فاٹا اصلاحات بل: قومی اسمبلی میں کورم پورا نہ ہونے پر حکومت کو شرمندگی کا سامنا
اسلام آباد: قومی اسمبلی میں وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ (فاٹا) اصلاحات بل حزب اختلاف کے بائیکاٹ کے بعد کورم پورا نہ ہونے کے باعث مزید تاخیر کا شکار ہوگیا جس کی وجہ سے حکمراں جماعت کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔
خیال رہے کہ موجودہ حکومت کو اپنے دور میں کئی دفعہ کورم پورا نہ ہونے پر پریشانی کا سامنا کرنا پڑا ہے اور یہ اس حوالے سے ہونے والے اجلاس میں تیسری مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ پارلیمنٹ میں حکمراں جماعت 86 اراکین کی حاضری کو یقینی بنانے میں ناکام رہی ہے جس کی وجہ سے اپوزیشن کے احتجاج کے باوجود بھی پارلیمنٹ کی کارروائی کو آگے بڑھایا جاسکتا ہے۔
مزید پڑھیں: ہمارے اراکینِ اسمبلی کو اسمبلی میں آنا پسند کیوں نہیں؟
گذشتہ روز پارلیمنٹ میں وقفہ سوالات کے دوران اپوزیشن کے ارکان کی غیر موجودگی پر کارروائی روک دی گئی تھی جس کی وجہ سے پارلیمنٹ کی کارروائی صرف 30 منٹ تک ہی چل سکی۔
چند حکومتی ارکان نے پارلیمنٹ میں گنے کے کاشتکاروں کے مسائل پر بحث شروع کی تو فاٹا کے رکن قومی اسمبلی شاہ جی گل آفریدی نے کورم پورا نہ ہونے کی نشاندہی کی جس کی وجہ سے اسپیکر ایاز صادق کو کارروائی کو کورم پورا نہ ہونے تک ملتوی کرنا پڑا۔
اگلے 45 منٹ تک حکمراں جماعت نے قانون سازوں کو پارلیمنٹ میں بلانے کی کوششیں کی جس کے بعد ایک ایک کرکے بینچز بھرنے لگیں، تاہم ان کی بے حد کوششوں کے باوجود حکومت کارروائی کے لیے اراکین کی مطلوبہ تعداد کو پورا نہیں کرسکی جس کی وجہ سے ڈپٹی اسپیکر مرتضیٰ عباسی نے کارروائی کو جمعرات تک کے لیے ملتوی کردیا۔
یہ بھی پڑھیں: قومی اسمبلی کے چار سال، 69 ارکان نے کارروائی میں حصہ نہیں لیا
قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے اپنے چیمبر میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ حکومت اسمبلی کی کارروائی کو آگے بڑھانے میں ناکام ہوگئی ہے۔
انہوں نے اراکین اسمبلی کی غیر حاضری کے رجحان کی ذمہ داری سابق وزیر اعظم نواز شریف پر ڈالتے ہوئے کہا کہ گزشتہ ریکارڈ نے ثابت کردیا ہے کہ ان کے آفس میں موجودگی کے باوجود حکومت کورم پورا کرنے میں ناکام رہی ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنماء کا کہنا تھا کہ حکومت اپنے ارکان کی غیر حاضری کی ذمہ داری مخالف جماعتوں پر ڈال رہی ہے۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ جمعہ کے دن پارلیمانی رہنماؤں اور وزیر اعظم کے درمیان ہونے والی ملاقات سے فاٹا قوانین اور نئی حلقہ بندیوں پر اٹھنے والے سوالات میں کوئی واضح پیش رفت ہو سکے گی۔
یہ خبر 14 دسمبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی