• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm

آڈی کی فورتھ جنریشن اے-8 متعارف

نئی اے 8 میں 40 مختلف معاونت کرنے والے نظام نصب کیے گئے ہیں، 4 الگ سسٹم انہیں معلومات فراہم کرتے ہیں۔
شائع December 14, 2017

آڈی (Audi) نے اپنی فورتھ جنریشن گاڑی اے-8 (A8) مارکیٹ میں متعارف کروائی ہے اور اس بار کمپنی نے اپنی روایت سے کچھ ہٹ کر کیا ہے۔

ٹیسٹ ڈرائیور جینز اسٹارٹمن کہتے ہیں کہ باریکیوں پر دی گئی توجہ اس گاڑی کو کافی دلچسپ بنا دیتی ہے۔

ان کے مطابق ہمیں الیکٹرانک کیز (برقی چابیوں) کی مدد سے گاڑی کو لاک اور ان لاک کرنے کا تو معلوم ہے، لیکن اب ان چابیوں کی جگہ اسمارٹ فون نے لے لی ہے۔ اب دیگر لوگ بھی گاڑی استعمال کرسکیں گے، پھر چاہے کسی کی شریک حیات ہو یا بچے، یا چاہے مستقبل میں کوئی ڈلیوری سروسز ہی کیوں نہ ہو، جو آرڈر سیدھا گاڑی کی ڈگی تک پہنچادیں گے۔

نئی اے8 میں 40 مختلف معاونت کرنے والے نظام نصب کیے گئے ہیں جبکہ 4 الگ سسٹم انہیں معلومات فراہم کرتے ہیں۔

ریڈار سینسرز، فرنٹ کیمرا، الٹراساؤنڈ سینسرز اور لیزر اسکینر کی مدد سے گاڑی کے ارد گرد کے ماحول کی مکمل تصویر سامنے آ جاتی ہے۔

گاڑی کی پشت پر اگر نظر ڈالیں تو چمک دھمک والے لائٹنگ ڈیزائن کے علاوہ بھی کئی خصوصیات بھی دیکھنے کو ملیں گی، بالکل نئے انداز سے گاڑی کا نام لکھا ہوا نظر آئے گا۔

جینز اسٹارٹمن بتاتے ہیں کہ اس گاڑی میں 3 لیٹر والا وی-سکس ،55 ٹی ایف ایس آئی کوائٹرو انجن ہے، گیسولین سے چلنے والی یہ گاڑی 340 ہارس پاور کی طاقت پیدا کرتی ہے لیکن ہائبرائیڈیشن، یا الیکٹرو موبیلیٹی کے باعث آڈی اب اپنی گاڑی پر انجن سائز نہیں لکھتی۔

انہوں نے کہا کہ یقیناً اعداد گاڑی کی کارکردگی کو ظاہر کرتے ہیں، چھوٹے اعداد غیر متاثرکن اور بڑے اعداد بہتر کارکردگی کو ظاہر کرتے ہیں، ان اعداد کی ابتدا چینی مارکیٹ سے ہوئی۔

آڈی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ آپ 210 کلوواٹ ڈیزل ماڈل یا ابھی ٹیسٹ کیے جانے والے 250 کلوواٹ کے مضبوط گیسولین ماڈل میں سے کسی کا بھی انتخاب کر سکیں گے۔

نفیس ہائبرڈ ٹیکنالوجی کی بدولت ایندھن کی کھپت گھٹ کر صفر اعشاریہ 7 لیٹرز فی 100 کلومیٹر رہ گئی ہے۔

55 سے 160 کلومیٹرز فی گھنٹہ کی رفتار کے درمیان یہ گاڑی بند انجن کے ساتھ ایک وقت میں 40 سیکنڈز تک بغیر دھواں چھوڑے چل سکتی ہے۔

آڈی اے 8 کی زیادہ لمبائی کے باوجود بھی اسے پیچیدہ راستوں پر آسانی سے چلایا جا سکتا ہے، ڈائنامک آل وہیل اسٹیئرنگ کی بدولت شاید ہی گاڑی کی لمبائی کا اندازہ ہو۔

جینز اسٹارٹمن کے مطابق اس اسٹیئرنگ کی مدد سے آپ 5 اعشاریہ 17 میٹر کی اس گاڑی کے اگلے اور پچھلے ایکسلز پر الگ الگ اسٹیئرنگ اینگلز سیٹ کر سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اایک انٹیلجینٹ، ایکٹو چیسی پر اس گاڑی کا ڈھانچہ بٹھایا گیا ہے، یہی نہیں بلکہ پری سینس 360 ڈگری سسٹم پے سِو سیفٹی کو بڑھادیتا ہے۔

نئی آڈی اے 8 ایک مثالی نمونے کی حیثیت رکھتی ہے، تصادم کی صورت میں یہ گاڑی ٹکراؤ سے عین قبل 80 ایم ایم تک خود کو اوپر اٹھالیتی ہے۔

اس کے حوالے سے جینز اسٹارٹمن نے بتایا کہ گاڑی کے اندر ہیڈریسٹ بہتر انداز میں ایڈجسٹ کیے گئے ہیں اور سیٹ بیلٹس بھی کافی ٹائٹ کیے گئے ہیں، واقعی گاڑی میں سیفٹی کے جدید طریقوں کا استعمال کیا گیا ہے۔

گاڑی میں لگائے گئے سینسرز گرد و پیش کی ہر حرکت کا پتہ لگا لیتے ہیں، اے 8 نے بدترین سڑکوں پر گاڑی چلانے والوں پر بڑی محتاط نظر رکھی ہوئی ہے۔

معانت کرنے والا نظام ایک اور اہم خصوصیت بھی رکھتا ہے کہ اگر پیچھے سے موٹر سائیکل آرہی ہو تو یہ آپ کو گاڑی کا دروازہ کھولنے نہیں دیتا، یہ سسٹم گاڑی کے چاروں دروازوں پر کام کرتا ہے، مطلب یہ کہ والدین کو یہ گاڑی کافی متاثر کر سکتی ہے۔

جینز اسٹارٹمن بتاتے ہیں کہ یہ گاڑی اپنے چاروں اطراف بھی نظر رکھ سکتی ہے، انٹر سیکشن سینسز کے تحت فیلڈ آف ویو میں دکھائی دینے سے قبل ہی آپ کو پتہ چل جاتا ہے کہ کس طرف سے گاڑیاں آپ کی جانب آرہی ہیں، موٹر سائیکل والا آپ کو پہلے ہی ڈسپلے پر نظر آجاتا ہے اور اگر ڈرائیور اس پر کوئی رد عمل نہ دکھائے تو گاڑی بند ہو جاتی ہے۔

جدید ٹیکنولوجی کے ساتھ اے 8 نے ایکٹو اور پے سو سیفٹی میں ایک نئی مثال قائم کی ہے، مطلب گاڑی کے قریب جو بھی ہو وہ محفوظ رہے۔

یہ پریمیم لگژری سیڈان گاڑی بشمول ڈگی کے حقیقتاً ایک کشادہ گاڑی ہے۔

گاڑی کے اسسٹنٹ سسٹمز کافی متاثر کن ہیں، اس لیے جینز امید کرتے ہیں کہ آڈی اپنے دیگر ماڈلز میں بھی اس قسم کے سسٹمز نصب کرے گی۔

جرمنی میں اے 8 کی قیمت 90 ہزار یوروز سے شروع ہوتی ہے۔

اضافی 3 ہزار 5 سو یوروز میں آپ ایک بڑی وہیل بیس حاصل کرسکتے ہیں اور اگلے سال اس نفیس ہائبرڈ ماڈلز کے ساتھ پلگ ان ہائبرڈ بھی دستیاب ہوگی۔


یہ تحریر ڈوئچے ویلے (ڈی ڈبلیو) کے اشتراک سے تحریر کی گئی