ڈی ایچ اے سٹی کے باعث کسان اپنی زرعی اراضی سے محروم
پاکستان کی طاقتور ترین ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے ساتھ ابراہیم کاچھیلو کا آمنا سامنا رواں سال اکتوبر کے اوائل میں ہوا۔
موسموں کی سختی جھیل چکے چہرے پر غصے اور لاچاری کے تاثرات لیے اس کسان کا کہنا تھا کہ 'میں معمول کے کاموں سے واپس آرہا تھا کہ میں نے مسلح گارڈز کے ساتھ کچھ لوگوں کے گروہ کو میری زمین پر کنکریٹ کی بنی ڈی ایچ اے (ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی) کی تختی لگاتے دیکھا'۔
'میں نے ان سے کہا کہ آپ لوگ یہاں سے چلے جائیں، میرے پاس اس جگہ کی لیز موجود ہے لیکن انہوں نے میری ایک نہ سنی۔'
مشتعل ابراہیم کاچھیلو نے ڈی ایچ اے حکام کے سامنے ان کی تختی کو توڑنا چاہا لیکن ان کے مسلح گارڈز نے ان پر بندوق تان لی اور ایک جھگڑا کھڑا ہوگیا۔
اس وقت تو وہ لوگ چلے گئے، مگر ابراہیم کاچھیلو کو ڈر ہے کہ وہ دوبارہ آئیں گے۔
ان کا رد عمل صرف غصے کی وجہ سے نہیں بلکہ خوف کی وجہ سے بھی تھا۔ خوف اس بات کا تھا کہ ان کو ان کی آبائی زمین سے بے دخل کردیا جائے گا کیونکہ انہوں نے ان کے باغ، جو کہ کراچی کے چھے ضلعوں میں سے سب سے بڑے ضلع ملیر میں سپر ہائی وے کے شمال کی جانب جاتے ٹریک کے ساتھ واقع ہے، سے کچھ ہی دور دوسرے لوگوں کے ساتھ بھی یہ ہوتے دیکھا ہے۔
دوسری جانب سپر ہائی وے کے جنوب کی جانب جاتے ٹریک کے ساتھ ڈی ایچ اے سٹی کراچی (ڈی سی کے) ہاؤسنگ پروجیکٹ کا 11 ہزار 640 ایکڑ پر مشتمل دیہہ ابدار اور دیہہ دھادیجی میں تعمیراتی کام جاری ہے۔ دیہہ صوبہ سندھ میں ریوینیو کے اعتبار سے زمین کی سب سے چھوٹی اکائی ہے، جسے ملک کے دیگر صوبوں میں موضع کے نام سے جانا جاتا ہے۔
پکی سڑکوں اور فارم ہاؤسز نے کاشتکاری کے لیے استعمال کی جانے والی اس سرسبز زمین کو ختم کردیا ہے جہاں دیہی آبادی اپنے مویشی چرایا کرتی تھی، جبکہ تیزی سے جاری تعمیرات کی وجہ سے دیہات کو بھی دیواروں میں بند کردیا گیا ہے یا پھر انہیں بند کرنا جاری ہے۔
تاہم ان افراد کو سندھ ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کرنے پر عدالتی احکامات کے تحت ڈی ایچ اے سے زمین کا کچھ حصہ واپس مل گیا ہے۔
یہ 11 ہزار 640 ایکڑ زمین میں ہاؤسنگ پروجیکٹ کے 1 سے لے کر 16 تک سیکٹرز موجود ہیں جنہیں ڈی ایچ اے کو 2005 میں بورڈ آف ریوینیو سندھ کی جانب سے 1 لاکھ روپے فی ایکڑ کی رعایتی قیمت پر دیا گیا تھا۔
بورڈ آف ریوینیو صوبائی محکمہ ہے جو صوبے کی تمام زمینوں کا مالک ہے اور زمینوں کے محصولات جمع کرنے اور زمینوں کے ریکارڈ کو مرتب کرنے وغیرہ کا ذمہ دار ہے۔
ابراہیم کاچھیلو کی زمین پر ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کے حکام کی جانب سے کیا جانے والا 'دورہ' ڈی سی کے کی ہائی وے کے شمال کی جانب جاتے ٹریک کے ساتھ 8 ہزار ایکڑ پر مشتمل کاٹھور اور بائل کے دیہات میں توسیع کے سلسلے میں تھا۔
دیہہ بائل میں واقع ابراہیم کاچھیلو کی زمین کئی نسلوں سے ان کے خاندان کے پاس ہے جہاں وہ خود 40 سال سے کاشت کاری کرتے آرہے ہیں۔
ایک پتھریلی چٹان ان کے گھنے امرود کے باغات کا منظر عکس بند کرنے میں مدد دیتی ہے۔
ابراہیم کاچھیلو کا کہنا تھا کہ 'ان سالوں میں انہوں نے اس باغ پر لاکھوں روپے خرچ کیے ہیں جس میں ٹیوب ویل لگانے کا خرچ بھی شامل ہے۔'
قریبی علاقوں میں ابراہیم کاچھیلو جیسے کئی افراد مقیم ہیں، جہاں کدو کے کھیت ایک کے بعد ایک موجود ہیں تاہم امرود، چیکو اور شریفے کے باغات اس خوبصورت زمین کا گھیراؤ کرتے ہیں۔
اس علاقے میں زمین رکھنے والے ایک اور کسان وحید سکندر چھُٹو کا کہنا تھا کہ 'اس سال بارشیں بہت ہوئیں جس کی وجہ سے ہمارے کنویں دوبارہ بھر گئے جس کی وجہ سے ہمیں اگلے دو سال تک کاشت کرنے میں کسی قسم کے مسائل کا سامنا نہیں ہوگا۔'
یہ تمام افراد ڈی سی کے کے توسیعی منصوبے سے پریشان ہیں، پکے ہوئے کدو کھیتوں سے توڑنے میں مصروف تاج بی بی کا کہنا تھا کہ ان کے خاندان کے 50 سے زائد افراد، جو ان کھیتوں کے سہارے اپنی زندگی گزار رہے ہیں، جب انہیں یہاں سے ہٹا دیا جائے گا تو وہ کیسے گزارا کریں گے؟
کھیتوں کے اطراف میں کھیلتی لڑکیاں اس بات سے لا علم ہیں کہ ان کی زمین پر ہونے والی چوری نے ان کے گھر کے بڑوں کی نیندیں چرا لی ہیں۔
دیہہ کاٹھور کی تقریباً کل آبادی 15 ہزار کے قریب ہے اور دیہہ بائل میں تقریباً 12 ہزار افراد رہائش پذیر ہیں جن میں سے تمام افراد اپنے گھریلو معاملات کے لیے مقامی زراعت پر انحصار کرتے ہیں۔
یاد رہے کہ 2012 میں سندھ بورڈ آف ریوینیو نے 8 ہزار ایکڑ پر دیہہ کاٹھور اور دیہہ بوئل میں تمام 30 سالہ زرعی لیز کو ختم کرتے ہوئے زمین کو ڈی ایچ اے کے حوالے کردیا تھا۔
اس پیش رفت کے حوالے سے مقامی افراد کو ایک سال بعد علم ہوا تھا۔
2017 کے اوائل میں ڈی سی کے کے حکام نے ہائی وے کے اطراف میں روزانہ کی بنیاد پر دورہ کرنے، زمین کا سروے اور حد بندی کے لیے تختیاں لگانے کا آغاز کیا، جس کے بعد مقامی افراد کو زمین خالی کرنے پر مجبور کرنے کا آغاز ہوا۔
ایک دیہاتی کا کہنا تھا کہ 'انہوں نے ہم سے کہا کہ دیکھو یہ ایک فوجی ادارہ ہے اور اگر یہ یہاں آنا چاہتا ہے تو اسے تم روک نہیں سکتے'۔
ان دیہاتی نے مزید کہا کہ ہم کیسے یہاں سے جا سکتے ہیں، یہ صرف پیسوں کی بات نہیں ہماری زمین ہماری ماں کی طرح ہے جس نے ہمیں پالا ہے۔
لیز کو غیرقانونی طور پر منسوخ کیا گیا
بھلے ہی حکومت حق رکھتی ہے کہ 30 سال زرعی اراضی کی لیز کو منسوخ کردے لیکن اس کے حوالے سے بھی شرائط موجود ہیں۔
کالونائیزیشن آف گورنمنٹ لینڈ ایکٹ 1912 کی شق 24 کے مطابق اگر اراضی کی اتھارٹی سمجھتی ہے کہ اس کے کرایے دار نے طے شدہ قواعد و ضوابط کے خلاف ورزی کی ہے تو وہ مذکورہ کرایے دار کو اپنے دفاع کا موقع دینے کی پابند ہوگی۔
اسی قانون کی رو سے (اگر کرایے دار خلاف ورزی میں پایا جاتا ہے تو) اسے ایک تحریری نوٹس کے ذریعے آگاہ کیا جائے گا کہ وہ اپنے معاملات درست کرلے جس کے لیے مالک اس کو کم از کم ایک مہینے کا وقت دینے کا پابند ہوتا ہے اور اس سے قبل مالک کرایے دار پر کوئی جرمانہ عائد نہیں کر سکتا اور نا ہی لیز منسوخ کی جا سکتی ہے۔
ملکیت پر انفرادی حق کا یہ تحفظ عالمی قوانین کے مطابق ہے۔
(مزید یہ کہ، لینڈ ایکیوزیشن ایکٹ 1984 (زمین حاصل کرنے کے قانون) کے مطابق حکومت 'مفادِ عامہ' کے لیے معاوضہ ادا کر کے زمین واپس حاصل کر سکتی ہے۔ حکومت مذکورہ زمین حاصل کر کے اسے کسی نجی ڈیولپر کو نہیں دے سکتی)۔
کاٹھور اور دیہہ بائل کے کاشتکار پابندی سے لیز کی تجدید کروا رہے تھے، وہ لیز کی شرائط کے مطابق زمین کی کاشت بھی کر رہے تھے اور لیز کی فیس بھی ادا کر رہے تھے۔
انہوں نے زرعی اراضی کی لیز منسوخ کرنے کے خلاف مشترکہ پٹیشن میں سندھ حکومت اور ڈی ایچ اے کو نامزد کیا ہے۔
کاشتکاروں کی جدوجہد حضرت داؤد اور جالوت کی جنگ سے کم نہیں، جو وہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کے پچھلے حصے میں کر رہے ہیں۔
مگر ڈی ایچ اے کراچی کے عہدیدار تردید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حکومت سندھ نے ڈی ایچ اے سٹی کراچی (ڈی سی کے) کو زمین الاٹ کی جس کے بعد وہ اب کاشتکاروں سے متعلق کسی بھی قسم کی ذمہ داری سے مستثنیٰ ہیں۔
ڈی ایچ اے کراچی کے ایڈمنسٹریٹر بریگیڈیئر شاہد حسن علی نے ڈان کو انٹرویو میں بتایا کہ ‘انہوں (حکومت سندھ) نے ہمیں زمین دینے سے قبل تمام قانونی تقاضے پورے کیے اور انہوں نے لیز پر کام کیا اور ہم نے اپنے قواعد کے مطابق تسلی کی’۔
انہوں نے کہا کہ ‘چوں کہ ڈی ایچ اے قانون کی پاسداری کرتا ہے، اس لیے یہ ایک کمزور یرغمالی کی طرح ہے." ان کا کہنا تھا کہ ان کا چیک اینڈ بیلنس کا نظام سویلین نظام سے کہیں زیادہ مربوط ہے. "اگر حکومت کے پاس 10 ضوابط ہیں تو ہمارے پاس 17 ضوابط ہیں."
