اے ٹی ایم فراڈ: راولپنڈی، اسلام آباد سے 4 مشتبہ افراد گرفتار
راولپنڈی: فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) نے دعویٰ کیا ہے کہ راولپنڈی سے چار مشتبہ افراد کو گرفتار کیا ہے جو مبینہ طورپر جعلی اے ٹی ایم، کریڈٹ اور ڈیبٹ کارڈ کے ذریعے بینک صارفین کی معلومات اور رقم چوری کرنے میں مطلوب تھے۔
واضح رہے کہ 8 دسمبر کو ایف آئی اے سائبر کرائم نے راولپنڈی سے ثاقب اللہ کے نام سے ایک شخص کو جعلی کریڈٹ کارڈ بنانے اور کریڈٹ کارڈ کی معلومات چوری کرنے اور نجی ویڈیوز کے ذریعے خواتین کو بلیک میل کرنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔
یہ پڑھیں: اے ٹی ایم فراڈ: ایف آئی اے نے مشتبہ شخص کو گرفتار کرلیا
ملزم ثاقب اللہ بھارتی ہیکرسارو، کینیڈا، نائیجیریا اور اطالوی ہیکرز سے رابطے میں تھا جبکہ اسلام آباد اور راولپنڈی میں اپنے معاونین کے ساتھ فراڈ کا کاروبار چلا رہا تھا۔
ایف آئی اے کا کہنا تھا کہ مطلوبہ چار ملزمان کا تعلق بھی اسی گروپ سے ہوسکتا ہے۔
ایف آئی اے حکام نے تفتیش کے پیش نظر گرفتار ملزمان کا نام ظاہر نہیں کیا تاہم انہوں نے بتایا کہ چاروں ملزمان کو راولپنڈی اور اسلام آباد سے گرفتار کیا گیا جن میں سے دو ملزمان آن لائن درآمدات کا بزنس کرتے تھے اور اے ٹی ایم فراڈ میں ملوث ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ گرفتار مبینہ ملزمان میں ایک گریجویٹ جبکہ دیگر کالج کے طالبعلم ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ایف آئی اے کی فیس بک کے ذریعے ملزمان تک رسائی
ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ ضلع قصورمیں رینا لہ خرد کے ایک بینک میں استعمال ہونے والا اسکمر بھی ملزمان کے قبضے سے برآمد کیا گیا ہے۔
ایف آئی اے حکام نے بتایا کہ ‘دو ملزمان بینک صارفین کی ذاتی معلومات کا ڈیٹا جمع کرتے تھے جبکہ دو ملزمان حاصل شدہ معلومات کے ذریعے رقم کی چوری میں ملوث تھے‘۔
بینک کے ایک سینئر ملازم نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ‘جمعے کی علی الصباح اےٹی ایم میں اسکمر نصب کردیتے ہیں اور اتوار کی شام کو نکال لیا جاتا ہے’۔
مزید پڑھیں: اے ٹی ایم فراڈ: 559 بینک اکاؤنٹس سے 1 کروڑ روپے کی چوری
بینک ملازم کا کہنا تھا کہ بینک ہفتہ اور اتوار کو بند ہوتے ہیں اور صارفین کی بڑی تعداد اے ٹی ایم سے اپنی رقم نکالتے ہیں اس لیے فراڈ میں ملوث افراد کو بہت مواد مل جاتا ہے’۔
ان کا کہنا تھا کہ اے ٹی ایم فراڈ پر بینک ایف آئی اے سے رابطہ نہیں کرتا اور خود ہی اسکمر کو ہٹا دیتا ہے۔
بینک ملازم نے بتایا کہ ‘اے ٹی ایم سے چوری ہونے والی رقم انشورڈ ہوتی ہے اس لیے بینک ایف آئی اے کو معاملے میں شامل نہیں کرتا’۔
یہ خبر 13 دسمبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی