء سے اب تک صرف دائیں بازو کی حکومتیں ہی دیکھی ہیں۔ آپ اسے کس طرح تبدیل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں خاص طور پر تب جب پنجاب کا میڈیا اور دانشور طبقہ مجموعی طور پر آپ کی پارٹی کا مخالف ہے، اور آپ کی پارٹی کے پاس ووٹروں کو للچانے کے لیے سرکاری پیسہ بھی نہیں؟

بلاول: آپ صحیح کہہ رہے ہیں، ہمارے پاس سرکاری پیسہ نہیں ہے، اور نہ ہی ہمیں اپنا ووٹ بینک واپس حاصل کرنے کے لیے اس کا استعمال کرنا چاہیے۔ پیپلز پارٹی کے ووٹر عام طور پر دوسری پارٹی کی طرف نہیں جاتے۔ اس کے بجائے وہ گھر بیٹھ جاتے ہیں۔ ہمارا چیلنج پرانے ووٹروں کو متحرک کرنا اور نئے ووٹروں کو جوش دلانا ہے۔ یہ آسان کام نہیں ہوگا کیوں کہ ہم تمام تر تنقید اور دباؤ کے باوجود انتہاپسند قوتوں کے آگے نہیں جھکتے۔ مگر مجھے لگتا ہے کہ ہمارے پاس پاکستان کے لیے تکثیریت، برداشت اور برابری کا وہ پیغام ہے جو کسی کے پاس بھی نہیں ہے۔

ہیرالڈ: 1977ء کے بعد سے پی پی پی نے پنجاب میں کوئی بھی الیکشن نہیں جیتا ہے۔ اس تسلسل کو توڑنے کے لیے آپ کے پاس کون سی انتخابی حکمتِ عملیاں ہیں؟

بلاول: مجھے پنجاب میں مزید وقت گزارنا ہوگا۔ مجھے ہماری پارٹی میں نئے عہدیدار لاکر نئی توانائی بھرنی ہوگی، اور مجھے لگتا ہے کہ ہماری پارٹی کے لیے وہاں بہت جگہ ہے کیوں کہ ہماری پارٹی کی بنیاد نظریات اور اُمید پر قائم ہے، صرف برادریوں اور قبیلوں پر نہیں۔ ضیاء اور مشرف دور میں عوام کو سیاست سے دور رکھنے کے طویل مرحلوں میں شہری ترقی کو پالیسی پر ہی حاوی رکھا گیا، نظریات تو دور کی بات ہیں۔

مجھے معلوم ہے کہ یہ ایک بہت طویل مرحلہ ہوگا مگر جیسا کہ میں نے کہا، اسے ہماری پرانی بنیادی اقدار پر قائم ایک نئی طرح کی سیاست چاہیے ہوگی۔ طبقاتی جدوجہد اب بھی پنجاب میں جاری و ساری ہے، اور پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ ہمیں لوگوں کو برادریوں تک محدود رہنے سے چھڑوانا ہے تاکہ وہ دوبارہ پارٹی کے نظریات کو ووٹ دیں۔ صرف پی پی پی ہی پنجاب کے ٹکڑوں میں موجود غیر سیاسی، قدامت پسند، مشینی سیاست کے اس نئے ماڈل سے پاک رہنے کے لیے تیار ہے۔

ہیرالڈ: یہ پنجاب کے نوجوان، مزدور، مزارع اور ترقی پسند لکھاری، شاعر، آرٹسٹ اور فنکار تھے جنہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو طاقت میں پہنچایا۔ اسی صوبے کے معاشرے کا یہی وہ حصہ تھا جس نے 1986ء میں بینظیر بھٹو کی جلاوطنی سے ملک واپسی کو ملکی تاریخ کے عظیم ترین لمحات میں سے ایک بنایا۔ آج پنجابی معاشرے کے کون سے حصے آپ کی حمایت کریں گے اور کیوں؟

بلاول: مجھے لگتا ہے کہ پیپلز پارٹی کا کمزوروں کے ساتھ قدرتی اتحاد ہے اور ان لوگوں کو ترقی کے ماڈل پر قائم سیاست سے باہر رکھا گیا جس میں امیر امیر تر ہوتا جاتا ہے اور روٹی کے چند ٹکڑے غریبوں کی بستیوں پر گرتے ہیں۔ لوگ اب ان دھتکارے ہوئے لوگوں کی جماعت کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ مزارعے، کسان، فیکٹریوں کے مزدور، خواتین، اقلیتیں، نوجوان جو دیگر دو جماعتوں کے ردِ عمل کی سیاست کو قبول نہیں کرنا چاہتے۔ یہ عوام کا وہ سمندر ہے جسے اپنی امیدیں وابستہ کرنے کے لیے ایک نئی جگہ چاہیے۔

بلاول بھٹو زرداری کراچی کی نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس (ناپا) میں سندھ لٹریچر فیسٹیول میں شریک ہیں — طاہر جمال/وائٹ اسٹار
بلاول بھٹو زرداری کراچی کی نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس (ناپا) میں سندھ لٹریچر فیسٹیول میں شریک ہیں — طاہر جمال/وائٹ اسٹار

ہیرالڈ: کئی مبصرین کا کہنا ہے کہ آصف علی زرداری، بلاول کو آزادی نہیں دے رہے ۔۔۔

بلاول: میں پارٹی کی مہم چلانے والا مرکزی شخص ہوں اور اب اس کا چئیرمین بھی ہوں۔ ہمارے پاس فیصلہ سازی کے لیے مشاورتی نظام ہے اور ہم دوسری جماعتوں کے برعکس اپنی مرکزی مجلسِ عاملہ اور کور کمیٹی کی بات زیادہ سنتے ہیں۔ لوگ اپنی باتیں کہنے کے لیے آزاد ہیں اور وہ کہتے بھی ہیں۔ یہ ہمارا پارٹی کلچر ہے۔ ہم ایک بڑی پارٹی ہیں اور بسا اوقات ایک سے زیادہ نکتہ ہائے نظر ہماری پارٹی میں پائے جاتے ہیں۔ میرا کام منصفانہ انداز میں قیادت کرنا ہے مگر پارٹی قیادت کے مشورے سے، جیسا کہ میری والدہ نے کیا۔

ہیرالڈ: آپ کی پارٹی کے لیے ایک بڑی منفی شہرت کراچی، بالخصوص اس کی صفائی ہے۔ آپ کے پاس شہر کے مسائل حل کرنے کا کیا منصوبہ ہے؟

بلاول: کراچی نے دہائیوں تک سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے بہت نقصان اٹھایا ہے۔ یہ واضح تھا کہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے اکثر حصے تمام طرح کی مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث تھے۔ مگر چیزوں نے اب بدلنا صرف شروع ہی کیا ہے۔

کراچی دنیا کا ساتواں بڑا شہر ہے۔ سالہا سال میں اس نے اپنی سیاست اور اپنے سرپرستانہ نظام بنا لیے ہیں۔ افراتفری مچائے بغیر ان کو ختم کرنا آسان نہیں ہوگا۔ جس چیز پر میرا مؤقف بالکل واضح ہے وہ گورننس کے مقاصد ہیں: کراچی کو وسائل میں سے اس کا حصہ اور صاف سڑکیں، سیوریج، پانی اور کارآمد سرکاری ہسپتال اور اسکول ملنے چاہیئں۔ میں کسی بھی کام اور کسی بھی شہر میں جرائم اور تشدد کو پسند نہیں کرتا، چنانچہ میں اس کے لیے کام کر رہا ہوں۔

میں ہمارے نئے وزیرِ اعلیٰ (مراد علی شاہ) کی جانب سے کراچی کو اپنائے جانے سے خاص طور پر متاثر ہوں۔ سڑکوں، پلوں اور انڈرپاسز کی صورت میں اب تک مکمل ہونے والا ترقیاتی کام متاثر کن ہے۔ کراچی کی سڑکوں پر کچرے دان واپس دیکھ کر اچھا لگتا ہے۔ ہم نے جو سرکاری و نجی شعبے کی شراکت داری کا ماڈل اپنایا ہے، اس نے سندھ کے کئی ہسپتالوں میں خدمات کی فراہمی کو بہتر بنایا ہے۔

کراچی کا قومی ادارہ برائے امراضِ قلب (این آئی سی وی ڈی) جنوبی ایشیاء کا سب سے بڑا امراضِ قلب کا ہسپتال ہے اور یہ مریضوں کے لیے بالکل مفت ہے۔ ایدھی لائن بس پر کام ہورہا ہے، جس کا افتتاح جلد ہوجائے گا۔ کراچی کے ووٹر یہ جانتے ہیں۔ اس لیے ہم نے ضمنی انتخابات میں اب وہ 2 نشستیں بھی جیت لی ہیں جن پر عام انتخابات میں ہمارے مخالفین کامیاب ہوئے تھے۔

ہیرالڈ: عمومی تاثر یہ ہے کہ سندھ میں ہر ٹھیکے اور ہر مالیاتی معاہدے میں سے ایک حصہ اوپر تک جاتا ہے، یعنی سندھ کے طاقتور وزراء سے لے کر آپ کے والد اور آپ کی پھوپھی تک۔ زیادہ تر عوامی سروے میں بھی سندھ کی حکومت کو سب سے غیر مؤثر اور ممکنہ طور پر ملک کی کرپٹ ترین حکومت قرار دیا جاتا ہے۔ آپ اسے کس طرح تبدیل کریں گے؟

بلاول: میں کہہ سکتا ہوں کہ آپ کا سوال اشتعال انگیز اور مکمل طور پر خیالی کہانی ہے، مگر پوچھنا آپ کا حق ہے۔ میرے والد نے ساڑھے گیارہ سال جیل میں گزارے۔ دہائیوں تک ایک آمریت کا پروپیگنڈا جاری رہا کیوں کہ ہمارے ردِ عمل کو سینسر کیا جاتا رہا تھا، اور بالآخر انہیں تمام الزامات سے بری قرار دیا گیا۔ مگر یہ جھوٹ 30 سال تک دہرایا گیا ہے۔ ہمارے سیاسی حریفوں کی جانب سے جج صاحبان کو میرے والدین کو سزا دینے کے لیے بلیک میل کرنے کی ٹیپس اس بات کا ثبوت ہیں کہ تمام مقدمات سیاسی تھے۔

میں سرپرستی کے اس بیانیے کو تسلیم نہیں کرتا مگر میں یہ ضرور تسلیم کروں گا کہ ہمیں سندھ میں اور کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم ہر کام کو روک دینے والی عدالتوں سے آگے بڑھ سکیں۔ مجھے حیرت نہیں ہوتی جب آپ یہ نہیں پوچھتے کہ وفاقی حکومت کس طرح سندھ کے تمام منصوبوں کو روک رہی ہے۔ کیوں کہ یہ مقبولِ عام بیانیہ نہیں ہے۔

بلاول بھٹو زرداری لاہور میں پیپلز پارٹی کے 49ویں یومِ تاسیس کی تقریب سے خطاب کر رہے ہیں — ایم عارف/وائٹ اسٹار
بلاول بھٹو زرداری لاہور میں پیپلز پارٹی کے 49ویں یومِ تاسیس کی تقریب سے خطاب کر رہے ہیں — ایم عارف/وائٹ اسٹار

اپنی کہانی بہتر انداز میں سنانا واقعتاً ہمارا اپنا مسئلہ ہے، مگر چلیں اس کا فیصلہ عوام پر چھوڑ دیتے ہیں۔ مجھے اس حقیقت سے انکار نہیں ہے کہ سڑکیں صاف کروانے اور خدمات کی فراہمی میں بہتری لانے کی ضرورت ہے، مگر میں یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ میں کرپشن بالکل برداشت نہیں کرتا۔ اگر کوئی بھی ثبوت میری میز پر آتا ہے تو میں اسے حل کرسکتا ہوں۔ یہ الزامات اور افواہیں ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ماضی میں کیا کچھ ہوتا رہا ہے۔

ہیرالڈ: آپ نے سندھ کے لوگوں کے لیے کیا کیا ہے جو تباہ کن معاشی، سماجی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کا سامنا کر رہے ہیں؟

بلاول: ہماری آخری حکومت نے پاکستان کو گندم درآمد کرنے والے ملک سے گندم برآمد کرنے والا ملک بنایا۔ ہم نے غذائی تحفظ کی بنیاد ڈالی۔ دنیا بھر میں معاشی کساد بازاری، تباہ کن سیلابوں اور بے پناہ دہشتگردی کے باوجود ہمیں ملک میں زراعت کی ترقی کا کریڈٹ دیا گیا۔ آج ملازمتیں فراہم کرنے والا سب سے بڑا شعبہ یعنی ٹیکسٹائل کمتر کارکردگی دکھا رہا ہے؛ ملیں اور فیکٹریاں بند ہو رہی ہیں اور ویتنام منتقل ہورہی ہیں۔ اس کا موازنہ آپ ہمارے دور سے کریں۔ ہم نے بہت بہتر کام کیا۔ یہ کوئی حادثہ نہیں بلکہ ہماری پالیسی کا نتیجہ تھا۔

ماحولیاتی تبدیلیاں بین الاقوامی مسئلہ ہیں۔ پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں کی سب سے زیادہ زد میں موجود ساتواں ملک ہے۔ سندھ نے اس محاذ پر کسی بھی دوسرے صوبے سے زیادہ کام کیا ہے۔ ہم نے کسی بھی دوسرے صوبے سے زیادہ پن بجلی میں سرمایہ کاری کی ہے۔ ہم نے شمسی توانائی میں بے پناہ سرمایہ کاری کی ہے جس میں شمسی توانائی سے چلنے والی اسٹریٹ لائٹس سے لے کر شمسی توانائی سے چلنے والے ریورس اوسموس واٹر فلٹریشن پلانٹس بھی شامل ہیں۔

ہم پانی کے تحفظ کے لیے سندھ کے کینالوں کو پکا کرنے کے لیے سخت محنت کر رہے ہیں۔ [یہ ایک] انقلابی قدم ہے جس سے ماحول اور زراعت دونوں کو ہی فائدہ ہوگا۔ پینے کے پانی کی فراہمی ایک اور چیلنج ہے۔ تھر میں کھارے پانی کو زراعت کے لیے قابلِ استعمال بنایا جارہا ہے۔ یہ وہ اقدام ہے جسے دیگر صوبوں کو بھی اپنانا چاہیے۔

ہم نے کسی بھی صوبے سے زیادہ ریورس اوسموسس پلانٹس لگائے ہیں اور اب وفاقی حکومت کے ساتھ مل کر [کراچی کو مزید پانی پہنچانے کے لیے] ’کے فور (K4) منصوبے‘ پر بھی کام کر رہے ہیں مگر اب بھی اس شعبے میں بہت کام ہونا باقی ہے۔

پانی کی قلت ایک بہت حقیقی مسئلہ ہے۔ یہ صرف سندھ کا مسئلہ نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی میں ہم وفاق کا سوچتے ہیں اور جو چیز مجھے پریشان کرتی ہے وہ یہ کہ پاکستان کی بڑھتی آبادی، کم ہوتے زمینی پانی اور پانی کے ضیاع کی وجہ سے ملک کو پانی کا کتنا بحران درپیش ہوگا۔ بین الاقوامی انڈیکسز کے مطابق پاکستان سب سے زیادہ پانی ضائع کرنے والے ممالک میں سے ہے اور اگر ہم اس بات کو عوامی بحث کا حصہ نہیں بناتے، تو ہم 7 سال میں پانی کی قلت والے ممالک میں شمار ہوں گے۔ یہ بڑے مسائل ہیں مگر آپ انہیں روز رات کو ٹی وی پر نہیں دیکھتے۔ میں اپنی پالیسی کمیٹی کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہوں تاکہ پانی کو زیادہ سے زیادہ محفوظ کیا جاسکے اور وہ طریقے ڈھونڈے جائیں جن کے ذریعے پانی کے موجودہ وسائل کو اپنے واٹر کورس پکے کرکے، کھارے پانی کو میٹھا بناکر اور ریورس اوسموسس کے ذریعے زیادہ بہتر انداز میں استعمال کیا جاسکے۔

پاکستان جنوبی ایشیاء کے کسی بھی ملک سے زیادہ تیزی سے شہری آبادی میں منتقل ہو رہا ہے اور ہمیں نکاسی آب اور شہری سہولیات کے زبردست منصوبوں کی ضرورت ہے۔ ہمیں صرف مرکزی شاہراہوں کی صفائی سے بھی آگے بڑھ کر بہت کچھ کرنا ہوگا اور میں جانتا ہوں کہ ہمارے سامنے ابھی طویل سفر باقی ہے۔ مگر ہم قلیل مدت میں ہسپتالوں، پارکوں اور پانی کے منصوبوں پر کام کر رہے ہیں۔

بلاول بھٹو زرداری یوسف رضا گیلانی کو 2008ء میں وزیرِاعظم منتخب ہونے پر مبارکباد دے رہے ہیں — وائٹ اسٹار
بلاول بھٹو زرداری یوسف رضا گیلانی کو 2008ء میں وزیرِاعظم منتخب ہونے پر مبارکباد دے رہے ہیں — وائٹ اسٹار

ہیرالڈ: بینظیر بھٹو کے وقت سے لے کر بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں پیپلز پارٹی کی سیاست قبائلی سرداروں کے گرد گھوم رہی ہے۔ اگر پارٹی خود کو ان دو صوبوں میں جلا بخشنا چاہتی ہے تو کیا چیز تبدیل ہونی ہوگی؟

بلاول: سب سے پہلے تو ہمیں یہ تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کو توجہ کی ضرورت ہے مگر پیسہ بہانے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ ایک وقت تھا جب سکڑتے وسائل اور محرومیوں کو اِن صوبوں کا بنیادی مسئلہ سمجھا جاتا تھا مگر حالات اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہیں۔ وسائل اہم ہیں مگر یہ بھی اہم ہے کہ وہ نچلی سطح تک کمزوروں میں کتنی مساوات سے تقسیم کیے جا رہے ہیں۔

پانی، اسکول، صحت، گھر، نوکریاں اور ظاہر ہے کہ تحفظ کا احساس کھیل بدل دے گا۔ یہ سب عوام تک پہنچانا ایک چیلنج ہے کیوں کہ طاقت کے روایتی سرچشموں سے دور ہٹنا مشکل ہے، مگر یہی واحد راستہ ہوگا۔ ہمیں نئے حل چاہیے ہوں گے، جن کی بنیاد ٹیکنالوجی پر ہو، جو مڈل مین اور اشرافیہ کی مدد کے بغیر قائم رہ سکیں، مثلاً بینظیر انکم سپورٹ پروگرام۔

اور حقیقت میں ان دونوں صوبوں نے بالکل مختلف انداز میں صدمے برداشت کیے ہیں، بشمول جدید دہشتگردی کے۔ ان کی سرحدیں انہیں بیرونی خطرات کے سامنے لا کھڑا کرتی ہیں اور اس بات کو نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے۔

ریاست کو لوگوں سے الگ تھلگ نہیں، بلکہ حکومت کے فلاحی بازو کی طرح دیکھا جانا چاہیے۔ اس طرح کی ریاست کو تشدد پر اجارہ داری کا حق حاصل ہوتا ہے اور ہمیں سیاسی اور سویلین تعلقات کے ذریعے اس جانب کام کرنا چاہیے۔

ہیرالڈ: پاکستان میں سیاست نے غیر منتخب اداروں مثلاً فوج، عدلیہ اور اب میڈیا کو بھی ریاست اور معاشرے کی راہ اور خدوخال متعین کرنے میں کلیدی کردار تھما دیا ہے۔ کیا آپ کے پاس ایسا کوئی منصوبہ ہے جو سیاسی اور منتخب نمائندوں کو دیگر تمام اداروں کے اوپر لاسکے؟

ہیرالڈ: سول ملٹری تعلقات ایک سنجیدہ مسئلہ ہے اور یہ تاریخی طور پر تناؤ کا شکار رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی جینیاتی طور پر اسٹیبلشمنٹ سے منسلک نہیں ہے لہٰذا ایسا ظاہر نہیں کرنا چاہیے کہ ہماری وہی تاریخ یا اقتدار کا راستہ وہی رہا ہے جو مرکزی دھارے کی دو دیگر سیاسی جماعتوں کا رہا ہے۔ اسی دوران اس بحرانی دور کو بھی دیکھیں جس میں دہشتگردی اور پُرتشدد انتہاپسندی جیسے چیلنجز ہماری قوم سازی کر رہے ہیں۔ اگر ہم جمہوری اداروں کو مضبوط اور پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں اسے صرف دو بازوؤں کے درمیان رسہ کشی کے طور پر نہیں دیکھنا چاہیے۔

مجھے بھرپور یقین ہے کہ سویلین اداروں کو قیادت کے لیے بااختیار ہونا چاہیے مگر میں اس رجحان کو ابھرتے ہوئے نہیں دیکھ رہا۔ شدید بحرانوں اور دراڑوں کے باوجود ہم نے اپنی حکومت کے دوران جو جمہوری اداروں پر اعتماد بحالی کے تھوڑے بہت فوائد حاصل کیے، وہ اب گورننس میں خلاء کی وجہ سے ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ پی پی پی نے ہمیشہ آزاد ریاستی اداروں کی عزت کی ہے اور کرتی رہے گی۔

دوسری جانب شریف حکومت نے ہمارے اداروں کا مذاق بنا دیا ہے۔ مجھے خوف ہے کہ اس طرح مخالف سمت میں جانے سے سول ملٹری تعلقات میں ایک خطرناک تقسیم پیدا ہوگی جس کے ہم اس وقت متحمل نہیں ہو سکتے۔ اپنے آس پاس دیکھیں: ہمارے درمیان لگی آگ کے فوجی حل بہت کم ہے، مگر طاقت کا کچھ استعمال ضروری بھی ہے۔ لیکن اسے ثبات صرف تب حاصل ہوگا جب سول ملٹری طاقتیں ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگی کے ساتھ کام کریں اور ایک ہی صفحے پر رہ کر بات کریں۔

ہیرالڈ: ہمیں پی پی پی کی جانب سے اس کے اگلے انتخابی منشور میں کن پالیسی تجاویز کی امید رکھنی چاہیے؟

بلاول: سب سے پہلے ہمیں پاکستان کے کئی چیلنجز پر توجہ دینی ہوگی، جس میں بدقسمتی سے اسحاق ڈار کے پیدا کردہ کئی بحران بھی شامل ہیں۔ اگر ایک ملک کے زرِ مبادلہ کے ذخائر بیرونی قرضوں اور تجارتی عدم توازن کی وجہ سے خطرے میں ہیں تو وہ ملک خودمختاری سے فیصلے نہیں لے سکتا۔ میری سمجھ سے باہر ہے کہ آج تیل کی اتنی کم قیمتوں کے باوجود ہماری برآمدات گرتی جا رہی ہیں، بالخصوص ٹیکسٹائل کے شعبے میں (پاکستان بین الاقوامی ٹیکسٹائل برآمدات میں اپنا 23 فیصد حصہ گنوا چکا ہے) جو کہ ہماری حکومت میں تیل کی کہیں زیادہ قیمتوں کے باوجود اچھی کارکردگی دکھا رہا تھا۔ اگر ہم ٹیکس وصولی کو بڑھانا اور معیشت کی تعمیرِ نو کرنا چاہتے ہیں تو بے تحاشہ توانائی اور قیمتی وقت صرف کرنا پڑے گا۔

(ن) لیگ کی اس حکومت نے پاکستان میں آندھی کی طرح تباہی مچائی ہے۔ ان کی جانب سے لائی گئی بربادی درست کرنے میں کافی وقت لگے گا۔ اِس کے علاوہ ہمیں پاکستان میں غذا سے محروم اور غریب لوگوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی حالت پر بھی توجہ دینی ہوگی۔ ہمیں عوامی صحت کے لیے نئے حل ڈھونڈنے ہوں گے جیسا کہ ہم اس وقت سندھ میں این آئی سی وی ڈی جیسے بڑے ہسپتالوں کے ساتھ کر رہے ہیں جہاں جدید ترین سہولیات اور ڈاکٹر علاج کے اخراجات کی سکت نہ رکھنے والوں کو مفت خدمات فراہم کرتے ہیں۔

ہمیں تولیدی صحت، بچوں کی اموات اور بچوں کی بڑھوتری رک جانے پر بھی توجہ دینی ہوگی۔ ہمیں اساتذہ کو ڈھونڈنا ہوگا اور انہیں صرف کاغذی نہیں بلکہ حقیقی اسکول چلانے کے لیے تربیت دینی ہوگی۔ ہمیں پانی کی بچت پر توجہ دینی ہوگی اور اس کے صرف حسبِ ضرورت استعمال کے لیے بنیادی اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ ہمیں خواتین اور اقلیتوں کو روز مرّہ کے حملوں سے بچانا ہوگا۔ ہمیں اپنے خارجہ پالیسی کے بحران کو غصے سے نہیں بلکہ معقول پالیسی کے ذریعے حل کرنا ہوگا جس کے ذریعے صرف ایک خاندان کے کاروباری مفادات کو نہیں بلکہ پاکستان کو فائدہ ہو۔ ہمیں پی آئی اے (پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز) اور پاکستان اسٹیل ملز کو درست کرنا ہوگا مگر ان چھپی ہوئی ڈیلز کے ذریعے نہیں جن کے ذریعے ان اداروں کی دولت اور جائیداد ہڑپ کی جاتی ہے۔

ہمارا منشور درست وقت پر سامنے آئے گا۔ مسائل واضح ہیں مگر ان کے حل توجہ، مقصد سے وفاداری اور وقت طلب ہیں۔ یہی وہ خصوصیات ہیں جن کی پاکستان میں جمہوریت کو معنی خیز بننے کے لیے ضرورت ہے۔

ہیرالڈ: نوجوان اس پارٹی کی طرف توجہ کیوں دیں جو ان میں سے کئی کے نزدیک 50 سالہ شخص کی طرح پیش آتی ہے، جدید دور کے حقائق سے کٹی ہوئی ہے، اور اس ماضی میں جی رہی ہے جسے اب وہ حیاتِ نو نہیں دے سکتی؟

بلاول: مجھے نہیں لگتا کہ ہم کٹے ہوئے ہیں، ہم بس خوف اور نفرت کی زبان نہیں بولتے۔ اگر یہی آج کا دستور ہے اور یہی بِکتا ہے تو میں گہرے اور بنیادی مسائل کو حل کرنے کے لیے مصالحے دار افواہوں کی سیاست کرنے کے بجائے تہذیب اور برداشت کی سیاست کے لیے مزید پُرعزم بنوں گا۔

دیانتداری سے کہتا ہوں کہ اس طرح کی سیاست پاکستان کو دائیں بازو کی جانب دھکیل رہی ہے جس کے ہم متحمل نہیں ہو سکتے۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ یہ زمانے کی ضروریات سے ناواقف ہونا ہے تو میں آپ کو کہوں گا، 'گڈ لک'؛ آپ کو اپنی رائے رکھنے کا پورا حق حاصل ہے۔


انگلش میں پڑھیں۔ یہ انٹرویو ابتدائی طور پر ہیرالڈ میگزین کے دسمبر 2017 کے شمارے میں شائع ہوا۔ مزید پڑھنے کے لیے ہیرالڈ کی سبسکرپشن حاصل کریں۔

ہیرالڈ میگزین
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