استنبول: مشرق اور مغرب کا حسین سنگم
استنبول بھی دیسی آدمی کے خواب جیسا ہے، جو روایت سے جُڑ کر دنیا کی ہر خوبصورتی کے تصور کو تصویر کرنا چاہتا ہے۔ استنبول، جہاں مشرق اور مغرب آکر ملتا ہے، کبھی مشرقیت غالب دکھائی دیتی ہے تو کہیں یورپ کی ہوا کا ایک بُھبھکا سا آتا ہے اور آدمی کو اُڑا کرلے جاتا ہے۔
اگر آدمی نے یورپ نہ دیکھ رکھا ہو تو یہاں یورپ کی جھلکیاں ضرور دکھائی دیتی ہیں، اور اگر یورپ کا باشندہ ہو تو یہ ملک مشرق کی تصویر لگتا ہے۔ درجنوں شہر دیکھنے کے بعد میں اِس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ شہروں کی فضاء میں بھی اپنا ہی ایک الگ جادو ہوتا ہے، کچھ شہر ہیں جو آپ کو ہلکا پھلکا کردیتے ہیں اور کچھ طبیعت کو اُداس اور مضمحل۔ استنبول کی ہواؤں میں ایک تازگی اور خوشگواریت کا احساس ہوتا ہے، طِلسم ہوشربا کی کسی داستان کی طرح درجنوں اَن دیکھی، سوچ سے ماورا چیزیں یہاں یوں موجود ہیں کہ چشمِ تصور بس تماشائی بن کر رہ جاتی ہے، کہیں کہیں تو لگتا ہے کہ سب اصل نہیں ہے شاید اِس کی نقل بنائی گئی ہے۔
جب میں نے پراگ کی سیر کی تھی تو لکھا تھا کہ پراگ شہر جیسا اور کون، تو ہمارے دوستوں نے کہا تھا استنبول پر بھی نظر کیجیے تو آج ہماری آمد استنبول ہوئی، پاکستان سے ڈنمارک سفر کے دوران صرف دو دن یہاں ٹھہرنے کا موقعہ ملا۔
سچ تو یہ ہے کہ استنبول کو دیکھنے اور سراہنے کے لیے دو دن ناکافی ہیں، اب آپ شاید یہ سوچیں کہ میں بھی جس کسی شہر جاتا ہوں تو بس وہاں کی خوبیاں دیکھ کر وہیں بس جانا چاہتا ہوں، مجھے لگتا ہے کہ اس کی وجہ ایک تعلق ہے، بالکل اسی طرح جیسے آپ کو کسی دوست کی صحبت میں مزا آنے لگتا ہے تو بس آپ کا بھی جی چاہتا ہے کہ کچھ گھڑیاں اور اسی دوست کے پہلو میں گزاری جائیں۔ استنبول اور اس کی فضا سے بھی مجھے دوستی کی مہک آتی ہے، استنبول کی قربت نے دل پر جادو بھرا اثر سا کردیا ہے۔
ترکی کے لوگ پاکستانیوں کے لیے چشم ما روشن اور دل ماشاد محسوس ہوئے، مجھے جابجا اپنائیت کا احساس ہوتا رہا، پاکستانی وقت کے مطابق رات دو بجے کے قریب گھر سے نکلا تھا اور صبح 5 بجے کی فلائٹ تھی، صبح 10 بجے کے قریب استنبول پہنچا۔
میرا ہوٹل سلطان احمد نامی علاقے میں تھا، میرے گائیڈ اور دوست رانا بابر علی جو یہاں استنبول میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں، اُن کا مشورہ تھا کہ ایئر پورٹ سے ٹیکسی لے لوں کیونکہ پبلک ٹرانسپورٹ سے اُتر کر مجھے 7 سے 8 منٹ چلنا بھی پڑے گا، لیکن عمومی طور پر ہوٹلز کا چیک ان 12 بجے سے ایک بجے کے بعد ہوا کرتا ہے اس لیے مجھے ہوٹل پہنچنے کی کوئی جلدی نہیں تھی، لہٰذا عوامی سواری پر جانا ہی بہتر سمجھا، استنبول سے شہر کی طرف جانے والی بسیں اور میٹرو ٹرینیں ایک سستا اور معیاری ذریعہ آمد و رفت ہیں۔
