چین میں اعلیٰ تعلیم کے لیے اسکالرشپ حاصل کرنا مشکل نہیں
اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا ایک جنون تو شروع سے سوار تھا لیکن معاش کی فکر کا کیا کیجے صاحب، ایم ایس کرنے کے بعد صحافت کی دنیا میں قدم رکھ دیا، بس پھر اس دنیا کا چسکا سا لگ گیا اور یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ چلو کمانے لگے ہیں تو اعلیٰ تعلیم بھی حاصل کی جائے، لیکن صحافی کی بھی کیا زندگی صاحب کبھی یہاں کبھی وہاں، کبھی اِس شہر تو کبھی اُس شہر کی خاک چھاننی پڑتی ہے، اعلیٰ تعلیم کی فرصت کیسے ملے؟
کچھ ماہ پہلے کسی کام کے سلسلے میں چند دنوں کی چھٹی لے کر اسلام آباد سے اپنے چھوٹے گاؤں آیا ہوا تھا، کام نمٹانے کے بعد جس دن واپسی کا رخت سفر باندھ رہا تھا، اسی دن بچپن کے دوست سے فون پر بات ہوئی جو آج کل چین میں پی ایچ ڈی کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چین میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہو؟ میں نے کہا کہ اگر اسکالرشپ ملے تو ضرور چل سکتا ہوں۔ ویسے تو اکثر و بیشتر ذرائع سے چینی یونیورسٹیوں میں اسکالرشپس حاصل کرنے کے بارے میں معلومات ملتی رہتی تھی لیکن کبھی سنجیدگی سے غور کیا ہی نہیں، سوچا کہ اس میں ہزار دشواریاں ہوں گی اور پھر کیا پتہ درخواست کے لیے تگ و دو کے بعد کچھ حاصل ہوگا بھی یا نہیں۔
جب میں نے اس حوالے سے سرچ انجن کی خدمات حاصل کیں اور دیگر ذرائع سے بھی معلومات ذخیرہ کیں تو پتہ چلا کہ چین میں اعلیٰ تعلیم کے لیے اسکالرشپ حاصل کرنا دیگر مغربی و یورپی ممالک کی نسبت کافی آسان ہے۔
آئیے میں اپنے ذاتی تجربے سے آپ کی بھی تھوڑی بہت رہنمائی کیے دیتا ہوں کہ چین میں اعلیٰ تعلیم کے لیے اسکالرشپ حاصل کرنے میں آپ کو کن مراحل سے گزرنا پڑے گا۔
کاغذات کی تیاری اور اسناد کی تصدیق
چین میں اسکالرشپ کس طرح حاصل کرنی ہے؟ اس حوالے سے میرے دوست نے میری کافی رہنمائی کی، انہوں نے مجھے بتایا کہ مجھے سب سے پہلے مجھے اپنی تعلیمی اسناد کی ہائر ایجوکیشن کمیشن اور فارن آفس سے تصدیق کروانی ہوں گی اور ان کی نقول کی نوٹری پبلک سے ٖتصدیق کروانی ہوں گی۔
جس کے بعد مجھے اپنی یونیورسٹی کا بھی رخ کرنا تھا، وہاں جا کر مجھے دو تائیدی خطوط (recommendation letters) حاصل کرنے تھے، جن میں سے ایک کسی ایک پروفیسر کی طرف سے جبکہ دوسرا کسی ایسوسی ایٹ پروفیسر کی طرف سے ہونا چاہیے۔
اسناد تصدیق بھی کروالیں اور لیٹرز بھی حاصل کر لیے گئے۔
اب باری تھی میڈیکل سرٹیفیکیٹ کی، چنانچہ مجھے کئی مختلف طبی ٹیسٹ کروانے پڑے، چلیے جی، یہ کام بھی پورا ہوا اور میں نے ایک عدد میڈیکل سرٹیفکیٹ بھی حاصل کرلیا۔
چین صحت کے معاملے میں بہت محتاط ہے۔ آپ دو جگہوں سے اپنا طبی ٹیسٹ کرواسکتے ہیں، سرکاری ہسپتال یا پھر پاکستان میں کسی چین سے منظورشدہ لیبارٹری۔
اب باری تھی سب سے اہم، پولیس کلیئرنس سرٹیفیکیٹ کی۔ اس سرٹیفکیٹ کو حاصل کرنے کے لیے مجھے اپنے ضلعے کے ایس ایس پی آفس جانا پڑا۔
تو جناب میرے کاغذات اور اسناد کی فائل تو تیار ہو گئی۔ لیکن چونکہ مجھے چین میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنی تھی لہٰذا مجھے اپنے پسندیدہ شعبے کے حوالے سے ایک پروپوزل تیار کرنا تھا۔
اگر آپ سرکاری ملازم ہیں تو سب سے پہلے آپ کو اپنے ادارے سے این او سی لینے پڑے گی، یوں آپ کو چھٹی لینے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئے گی۔
چین میں یونیورسٹی کا انتخاب
اب میں نے گوگل کے ذریعے مختلف چینی یونیورسٹیوں کے بارے میں معلومات اکٹھا کیں، اور ہر ایک کا بغور جائزہ لیا کہ آیا یونیورسٹی میں میری دلچسپی کا شعبہ ہے یا نہیں۔ اگر ہے تو وہاں اپلائے کس طرح کرنا ہے اور درخواست دینے کے لیے کون سی چیزوں کی ضرورت پڑے گی۔
کچھ یونیورسٹیاں کسی ایسے طالب علم کو ترجیح دیتی ہیں جس کے پاس اس یونیورسٹی کے کسی پروفیسر کا اسیپٹینس لیٹر یا قبولیت نامہ ہو۔
اگر آپ نے اپنے لیے چین کی کسی ایسی یونیورسٹی کا انتخاب کیا ہے جہاں اسیپٹینس لیٹر ضروری ہے تو آپ اس یونیورسٹی کی ویب سائیٹ پر جاکر پروفیسر کی ای میل حاصل کرکے ان سے بذریعہ ای میل رابطہ کرکے انہیں اپنی تعلیمی اور تحقیقی دلچسپی کا اظہار کرسکتے ہیں اور ان سے لیٹر حاصل کرسکتے ہیں۔ اگر اس یونیوسٹی میں آپ کا پہلے سے کوئی دوست یا احباب زیر تعلیم ہے تو لیٹر کے حصول میں اور بھی آسانی ہوسکتی ہے۔ چین کی ہر یونیورسٹی کی اپنی اپنی پالیسی اور اپنے ضابطے ہیں۔
اب مجھے چین کی مختلف یونیورسٹیوں میں آن لائن اپلائے کرنا تھا اور تمام کاغذات بذریعہ ڈاک یونیورسٹی بھیجنے تھے۔ یہاں پر ایک بات کا خاص خیال رکھیں کہ آن لائن اپلائے کرنے سے قبل آپ کو اسکالرشپ کے لیے اپلائے کرنا لازمی ہے اور یہ بھی بغور جائزہ لیجیے کہ وہ یونیورسٹی آپ کو کس نوعیت کی اسکالرشپ دے رہی ہے کیونکہ آن لائن اپلائنگ کے دوران آپ کو یہ بتانا پڑتا ہے کہ آپ کے تعلیمی اخراجات کون اٹھائے گا۔
چین کے مختلف اسکالرشپ پروگرامز
چینی حکومت مختلف اسکالرشپس فراہم کرتی ہے۔ جن میں سے چائنا اسکالرشپ کونسل کا نام کافی مقبول عام ہے، زیادہ تر لوگ اسی اسکالرشپ کے لیے اپلاء کرتے ہیں۔ اس میں ایک تو اسکالرشپس کی تعداد کافی زیادہ ہے اور دوسرا، اس میں اسکالرشپس ملنے کے مواقع بھی سب سے زیادہ ہوتے ہیں۔ میں نے بھی چائنا اسکالرشپ کونسل میں اپلائے کیا۔
