’پاکستان میں صرف شمالی علاقے ہی نہیں، اور بھی بہت کچھ ہے‘
ڈان بلاگز موسمِ سرما کی چھٹیوں میں سیر و تفریح کے حوالے سے اپنے قارئین کے لیے مکمل ٹؤر گائیڈ پیش کررہا ہے۔ یہ سیریز کا پہلا بلاگ ہے، جبکہ اگلے بلاگز میں قارئین تک مکمل معلومات پہنچانے کی کوشش کی جائے گی کہ سردیوں میں پاکستان کے کن کن علاقوں میں جانا زیادہ بہتر رہے گا۔
سیاحوں کی جنّت ہونے کے دعوے دار تو دنیا کے لاتعداد ممالک ہیں لیکن عام طور پر اُن ملکوں میں سیاحت کے لیے سال کے کچھ دن مخصوص ہوتے ہیں۔ مثلاً یورپی ممالک کی سیاحت آپ صرف گرمیوں میں کرسکتے ہیں کیوں کہ سردیوں میں وہاں سب کچھ برف کے ڈھیر تلے دب جاتا ہے۔ اِسی طرح افریقی ممالک اور مشرق وسطیٰ کی سیاحت گرمیوں میں کرنا بہت مشکل ہے، لیکن پاکستان ایک ایسا ملک ہے کہ جہاں گرمیوں کی سیاحت اور سردیوں کی سیر، دونوں کے لاتعداد مواقع موجود ہیں۔
یہاں گرمیوں میں جہاں آپ وادیٔ ہنزہ، وادیٔ بلتستان، وادیٔ چترال، وادیٔ کشمیر، وادیٔ سوات اور وادیٔ کاغان کو اپنی سیاحت کے لیے منتخب کرسکتے ہیں، وہیں سردیوں میں سیاحت کے لیے آپ کے پاس ایک طرف بلوچستان میں کوسٹل ہائی وے کے ساتھ ساتھ ساحلِ مکران، اورماڑہ، پسنی اور گوادر کے قابل دید ساحلی شہر ہیں تو دوسری طرف سندھ میں کراچی کا شہرِ نگاراں اور عروس البلاد موجود ہے۔
کراچی سے نیشنل ہائی وے پر سندھ کے اندرونی شہروں کی طرف بڑھیں تو سب سے پہلے ٹھٹھہ آتا ہے جہاں مغلوں کی تعمیر کردہ حسین و دلکش شاہجہانی مسجد اور مکلی کا تاریخی قبرستان ہے۔ مزید آگے صحرائے تھر کی رعنائیاں، ننگر پارکر اور کارونجھر کے پہاڑ، وادئ مہران کے لہلہاتے کھیت اور باغات، کینجھر اور منچھر کی وسیع و عریض جھیلیں، حیدرآباد کا پکا قلعہ اور کچا قلعہ، موئن جو دڑو میں دنیا کے قدیم ترین تہذیبی آثار اور دادو کا تاریخی قلعہ رنی کوٹ ہیں۔
جیسے جیسے ہم بالائی سندھ میں داخل ہوتے ہیں تو خیرپور میں کھجوروں کے دلکش باغات، پرشکوہ قلعہ کوٹ ڈیجی اور تالپوروں کا فیض محل ہمارا استقبال کرتے ہیں۔ خیرپور کے ساتھ ہی سکھر میں معصوم شاہ کا مینار، دریائے سندھ پر سکھر بیراج اور لینس ڈاؤن کا عجوبہ پل، دریا سندھ کا لبِ مہران سبزہ زار اور پھر مزید آگے شکارپور کی مٹھائیاں اور اچار ملتے ہیں۔
روہڑی سے آگے کی طرف بڑھیں تو بالآخر ہم صوبہ سندھ سے نکل کر صوبہ پنجاب میں داخل ہوجاتے ہیں جہاں صادق آباد کی بھونگ مسجد، علی پور میں پنجاب کے پانچ دریاؤں کا سنگم ہیڈ پنجند، احمد پور شرقیہ کا صادق گڑھ پیلس، بہاولپور کی رنگارنگ صحرائی ثقافت، ریاستی دور کے عظیم محلات، صحرائے چولستان کی وسعتیں، ریگستانوں میں سینکڑوں سال سے سر اُٹھائے کھڑا قلعہ دراوڑ، لال سونہارا نیشنل پارک میں معصوم آنکھوں والے ہرنوں کے غول، ملتان کے مزارات، ڈیرہ غازی خان میں فورٹ منرو کا بلند و بالا پہاڑی مقام، ساہیوال میں ہڑپہ کے آثارِ قدیمہ، چھانگا مانگا کا جنگل۔
پھر آگے بڑھیں تو لاہور آجاتا ہے، اور لاہور کی تو کیا بات ہے جناب۔ شاہی قلعہ، بادشاہی مسجد، شالامار باغ، مقبرہ جہانگیر و نور جہاں، راوی کا کنارہ، اندرونِ شہر کے ثقافتی و روایتی کھانے، انار کلی بازار، باغِ جناح، ڈبل ڈیکر ٹورسٹ بس پر شہر کی سیر، میٹرو بس کے پھیرے اور نہ جانے کیا کیا۔
لاہور سے آگے بھی بہت کچھ ہے۔ شیخوپورہ کا ہرن مینار، جہلم کا قلعہ روہتاس، کلر کہار کی جھیل، کھیوڑہ کی نمک کی کانیں اور راج کٹاس کے مندر و تالاب ہمیں بہت سی سہانی یادیں دے دیتے ہیں۔ اِن علاقوں سے مزید آگے بڑھیں تو راولپنڈی اور اسلام آباد کی سیر گاہیں ہماری منتظر ہوتی ہیں۔
دنیا کے چند خوبصورت ترین شہروں میں سے ایک اسلام آباد، اِس کے سرسبز، پُرکشش، پُرسکون گلی کوچے اور سڑکیں، میٹرو بس میں بیٹھے بیٹھے راولپنڈی اور اسلام آباد کی سہانی سیر، مارگلہ کے نیلگوں پہاڑوں پر ہائیکنگ، شاہ فیصل مسجد میں نماز جمعہ کی ادائیگی کا روح پرور تجربہ، راول ڈیم میں کشتی رانی، چک شہزاد کے باغات میں مٹرگشت، وادئ شاہدرہ کے سکوت میں چند لمحات، پاکستان کے حسین ترین ریلوے اسٹیشن "گولڑہ" کے پلیٹ فارم پر ریلوے میوزیم کا وزٹ۔
شکر پڑیاں کے گھنے جنگل میں گھرے ہوئے لوک ورثہ میوزم اور نیچرل ہسٹری میوزیم کا دورہ، کوہِ مارگلہ کی بلندیوں پر مونال کے بلند و بالا ریستورانوں میں خوابناک بوفے، دامنِ کوہ اور پیر سوہاوہ کی سہانی بلندیوں پر ایک باربی کیو پکنک، سپر مارکیٹ، جناح سپر، سینٹارس مال اور راجہ بازار میں شاپنگ۔
اسلام آباد سے آگے بڑھیں تو ٹیکسلا کے آثارِ قدیمہ، عجائب گھر کے علاوہ خان پور ڈیم اور مالٹے کے باغات میں دنیا کا بہترین ریڈ بلڈ مالٹا اِس موسم میں تازہ بہ تازہ درختوں سے توڑا گیا ہمارا منتظر ہوتا ہے۔ کھائیے اور ترو تازہ ہوجائیے۔ ٹیکسلا سے آگے بڑھیں تو حسن ابدال میں جرنیلی سڑک پر شفاف پانی کی نہروں سے معمور باغ ’مغل گارڈن‘ ہمارا منتظر ہوتا ہے۔
جرنیلی سڑک پر اپنا سفر مزید آگے جاری رکھیں تو ہم اٹک پہنچ جاتے ہیں جہاں دریائے سندھ کے کنارے ہمارے سامنے صدیوں سے سر اُٹھائے قلعہ اٹک کا منظر آجاتا ہے۔ دریائے سندھ عبور کریں تو دوسرے کنارے پر دریائے کابل کا مختلف رنگ کا پانی دریائے سندھ میں شامل ہو رہا ہے۔ یہاں دونوں دریاؤں سے متصل ’کُنڈ پارک‘ کی سیر بھی کی جاسکتی ہے، دریائے کابل کے کنارے بیٹھ کر لذیذ فرائی مچھلی بھی تناول کی جاسکتی ہے اور کشتی میں بیٹھ کر دریا کی سیر بھی کی جاسکتی ہے۔
اب ہم پشاور کی طرف بڑھتے ہیں۔ دریائے سندھ کو عبور کرنے کے بعد خیر آباد، جہانگیرہ اور اکوڑہ خٹک کے قصبوں سے گزرتے ہوئے ہم خوبصورت شہر نوشہرہ کی حدود میں داخل ہوجاتے ہیں۔ یہاں دریائے کابل پر ایک پل ہے جس پر سے گزرنے والی سڑک ہمیں مردان، چارسدہ، مالاکنڈ، چترال اور سوات لے جاسکتی ہے اور وہ سارے علاقے پاکستان میں گرمائی سیاحت یا سمر ٹوئرزم کے مراکز ہیں۔
جرنیلی سڑک یا جی ٹی روڈ پر نوشہرہ سے مزید آگے بڑھیں تو اَضاخیل، پبی، تارُو جبہ اور ترناب کے قصبوں سے ہوتے ہوئے ہم گھنٹہ بھر میں پشاور شہر میں داخل ہوجاتے ہیں، جہاں قلعہ بالا حصار کی عظمتیں، قصہ خوانی بازار کی رونقیں، نمک منڈی میں تکہ اور دنبہ کڑاہی کی رغبتیں ہماری منتظر ہوتی ہیں۔ پشاور سے مزید آگے جمرود روڈ پر چلتے رہیں تو بالآخر خوبصورت بابِ خیبر اچانک تصویروں کی دنیا سے نکل کر جیتا جاگتا، لائیو اور ڈائنامک ہماری نظروں کے سامنے آکر ہمیں حیرت اور خوشی میں مبتلا کرسکتا ہے۔
یہ سب اور اِس کے علاوہ بھی بہت کچھ اور پاکستان کی سرمائی سیاحت یا ونٹر ٹوئرزم ہے۔ یہ پاکستان کی سردیوں کی سیاحت ہے، جو تعلیمی اداروں میں موسم سرما کی تعطیلات کے دوران ہم اپنے اہل و عیال کے ساتھ بھرپور انداز میں کرسکتے ہیں۔ چنانچہ ہم کراچی سے پشاور تک پاکستان میں ونٹر ٹوئرزم کو کچھ یوں ترتیب دے سکتے ہیں:
(1) کراچی شہر اور اُس کے مضافات (2) کوسٹل ہائی وے، ساحلِ مکران اور گوادر (3) ٹھٹھہ اور کلری جھیل (4) حیدرآباد اور دریائے سندھ (5) صحرائے تھر اور ننگر پارکر (6) قلعہ رنی کوٹ، منچھر جھیل اور گورکھ ہل اسٹیشن (7) لاڑکانہ میں موئن جو دڑو کے آثارِ قدیمہ (8) شکارپور، سکھر، روہڑی اور دریائے سندھ (9) خیرپور، فیض محل اور کوٹ ڈیجی کا قلعہ (10) صادق آباد، بھونگ مسجد اور ہیڈ پنجند (11) صحرائے چولستان اور قلعہ دراوڑ (12) بہاولپور کے محلات اور لال سوہانرا نیشنل پارک (13) ملتان اور اُس کے مقبرے (14) ڈیرہ غازی خان اور فورٹ منرو (15) ساہیوال، ہڑپہ کے آثارِ قدیمہ اور چھانگا مانگا (16) لاہور کا شاہی قلعہ، بادشاہی مسجد، شالامار باغ، مقبرہ جہانگیر و نور جہاں اور دریائے راوی (17) شیخوپورہ کا ہرن مینار (18) جہلم اور قلعہ روہتاس (20) کھیوڑہ کی کان، کلر کہار کی جھیل اور راج کٹاس مندر (21) اسلام آباد اور کوہِ مارگلہ (21) ٹیکسلا اور خان پور (22) قلعہ اٹک، دریائے کابل اور دریائے سندھ اور (23) پشاور اور بابِ خیبر وغیرہ وغیرہ۔
آئیں ہم اِس سرمائی سیاحت کا ذرا تفصیلی انداز میں جائزہ لیتے ہیں۔ کیوں نہ ہم یہ سفر پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی سے شروع کریں۔
کراچی
بحیرہ عرب کے ساحل پر آباد کراچی کا موسم سردیوں میں خصوصاً بہت خوشگوار ہوتا ہے۔ نومبر سے مارچ تک کے مہینے یہاں سیر و تفریح کے لیے آئیڈیل ہیں۔ تقریباً دو کروڑ آبادی کے اِس بھاگتے دوڑتے مصروف شہر میں اگر چند روز گزارے جائیں تو ہم اِس کی رواں دواں زندگی کا مشاہدہ کرنے کے ساتھ ساتھ اِس کے خاص خاص مقامات کی سیر سے بھی لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔
بانئ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے منفرد طرزِ تعمیر کے شاہکار خوبصورت مقبرے کا دورہ، قائد اعظم اور مادرِ ملت فاطمہ جناح کے گھر فلیگ اسٹاف ہاؤس کے وزٹ اور موہٹہ پیلس میوزیم کی سیر کے ساتھ ساتھ ہم ساحل کلفٹن، سی ویو، ہاکس بے اور پیراڈائز پوائنٹ کی ساحلی تفریح گاہوں پر پکنک بھی مناسکتے ہیں یا پھر ملیر ندی کے ڈیلٹا اور بحیرہ عرب کے مقام اتصال پر ’دو دَریا‘ کے خوبصورت ساحلی ریستورانوں میں کراچی کے روایتی کھانوں سے بھی لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔
بندر گاہ سے متصل پورٹ گرینڈ کی عالیشان تفریح گاہ سے غروب آفتاب کا حسین نظارہ کرسکتے ہیں، کیماڑی سے لانچ میں سوار ہو کر جزیرہ منوڑہ کی سیر کو جاسکتے ہیں یا پھر ساحل کراچی کے قریب سمندر میں چرنا آئی لینڈ کے ارد گرد نیلگوں شفاف پانیوں میں غوطہ خوری کرکے آبی حیات کا مشاہدہ کرسکتے ہیں۔ کراچی کی قدیم فوڈ اسٹریٹ برنس روڈ پر کراچی کے روایتی کھانوں قورمہ، بریانی، نہاری، حلیم، گولہ کباب، سیخ کباب اور کڑاہی گوشت کے ساتھ ساتھ تافتان، شیرمال، بن کباب، دہی بڑے، ربڑی اور بنگالی مٹھائیوں سے بھی لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔
مکران کوسٹل ہائی وے اور گوادر
مکران، بلوچستان کی یہ ساحلی شاہراہ ویسے تو کراچی اور گوادر کو آپس میں ملانے کے لیے تعمیر کی گئی تھی، لیکن بحیرہ عرب کے ساتھ ساتھ چلتی، خوبصورت پہاڑی نشیب و فراز میں لہریئے لیتی اور سمندر کے نیلگوں شفاف پانیوں سے اٹکھیلیاں کرتی یہ خوبصورت سڑک اب بذاتِ خود ایک عالیشان تفریح گاہ کا درجہ اختیار کرگئی ہے۔ ساڑھے چھے سو کلومیٹر طویل یہ شاہراہ اورماڑہ اور پسنی سے ہوتی ہوئی گوادر تک جاتی ہے۔