شہر کا سیر سپاٹا کرنا ہے تو یہاں پر استنبول کارڈ نامی ایک ٹکٹ بڑے کام کی چیز ہے، ایئر پورٹ پر موجود میٹرو کی ٹکٹ خریدنے والی جگہ پر انفارمیشن ڈیسک قسم کی کوئی چیز مجھے دکھائی نہ دی، وہاں ایک خاموش ٹکٹ بوتھ مجھے ایسے دیکھ رہا تھا جیسے اُسے میرا ہی انتظار تھا، یہاں سے استنبول کارڈ نکالنے کی کوشش کی، لیکن مشین کچھ پیچیدہ محسوس ہوئی، غالباً مشین کا ٹرانسلیشن آپشن ہم جیسے پردیسیوں کے لیے بہتر انداز میں کام نہیں کر رہا تھا۔ مشین تو مشین ٹھہری، لہٰذا گوشت پوست والے ایک ترک بھائی کو مدد کے لیے پُکارا، اُنہوں نے بڑی خوشدلی سے میری مدد کی، لیکن شاید مشین میں ہی کچھ خرابی تھی، استنبول کارڈ تو نہ نکلا لیکن اُنہوں نے مجھے ایک ٹکٹ نکال دی۔
سُلطان احمد استنبول کا ایک بہت ہی معروف علاقہ ہے، یہاں نیلی مسجد اور حاجیہ صوفیہ جیسی تاریخی عمارتیں واقع ہیں۔ ایئر پورٹ سے میٹرو میں بیٹھیں تو آپ کو اِس علاقے تک پہنچنے کے لیے صرف ایک بار ٹرین تبدیل کرنی پڑتی ہے، دنیا بھر کی میٹرو تقریباً ایک جیسے انداز میں چلتی ہیں، سلطان احمد کے علاقے کو جانے والے ٹرام یا ٹرین ٹی ون ہے، ایئر پورٹ سے میٹرو کے اسٹاپس کا نقشہ دیکھیے تو بخوبی ٹی ون جنکشن کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
جس ترک بھائی نے ٹکٹ خریدنے میں میری مدد کی تھی، وہ بھی اِسی ڈبے میں موجود تھے، انہوں نے بتایا کہ وہ مجھے جنکشن کا بتا دیں گے، اُن کی اِس مدد کی وجہ سے مجھے مجھے سلطان احمد جانے والی ٹرین پکڑنے میں ذرا برابر بھی دشواری پیش نہیں آئی۔ سُلطان احمد کے جس اسٹاپ پر میں اُترا اس کے بالکل سامنے تُرک شوارمے کی ایک دُکان نظر آئی، دل نے کہا کہ ہوٹل جانے سے پہلے کچھ کھا پی لیا جائے۔ دکاندار نے پوچھا پاکستانی ہو؟ میں نے کہا جی بالکل، یہ سن کر اُس کی مسکراہٹ کا رنگ اور تیز ہوگیا۔
جب اپنا ہوٹل ڈھونڈنے نکلا تو ایک قالین کی دکان کے سامنے سے کھڑے ایک شخص نے اردو میں پوچھا، بھائی کِدھر جانا ہے، بات چیت ہوئی تو پتہ چلا کہ ہمارے پٹھان بھائی ہیں، اُنہوں نے پاکستانی دودھ پتی کی آفر کی، میں نے کہا ابھی ہوٹل سے ہو آؤں، اُنہوں نے کہا ٹھہریے میرا کارڈ لیتے جائیے، اور چائے پینے ضرور آئیے گا۔
ہوٹل تک پہنچا تو دیکھ کر اندازہ ہوا کہ یہ تھری اسٹار ہوٹل تو نہیں ہے، حالانکہ جس ویب سائٹ پر دیکھا تھا وہاں اِس کو تھری اسٹار ہوٹل کی کیٹیگری میں ہی دکھایا گیا تھا۔ اِس حوالے سے جب ہوٹل کے مالک سے پوچھا تو وہ کہنے لگے کہ جناب جناب آپ درست کہہ رہے ہیں لیکن ہمارے گاہگوں نے ہمیں یہ اعزاز بخشا ہے کہ ہم ہوٹل کے ساتھ تھری اسٹار لگا دیتے ہیں۔ خیر میں یہاں صرف سونے کی جگہ چاہتا تھا، جو کہ وہاں تھی سو کچھ اور نہ سوچا، کمرے میں سامان رکھا، تھوڑی دیر کمر سیدھی کی اور تازہ دم ہوکر استنبول کی سیر کو چل دیا۔
