• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

کیا واقعی ایک دفعہ گزرنے والا وقت پھر لوٹ کر نہیں آئے گا؟

شائع December 19, 2017 اپ ڈیٹ December 20, 2017

وقت ایک بہتے دھارے کی مانند ہے اور ہم نے اپنے بزرگوں سے سنا ہے کہ "گیا وقت واپس نہیں آتا" تو کیا واقعی ایک دفعہ گزرنے کے بعد وقت پھر کبھی لوٹ کر نہیں آئے گا؟

کیا ہم وقت کے اس سمندر میں ایک مخصوص رفتار سے مستقبل کی طرف ہی بڑھ سکتے ہیں؟ یا پھر یہ ایک کمرے کی طرح ہے جس کے دَر ماضی اور مستقبل دونوں میں کُھلتے ہیں؟

ساتویں صدی عیسویں سے پہلے انسان کو وقت کی اہمیت تو کیا وقت کے بارے میں بھی نہیں پتا تھا۔ پھر ساتویں صدی کے قریب انسان نے "دھوپ گھڑی" بنائی اور وقت کی پیمائش کا آغاز کیا۔ رفتہ رفتہ گھڑیوں میں جدّت آتی گئی۔ مشہور فرانسیسی سائنسدان نیوٹن نے یہ کہا کہ "پوری کائنات کا ایک ہی وقت ہے اس لئے آپ کہیں بھی چلے جائیں، وقت میں فرق نہیں پڑے گا" لیکن بیسویں صدی میں ایک اور سائنسدان آئن سٹائن آیا اور اس نے "نظریہ اضافت" پیش کیا۔

1910 میں آئن سٹائن کا نظریہ اضافت شائع ہوا جس کے مطابق "پوری کائنات کا وقت ایک نہیں ہے بلکہ چند عوامل کی وجہ سے وقت رک بھی جاتا ہے"۔ دنیا کو یہ بات غیر حقیقی لگی کیوں کہ دنیا کی نظر میں تو وقت وہ چیز تھی جو ایک دفعہ نکل جائے تو واپس نہیں آتا۔ اس وجہ سے دنیا نے آئن سٹائن کی مخالفت کرنا شروع کردی۔

آئن سٹائن نے کہا کہ وقت پر جو چیزیں اثر انداز ہوتی ہیں ان میں رفتار اور کششِ ثقل شامل ہیں۔

نظریہ اضافت کے مطابق اگر کسی گاڑی کی رفتار روشنی کی رفتار (جو کہ تین لاکھ کلومیٹر فی سیکنڈ ہے) کے مساوی ہو جائے تو دیکھنے والے کے لئے (جو اس گاڑی میں نہیں بیٹھا ہے) اس گاڑی میں بیٹھے افراد کا وقت رک جائے گا۔ یعنی ان لوگوں کی گھڑیاں رک جائیں گیں اور وہ افراد دیر سے بوڑھے ہوں گے۔ بہت سے لوگوں کے ذہن میں یہ سوال ہوگا کہ گھڑی کو کیسے پتا چلے گا کہ ہلکا ہونا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ گاڑی میں بیٹھے لوگوں کو محسوس نہیں ہوگا کہ ان کا ٹائم رک گیا ہے بلکہ گاڑی سے باہر شخص کو یہ محسوس ہوگا۔

اس کی مثال کچھ اس طرح سے ہے کہ اگر آپ زمین پر ہیں اور آپ کے جڑواں بھائی کو ایک ایسی خلائی گاڑی میں، جو قریباً روشنی کی رفتار سے سفر کرے، بیٹھا کر سفر پر روانہ کر دیا جائے تو آپ کے نزدیک آپ کے بھائی کی گھڑی کا وقت رک گیا ہوگا اور آپ کو یوں محسوس ہوگا کہ آپ کی عمر بڑھتی جا رہی ہے اور آپ کا بھائی اُتنا کا اُتنا ہی ہے۔ آپ سمجھ رہے ہوں گے کہ آپ کے بھائی کے ہاتھ والی گھڑی ہی رک جائے گی لیکن ایسا نہیں ہے۔ آپ کے اعتبار سے آپ کے بھائی کی حیاتیاتی گھڑی بھی رک جائے گی!

اس سے ایک اور بات بھی سامنے آتی ہے کہ روشنی کی رفتار سے چلنے کی وجہ سے آپ کے بھائی کی عمر پچیس سال بعد بھی 20 کی 20 ہی ہے اور آپ کی عمر پچاس کو جاپہنچی ہوگی۔ اب اگر آپ کا بھائی واپس آئے گا تو آپ دونوں جڑواں بھائیوں کی عمروں میں 20 سال کا فرق آچکا ہوگا۔ اس طرح آپ کا بھائی مستقبل میں پچیس سال گزار کر بھی بوڑھا نہیں ہوا، یعنی نظریہ اضافت کے مطابق ہم مستقبل میں سفر کر سکتے ہیں۔

لیکن آج ہم جانتے ہیں کہ دنیا کی سب سے تیز ترین گاڑی کی رفتار بھی روشنی کی رفتار کا 10 فیصد بھی نہیں کیوں کہ اس قدر تیز رفتار پیدا کرنے کے لئے ہمیں بہت زیادہ قوت درکار ہوگی جو کہ فلحال ہمارے پاس نہیں۔

دوسری چیز جو وقت پر اثر انداز ہوتی ہے وہ "کششِ ثقل" ہے۔ اگر کسی چیز پر لگنے والی کشش کو صفر کر دیا جائے تو اس چیز کا وقت بھی رک جاتا ہے۔ اس بات کی تصدیق زمین سے چار سو کلومیٹر اوپر گردش کرنے والے عالمی خلائی سٹیشن میں خلابازوں نے کی ہے۔ چونکہ اس پر زمین کی کشش بھی کم لگتی ہے اور رفتار بھی بہت زیادہ ہے کہ ڈیڑھ گھنٹے میں زمین کا ایک چکر لگا لیتا ہے، تو نظریہ اضافت کے حساب سے اس سٹیشن میں رہنے والے خلابازوں کا وقت زمین کی نسبت "ایک مِلی سیکنڈ" کم ہوجاتا ہے! یعنی وہ خلاباز مستقبل کا ایک مِلی سیکنڈ گزار کر واپس زمین پر آتے۔ بیشک یہ بہت کم وقت ہے لیکن مستقبل میں سفر کرنا ممکن ہے!

مستقبل میں جانا ناممکن نہیں، یہ بات تو ہمیں معلوم ہو گئی لیکن کیا اِسی طرح ہم ماضی میں جا کر اپنے آباء سے ملنے کی خواہش کو پورا کر سکتے ہیں؟ اس کا جواب کسی فارمولے سے ثابت نہیں لیکن ہاں، سائنسدانوں نے ایک نظریہ پیش کیا ہے جس کے مطابق زمان و مکاں (خلا اور وقت) کی چادر (جو آئن سٹائن کے نظریہ اضافت سے ثابت ہے) پر ہم مستقبل کی طرف سفر کر رہے ہیں۔ ماضی میں ہم اس چادر پر جس مقام پر تھے آج وہاں نہیں ہیں اور اس مقام تک واپس جانے، یعنی ماضی میں جانے، کے لئے ہمیں اس چادر میں اربوں سال کا سفر طے کرنا پڑے گا۔ اس سفر کے لئے ہمیں روشنی کی رفتار سے بھی تیز خلائی گاڑی بنانی پڑے گی کیونکہ روشنی کی رفتار سے سفر کرنے والی گاڑی ایک سال بعد بھی ایک نوری سال کا فاصلہ ہی طے کرے گی جو کہ کائنات کی وسعت کے سامنے بہت تھوڑا فاصلہ ہے۔

جس طرح ہم روز مرّہ زندگی میں ایک علاقے سے دوسرے علاقے تک جانے کے لئے اکثر "شارٹ کٹ" راستہ طے کرکے اپنی منزلِ مقصود تک پہنچ جاتے ہیں تا کہ کم وقت میں زیادہ سفر طے کر سکیں تو اس طرح کا ہی کچھ اگر زمان و مکاں کی چادر میں کِیا جائے تو سائنسدانوں کا خیال ہے کہ ہم کم قوت لگا کر بھی ارب نوری سالوں کا سفر طے کر سکتے ہیں اور ماضی میں جاکر اپنے آباء سے ملاقات کرسکتے ہیں۔

اس تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ خلا اور وقت کی اس چادر میں دو زمانوں کے درمیان ایک "شارٹ کٹ" بنا لیا جائے تو اس طرح ماضی میں جا سکتے۔ چونکہ یہ راستہ کسی "کینچوے" کی طرح لگ رہا ہے اس لئے سائنسدانوں نے اسے "ورم ہول" کا نام دیا ہے۔ واضع رہے کہ ورم ہول کا بلیک ہول سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ اسے اس کی شکل کی وجہ سے یہ نام دیا گیا ہے۔ ورم ہول ابھی تک صرف ایک خیال ہی ہے لیکن سائنسدانوں کی اس پر تحقیق جاری ہے۔

اسی ورم ہول کی تصور پر مشہور کارٹون سیریز "ڈوریموں" بنائی گئی ہے جسے گھروں میں بچے بہت شوق سے دیکھتے ہیں۔ اس میں اکثر اوقات ڈوریموں اپنے دوست نوبیتا کے لئے "ٹائم مشین گیجٹ" نکالتا ہے جو ایک دروازے کی طرح ہوتا ہے۔ اس میں جانے کے بعد ماضی یا مستقبل میں پہنچا جا سکتا ہے۔ ورم ہول بھی زمان و مکاں کی چادر میں ماضی کی طرف ایک دروازہ ہی ہے۔

بہر حال، انسان کوششوں میں لگا ہوا ہے اور چاہتا ہے کہ کسی طرح کائنات اور وقت کی ان روکاوٹوں سے آگے نکل جائے اور مجھے امید ہے کہ اگر اسی طرح کوشش جاری رکھی گئی تو انسان بہت جلد اپنی منزل مقصود تک پہنچ جائے گا۔

تبصرے (1) بند ہیں

محمد فرقان Dec 21, 2017 06:50pm
عمدہ تحریر..... انتہائی پیچیدہ مضمون کو نہایت سہل انداز میں پیش کیا....مزید بھی لکھتے رہیں...

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024