اِس کا سب سے خوبصورت مقام کُنڈ ملیر ہے جہاں ایک سنہری ریت والا صحرا اور نیلا سمندر آپس میں مل کر دلفریب منظر تخلیق کرتے ہیں۔ کُنڈ ملیر سے چند کلومیٹر آگے بڑھیں تو ہم ’بوزی پاس‘ میں داخل ہوجاتے ہیں جہاں چکنی مٹی کے پہاڑوں نے تیز ہوا اور بارشوں کے باعث ایسی عجیب و غریب شکلیں اختیار کی ہیں جنہیں دیکھ کر حیرت بھی ہوتی ہے اور خوف بھی آتا ہے۔ کہیں پہاڑوں نے بڑے بڑے قلعوں اور قدیم حویلیوں جیسی شکل اختیار کر رکھی ہے، تو کہیں یہ کسی عورت کے روپ میں نظر آتے ہیں اور کہیں آپ کے سامنے مصر کا ابولہول آجاتا ہے۔ فوٹوگرافی کے لیے یہ جگہ بہترین ہے۔
کُنڈ ملیر سے گوادر مزید 400 کلومیٹر آگے ہے۔ اگر یہ سفر بھی طے کرلیا جائے تو ہم گوادر پہنچ کر مستقبل کے ایک ابھرتے ہوئے شہر کا ابتدائی جائزہ لے سکتے ہیں۔ گوادر شہر تین اطراف سے سمندر میں گھرا ہوا ایک جزیرہ نما ہے۔ یہاں ساحل پر کوہِ باتیل نامی پہاڑ پر کھڑے ہوکر آپ اپنے سامنے سمندر میں خلیجی ممالک کی طرف جانے والے بڑے بڑے بحری جہازوں کے گزرتے ٹریفک کا خوبصورت نظارہ کرسکتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ موسم صاف ہو تو گوادر کے کسی بلند مقام سے سمندر پار مسقط عمان کی روشنیاں بھی نظر آجاتی ہیں۔
ٹھٹھہ، مکلی اور کینجھر جھیل
اب ہم کراچی سے ٹھٹھہ کی طرف نکلتے ہیں۔ ٹھٹھہ کراچی سے نیشنل ہائی وے کے راستے صرف 100 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ یہاں جاتے ہوئے ہمارے راستے میں سب سے پہلے مکلی کا عظیم شہرِ خموشاں آتا ہے جو اپنی قدامت، وسعت اور قبروں کے عالیشان طرزِ تعمیر کی وجہ سے بے حد قابل دید ہے۔یہاں لاکھوں قبریں ہیں جن کی وجہ سے اِسے دنیا کا سب سے بڑا قبرستان بھی خیال کیا جاتا ہے۔
یہاں کئی حکمراں، عالم، سپہ سالار، فلسفی اور دیگر اہم افراد مدفون ہیں اور اِن قبروں کی خاص بات اْن کے دیدہ زیب نقش و نگار ہیں جوکہ نہ صرف اُس قبر کے زمانے کی نشاندہی کرتے ہیں بلکہ اْس وقت کی تہذیب، ثقافت اور ہنرمندی کا بھی ثبوت ہیں۔ اِس قبرستان کو دیکھنے کے لئے ہر سال بیرون ممالک سے بھی بہت سیاح آتے ہیں۔
ٹھٹھہ کی شاہجہانی مسجد، تاج محل کے خالق مغل بادشاہ ’شاہ جہاں‘ کی تعمیر کردہ ہے اور اپنے انوکھے اور خوبصورت طرزِ تعمیر کی وجہ سے عالمی شہرت رکھتی ہے۔ اِس کے 93 گنبدوں کو اِس مہارت سے بنایا گیا ہے کہ خطبے کے دوران مقرر منبر پر جو کچھ کہتا ہے وہ گنبد در گنبد گونجتا ہوا مسجد کے تمام گوشوں میں صاف سنائی دیتا ہے۔ مسجد کے صحن میں بنا ہوا حسین باغ بھی اِس مسجد کو انفرادی حُسن بخشتا ہے۔