6 مئی 2011 کو اس وقت کے ڈی ایچ اے کے ایڈمنسٹریٹر بریگیڈیئر عامر رضا قریشی کی جانب سے خط نمبر DHA/TP&BC/ 108/ DCK وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کو لکھا گیا تھا. اس خط کے آگے چل کر ملیر کے ان علاقوں میں رہائش پذیر لوگوں کی زندگیوں پر دور رس اثرات مرتب ہونے تھے.
ڈان کے پاس موجود اس خط میں 11 ہزار 640 ایکڑ زمین کا پہلا رقبہ رعایتی نرخ پر دپنے پر سندھ حکومت کا شکریہ ادا کیا گیا تھا۔
اسی خط کے متن میں تحریر ہے کہ "حکومت سندھ کی جانب سے ڈی ایچ اے کو ملنے والی حالیہ زمین کا رقبہ طلب سے کم ہے. دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جوانوں کی اموات میں اضافے کے پیش نظر مزید زمین کا حصول بہت ضروری ہے۔
شہدا کے لواحقین کی بحالی کے لیے پاک فوج کو اراضی کی اشد ضرورت ہے اور ڈی ایچ اے کراچی کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں کہ آپ سے درخواست کی جائے کہ مادر وطن پر جان نثار کرنے والوں کی ضرورت کو پورا کیا جائے۔"
اسی خط میں صوبائی حکومت سے اضافی 5 سے 7 ہزار ایکڑ زمین پرانے نرخوں، جو 1 لاکھ روپے فی ایکڑ تھی، پر الاٹ کرنے کی درخواست کی گئی.
سندھ ڈسپوزل آف اربن لینڈ آرڈیننس 2002 کے مطابق ‘حکومت کی جانب سے کسی اتھارٹی کو زمین معاہدے کے ذریعے مارکیٹ ریٹ (جس کا تعین ڈپٹی کمشنر کرے گا) پر الاٹ کی جائے گی.'
(مگر کم قیمت ہاؤسنگ اسکیموں کو اس سے استثنیٰ حاصل ہے. انہیں رعایتی نرخوں پر زمین دی جا سکتی ہے، مگر اسے بھی مارکیٹ ریٹ کا کم از کم 25 فیصد ہونا چاہیے۔)
اس طرح مارکیٹ ریٹس کے مطابق 2011 میں سپر ہائی وے کے دونوں جانب فی ایکڑ زمین کی قیمت کم از کم 1 کروڑ روپے بنتی تھی۔
ڈی ایچ اے ایڈمنسٹریٹر کی جانب سے لکھے گئے خط میں وزیراعلیٰ سندھ سے کہا گیا تھا کہ: "ہم آپ کے علم میں لانا چاہتے ہیں کہ پہلے سے الاٹ شدہ زمین کے برابر میں دیہہ بائل میں 10 ہزار ایکڑ زمین کا ایک ٹکڑا دستیاب ہے۔"
سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کراچی کے ضلعی افسر (ریونیو) کی دستخط شدہ ایک دستاویز میں لکھا ہے کہ 9 جولائی 2011 تک مذکورہ علاقے کے تپیدار (زمین کا ریکارڈ رکھنے والے افسر) نے اطلاع دی تھی کہ دیہہ بائل میں 7 ہزار ایکڑ زمین کا رقبہ ڈی ایچ اے کو الاٹمنٹ کے لیے موجود ہے۔
اس دستاویز کے مطابق، تپیدار نے رپورٹ کیا کہ 179 مقامی شہریوں کو 1481 ایکڑ اراضی 30 سالہ لیز پر مرغ بانی، واہی چاہی (جزوی طور پر کنوئیں کے پانی سے زراعت) اور بارانی زراعت کے لیے دی گئی تھی.
دستاویز کے مطابق صرف ‘کچھ’ لوگوں نے ‘زمین کو مذکورہ مقاصد کے لیے استعمال/ڈیولپ کیا، چنانچہ چند کیسز کے علاوہ باقی تمام لیزوں کو گرانٹ کی شرائط کے مطابق منسوخ کیا جا سکتا ہے۔
دستاویز کے مطابق متعلقہ تپیدار نے یہ بھی واضح کیا کہ دیہہ کاٹھور میں زمین کے دو ٹکڑے مل کر 1000 ایکڑ زمین بناتے ہیں، جو ڈی ایچ اے کو الاٹمنٹ کے لیے دستیاب ہے جبکہ ‘مذکورہ بالا علاقے میں کچھ 30 سال کی لیز والی غیر ترقی یافتہ زمین بھی شامل ہے’۔
سندھ حکومت کی جانب سے 7 جنوری 2012 کو ایک خط ڈی ایچ اے کو لکھا گیا، جس میں کہا گیا کہ ڈی ایچ اے کو 1 لاکھ روپے فی ایکڑ کے حساب سے 8 ہزار ایکڑ زمین 80 کروڑ روپے میں الاٹ کی جارہی ہے اور اس زمین پر موجود تمام 30 سالہ لیزوں کو منسوخ کیا جارہا ہے۔
ایک غیر متوازن مقابلہ
سندھ حکومت کی جانب سے ایک منافع بخش ادارے کو دی جانے والی اس حیران کن 'چھوٹ' کا اندازہ کرنے کے لیے درج ذیل نکات پر غور کریں۔
سرکاری نرخوں کے مطابق دیہہ ابدار اور کھدیجی میں 11 ہزار 640 ایکڑ اراضی، جو کہ ڈی سی کے کے ابتدائی فیز میں شامل ہیں، کی اوسط فی ایکڑ قیمت 12 لاکھ روپے تھی۔ یہ کل 14 ارب روپے مالیت کی زمین ہے۔
دوسرے فیز میں دیہہ بائل اور کاٹھور شامل ہیں، بائل کی 7 ہزار ایکڑ زمین کی کل مالیت 7 ارب 70 کروڑ روپے جبکہ کاٹھور کی 1000 ایکڑ کی مالیت 4 ارب روپے ہے۔
سرکاری نرخوں (جو مارکیٹ ریٹ سے کہیں کم ہیں) کے مطابق 19 ہزار 640 ایکڑ زمین کی قیمت 25 ارب 70 کروڑ روپے ہے، جسے حکومت سندھ نے ڈی ایچ اے کراچی کو صرف 1 ارب 96 کروڑ روپے میں فروخت کیا۔ اگر مارکیٹ ریٹ لگائے جائیں تو زمین کی قیمت اس سے کہیں زیادہ 196 ارب روپے بنتی ہے۔
اس کے علاوہ دیہہ بائل میں 7 ہزار ایکڑ اور کاٹھور میں ایک ہزار ایکڑ الاٹمنٹ — یعنی ڈی ایچ اے کی جانب سے مطلوبہ زمین سے ایک ہزار ایکڑ زیادہ — کی الاٹمنٹ ایک مرتبہ پھر اس بات کا ثبوت ہے کہ کس طرح سندھ حکومت کی قیادت معاشرے کے طاقت ور طبقات سے فائدہ اٹھانے کے لیے عوام کے حقوق پر سمجھوتہ کرتی ہے۔
ستم ظریفی ہے کہ یہ علاقہ ایک عرصے سے پیپلز پارٹی کا ووٹ بینک رہا ہے۔ گاؤں والوں کی نظر میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی حکومت کا انہیں ان کی زمینوں سے بے دخل کرنے میں ادا کیا گیا کردار بھٹو کے اصولوں سے غداری ہے۔ فرطِ جذبات سے تھرتھراتی آواز کے ساتھ ایک دیہاتی اجمل جوکھیو کہتے ہیں کہ "اگر آج بینظیر بھٹو زندہ ہوتیں تو یہ نہیں ہوتا۔" گاؤں والے ان کی تائید میں سر ہلاتے ہیں۔
اس طرح کے معاملات میں صوبائی حکومت کی پھرتیاں اس سستی کے بالکل متضاد ہیں جو وہ وہاں دکھاتی ہے جہاں بات عوام کی بنیادی ضروریات کی ہو۔ مثال کے طور پر مناسب فاصلے کے اندر لڑکیوں کے لیے کوئی ہائیر سیکنڈری اسکول نہیں ہے، جس کی وجہ سے والدین اپنی بیٹیوں کو آٹھویں جماعت سے زیادہ تعلیم نہیں دلاتے۔
مقامی سیکنڈری اسکول کے استاد عبدالقیوم کہتے ہیں، "ہم نے اسکول کو میٹرک تک اپ گریڈ کیا ہے لیکن حکومت نے ابھی تک اساتذہ کا تقرر، اور ان کی تنخواہوں کے لیے فنڈز جاری نہیں کیے۔"
اس بارے میں محکمہ تعلیم اور پیپلز پارٹی کے مقامی ایم پی اے ساجد جوکھیو کو گزشتہ کئی سالوں سے درخواستیں دی گئی مگر انہوں نے اپنے کان بند کیے ہوئے ہیں۔
اسی طرح مقامی لوگوں کی اپنی زمین چھن جانے کے خطرے سے متعلق اپیلوں کو بھی نظر انداز کیا گیا، دیہہ بائل کے چھوٹے سے اسٹور میں کچھ جوسز، چپس اور دیگر سامان بیچنے والے مقامی کونسلر کریم بخش چھٹو نے ایک چھوٹا سا ٹوٹا پھوٹا صندوق کھولا۔
اس میں رہائشیوں کی بحریہ ٹاؤن کراچی اور ڈی ایچ اے کراچی کے خلاف جدوجہد کی دستاویزات شامل تھیں۔ یہ دونوں ڈیولپر ان لوگوں کو دونوں جانب سے دبا رہے ہیں۔
دستاویزات میں وزیرِ اعلیٰ سندھ،، رینجرز اور پولیس وغیرہ سے ان کی اراضی پر قبضہ روکنے کے لیے لکھے گئے خط شامل تھے لیکن کسی کی جانب سے جواب نہیں دیا گیا۔
تمام آپشن ختم ہوجانے کے بعد دیہہ بائل کے رہائشی عبدالرحمٰن چھٹو نے سندھ حکومت اور ڈی ایچ اے کراچی کے خلاف آئینی درخواست نمبر 6054/2017 جمع کرائی۔
اس درخواست میں انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ ان کی 229 ایکڑ لیز شدہ زرعی زمین — علاوہ اس 18 ایکڑ کے جس پر 1987 کی گوٹھ آباد اسکیم ایکٹ کے تحت ریگولرائز کیا گیا گاؤں گوٹھ عبدالرحمان قائم ہے — صوبائی حکومت کے دعووں کے برخلاف غیر ترقی یافتہ حالت میں نہیں تھی۔
اس معاملے پر سندھ حکومت اور ڈی ایچ اے کراچی کو جواب جمع کروانے کے لیے نوٹسس جاری کیے گئے۔
5 لاکھ 21 ہزار ایکڑ پر قائم ضلع ملیر کراچی کے شمالی اور مشرقی حصے میں ہے۔ اس کے 43 دیہہ کراچی کے دیہاتی مضافات کا علاقہ بناتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے دیہہ جیسے لنگھیجی، کاٹھور اور بائل شہری علاقوں کا حصہ ہیں، جو کراچی کو سبزی اور پھل فراہم کرتے ہیں۔
یہ گرین بیلٹ زیادہ قیمتی ہے کیونکہ یہاں شہری علاقوں کی طرح سبز مقامات کو ختم کرتی ہوئی تعمیرات نہیں ہیں۔ جب کیرتھر رینج میں بارش ہوتی ہے تو پانی ملیر کے میدانی علاقوں میں جمع ہو جاتا ہے، جس سے پانی کے ذخائر اور چھوٹے ڈیم بھر جاتے ہیں، اور موسمی ندیاں ایک بار پھر جاری ہوجاتی ہیں۔ یہاں کی زمین یا تو بارانی ہے یا اسے ٹیوب ویل کے ذریعے پورا سال آباد رکھا جاتا ہے۔
ایک بڑے شہری مرکز سے قریب ہونے کے باوجود یہاں ایک جابرانہ جاگیردارانہ نظام یہاں قائم ہے۔
پیپلز پارٹی کے جامشورو سے ایم این اے سردار ملک اسد سکندر اس علاقے کے سب سے زیادہ طاقت ور جاگیر دار ہیں، جو کوہستان کے طور پر جانا جاتا ہے جو (جامشورو اور حیدرآباد اضلاع کے ساتھ ساتھ کراچی کے غربی اور ملیر اضلاع کے حصوں پر مشتمل ہے)۔
برڑو قبیلے کے سردار ملک اسد سکندر کاچھیلو، پالاری اور گوندر کے ذیلی قبیلوں کے بھی سربراہ ہیں، اور ایسا اثر و رسوخ رکھتے ہیں جس میں بغاوت کی کوئی گنجائش نہیں۔ شیشوں سے جڑی سفید سندھی ٹوپی پہنے ایک دیہاتی کہتے ہیں: "امید ہے کہ آپ ہمارے نام شائع نہیں کریں گے، وہ سردار لوگ ہیں، وہ ہمیں تباہ کردیں گے۔"
سردار سکندر باقاعدگی سے ملیر کے مختلف اضلاع میں شکار مہمات پر آئے ہوئے عرب شاہی مہمانوں اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور سماجی طور پر بااثر لوگوں کی میزبانی کرتے ہیں۔
ڈی سی کے اور بحریہ ٹاؤن کراچی کا پھیلنا سردار سکندر کی طاقت اور اثر و رسوخ میں کمی کا باعث نہیں۔ مگر وہ چاہے جتنے بھی روابط رکھتے ہوں، انہیں ڈی ایچ اے کے عظیم الشان نام اور بحریہ ٹاؤن کے سربراہ ملک ریاض کے سندھ کے وی وی آئی پیز سے کاروباری تعلقات کو مدِنظر رکھتے ہوئے احتیاط سے چلنا ہوگا۔
مگر اسی وقت ہر چیز کی ایک قیمت ہوتی ہے، اور ان کے معاملے میں یہ قیمت ہاؤسنگ پراجیکٹس میں ہزاروں پلاٹس کی 'فائلیں' ہیں۔ دوسرے سیاسی فوائد اس کے علاوہ۔
قیاس آرائیوں میں اضافہ
ڈی ایچ اے کراچی نے ابتدا میں ڈی سی کے کے لیے 11 ہزار 640 ایکڑ اراضی اور بعد میں 8000 ایکڑ کے لیے درخواست دی تھی جس کا مقصد ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں شہید ہونے والوں کے لواحقین کی بحالی تھا۔ عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ 2001 سے اب تک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تقریباً 6 ہزار فوجی اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں۔
ڈی ایچ اے کے ایڈمنسٹریٹر بریگیڈیئر علی کے مطابق شہداء کے لواحقین کو شہید کے رینک کے مطابق معاوضہ دیا جاتا ہے، مگر اس ضابطے میں استثنیٰ بھی ہو سکتا ہے۔
بریگیڈیئر علی کا کہنا تھا کہ منصوبے میں 5 مرلے (100 گز) سے لے کر ایک ایکڑ (4 ہزار 840 مربع گز) کے درمیان پلاٹ موجود ہیں۔
تاہم یہاں ایک منطقی سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیوں شہداء کے نام پر اتنی بڑی زمین کی ضرورت پیش آرہی ہے؟
بلدیاتی حکومت کے ایک سابق سرکاری اہلکار کا کہنا تھا کہ "شہداء کے ورثا کو ان کے گھروں کے نزدیک بھی پلاٹ فراہم کیے جاسکتے تھے۔ پاکستان کی تاریخ میں شہداء کے نام پر کاروباری سرگرمیوں کی مثال نہیں ملتی۔ یہ جرم سابق صدر پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں کراچی والوں کے ساتھ کیا گیا۔"
شہریوں کو رہائش فراہم کرنا عالمی سطح پر ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے جبکہ گھروں کی تعمیر بے جا منافع حاصل کرنے کے لیے نہیں بلکہ رہائش کے لیے ہونی چاہیے۔
تجارتی وجوہات کی بنا پر زمین کے اس استحصال کی وجہ سے زمین کی قیمتوں میں مصنوعی اضافہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے گھر تعمیر کرنا ایک عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہوجاتا ہے۔
کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (کے ڈی اے) کے سابق ڈائریکٹر نے دعویٰ کیا کہ "یہ نام نہاد ہاؤسنگ اسکیمز روز بروز اس پیسے سے بھی محروم کر رہی ہیں جن سے کراچی میں کم از کم نچلے درجے سے لیکر درمیانی درجے کے گھروں کی تعمیر کی جا سکتی تھی۔"
سپر ہائی وے کے دونوں جانب 11 ہزار 640 ایکڑ اور 8 ہزار ایکڑ پر مشتمل ڈی سی کے کا کل 19 ہزار 640 ایکڑ کا رقبہ حجم میں نہ صرف کراچی میں ڈی ایچ اے کے ابتدائی 8 فیز (8 ہزار 852 ایکڑ) سے دگنا ہے بلکہ یہ کراچی کے ضلع وسطی (19 ہزار ایکڑ) اور لاہور کے اولڈ سٹی ایریا (16 ہزار ایکڑ) سے بھی بڑا ہے۔
ماہرین کے مطابق طاقتور ڈیولپرز کی جانب سے کراچی کے محفوظ اور زرخیز مقامات پر ڈی سی کے کی طرح کی ترقیاتی اسکیمز جائیداد کے حقوق، ماحولیاتی قوانین اور شہری منصوبہ بندی کے اصولوں کی خلاف ورزیاں ہیں۔
آرکیٹیکٹ اور شہری منصوبہ ساز عارف حسن کا کہنا تھا کہ "جنوبی ایشیاء سے باہر کسی بھی شہر میں انہیں اس طرح کے ترقیاتی منصوبے بنانے کی اجازت نہ ملتی، بلکہ ان سے کہا جاتا کہ وہ اپنے زیر التوا منصوبوں کو مکمل کریں۔"
ڈی ایچ اے کراچی کے آنے کے 37 سال بعد بھی ڈی ایچ اے فیز 8 اور ڈی ایچ اے 7 ایکسٹینشن میں 3000 ایکڑ سے زیادہ رقبہ خالی ہے، جبکہ اس کی تعمیر کے لیے ڈی ایچ اے 4 مرتبہ مالکان سے ڈیولپمنٹ چارجز وصول کرچکا ہے۔
ایک سابق سرکاری اہلکار کا کہنا تھا کہ یہ ناقابلِ یقین بات ہے کہ ایک ڈیولپر، جس کی گزشتہ 4 دہائیوں سے تعمیری اعتبار سے صلاحیت انتہائی خراب رہی ہے، اسے ایسی اسکیم کی اجازت کیسے دی جاسکتی ہے، جو اس کی صلاحیت سے ڈھائی گنا زیادہ ہے۔
بریگیڑیئر علی نے کہا کہ ’زمین کی قیمتوں پر سٹے بازی ہمارے اختیار میں نہیں، نجی سرمایہ کار یہاں آتے ہیں گھروں کی تعمیر کرتے ہیں بعد میں ان میں رہائش کرنے کے بجائے انہیں فروخت کردیتے ہیں، تاہم یہ مارکیٹ فورسز ہیں جن کے بارے میں ہم کچھ نہیں کر سکتے۔‘ مگر وہ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اس منصوبے کی مکمل آبادکاری میں ابھی بھی کئی دہائیاں لگیں گی۔
ایک شفاف اندازِ فکر
ڈی ایچ اے کراچی کے ایڈمنسٹریٹر، جو ایک سول انجینئر ہیں، کا کہنا تھا کہ ’ہم مستحکم ترقی چاہتے ہیں۔ ہمارے پاس 4 یا 5 فعال چیک ڈیم ہیں جبکہ مزید 2 یا 3 پر کام جاری ہے تاکہ زیر زمین پانی بھرتا رہے۔ جبکہ پروجیکٹ میں کسی بھی قدرتی نالے کو نقصان نہیں پہنچایا گیا۔
اس منصوبے کو 'گرین اور اسمارٹ' سٹی کے طور پر پیش کیا گیا ہے، اور اس منصوبے میں ایک اعشاریہ 1 میگا واٹ کا سولر پروجیکٹ بھی لگایا گیا ہے۔
جب ان سے پانی اور دیگر ضروریات زندگی کی فراہمی کے حوالے سے سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ڈی ایچ اے نے اس معاملے میں سندھ حکومت سے رابطہ کیا ہے جس میں کراچی کو پانی فراہم کرنے والے منصوبے ’کے 4‘ سے معقول حصہ مختص کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔
’کے 4‘ منصوبہ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ (کے ڈبلیو ایس بی) کا گزشتہ 20 سال سے زیر التواء منصوبہ ہے جو کراچی کی آبادی کی 65 کروڑ گیلن پانی یومیہ کی کمی کو پورا کرنے کے لیے تعمیر کیا جارہا ہے۔
2003 میں انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) نے کراچی کو 26 کروڑ گیلن یومیہ مختص کرنے پر اتفاق کیا تھا، جو کہ اب تک صرف اتفاق ہی ہے۔
کے فور منصوبے کی فزیبلٹی اور ڈیزائن عثمانی اینڈ کمپنی لمیٹڈ نے تیار کیا تھا۔ 25 ارب روپے سے زیادہ لاگت والا یہ منصوبہ بعدِ ازاں عوامی ٹینڈر کی قانونی شرط کے بغیر فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن کو سونپ دیا گیا تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ عثمانی اینڈ کمپنی لمیٹڈ ہی ایک یونانی کمپنی ڈوزیاڈس ایسوسی ایٹس کی شراکت داری سے ڈی سی کے کے ڈیزائنرز ہیں جبکہ سابق منیجنگ ڈائریکٹر واٹر بورڈ نے بتایا کہ ’کے 4‘ منصوبے کی تعمیر کرنے والی ٹیم کو ہدایت دی گئی تھی کہ وہ اس منصوبے کا راستہ ڈی سی کے اور بحریہ ٹاؤن کراچی (بی ٹی کے) سے ہوتے ہوئے گزاریں۔
اس چیز نے کے ڈبلیو ایس بی کو مسائل سے دوچار کردیا کیوں کہ اس منصوبے سے کراچی کے علاوہ مزید کسی رہائشی آبادی کو کنکشن فراہم کرنے کے لیے فنڈز مختص نہیں کیے گئے تھے۔
یہاں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ کشش ثقل کے تحت پانی کراچی میں دریائے سندھ سے بغیر پمپنگ کے آ سکتا ہے، مگر اس منصوبے میں پانی کو کششِ ثقل کے برخلاف بھیجنے کے لیے زبردست پمپنگ کی ضرورت ہوگی۔
رواں برس مارچ کے مہینے میں پاکستانی ذرائع ابلاغ میں یہ خبر بھی سامنے آئی تھی کہ قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے ضلع جامشورو کے ایک ریونیو افسر کے خلاف کیس دائر کیا گیا ہے۔
اے ڈی سی ون جاوید سومرو اور اے سی ارشاد کملانی نے 731 ایکڑ سرکاری اراضی — جسے ریکارڈ میں نجی زمین دکھایا گیا تھا — کی ڈی ایچ اے کراچی کو فروخت یا ٹرانسفر سے متعلق مقدے میں ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کرنے کی کوشش کی تھی۔
ایسا لگتا ہے کہ بورڈ آف ریونیو میں جب کسی کو یہ احساس ہوا کہ سپرہائی وے کے دونوں اطراف میں کوئی قبولی (موروثی/نجی ملکیت میں موجود) زمین موجود نہیں ہے، اور ایک فراڈ کیا جا رہا ہے، تو اس نے معاملے کی شکایت نیب کو کی۔
جیسی امید کی جارہی تھی بالکل ویسا ہی ہوا اور نیب کی تحقیقات آغاز کے فوراً بعد روک دی گئیں، اور جب نیب ترجمان نے کسی بھی سوال کا جواب دینے سے انکار کر دیا، تو ایسے میں نیب ذرائع نے دعویٰ نے کہا کہ ’آپ کو اندازہ نہیں کہ ہم پر اس کیس کے حوالے سے کتنا دباؤ ہے‘۔
مقامی افراد کا الزام ہے کہ ملک اسد سکندر، جو سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ اور سندھ حکومت میں وی وی آئی پیز کے ساتھ تعلقات کے لیے مشہور ہیں، نے ضلع جامشورو میں ڈی ایچ اے کراچی کو ڈی سی کے کے سیکٹر 17 کی جعلسازی پر مبنی فروخت و منتقلی کا انتظام کیا تھا تاکہ نومبر 2012 سے سپریم کورٹ کی جانب سے سرکاری زمین کی نجی اور سرکاری اداروں کو الاٹمنٹ اور لیز پر عائد پابندی کا توڑ کیا جا سکے۔
نیب کے کیس نمبر NABK2015111019865 کی دستاویزات کے مطابق 9 افراد اس معاملے میں زیرِ تفتیش ہیں جن میں 3 سرکاری افسران اور 5 عام افراد ہیں جبکہ دستاویزات میں رقم "50 کروڑ روپے سے زائد" لکھی گئی ہے۔
اس کیس میں نیب تحقیقات سے ایک اقتباس کے مطابق "انکوائری سے ثابت ہوا کہ ریونیو افسران/ریوینیو ڈپارٹمنٹ کے اہلکاروں کی جانب سے جعلسازی کی گئی جس کے تحت سرکاری زمین کو دھوکہ دہی کے ذریعے نجی زمین دکھایا گیا۔"
تحقیقات میں یہ بھی لکھا ہے کہ "ڈی ایچ اے نے طلبی نوٹس جاری ہونے کے باوجود ایک بھی سوال کا جواب نہیں دیا۔"
نیب کی ایک اور متعلقہ دستاویز کے مطابق "ڈی ایچ اے کراچی کے قبضے میں موجود تقریباً 731 ایکڑ زمین لینڈ فراڈ کی وجہ سے اب بھی بورڈ آف ریوینیو، گورنمنٹ آف سندھ کی ملکیت ہے، اور ڈی ایچ اے کراچی کا اس پر کوئی قانونی حق نہیں ہے۔"
دائرہ کار پر سوالات
ڈی سی کے کے دائرہ کار کا حساس معاملہ بھی واضح نہیں ہوسکا ہے، جیسا کہ ڈیولپمنٹ کے معاملات کو ایک میونسپل اتھارٹی کی جانب سے دیکھا جانا چاہیے، جو متعلقہ قوانین کو لاگو کرنے کی ذمہ دار ہے۔
ڈی ایچ اے کراچی کے فیز ون سے فیز 8 ایک دوسرے سے متصل ہیں اور وہ کلفٹن کنٹونمنٹ بورڈ (سی سی بی) کے میونسپل دائرہ کار میں آتے ہیں تاہم ڈی سی کے، جو ڈی ایچ اے فیز 9 کے طور پر بھی شمار کیا جاتا ہے، سی سی بی کی حدود سے 40 کلو میٹر دور ہے اور ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے میونسپل دائرہ کار میں آتا ہے۔
ایڈمنسٹریٹر ڈی ایچ اے کراچی نے اس معاملے میں طریقہ کار کی بے قاعدگیوں کو تسلیم کیا اور کہا کہ ہم نے سندھ حکومت کے ساتھ ایک عمل شروع کیا ہے، جس میں ڈی ایچ اے کراچی، ڈی سی کے کو میونسپل سروسز فراہم کرے گا، ان کے خیال میں کئی ایسے طریقہ کار پر غور کیا جاسکتا ہے۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ ان معاملات میں اس بات کے زیادہ امکانات موجود ہیں کہ ڈی سی کے کو سی سی بی کا علیحدہ حصہ شمار کیا جائے تاکہ میونسپل کنٹرول حاصل کیا جاسکے تاہم کنٹونمنٹ ایکٹ 1924 کی شق 2 میں کنٹونمنٹ کی تعریف اس معاملے کو ضروری تحفظ فراہم نہیں کرتی۔
اس کے مطابق: "مرکزی حکومت سرکاری گزیٹ میں جاری نوٹیفیکیشن ک ے مطابق کسی بھی جگہ یا جگہوں کو، جس کے نزدیک مسلح افواج یا پاکستان کی فضائیہ کی تنصیبات ہوں، اگر ان جگہوں کی افواج کو ضرورت ہو تو انہیں کینٹونمنٹ قرار دیا جا سکتا ہے۔"
ایک ریٹائر سرکاری اہلکار نے پوچھا کہ کنٹونمنٹ کی تعریف کے مطابق دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شہید ہونے والوں کے نام پر کیسے زمین دی جاسکتی ہے؟
اس کے علاوہ اس طرح کا اقدام اکتوبر 2007 کے سپریم کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی ہوگی، سپریم کورٹ نے انسانی حقوق کے مقدمے (2006/6844) میں حکم دیا تھا کہ وزارت دفاع کے حکم نامے کے ذریعے شہری علاقوں کو کنٹونمنٹ بورڈ سے خارج کردیا جائے گا۔
اس فیصلے میں مزید کہا گیا تھا کہ ایسے علاقوں کی نشاندہی کے لیے ڈائریکٹر ملٹری لینڈ اینڈ کنٹونمنٹ کراچی، ای ڈی او ریونیو پر مشتمل کمیٹی سروے کرے گی اور ایک ماہ میں رپورٹ جمع کرائے گی۔
سپریم کورٹ کے حکم پر بنائی گئی کمیٹی کا اجلاس 4 دسمبر 2007 کو منعقد ہوا تھا، اجلاس کا ایجنڈا ابتدائی طور پر زیر بحث نہیں آیا تھا، اجلاس میں ڈائریکٹر جنرل ملٹری لینڈ اینڈ کنٹونمنٹ نے نشاندہی کی کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی اپیل دائر کی جائے گی اور اس وقت تک عمل درآمد کو روکا جائے۔
تاہم نظر ثانی کی اپیل کو عدم پیروی کے باعث خارج کردیا گیا اور سپریم کورٹ کے حکم پر بھی عمل درآمد نہیں ہوسکا۔
یہ کہا جارہا ہے کہ کلفٹن کنٹونمنٹ کا شہری علاقہ 9 ہزار 953 ایکٹر پر مشتمل ہے جبکہ آپریشنل (فوج) کے استعمال میں صرف 58 ایکڑ ہے، یہاں تک کہ کراچی کے 6 کنٹونمنٹس کا آپریشنل علاقہ 17 ہزار 516 ایکڑ تک ہے جو تمام ڈی سی کے کے مقابلے میں 2000 ایکڑ کم ہے، جن میں سے کوئی حصہ فوج کے استعمال کے لیے نامزد نہیں۔
دریں اثناء 6 کنٹونمنٹس میں شہری علاقہ 26 ہزار 95 ایکڑ تک ہے، جو ڈی سی کے کے لیے مختص زمین سے تقریبا 6 ہزار ایکڑ کم ہے۔
اس سے قبل قومی تعمیرِ نو بیورو نے جنرل (ر) پرویز مشرف کی حکومت میں پیش کی گئی رپورٹ میں تجویز دی تھی کہ کراچی میں فوج زیر استعمال زمین کے علاوہ دیگر کو کنٹونمنٹ سے خارج کیا جائے اور سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کراچی (سی ڈی جی کے) کے سپرد کیا جائے تاہم اس تجویز پر اتفاق نہیں کیا گیا تھا۔
ذرائع کے مطابق ایم ڈی اے دعویٰ کرتا ہے کہ ڈی سی کے کے سیکٹر 1 سے 16 تک کے لیے ترقیاتی اخراجات کی مد میں ایک ارب 35 کروڑ سے زائد مختص کیے گئے ہیں جبکہ ڈی ایچ اے کراچی نے کبھی اپنی اسکیم کا لے آؤٹ پلان جمع نہیں کرایا اور نہ ہی اتھارٹی سے فروخت کرنے یا تعمیر کرنے کے لیے لازمی اجازت یا این او سی حاصل کی۔
ایم ڈی اے انتظامیہ نے اصرار کیا کہ انہوں نے متعدد خطوط ڈی ایچ اے کراچی کو ارسال کیے لیکن کسی کا جواب نہیں دیا گیا۔
7 اکتوبر 2017 کی نیوز رپورٹ کے مطابق سندھ حکومت نے ضلع جامشورو میں 8 ہزار 500 ایکڑ اراضی شہداء کے اہل خانہ کے لیے 15 ہزار روپے فی ایکڑ پر فوج کو منتقل کی تھی۔
علاوہ ازیں ڈی ایچ اے سٹی ڈیولپمنٹ کے نام پر اراضی کے مقامی مالکان کا استحصال جاری رکھے ہوئے ہے۔
یہ رپورٹ 18 دسمبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی