نیا صنعتی انقلاب کیا تبدیلی لائے گا؟
ٹیکنالوجی جہاں معیشت کا اہم ستون بن کر سامنے آئی، وہیں سائنس نے انسانی زندگی کو جدت کا لبادہ پہنا دیا ہے، جبکہ اب ایک اور صنعتی انقلاب سے تبدیلی کی بازگشت حقیقت کا روپ دھارتی نظر آ رہی ہے، جہاں مشینیں انسانی دماغ کے برابر استعداد کے ساتھ اقوام عالم کی ترقی میں معاون نظر آئیں گی۔
سائنسدان اور ماہرین بتاتے ہیں کہ دنیا اس چوتھے صنعتی انقلاب کے دور میں داخل ہوچکی ہے، اب محسوس ہورہا ہے کہ یہ آنے کو ہے، جس سے انسانی دماغ کی صلاحیت کے برابر مصنوعی ذہانت رکھنے والے روبوٹس اور ان جیسی مشینیں زندگی کو مزید بدل کر رکھ دیں گی۔
اگر ہم ماضی پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے پہلا صنعتی انقلاب 1760 سے 1820 میں آیا، جس میں پیداوار میں اضافہ کرنے کی غرض سے صنعتی شعبے میں مشینوں کو چلانے کے لیے پانی اور بھاپ کا سہارا لیا گیا۔ اس انقلاب سے لوگوں کی زندگیاں ناصرف مکمل طور تبدیل ہوگئیں، بلکہ آمدنی میں بھی یقینی اضافہ ہوا۔
دوسرا صنعتی انقلاب بظاہر اسی کا ایک تسلسل ثابت ہوا اور سب سے بڑی ایجاد بجلی اور مواصلات کا نظام تھا، جن کو استعمال میں لا کر پیدوار کو مزید بڑھایا گیا۔ یہ دور 1840 سے شروع ہوا اور پہلی جنگ عظیم تک جاری رہا۔
بعدازاں، 20 ویں صدی کے آغاز میں دنیا نے تیسرے صنعتی انقلاب کو ایک جدید ٹیکنالوجی کے طور پر دیکھا، جب انٹرنیٹ، کمپیوٹر، پرینٹنگ کا نظام اور تھری ڈی جیسی ایجادات نے ہر شعبے میں اپنی اہمیت کو اجاگر کیا اور آج جس مقام پر دنیا کھڑی ہے وہ اسی کا نتجہ ہے۔ اسی دور میں جہاز کی ایجاد نے ذرائع نقل و حمل کی مشکلات کو بھی حل کردیا۔
جب آج انٹرنیٹ، سمارٹ فونز، ای کامرس کے علاوہ کئی جدید ترین آلات بڑے مسائل کو حل کرنے میں اہم کردار اداکررہے ہیں تو ایسے میں روبوٹس کا دور بھی شروع ہونے والا ہے، جو حقیقت میں انسان تو نہیں، مگر کام بلکل ان جیسا ہی کریں گے۔
چوتھا صنعتی انقلاب ہے کیا؟
چوتھے صنعتی انقلاب کا جائزہ اگر ہم ایک آسان اصطلاح سے لیں تو یہ بائیولوجیکل، فزیکل اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا ایک ملاپ ہے، جس میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس یعنی مصنوعی مشینی ذہانت، بغیر ڈرائیور کے چلنے والی خودکار گاڑیاں، جدید ڈرونز، تھری ڈی پرنٹنگ، کوانٹم مکینکس اور کوانٹم کمپیوٹرز، جدید کرنسی اور انٹرنیٹ کیساتھ ساتھ بائیو ٹیکنالوجی اور نینو ٹیکنالوجی پر مشتعمل ایسی ڈیوائسز شامل ہیں، جو انسانی کام کو انتہائی کم کرکے تقریباً ہر شعیبے میں ہی مثالی تبدیلی لاسکتی ہیں۔
دنیا کے کئی ممالک میں کچھ روبوٹک مشینیں تو پہلے ہی آچکی ہیں، جو معاشی ترقی کے لیے 'گیم چینجر' کی حیثیت رکھتی ہیں اور ماہرین کے بقول آنے والے سالوں میں یہ مشینیں مشکل سے مشکل کام کو آسان بنانے کیساتھ دنیا میں کو ترقی کے نئے دور سے روشناس کروائیں گی۔
ان ممالک میں جرمنی، چین، جاپان، امریکا اور جنوبی کوریا سرفہرست ہیں، جہاں اس پر تیزی سے تحقیق بھی کی جارہی ہے۔ یہاں تک کہ ان ملکوں میں روبوٹس کو پبلک مقامات پر بھی پیش کیا گیا ہے، جبکہ کچھ تو ایسے ہیں جو انسانوں سے باتیں بھی کرتے ہیں۔
چوتھے صنعتی انقلاب کے اثرات اب سعودی عرب میں بھی نظر آنے لگے ہیں اور حال ہی میں وہاں ہانگ کانگ کی ایک کمپنی کی تیاری کردہ پہلی خاتون روبوٹ کو عام شہریت حاصل ہوچکی ہے۔ صوفیہ نامی یہ خاتون روبوٹ بھی انسانوں سے انہیں کی طرح بات کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
چوتھا صنعتی انقلاب اور پاکستان
اب ایسے میں اگر ہم پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کی بات کریں تو یہاں کی معیشت کا سب سے بڑا ذریعہ ذراعت ہے اور جس طرح دنیا چوتھے صنعتی انقلاب کی راہ پر گامزن ہورہی ہے تو کیا پاکستان بھی اس کے لیے مکمل طور پر تیار ہے؟ یقیناً یہ ایک بہت اہم سوال ہے اور اس تناظر میں یہ بات جاننا بھی ضروری ہوگا کہ آیا اس سے کیا فائدہ ہوسکتا ہے۔
گذشتہ کچھ عرصے سے پاکستان میں چوتھے صنعتی انقلاب کی کچھ جھلک تو دیکھائی دی ہے، جس کی ایک واضح مثال ڈرون کی شکل کے ہیلی کیمز اور چند دوسرے جدید آلات ہیں، جنہیں متعارف کروایا گیا، تاہم ان کا درست استعمال کیسے کیا جائے، خصوصاً ڈرون کو کس طرح ذراعت کے شعبے کی ترقی کے لیے کام میں لیا جائے، اس بارے ابھی تک کسی نے بھی نہیں سوچا، یہاں تک کہ کئی بڑی یونیورسٹیاں بھی اب چوتھے صنعتی انقلاب پر ریسرچ کررہی ہیں، جس سے یہ اندازہ تو لگایا جاسکتا ہے کہ آنے والی نسل شاید ابھی سے اس تبدیلی کے لیے تیاری میں مصروف عمل ہے، مگر حکومتی سطح اقدمات نہ ہونے سے لوگوں میں آگاہی کا فقدان پایا جاتا ہے۔
ناممکن چیز بھی ممکن ہوجائے گی
انسٹیٹیوٹ آف چارٹرڈ اکاؤنٹس کے قائم مقام صدر فرخ رحمٰن کہتے ہیں کہ اس میں ڈرون ایک ایسی جدید ٹیکنالوجی ہے جسے ذرعی ریسرچ کے لیے اگر استعمال کیا جائے گا تو یہ ملکی معیشت کے لیے بہت مفید ثابت ہوگا۔
انھوں نے کہا کہ 'ڈرون کی مدد سے ہم ایک بہت بڑے ڈیٹا پر آسانی کیساتھ تجربات کرسکتے ہیں اور ساتھ ہی اس میں موجود کیمرے سے ان مقامات کی بھی تصاویر لی جاسکتی ہیں، جہاں عام طور پر انسانوں کی رسائی بھی نہیں ہو پاتی، لہذا ناممکن چیز بھی ممکن بن جائے گی'۔
ان کا کہنا تھا کہ اس طرح سے ذراعت پر تحقیق کرکے کئی اہم معلومات کو حاصل کیا جاسکتا ہے اور پھر اگر مناسب منصوبہ بندی کی جائے تو اس شعبے میں نمایاں تبدیاں رونماں ہوں گی۔
سیکیورٹی کے لیے روبوٹس سے مدد
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ دہشت گردی اس وقت ملک کے مسائل میں ایک سب سے بڑا مسئلہ تصور کیا جاتا ہے اور اس کے خلاف جنگ میں پاکستان گذشتہ 15 سالوں سے ایک بڑے انسانی نقصان کا بھی سامنا کرچکا ہے، لیکن اس کو اب تک جڑ سے ختم نہیں کیا گیا۔
یہ کہنا تو شاید قبل از وقت ہوگا کہ آنے والے سالوں میں بھی پاکستان میں دہشت گردی رہے گی یا ختم ہوجائے گی، لیکن چوتھا صنعتی انقلاب دہشت گردی جیسے بڑے مسئلے کے خاتمے کے لیے بھی مدد گار ثابت ہوگا، کیونکہ جب اس سے ایسی جدید ڈیوائسز اور انسانی دماغ کے حامل روبوٹس عام ہوں گے تو انہیں دہشت گردی کے خلاف آپریشنز میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔
حال ہی میں ایسا عملی طور پر بھی دیکھنے میں آیا ہے، جب پہلی بار پاکستان میں بم ناکارہ بنانے والے جدید روبوٹس کو متعارف کروایا گیا۔
برطانیہ سے حاصل کیے گیے یہ روبوٹس سب سے پہلے سن 2012 میں صوبہ خیبر پختونخوا کے محکمہ بم ڈسپوزل یونٹ کا حصہ بنے اور اس کے بعد 2015 میں عاشورہ کے موقع پر پہلی مرتبہ کراچی میں سیکیورٹی کے لیے ان کی مدد حاصل کی گئی۔