چین میں میرین اسکالرشپ، کنفیوشس اسکالرشپ، پریزیڈنٹ اسکالرشپ، کے علاوہ ہر ایک یونیورسٹی کی اپنی اسکالرشپس بھی ہوتی ہیں۔ چین کی کئی صوبائی حکومتیں بھی اسکالرشپس کے مواقع فراہم کرتی ہیں، ان میں کچھ فُل تو کچھ ہاف اکالرشپس ہوتی ہیں۔ فل اسکالرشپ میں آپ کے تمام تر اخراجات مثلاً ٹیوشن فیس سے لے کر ہاسٹل کی فیس، یونیورسٹی یا چینی حکومت برداشت کرتی ہے، اس کے ساتھ ساتھ دیگر اخراجات کے لیے وظیفہ بھی دیا جاتا ہے۔ اکثر و بیشتر پی ایچ ڈی کے طالب علم کو 3500 یوئان جبکہ ماسٹرز کے طالب علم کو 3000 یوئان دیے جاتے ہیں۔
مگر فل اسکالرشپ میں آپ کی ایئر ٹکٹ اور ویزا فیس شامل نہیں ہوتی، ویزا فیس مختلف بھی ہوسکتی ہے، کہیں اس کی فیس 800 یوئان فی سال ہے تو کہیں 800 یوئان فی چار سال ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ اگر آپ کو اسکالرشپ مل جاتی ہے اور آپ کو چین جانا ہے تو آپ کی جیب میں کم سے کم ایک لاکھ 50 ہزار روپے ہونے چاہئیں کیونکہ ایئر ٹکٹ، ویزا فیس اور ماہانہ وظیفہ ملنے تک چھوٹے موٹے خرچے اور رہائش کا بندوبست اپنے ہی پیسوں سے کرنے ہوتے ہیں۔ یہ بھی واضح کرتا چلوں کہ چین میں کسی غیر ملکی طالب علم کو ملازمت کرنے کی اجازت نہیں۔
ہر یونیورسٹی کا ڈگری پروگرام دوسری یونیورسٹی سے مختلف ہوسکتا ہے، کسی یونیورسٹی میں 3 سالہ پی ایچ ڈی ڈگری پروگرام ہے تو کسی میں 4 سالہ ڈگری پروگرام ہوتا ہے، لہٰذا اسکالرشپ کا حساب کتاب بھی ڈگری پروگرام کے مطابق ترتیب دیا جاتا ہے۔
اس سارے پروسز کے بعد جب مجھے ای میل موصول ہوئی کہ ایک چینی یونیورسٹی میں میری اسکالرشپ پر داخلہ ہوچکی ہے۔ اب مجھے صرف ویزا لگوانا تھا اور جہاز میں بیٹھ کر چین چلے جانا تھا۔
چین آمد
چین میں سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ یہاں کے لوگ چینی زبان کے علاوہ اور کوئی زبان نہیں بولتے اور ہمیں چینی آتی نہیں۔ ایئرپورٹ سے یونیورسٹی کس طرح پہنچا جائے؟ اگر یونیورسٹی بیجنگ یا شنگھائی جیسے بڑے شہروں سے دور ہے تو ہوسکتا ہے کہ آپ کو راستے میں زبان کی رکاوٹ کی وجہ سے تھوڑی دشواری پیش آئے۔
جب میں بیجنگ ایئرپورٹ پر اترا تو نہ میں کسی کی بات سمجھ رہا تھا نہ کوئی دوسرا میری بات سمجھ پا رہا تھا، خود کو مشکل میں پایا لیکن شکر ہے کہ ایک پاکستانی کو فون پر بات کرتے دیکھا، میں فوراً اس کے پاس گیا، انہوں نے میری کافی مدد کی اور ٹیکسی بھی کرواکر دی۔ میری یونیورسٹی چنڈاؤ شہر میں تھی جہاں پہنچنے کے لیے مجھے بیجنگ شہر سے تیز رفتار ٹرین میں 4 سے 5 گھنٹے کا سفر طے کرنا تھا۔
ٹرین کے سفر میں بھی میں بس خاموشی کے ساتھ ادھر ادھر دیکھ ریا تھا، بات کریں بھی تو کیسے کریں۔ کاش چینی زبان بولنے آتی۔