سلطان احمد نامی اِس علاقے میں تین اہم تاریخی مقامات موجود ہیں، جنہیں لازمی دیکھے جانے والی جگہوں کی فہرست میں شامل کیا جاتا ہے۔
بِلو مسجد یا نیلی مسجد
استنبول کو مسجدوں کا شہر بھی پکارا جاتا ہے، اور یہاں بہت سی مساجد کا طرزِ تعمیر یکساں محسوس ہوتا ہے۔ جیسے یہاں اکثر مساجد میں درمیانی گنبد ہوتا ہے اور اُس کے اطراف میں کھڑے مینار دور سے نمایاں نظر آتے ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ بلو مسجد کو تلاش نہیں کرنا پڑتا بلکہ مسجد خود آپ کو تلاش کر لیتی ہے۔
بلو مسجد اور حاجیہ صوفیہ جسے آیا صوفیہ بھی کہا جاتا ہے، ایک دوسرے کے بالمقابل ہیں اور یوں یہ چوراہا سیاحوں سے ہمیشہ بھرا رہتا ہے۔ صبح سے لے کر رات دیر گئے تک یہاں لوگوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔ یہاں موجود سیاحوں میں ہر طرح کا سیاح نظر آتا ہے، حِجاب اور شرعی نقاب سے لے کر، مِنی اسکرٹ تک ہر قسم کا لباس پہنے لوگ مشرق و مغرب کے اس سنگم کی کہانی کہتے نظر آتے ہیں۔
یہاں کی ایک خوبصورتی یہ بھی ہے کہ کوئی کسی پر آوازے نہیں کَستا، کسی کا لباس دیکھ کر دفعہ دور نہیں کرتا، ہاں اتنے بڑے شہر میں اتنی زیادہ سیاحتی آبادی والی جگہ پر ہر نظر پر پہرہ تو نہیں بِٹھایا جاسکتا، گُھورنے والے تو یورپ کی ننگ دھڑنگ گلیوں میں بھی نگاہیں سینکنے سے باز نہیں آتے تو ایسوں کا شمار کیا، لیکن مجموعی طور پر ایک پُرامن، اخلاقی تقاضوں سے بھرپور فضاء آپ کو ایک اسلامی شہر کے منصفانہ مزاج سے متاثر کرتی ہے۔
یہاں کی مساجد اور اُن کی خوبصورتی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے، اِس لیے غیر مُسلم سیاح بھی اسلامی طرزِ تعمیر سے نگاہیں خیرہ کرنا چاہتے ہیں، ایسے احباب کے لیے موزوں لباس کی شرط عائد کی گئی ہے۔ ہر مسجد کے دروازے کے ساتھ چادریں دستیاب ہیں جو آپ باندھ سکتے ہیں، اوڑھ سکتے ہیں۔ درجنوں کے حساب سے گوریاں اپنے مغربی لباس کے اوپر اِن چادروں کو اوڑھتی ہیں اور اپنی اسلامی شناخت کی ایک سیلفی کھینچتے نظر آتی ہیں۔
سچ پوچھیے تو اہلِ ترکی کی اِس ادا پر ہی مجھے بے حد پیار آیا، میں نے ایسے بے شمار چہرے پڑھے، جنہوں نے شاید زندگی میں پہلی مرتبہ اِس نقطہ نظر سے خود کو ڈھانپا ہوگا، شاید ہمیں ایسا محسوس نہ ہو، لیکن اِن چہروں پر روحانیت اور کا ایک رنگ اترتا ضرور دکھائی دے رہا تھا۔ نمازیوں کو نماز پڑھنے میں خلل نہ آئے اِس لیے دورانِ نماز سیاحوں کو مسجدوں میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہوتی۔
آیا صوفیہ یا حاجیہ صوفیہ
بِلو مسجد کے بالمقابل ایک اور شانداز عمارت موجود ہے، جسے آیا صوفیہ کہا جاتا ہے لیکن اِسے حاجیہ صوفیہ کی طرح لکھا جاتا ہے، یہ میوزیم کسی وقت میں ایک چرچ ہوا کرتا تھا جسے بعد میں مسجد میں بدل دیا گیا تھا۔ اِس عمارت کے اندر جانے کے لیے آپ کو ٹکٹ خریدنی ہوتی ہے جو 40 لیرے کے لگ بھگ ہے۔ (ایک لیرا تقریباً 29 پاکستانی روپے کا ہے)
اگر استنبول میں آپ کا قیام تین روز تک کا ہو اور آپ زیادہ جگہیں دیکھنے کے خواہشمند ہوں تو استنبول کارڈ نامی ایک پاس بنوا لیجیے، جس کا ذکر ہم اوپر بھی کرچکے ہیں، اِس کارڈ کی مدد سے آپ پانچ بڑے میوزیمز کو دیکھ سکتے ہیں۔
عمومی طور پر ایسے کارڈ کو کسی بڑی جگہ جیسے ائیر پورٹ یا ٹؤرسٹ انفارمشن سینٹر سے خرید لینا ہی بہتر ہوتا ہے۔ ایئر پورٹ سے تو خریدنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن کارڈ نصیب نہیں ہوا، لیکن ایسا ہمیشہ نہیں ہوتا، شاید اُس دن مشین میں کوئی خرابی تھی، جب میں نے حاجیہ صوفیہ کے کاؤنٹر پر اِس کارڈ کی بات کی تو پتہ چلا کہ اُن کے سسٹم میں بھی کوئی مسئلہ ہے جس وجہ سے وہ یہ کارڈ نہیں بیچ رہے۔ کارڈ ہوتا تو دوسری منزلوں تک پہنچنا خاصا آسان اور سستا ہوتا، کیونکہ اب توپ قاپی میوزیم اور قلعے تک پہنچنے کے لیے آپ کو لگ بھگ 40 لیرے ایک اور داخلہ فیس بھرنی ہوتی ہے۔
لوگ صبح نو بجے سے ہی اِس میوزیم کے باہر قطار بند ہونا شروع ہوجاتے ہیں، ابھی قطار میں کچھ چار پانچ لوگ ہی جمع تھے کہ میں بھی قطار میں شامل ہوگیا۔ یہ عمارت حقیقتاً ہر سیاح کی منزل ہونی چاہیے، بڑے بڑے پتھروں سے بنی ہوئی دیواریں، اونچے اونچے دروازے اور ایک بلند و بالا ڈوم کسی گزرے زمانے کی ایک طلسماتی کہانی محسوس ہوتا ہے، اِس عمارت کے اندر عیسائیت کے متعلق کچھ پنٹنگز اور موزیکس اب بھی دیوار پر محفوظ ہیں۔
عمارت کے اندر امامت والی محراب اور دیوار پر عربی آیات، کلمہ طیبہ اور آنحضورﷺ کے اِسم مبارک اور اُن کے ساتھ خلفائے راشدین کے ناموں کے بڑے سائز کے فریم لگے ہوئے ہیں۔ فریمز کو دیکھ کر بظاہر یہ لگتا ہے کہ اُنہیں بعد میں لگایا گیا ہوگا۔ بہرحال یہ خوبصورت عمارت اندر سے بھی نہایت خوبصورت اور دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے، اِسی عمارت کے بغلی دروازے کے باہر ایک سنگِ مرمر کی تختی نصب ہے جس پر حضورﷺ کی حدیث لکھی ہے، جس کا مفہوم یہ کہ وہ فاتح خوش نصیب ہوگا جو استنبول کو فتح کرے گا۔
توپ قاپی کا قلعہ اور میوزیم
حاجیہ صوفیہ سے تھوڑے فاصلے پر یہ تاریخی قلعہ اور میوزیم واقع ہے، ویسے تو اِس قلعے سے متصل باغ بھی قابلِ دید ہے، شام کو یہاں مقامی لوگوں اور سیاحوں کا خوب رش رہتا ہے۔
قلعے کے اندر موجود باغیچے، دالان، محراب اور گنبد اسلامی طرزِ تعمیر کا منہ بولتا ثبوت ہیں، لیکن اِس قلعے کا سب سے زیادہ پُرکشش حصہ یہاں کا مختصر سا میوزیم ہے۔ اِس چھوٹی سی جگہ میں تاریخِ اسلام کی اتنی زیادہ اشیاء موجود ہیں کہ ایک ایک چیز کو دیکھنے پر پہروں صَرف کیے جا سکتے ہیں۔
آنحضورﷺ کی تلوار مُبارک، خلفائے راشدین کی تلواریں، عصائے موسیؑ، دستارِ حضورﷺ، اور مختلف انبیاء اکرام سے منسوب اشیاء اِس میوزیم کا حصہ ہیں۔ اِس چھوٹے سے حصے کی زیارت ہی سارے استنبول کی سیر پر بھاری ہے۔ اِس کے علاوہ بھی قلعے میں دیکھنے لائق دیگر کئی حصے موجود ہیں جیسے سلاطین سلطنتِ عثمانیہ کی تصاویر کا میوزیم، شاہی حَرم، شاہی کِچن اور اِس کے ظروف، وغیرہ۔
دریائے باسفورس کی سیر
جس طرح ہماری سڑکوں پر کِینو کا جوس بیچنے والا آوازیں لگاتا ہے یا پھر لاؤڈ اسپیکر پر اپنی ریکارڈ کردہ آواز بار بار لوگوں کو سنا رہا ہوتا ہے بالکل ویسے ہی باسفورس کے کنارے لاؤڈ اسپیکرز پر کچھ افراد آوازیں لگا رہے ہوتے ہیں کہ، ’باسفورس کی سیر 10 لیرا!‘، ’دریائے باسفورس کی سیر 12 لیرا!‘، ’ویری نائس ٹؤر 12 لیرا!‘، ’ویری گڈ ٹؤر 12 لیرا۔‘
حاجیہ صوفیہ اور توپ قاپی کے قلعے کی سیر نے کافی تھکا دیا تھا اس لیے سوچا کہ کچھ دیر آرام کرلیا جائے، اور یوں پھر سے بس پکڑی اور گلاٹا ٹاور کی طرف جاتے اِس جگہ پر آپہنچا۔ یہاں سے باسفورس کی سیر کو جہاز اور کشتیاں روانہ ہوتی ہیں۔ ڈیڑھ گھنٹے کے اِس ٹؤر میں باسفورس کے کنارے بسے ہوئے شہر کے خد و خال کا بخوبی جائزہ لیا جاسکتا ہے۔ شہر کی عمارتوں میں سر اُٹھائے مسجدوں کے مینار، فلک بوس عمارتیں، اور گُنجان آباد شہر، ٹریفک کی چہل پہل، دونوں اطراف سیر کرانے والے جہازوں اور کشتیوں کی بھرمار آپ کو ایک زندہ شہر کی تصویر کشی کرتی ہے۔
اِن جہازوں میں چائے، کافی اور سوفٹ ڈرنکس کا بھی اہتمام ہوتا ہے اور عمومی طور پر کچھ حصہ کیبن کی صورت اور کچھ حصہ کُھلا ہوتا ہے تاکہ سرد و گرم موسموں یا پھر بارش سے بھی محفوظ رہا جاسکے۔ 12 لیرا کا یہ ٹؤر اپنے وقت کے حساب سے ذرا بھی مہنگا نہیں ہے، اِس سے ملتے جلتے ٹؤر یورپ کے کئی شہروں میں بھی کروائے جاتے ہیں لیکن وہاں اِن ٹؤرز کی قیمت یہاں سے کئی گُنا زیادہ پائیں گے۔
گرینڈ بازار
اِس بازار کا تذکرہ استبول کے بارے میں لکھی ہر تحریر میں مِلتا ہے۔ اِس بازار کی تاریخ کئی صدیوں پر محیط ہے، اِس کو ایشیاء کے سب سے بڑے اور پُرانے کورڈ (ڈھانپی ہوئی) بازاروں میں سے ایک شمار کیا جاتا ہے۔ یہاں پلاسٹک کے کھلونوں سے لے کر سونے اور جواہرات کی دُکانیں موجود ہیں۔ اِس بازار کی ہئیت انارکلی بازار کی سی ہے، ویسی ہی تنگ گلیاں اور ویسا ہی لوگوں کا رش، لیکن اِس بازار میں لوگ صرف پیدل ہی داخل ہوسکتے ہیں۔
دکاندار دیسی لوگوں کی طرح دکان کے دروازوں پر گاہکوں کو خوش آمدید کہتے نظر آتے ہیں۔ ترک چائے بیچنے والے ہاف سیٹ، فل سیٹ طرز کی پلیٹوں میں قہوہ سجائے اِدھر اُدھر جاتے نظر آتے ہیں۔ اِس بازار کی کئی ایک گلیوں سے صدیوں پرانے نقش و نگار کی جھلک بھی دکھائی دیتی ہے، اِنہی گلیوں کے چوراہوں پر بڑے بڑے پانی کے کولرز کا بھی اہتمام کیا گیا تھا تاکہ خریدار اِن سبیلوں سے اپنی پیاس بجھا سکیں۔
اِسی بازار سے کچھ فاصلے پر استنبول کا مصالحہ بازار بھی واقع ہے جس کی ہئیت اِسی بازار سے ملتی جلتی ہے، وہاں بھی اِسی طرز کی دکانیں ہیں لیکن اِن میں سے زیادہ تر دکانیں مصالحہ جات سے متعلق ہے۔ میں نے دیگر کئی جگہوں پر بازار کے اِس تصور کو عملی صورت میں دیکھا، اور مجھے اِس طرح کی مارکیٹس ملکی معیشت کے لیے ایک صحت مند رویہ لگیں کیونکہ بہت ساری جگہوں پر دکاندار چھوٹے چھوٹے اسٹالز یا دکانوں کے مالک تھے جس کا مطلب یہ ہے کہ دولت کی تقسیم زیادہ لوگوں میں ہو رہی ہے۔
استقلال اسٹریٹ
دریائے باسفورس کے پُل پر سے گلاٹا ٹاور کی طرف آئیں تو شہر کے اِس اونچے حصے کی طرف جانے والی ایک لمبی گلی شروع ہوتی ہے، جس کا اختتام مصطفیٰ کمال پاشا کے انقلاب کی یادگار کے ساتھ ہوتا ہے۔ یہ گلی یورپ کی واکنگ اسٹریٹ طرز کی گلی ہے جس کے دونوں اطراف مختلف برانڈز کی دکانیں موجود ہیں۔
یہاں ترک موسیقی پیش کرنے والے مقامی فنکار اور اپنے کمال فن کا مظاہرہ کرنے والے شعبدہ باز لوگوں کو اپنے گرد مجمع کیے ہوئے ملتے ہیں۔ مقامی لوگوں اور سیاحوں کا رش اِس گلی کی رونق بڑھائے رکھتا ہے۔ یہیں پر مجھے ایک دو نو سر بازوں کو دیکھنے کا بھی موقع ملا، جو پاکستان سے اپنی محبت جتلاتے ہیں اور آپ کو شراب خانے یا کسی طوائف کے گھر تک لے جانے کی دعوت دیتے ہیں۔
استنبول کے ہوائی اڈے پر کئی بار جانے کا اتفاق ہوا تھا لیکن جو بات استنبول کی گلیوں میں ہے اُسے بیرونِ استنبول محسوس نہیں کیا جاسکتا۔ سچ یہ ہے کہ استبول خوبصورتی ہے جو آپ کی تشنگی کو سیراب ہونے کا موقع دیتی ہے اور کچھ دیر بعد پھر طلب بڑھا دیتی ہے۔
یہاں کی مٹھائیاں، بازار، قہوہ، شوارمہ اور سب سے بڑھ کر کُھلے دل والے لوگ آپ کا دل موہ لیتے ہیں، استنبول دل میں بسنے کی جگہ ہے، اِس لیے اگر آپ ایک بار استنبول ایک بار ہو آئیں تو اُس کی یادوں کو بھلانا بہت مشکل ہے، میرے پیارے استنبول پھر ملیں گے!
رمضان رفیق کوپن ہیگن میں رہتے ہیں، اور ایگری ہنٹ نامی ویب سائٹ چلاتے ہیں۔
انہیں فیس بک پر یہاں فالو کریں
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
تبصرے (8) بند ہیں