نیلگوں پانی سے بھری وسیع و عریض کینجھر جھیل نیشنل ہائی وے پر ٹھٹھہ سے حیدرآباد جاتی ہے، جو 20 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ یہ پاکستان میں تازہ اور میٹھے پانی کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے۔ اِس میں پانی دریائے سندھ سے کلری کینال کے ذریعے پہنچتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اِسے کلری جھیل بھی کہا جاتا ہے۔ یہ کراچی اور حیدرآباد والوں کا محبوب پکنک پوائنٹ ہے۔ ہر چھٹی کے دن ہزاروں لوگ یہاں آتے ہیں اور اِس کے شفاف پانی میں تیراکی کرتے ہیں۔ اِس کے درمیان کئی جزیرے بھی ہیں جہاں لوگ کشتیوں میں بیٹھ کر تفریح کے لیے جاتے ہیں۔
حیدرآباد اور دریائے سندھ
ٹھٹھہ سے حیدرآباد 80 کلومیٹر دور ہے۔ یہ صوبہ سندھ کا اہم اور تاریخی شہر ہے۔ حیدرآباد تقریباً تین سو سال پرانا ہے اور 1935ء تک یہ سندھ کا دارالحکومت بھی تھا۔ یہ کراچی کے بعد سندھ کا دوسرا بڑا شہر ہے۔
کراچی سے حیدرآباد آنے کے لیے لوگ عام طور پر سُپر ہائی وے سے سفر کرتے ہیں، لیکن ٹھٹھہ کی طرف سے نیشنل ہائی وے کا راستہ زیادہ خوبصورت ہے۔ یہاں صدیوں پرانے مکانوں کے پہلو میں جدید طرز کی عمارتیں، بیل گاڑیوں کے ساتھ ساتھ رواں جدید گاڑیاں، سادہ لوح دیہاتیوں کے شانہ بشانہ تعلیم یافتہ اور خوش پوش شہری اور اِس کی قدیم سڑکیں اور جدید بازار سندھی تہذیب کی رنگا رنگ تصویر پیش کرتے ہیں۔
ربڑی حیدرآباد کی مشہور اور قدیم سوغات ہے جسے آج بھی لوگ سُتلی سے بندھے مٹی کے آب خوروں میں لٹکائے لٹکائے لازماً لے کرجاتے ہیں۔ رہائشی عمارتوں میں گھرا ہوا حیدرآباد کا قدیم پکا قلعہ بھی قابلِ دید ہے۔ اِس کے علاوہ شاہی بازار اور قدیم گھنٹہ گھر بھی ضرور دیکھنا چاہیے۔
حیدرآباد چونکہ دریائے سندھ کی وجہ سے آباد ہوا اِس لیے اِس کی تہذیب و ثقافت میں دریا کا بہت عمل دخل ہے۔ کوٹری بیراج پر دریائے سندھ کا کنارا آج بھی حیدرآباد کا اہم تفریحی مقام ہے۔ یہاں بیٹھ کر ’پلّا مچھلی‘ بھی کھائی جاسکتی ہے اور کشتی میں بیٹھ کر دریا کی سیر بھی کرسکتے ہیں۔
خصوصاً چاندنی راتوں میں دریا کی سیر ایک ناقابلِ فراموش تجربہ ہوسکتا ہے۔
عبیداللہ کیہر پیشے کے لحاظ سے میکینیکل انجینیئر، مگر ساتھ ہی سیاح، سفرنامہ نگار، پروفیشنل فوٹوگرافر اور ڈاکومنٹری فلم میکر ہیں۔ آپ کی اب تک 7 کتابیں بھی شائع ہوچکی ہیں۔ آبائی تعلق سندھ کے شہر جیکب آباد سے ہیں۔ عمر کا غالب حصہ کراچی میں گزارا اور اب اسلام آباد میں رہتے ہیں.
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تبصرے (21) بند ہیں