• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

پاکستانی القاعدہ اور اُس کے حملے

شائع December 24, 2017 اپ ڈیٹ December 28, 2017
2004 میں سابق وزیر اعظم شوکت عزیز پر حملے کے بعد ایک پولیس اہلکار ان کی گاڑی کا معائنہ کر رہا ہے—تصویر رائٹرز
2004 میں سابق وزیر اعظم شوکت عزیز پر حملے کے بعد ایک پولیس اہلکار ان کی گاڑی کا معائنہ کر رہا ہے—تصویر رائٹرز

پاکستان کے مالیاتی جادوگر اور نامزد وزیرِ اعظم شوکت عزیز کو تقریباً ہلاک کر دینے والے خودکش حملے کے 24 گھنٹے کے اندر اندر اسلامی عسکریت پسند گروہوں کا پروپیگنڈا شائع کرنے کے لیے مشہور ایک ویب سائٹ پر ایک بیان جاری کیا گیا۔

عربی میں جاری کیے گئے اس بیان میں لکھا تھا کہ ’ہماری ایک بابرکت بٹالین نے پاکستان میں موجود امریکی کافروں میں سے ایک کو تب نشانہ بنانے کی کوشش کی جب وہ فتح جنگ سے واپس آ رہا تھا، مگر خدا اس کی زندگی چاہتا تھا۔‘ اب تک گمنامی میں رہنے والے اس گروہ نے خود کو "القاعدہ کے اسلامبولی بریگیڈ" کے طور پر متعارف کروایا تھا۔ یہ اشارہ واضح طور پر لیفٹیننٹ خالد اسلامبولی کی جانب تھا جنہوں نے 1981ء میں مصری صدر انور سادات کے قتل میں سپاہیوں کی قیادت کی تھی۔

پاکستان کے سینیئر سیکیورٹی حکام کی جانب سے ابتدائی ردِ عمل شک پر مبنی اور معقولیت سے خالی نہیں تھا۔ یہاں تک کہ اگر اسامہ بن لادن یا ان کے نائب ایمن الظواہری نے بھی براہِ راست ہدایات جاری کی ہوتیں، تب بھی ایک دہشتگرد نیٹ ورک کے لیے القاعدہ کا نام استعمال کرنا نہایت غیر معمولی تھا۔ مگر پھر بھی یہ کوئی عام واقعہ نہیں تھا، اور اس کا واضح اشارہ یہ تھا کہ یہ گروہ نہایت پُرعزم اسلامی عسکریت پسندوں پر مشتمل تھا۔

کچھ معاملات میں یہ حملہ گزشتہ سال دسمبر میں جنرل مشرف پر ہونے والے حملے اور اس سال جون میں کور کمانڈر کراچی پر ہونے والے حملے سے مختلف نہیں تھا۔ جہاں یہ اعلیٰ حکومتی شخصیات کو نشانہ بنانے والے 3 سب سے ہائی پروفائل حملے تھے، وہیں خودکش حملوں اور بم دھماکوں کی ایک لڑی نے اعلیٰ حکومتی اور سیکیورٹی شخصیات کے دماغوں میں پہلے ہی ایک مقامی عسکریت پسند فورس کے بڑھنے کا شبہ پیدا کر دیا تھا جس کا فلسفہ القاعدہ جیسا ہی تھا۔ ایک سینیئر وزیر کا کہنا تھا کہ ’یہ ایک خوفناک خیال ہے، خاص طور پر اس لیے بھی کیوں کہ یہ مکمل طور پر بے بنیاد نہیں ہے۔‘

سینیئر حکومتی وزراء، پولیس اور دیگر سیکیورٹی حکام سے پسِ منظر میں کیے گئے انٹرویوز کے ٹکڑے ملا کر ہیرالڈ نے جو تصویر بنائی ہے وہ القاعدہ قیادت جیسے تصورات رکھنے والی ایک کمزور انداز میں جڑی ہوئی تنظیم کی جانب اشارہ کرتی ہے، اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا ایک حلقہ اس بات پر قائل ہے کہ یہ تنظیم اب ملک کے اندر اپنے مقاصد کے حصول کے لیے تیار ہے۔ دوسرے الفاظ میں اب پاکستانی القاعدہ کے بارے میں بات کی جا سکتی ہے۔ یہ ایسی تنظیم ہے جس کے مقاصد ملکی حد تک ہی ہیں، اور وہ اپنی روحانی رہنما تنظیم کے برعکس ایک عالمی ایجنڈے کی تکمیل میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ اس حوالے سے کچھ کہا نہیں جا سکتا کہ آیا القاعدہ کی اعلیٰ قیادت نے اس کی داغ بیل ڈالنے میں براہِ راست کردار ادا کیا ہے یا نہیں، مگر اسے تیار بالکل القاعدہ کے ڈھانچے پر ہی کیا گیا ہے۔

اس کا مطلب ہے کہ یہ تنظیم کئی دیگر گروہوں کو اپنے اپنے طور پر ایک جیسے ہی مقاصد کے حصول کے لیے کام کرنے میں مدد دینے کی صلاحیت رکھتی ہے، اور کسی بھی گروہ کو کسی دوسرے کے بارے میں معلوم نہیں ہوگا۔ حقیقت میں القاعدہ کا اندرونی کلچر کبھی کبھی اس بات کو بھی یقینی بناتا ہے کہ ایک ہی گروہ کے ارکان ایک دوسرے سے ناواقف رہیں۔ اس کا ڈھانچہ ایسا ہے کہ کسی ایک شخص یا کئی اشخاص کی گرفتاری یا قتل کے باوجود اس کی کارکردگی پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اکثر اوقات راستے سے ہٹا دیے گئے لوگوں کی جگہ فوراً ہی کوئی اور لے لیتا ہے۔ دیگر اوقات یہ نئے گروہ بھی پیدا کر سکتا ہے جس میں ایک دوسرے کے ارکان شامل ہوں، مگر جو ایک دوسرے کی حقیقی شناخت سے ناواقف ہوں۔ ایک سینیئر سیکیورٹی اہلکار کہتے ہیں کہ ’آپ انہیں چاہے جس بھی نام سے پکاریں، یہ لوگ اور یہ گروہ پاکستان میں القاعدہ کی خدمت کر رہے ہیں۔ اس پورے معاملے میں سب سے پریشان کن بات یہ ہے کہ ایسی نئی بھرتیوں اور رضاکاروں کی کوئی کمی نہیں جو ان میں شامل ہونے اور اس مقصد کے لیے جان دینے کے لیے تیار ہیں جسے وہ درست سمجھتے ہیں۔‘

چنانچہ اس میں حیرت کی بات نہیں کہ حال ہی میں تنزانیہ سے تعلق رکھنے والے احمد خلافان غیلانی اور ان کے ساتھیوں کی گرفتاری پر صرف امریکی ہی نہیں تھے جنہیں خوشی ہوئی، بلکہ یہ گرفتاریاں پاکستانیوں کے لیے بھی اہم تھیں جو ان گرفتار شدہ افراد سے مقامی عسکریت پسند گروہوں کی سرگرمیوں کے بارے میں اہم معلومات اکھٹی کرنے میں کامیاب رہے۔ مثال کے طور پر ایک نوجوان ماہرِ کمپیوٹر نعیم نور خان یا پھر وزیرِ اعلیٰ پنجاب کی سرکاری رہائش گاہ پر تعینات سیکیورٹی گارڈ نے ان معلومات میں قیمتی اضافہ کیا ہے کہ یہ گروہ کس طرح آپریٹ کرتے ہیں اور حکام نے جو بھی انٹیلیجنس اکھٹی کی ہے وہ اسی امکان کی جانب اشارہ کرتی ہے کہ پاکستان کی تمام صفِ اول کی شخصیات ان عناصر کے نشانے پر ہیں۔

اب تک القاعدہ کا پاکستان میں منظم ترین اور سب سے ہم آہنگ آپریشن گزشتہ دسمبر میں جنرل مشرف پر دوسرا قاتلانہ حملہ تھا۔ حکام تسلیم کرتے ہیں کہ 25 دسمبر کو ہونے والا دوہرا حملہ نہ صرف فوجی حکمران کے لیے 'کلوز کال' تھا، بلکہ یہ اس ملک کی حالیہ تاریخ کا سب سے خفیہ دہشتگرد آپریشن بھی تھا۔ اس کے مخفی ہونے کی سطح کا اندازہ تب ہوا جب تفتیش سے وابستہ ایک کم رینک کے سیکیورٹی افسر نے خودکش حملہ آور کے تباہ شدہ ٹرک کے ملبے سے ایک موبائل فون کا سم کارڈ برآمد کیا۔ یعنی کہ خودکش حملہ آور آخری منٹ تک بھی اپنے ساتھی سے فون کالز وصول کر رہا تھا۔ اسے دی جانے والی معلومات واضح طور پر جنرل کی نقل و حرکت کے بارے میں تھیں، اور سم کارڈ کے ڈیٹا کے جائزے کے بعد تفتیش کار کئی مشتبہ افراد کو گرفتار کرنے میں کامیاب رہے، جن میں صدر کی سیکیورٹی ڈیوٹی پر مامور ایک اسپیشل برانچ کا اہلکار بھی شامل تھا۔ آخری فون کال بظاہر اسی کی جانب سے کی گئی تھی۔

اور یہی وہ کامیابی تھی جس کی تلاش میں سیکیورٹی ادارے بے چینی سے سرگرداں تھے۔ بعد میں ہونے والی تحقیقات نے ان افراد کے سامنے موجود منظرنامے کی وسعت پر روشنی ڈالی، جو کہ ایک جانب آزاد کشمیر کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے لے کر کراچی تک، اور دوسری جانب پاکستان کی مشرقی سرحد سے لے کر جنوبی وزیرِستان تک پھیلا ہوا تھا۔ یہ پاکستانی انٹیلیجنس اداروں کے ماہر ترین ماہرینِ انسدادِ دہشتگردی کو جھنجھوڑ دینے کے لیے کافی تھا۔ ایک خودکش حملہ آور کی شناخت سابق کشمیری جنگجو مفتی جمیل سدھن کے نام سے ہوئی۔ ایک اور کی شناخت افغان جنگ لڑنے والے ایک جنگجو حاضر سلطان کے نام سے ہوئی، جبکہ ان کے اور ساتھی لیاقت کی شناخت ایک مقامی اسلامی گروہ کے رکن کی حیثیت سے ہوئی۔

جس چیز نے تفتیش کاروں کو ہکّا بکّا چھوڑ دیا وہ یہ انکشاف تھا کہ اس قاتلانہ حملے میں ملوث زیادہ تر افراد، بشمول دو خودکش حملہ آور، حملے کے دن سے پہلے تک آپس میں ملے بھی نہیں تھے۔ ایک باخبر اہلکار کا کہنا تھا کہ اس پورے حملے کے منصوبہ سازوں نے اسے اس قدر خفیہ رکھا تھا کہ خودکش حملہ آوروں کو اس کام کے لیے روحانی طور پر تیار کرنے والا شخص ان دونوں سے ہمیشہ الگ الگ ملاقات کرتا تھا۔

اُس اہلکار کا کہنا تھا کہ وہ شخص کراچی سے ان لوگوں سے علیحدہ علیحدہ ملنے کے لیے آیا کرتا، مگر کبھی بھی اس نے انہیں مشن کے لیے بھرتی کیے جانے والے دیگر لوگوں کے بارے میں نہیں بتایا۔ اس بات سے صرف کچھ ہی لوگ اختلاف کریں گے کہ اس قدر منظم حملے سے بچ نکلنا صرف ایک معجزہ ہی ہوسکتا ہے۔ اس ذریعے کے مطابق پچھلا قاتلانہ حملہ ایک بالکل مختلف گروہ نے کیا تھا جس میں پاکستان ایئرفورس کے کئی اہلکار شامل تھے۔ شاید ان دونوں گروہوں کے درمیان واحد یکساں چیز ان کا روحانی سربراہ اور فلسفہءِ جہاد کی غلط فہمی پر مبنی تشریح تھی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں حملوں کے بارے میں معلومات کا ڈھیر اکھٹا کرنے کے باوجود تفتیش کار اب بھی پاکستانی ماسٹرمائنڈ، جس کی شناخت امجد فاروقی کے نام سے ہوئی ہے، انہیں اور اس القاعدہ کارندے کو گرفتار کرنے میں ناکام رہے ہیں جو جنرل مشرف کے مطابق اس پورے مشن کا مالی معاون تھا۔

جنرل مشرف پر ہونے والے دو حملوں کے برعکس کور کمانڈر کراچی اور شوکت عزیز پر ہونے والے حملوں کی منصوبہ بندی کہیں زیادہ خام محسوس ہوتی ہے۔ جہاں کراچی میں ہونے والا حملہ بھلے ہی نہایت منظم اور حیران کن حد تک خوفناک تھا، مگر حکام کا کہنا ہے کہ اس میں وہ نفاست نہیں تھی جس کے لیے القاعدہ کو جانا جاتا ہے۔ اسی طرح شوکت عزیز پر ہونے والا حملہ ایک پاکستانی گروہ کا کام دکھائی دیتا ہے جس نے بظاہر کم سے کم تربیت رکھنے والے ایک 'رضاکار' کو استعمال کیا۔ چنانچہ اس کے جسم پر نصب ایک گرینیڈ تب بھی نہیں پھٹا جب وہ شوکت عزیز کی گاڑی کے نیچے لیٹ گیا تھا۔

مگر ان حملوں اور کئی دیگر حملوں، مثلاً کوہاٹ میں ملٹری کمانڈر کے گھر کے باہر ہونے والے بم دھماکوں سے جو بات واضح ہے وہ یہ کہ پاکستانی گروہ اب بھی القاعدہ سے ملتے جلتے مقاصد ہونے کے باوجود ایک ارتقائی مرحلے سے گزر رہے ہیں، اور ایک افسر کے مطابق یہ مقاصد بالکل واضح ہیں کہ امریکا کے حامی سمجھے جانے والے اعلیٰ حکومتی عہدیداروں کو نشانہ بنایا جائے اور اسی دوران ملک کو انارکی کی طرف دھکیلا جائے۔ ان عسکریت پسندوں میں سے کئی اس بات پر قائل ہیں کہ پاکستانیوں کی اکثریت عراق اور دیگر ممالک میں امریکی پالیسیوں کی مخالف ہے، اور حالات ایک اسلامی عسکریت پسند ایجنڈے کے لیے سازگار ہیں۔

ایک عہدیدار کے مطابق اس وقت بظاہر عسکریت پسندوں کے ذہن میں صرف ایک ہی ہدف ہے، اور وہ ہے صدر مشرف۔ مگر صدر کی فقید المثال سیکیورٹی نے ان عسکریت پسندوں کو صدر کے قریبی دیگر ملٹری کمانڈروں یا وزراء کی جانب رخ کرنے پر مجبور کردیا ہوگا۔ ایک سینیئر حکومتی عہدیدار کے مطابق شوکت عزیز کے علاوہ عسکریت پسندوں کی ہٹ لسٹ پر فیصل صالح حیات، شیخ رشید احمد اور خورشید محمود قصوری بھی موجود ہیں۔

صدر مشرف پر قاتلانہ حملوں کی کوششوں میں ان کی گاڑی کو پہنچنے والا نقصان—تصویر رائٹرز
صدر مشرف پر قاتلانہ حملوں کی کوششوں میں ان کی گاڑی کو پہنچنے والا نقصان—تصویر رائٹرز

کچھ مبصرین کہتے ہیں کہ ابھی بھی ممکن ہے کہ پاکستانی القاعدہ جیسی، یا حکومتی شخصیات اور مذہبی اقلیتوں پر حملے کرنے والی کوئی مرکزی تنظیم موجود نہ ہو۔ اگر یہ حقیقت ہے تو ان حملوں میں شامل لوگ کون ہیں؟ تفتیش سے قریبی طور پر وابستہ ایک سینیئر عہدیدار کا ماننا ہے کہ پہلے فرقہ وارانہ سرگرمیوں میں ملوث، افغانستان یا کشمیر میں لڑچکے اسلامی گروہوں کے چند عناصر خودکش حملوں کے ان تازہ واقعات کے پیچھے ہو سکتے ہیں۔

افسران کے مطابق بار بار نئے ناموں کے ساتھ تنظیمیں بنائی جاتی ہیں اور اس میں شامل ایسے زیادہ تر ’رضاکاروں‘ سے کام لیا جاتا ہے جن کی بہت ہی تھوڑی تربیت ہوئی ہوتی ہے۔ ایسے گروہوں کی تشکیل کے پیچھے وہ لوگ شامل ہوتے ہیں جن کا تعلق فرقہ وارانہ گروہوں، جیسے لشکر جھنگوی، یا کشمیری عسکریت پسند گروہ جیسے حرکت المجاہدین، حرکت الجہاد یا جیش محمد سے ہوتا ہے، جو ایسی نئی تنظیموں کے لیے نرسریوں کے طور کام جاری رکھتے ہیں۔ زیادہ تر موقعوں پر نئے گروہوں کے ارکان سے اُن کا سابقہ اور سرپرست گروہ لاتعلقی کا اظہار کردیتا ہے۔ چنانچہ حرکت المجاہدین العالمی، جنداللہ یا القاعدہ کے اسلامبولی بریگیڈ جیسے نام اُبھرتے ہیں۔

دہشتگردوں کی اس نئی کھیپ کے اناڑی پن کا اندازہ ان کے حملوں سے کیا جاسکتا ہے جن میں ان سے کافی گڑبڑ ہوئی۔ مثلاً، محرم کے دوران اہلِ تشیع مسجد میں خود کش بمبار نے خود کو بم سے اڑا دیا لیکن اس حملے میں سوائے اس کی اپنی موت کے وہاں موجود باقی تمام عزاداروں کی جان محفوظ رہی۔ اسی طرح، کراچی میں کور کمانڈر کے قافلے پر حملے میں ملوث افراد وہیں پر اپنا موبائل چھوڑ آئے تھے، اور یوں اس کی مدد سے ان کے ٹھکانے کا پتہ لگا لیا گیا اور انہیں گرفتار کرلیا گیا تھا۔ اسی طرح وہ شخص جس نے شوکت عزیز کو قتل کرنے کی کوشش کی تھی وہ ٹی وی کیمرا میں عکس بند ہو گیا تھا، شاید اس کے ساتھ اس کا ایک ساتھی بھی تھا جو فرار ہوگیا۔ بھلے ہی وہ ناتجربہ کار ہوں لیکن جیل یا موت کا کوئی ڈر بھی کچھ کرنے سے انہیں روک نہیں پاتا۔

افسران کے مطابق، ایسے عناصر سے کچھ اگلوانا بھی تقریباً ناممکن ہے، کیونکہ یہ لوگ تفتیش کاروں کو مسلسل امریکا کے حمایتی اور خود کو اللہ کے سچے سپاہی پکار رہے ہوتے ہیں۔

افسران اور تجزیہ نگار اس بات پر متفق ہیں کہ یہ انتہائی پیچیدہ صورتحال ہے، جس سے باہر آنے کا کوئی واضح راستہ دکھائی نہیں دے رہا۔ جس اسٹیبلشمنٹ نے جہادی کلچر تشکیل دینے میں تقریباً 15 برسوں کا وقت لگایا، اس کے لیے ایسے لوگوں کو ان کے غلط نظریے کو ترک کرنے کے لیے آمادہ کرنا آسان نہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ، ’افغانستان میں سوویتوں کے خلاف لڑائی کے دوران وہ (جنگجو) بین الاقوامی سفارتکاری سمجھنے سے قاصر تھے اور وہ ان موجودہ مجبوریوں کو بھی سمجھ نہیں پا رہے جن کی وجہ سے پاکستان یا صدر مشرف نے جہادی پالیسی کو واپس لے لیا۔‘

ایک وزیر جن کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ وہ عسکری اسٹیبلشمنٹ سے قربت رکھتے ہیں، نے بتایا کہ ایک وقت تک کشمیری اور دیگر عسکریت پسند گروہوں کو بدلی ہوئی جغرافیائی سیاست قبول کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن ایک یا دو گروہوں کے علاوہ، تمام نے قبول کرنے سے انکار کردیا، بلکہ اس طرح عسکریت پسند اسلامی تحریک کے اندر ایک نئی بنیاد پرستی کو جنم دیا۔

جیسی صورتحال آج ہے، اِس کو مدِنظر رکھتے ہوئے ہوسکتا ہے کہ عسکریت پسند حالیہ گرفتاریوں کا بدلہ لینے کے لیے کسی وقت بھی کوئی ردِعمل ظاہر کرسکتے ہیں اور ان کی ایسا کرنے کی صلاحیت حکومتی حلقوں کے اندر شدید مایوسی اور ساتھ ہی ساتھ عوام میں بھی گھبراہٹ کا باعث بن رہی ہے۔ شاید اس صورتحال سے نکلنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ جنرل مشرف جہادی کلچر کے خاتمے کے لیے ایک طویل المدتی جنگ کا آغاز کردیں، وہی کلچر جسے خود اسٹیبلشمنٹ نے جنم دیا تھا۔

ہوسکتا ہے کہ عسکریت پسندی سے نمٹنے کے لیے صدر کو ایک نئے فلسفے کے ساتھ آنا پڑے، ایک فلسفہ جوکہ ایک جامع کلینزنگ آپریشن میں مددگار ثابت ہو، ایسا آپریشن کہ جس میں چند مقدس مذہبی، فوجی اور سرکاری اداروں کو ہی نشانہ کیوں نہ بنانا پڑے۔

دوسری صورت میں معاملات ہاتھ سے نکلنے کا سنگین خطرہ موجود ہے۔ جس طرح اسلامی عسکریت گروہ حالیہ مہینوں میں حمایت حاصل کر رہے ہیں اور زور پکڑ رہے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قوم کو آنے والے دنوں میں بدترین صورتحال کے لیے خود کو تیار رکھنا ہوگا۔

یہ مضمون ابتدائی طور پر ہیرالڈ میگزین کے اگست، 2004 کے شمارے میں شائع ہوا۔

ظفر عباس

ظفر عباس ڈان کے ایڈیٹر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024