بالآخر میں یونیورسٹی پہنچ ہی گیا، اب مجھے انٹرنیشنل ایجوکیشن اسکول میں رجسٹریشن کروانی تھی اور ویزا میں توسیع کروانی تھی۔ رجسٹریشن کے لیے آپ کو اسناد، اہم کاغذات اور ایڈمیشن لیٹر درکار ہوگا اور ساتھ ہی کسی ایک چینی بینک میں اکاؤنٹ کھولنے کی ضرورت پڑے گی۔ ویزا کے لیے بھی آپ کا دوبارہ میڈیکل ٹیسٹ کیا جاتا ہے، چنانچہ یہاں آپ کو یہاں اپنی جیب سے کچھ یوئان ڈھیلے کرنے پڑیں گے، کیونکہ ہوسکتا ہے کہ چین میں آپ کی تمام پاکستانی طبی رپورٹس قابل قبول ہوں لیکن ایچ آئی وی ٹیسٹ کی رپورٹ قابل قبول نہیں ہوگی، اگر آپ نے پاکستان میں کسی چینی طبی ادارے سے یہ ٹیسٹ کروایا ہے تو پھر رپورٹ قابل ہوگی لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو آپ کو چین میں یہ ٹیسٹ کروانا ہوتا ہے۔ ساتھ ہی پولیس کلیئرنس بھی لازمی کروانی ہوتی ہے۔
ان تمام کاموں میں چین میں پہلے سے زیر تعلیم پاکستانی طلبہ آپ کی کافی مدد بھی کرسکتے ہیں۔ جن سے آپ چین روانگی سے قبل مختلف سوشل میڈیا ویب سائٹ کے ذریعے رابطے کرسکتے ہیں۔
یہاں آکر آپ کو لازمی طور پر ایک عدد موبائل سم خریدنی ہوتی ہے، کیونکہ نمبر کے سواء یہاں کوئی کام نہیں ہو پاتا۔ آپ کی رجسٹریشن سے لے کر بینک اکاؤنٹ، اور پھر پولیس رجسٹرشن تک آپ کو لازمی طور پر اپنا نمبر دینا پڑتا ہے۔
اب رہنے کا انتظام کرنا تھا، ہاسٹل میں کمرہ حاصل کرنے کے لیے مجھے ایک ہزار یوئان ڈپازٹ کرانے پڑے۔ یہ رقم ہاسٹل چھوڑتے وقت واپس کردی جاتی ہے بشرطیکہ آپ نے ہاسٹل میں کسی قسم کا نقصان نہ کیا ہو۔
جب تک ہاسٹل میں کمرہ ملے تب تک آپ کو خود ہی اپنے رہنے کا انتظام کرنا ہوتا ہے، میں اس معاملے میں خوشنصیب رہا کہ میرے چند دوستوں نے مجھے کچھ دن اپنے ہاں ٹھہرنے کی اجازت دے دی۔
چین میں میری یونیورسٹی
چنڈاؤ شہر میں تین بڑی یونورسٹیاں ہے، یہ شہر بیجنگ اور شنگھائی سے کافی چھوٹا ہے۔ میری یونیورسٹی یعنی اوشن یونیورسٹی کے تین کیمپسز ہیں اور چھوتھا زیر تعمیر ہے۔ اوشن یونیورسٹی انٹرنیشنل طلبہ کو ماسٹرز اور پی ایچ ڈی ڈگریوں سے نوازتی ہے، اس یونیورسٹی میں زیادہ تر میرین سائنس کے شعبے کی تعلیم دی جاتی ہے اور اسی شعبے میں ریسرچ کا کام ہوتا ہے۔
اس یونیورسٹی میں زیادہ تر نیچرل سائنس کے شعبہ جات ہیں، خاص کر وہ علوم جن کا تعلق مینرین سائنسز سے ہے۔ یہاں اوشنوگرافی، فشری سائنس، انجنئرنگ، ماحولیات، میرین جیالاجی اور میرین سائنس کے متعلق دیگر شعبہ جات ہیں۔ البتہ سوشل سائنس کے چند شعبہ جات ہیں۔
میری ایڈمیشن مینجمینٹ ڈپارٹمینٹ میں ہوئی ہے، یہاں ٹؤرزم، کلچرل انڈسٹری، میرین کلچر، سی پیک اور دیگر مختلف موضوعات پر ریسرچ کا کام ہوتا ہے۔ بہرحال ریسرچ چاہے کسی بھی موضوع پر کی جا رہی ہو، اس میں میرین سائنس کا عنصر ضرور شامل ہوتا ہے۔
اگر کوئی پاکستانی طالب علم میرین سائنس میں دلچسپی رکھتا ہے تو اس کے لیے یہ یونیورسٹی ایک بہترین تعلیمی مرکز ہے۔
تبصرے (8) بند ہیں