ان روبوٹس کی خاص بات یہ ہے کہ ایک ہزار کلو گرام تک کا دھماکا خیز مواد ناکارہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، جبکہ ان میں 4 متخلف زاویوں سے کیمرے اور ایک پانی والی گن بھی نصب ہے، جس سے آگ لگنے کی صورت میں فوری طور پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
ریسٹورنٹس میں انسانوں کی جگہ روبوٹس کی خدمات
جیسے جیسے دنیا میں نئی ایجادات سامنے آرہی ہیں، ویسے ہی ان کوکئی طریقوں سے استعمال میں لیاجارہا ہے۔ یہاں بات ہو ہی ہے ایسے ریسٹورنٹس کی، جہاں انسانوں کے بجائے روبوٹس بطور ویٹر کام کرتے ہیں۔ اس طرح کے ریسٹورنٹس چین اور جاپان میں عام ہوتے جارہے ہیں اور یہ روبوٹس وہاں آنے والوں کے لیے کھانا تک خود بناتے ہیں۔
اگر پاکستان چوتھے ضنعتی انقلاب کے لیے تیار ہوجاتا ہے تو اس ٹیکنالوجی کو یہاں بھی ریسٹورنٹس میں استعمال کیا جاسکے گا، جہاں پر ویٹرز کی جگہ جدید روبوٹس لے لیں گے، کیونکہ یہ کارنامہ پہلے ہی ایک پاکستان طلب علم سر انجام دے چکا ہے جس کے تیار کردہ انسانی روبوٹس ملتان کے ایک مقامی ریسٹورنٹ میں آنے والے لوگوں میں ناصرف پیزا سرو کررہے ہیں، بلکہ وہاں کے باقی کام بھی خود کرتے ہیں اور یہ دورِ جدید کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
ان روبوٹس کو اسلام آباد کی نیشنل یونیورسٹی برائے سائنس و ٹیکنالوجی کے 24 سالہ طالب علم سید اسامہ عزیز نے تیار کیا اور خود اپنے ہی ایک پیزا ریسٹورنٹ میں پیش کرکے دنیا کو پیغام دیا کہ پاکستان بھی چوتھے صنعتی انقلاب کے لیے تیار ہے۔
دلچسپ بات ہے کہ یہ روبوٹس بالکل خواتین جیسے نظر آتے ہیں اور اگر پاکستان میں مزید ریسٹورنٹس میں اس طرح کے روبوٹس کا استعمال کیا جائے تو یقین اس سے گاہکوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا، کیونکہ لوگوں کے لیے یہ اس وقت ایک منفرد چیز ہے۔
بٹ کوائن سے آن لائن شاپنگ اور سرمایہ کاری
ایسے وقت میں جب پاکستان میں بھی آن لائن شاپنگ کا رجحان بڑھتا جارہا ہے اور لوگ بازاروں میں جانے کے بجائے گھر بیٹھے ہی چیزوں کی خریداری کو ترجیح دیتے ہیں، وہیں بٹ کوائن سے اس میں مزید آسانی لائی جاسکتی ہے جس سے دنیا کے کسی بھی حصے میں اس کو تبدیل کرکے اشیاء کو خریدا جاسکے گا۔
اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ آخر یہ بٹ کوائن ہے کیا چیز تو یہ عام طور پر کرنسی کی ایک ڈیجیٹل شکل ہے، جسے ناصرف خریداری کے کام میں لایا جاسکتا ہے، بلکہ اس سے یقینی طور پر سرمایہ کاری بھی ممکن ہے، کیونکہ موجودہ دور میں اسے زیادہ تر سرمایہ کاری کے لیے ہی استعمال کرنے کے بارے میں سوچا جا رہا ہے۔
بٹ کوائن پہلی مرتبہ سن 1998 میں بطور کرپٹو کرنسی کے طور پر سامنے آیا اور ساتوشی ناکاموتو نامی ایک شخص نے اس پر تحقیق کی، جبکہ 2009 میں اس کو انہیں کے نام سے متعارف کروایا گیا تھا۔
آج کے دور میں اس مہنگی ترین کرنسی کی عالمی سطح پر اہمیت کا اندازہ اس بات سے باخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اس وقت ایک بٹ کوائن کی قیمت 19 لاکھ پاکستانی روپے سے بھی متجاوز ہوچکی ہے، کیونکہ حال ہی میں اس میں زبردست اضافہ دیکھا گیا۔
روزگار کم نہیں، بلکہ پہلے سے بھی زیادہ ہوگا
ابھی چوتھے صنعتی انقلاب کی باز گشت جاری ہی ہے، تو بعض لوگ یہ خیال ظاہر کررہے ہیں کہ روبوٹس کے آنے سے روز گار کے مواقع مزید کم ہوجائیں گے اور پہلے ہی جس تیزی کے ساتھ دنیا کی آبادی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، یہ مسئلہ بھی مزید سنگین نوعیت اختیار کرجائے گا۔
انہیں خدشات پر سائرہ ناصر جو چارٹرڈ اکاؤنٹس ویمن کمیٹی کی سینیئر رکن ہیں، کہتی ہیں کہ چوتھے صنعتی انقلاب کے بارے میں جو تاثر پیدا کیا جارہا ہے کہ اس سے لوگ بے روزگار ہوجائیں گے، وہ بلکل غلط ہے، کیونکہ جب کمپیوٹرز کی ایجاد ہوئی تھی تب بھی لوگ یہ ہی باتیں کیا کرتے تھے کہ ٹائپسٹ کی نوکریاں ختم ہوجائیں گی، مگر وہ آج کے دور میں بھی کام کررہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ 'چوتھے صنعتی انقلاب سے ملازمین کم نہیں، بلکہ روز گار کے پہلے سے بھی زیادہ مواقع میسر آجائیں گے، کیونکہ ان روبوٹس کو چلانے والے تب بھی انسان ہی ہوں گی' ۔
خواتین کے لیے گھر بیٹھے کام کرنے کے مواقع
پاکستان میں خواتین کے لیے گھر سے باہر جاکر ملازمت کرنا ایک بڑا چیلنج بنتا جارہا ہے اور ایسے میں چوتھا صنعتی انقلاب ان کے لیے یہ آسانی پیدا کرے گا کہ وہ کسی بھی کمپنی کے ساتھ گھر بیٹھ کر ہی باآسانی کام کرسکیں گی۔
سائرہ ناصر کے بقول اس ٹیکنالوجی سے ان شادی شدہ خواتین کے مسائل آسان ہوجائیں گے جنہیں کسی نا کسی مجبوری کے تحت ملازمت اختیار کرنا پڑتی ہے اور جب بٹ کوائن جیسی سہولیات میسر آئیں گی تو یقین ان مسائل کا بھی خاتمہ ہوجائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس ٹیکنالوجی کا فائدہ مرد اور عورت دونوں کو ہوگا، کیونکہ اس وقت میں دیکھا جائے تو ہر شعبے میں یہ دونوں مل کر کام کررہے ہیں۔
تاہم، انھوں ساتھ یہ بھی کہا کہ اس وقت آن لائن شاپنگ میں سب سے زیادہ خواتین ہی خدامات سرانجام دے رہی ہیں، لہذا نئی ٹیکنالوجی کے لیے اگر ہم تیار ہوجاتے ہیں تو اس صورت میں بھی انہیں فائدہ ہوگا۔
آگاہی ایک اولین ضرورت
سائرہ کے خیال میں اس وقت پاکستان چوتھے صنعتی انقلاب کے لیے کسی حد تک تیار ہے اور نہیں بھی، کیونکہ حکومتی سطح پر تو اس وقت ہم بلکل بھی اس قابل نہیں کہ اس سے فائدہ اٹھا سکیں، لیکن جہاں تک تعلیمی اداروں کی بات ہے تو وہاں اس پر کام ہورہا ہے اور ہمارے طلبہ بہت سے آلات بھی بنا چکے ہیں جو چوتھی صنعتی انقلاب کا ایک واضح عکس ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'حکومت کو چاہیے کہ وہ اس پر توجہ دے تاکہ پاکستان مستقبل میں ترقی کی منزلوں پر چڑھ سکے اور سب سے پہلے تو عوام کو اس بارے میں بتائے کہ آیا یہ چوتھا صنعتی انقلاب ہے کیا'۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان میں ٹیلنٹ کی ذرا بھی کمی نہیں ہے، اسی لیے جب ہمارے نوجوان دنیا میں جاکر اپنے ملک کا نام روشن کررہے ہیں اور ان میں ایسی صلاحیتیں بھی پائی جاتی ہیں، جن سے وہ آنے والے وقت میں ان جدید آلات سے فائدہ اٹھا سکے گے۔
تعلیمی نصاب کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ بدقسمتی اس میں بھی ایسی کوئی چیز شامل نہیں ، جن سے آنے والی نسل اس ٹیکنالوجی سے فائدے اٹھائے۔
انسٹیٹیوٹ آف چارٹرڈ اکاؤنٹس کے قائم مقام صدر فرخ رحمٰن بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ ٹیکنالوجی کے شعبے میں مؤثر اقدامات نہ ہونے کے باعث عوام کی بڑی تعداد اس حوالے سے لاعلم ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں