’پانی کی کمی اورموسمی تبدیلی زرعی زمینوں کو بجر کردیں گی‘
اسلام آباد: اقوام متحدہ نے خبر دار کیا ہے کہ پاکستان میں زیر زمین پانی کے وسائل میں شدید کمی کے باعث کاشت کی جانے والی زمینوں کو خطرات لاحق ہیں۔
اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے فوڈ اینڈ ایگری کلچر آرگنائیزیشن (ایف اے او) نے ‘ورلڈ سوئل ڈے’ کے موقع پر اپنی رپورٹ شائع کردی۔
پاکستان میں ایف اے او کی ترجمان مینا ڈولاچاہی کا کہنا ہے کہ ‘زمین کی حفاظت سے پاکستانی نسلوں کا تحفظ پوشیدہ ہے’۔
عالمی ادارہ ایف اے او نے کہا کہ پاکستان کی زمین میں نامیاتی مواد اور پودوں کے لیے غذائی اجزاء میں کمی واقع ہورہی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ زمین کا بیشتر حصہ کیلکو لیسو الیووایم اور ڈھیلوں پر مشتمل ہے جبکہ عمومی طور سے زمین 90 فیصد نامیاتی مواد مادے کی کمی کا شکار ہے اور اس میں 85 فیصد فاسفورس اور 40 پوٹاشیم کمی بھی شامل ہے۔
یہ پڑھیں : پاکستان میں زراعت پسماندہ کیوں؟
ایف اے او کے مطابق زیر کاشت زمین میں کیمائی اجزاء زنک اور بورن کی مقدار 50 فیصد سے زیادہ ریکارڈ کی گئی ہے، جس کے باعث پھلوں میں آئرن کی کمی بھی دیکھی گئی۔
واضح رہے کہ پاکستان کا جغرافیائی رقبہ تقریباً 80 کروڑ ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے جس میں سے صرف 22 کروڑ ایکٹر رقبہ زیر کاشت ہے جو مجموعی طور پر کل رقبے کا 25 فیصد بنتا ہے۔
ایف اے او نے تشویش کا اظہار کیا کہ پانی کی قلب کے کاشت کی جانے والی زمینوں کو رئیل اسیٹٹ میں تبدیلی کا رحجان بڑھ رہا ہے۔
ایف اے او کی ترجمان مینا ڈولاچاہی نے کہا کہ موسماتی تبدیلی اور دیہی ترقی کے فروغ کے سبب نموار ہونے والے چینلنجز سے نمٹنے کے لیے زمین، پانی اور انتظامی سطح پر غیر معمولی پالیسی مرتب دینے کی اشد ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ ترقی کا واحد پیمانہ ‘شہری اور قدرتی ذخائر’ کے گرد ہونا چاہیے اور قدرتی وسائل میں اضافے اور استحکام کے لیے ملکی سطح پر پیداواری نظام کو بہتر بنانا ہوگا جس کو چھوٹے کسان بھی اپنا سکیں۔
یہ بھی پڑھیں : آب و ہوا میں تبدیلی سے زراعت کو خطرہ
اقوام متحدہ نے بتایا کہ ملک میں ہونے والی حالیہ مردم شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی 20 کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے اور پاکستان سمیت پوری دنیا میں خوراک کی پیداواری ضروریات کو پورا کرنا صدی کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔
خیال رہے کہ R4 نامی غذائی (پیدوار اور بچاؤ) پروگرام کی کامیابی کے لیے پاکستان امریکی ادارے برائے ایگریکلچر، وزارت فوڈ سیکورٹی اور پاکستان ایگریکلچرل ریسرچ کونسل کے اشتراک سے وفاق اور صوبوں میں ایگریکلچر محکموں کی مناسب تربیت، قومی کھاد کمپنیوں کی تعمیر، کسانوں کی تنظمیں تشکیل سمیت دیگر اسٹیک ہولڈز کو آگاہی دے رہے ہیں۔
مذکورہ مفصل منصوبے کی روشنی میں ملک کی زمین سے متعلق اہم معلومات کا حصول ممکن ہو سکے گا جس میں زمین کی زرخیزی ، کاشت کے لیے اٹھائے جانے والے عام اقدامات کی معلومات، کھاد کے استعمال کا رحجان اور معدنی و غیر معدنی زمین کو زیر کاشت کرنے والی حکمت عملی سے واقفیت شامل ہے۔
مزید پڑھیں: زرعی پالیسی حکومتی ارکان نے کسان دشمن قرار دے دی
رپورٹ میں کہا گیا کہ حاصل شدہ معلومات سے عالمی موسمی تبدیلیوں کے تناظر میں زراعت کی ترقی کے لیے مزید بہتر اقدامات کے جا سکیں گے۔
اجلاس میں ایف اے او نے دنیا کے نقشے پر زمین میں کاربن اسٹاک کی مفصل تفصیل بھی پیش کی جس میں کہا گیا کہ زمین کا 30 سینٹی میڑ سطح پر 6 کھرب 80 ارب ٹن کاربن پر مشتمل ہے جبکہ تقریباً اس سے دگنا کاربن آب و ہوا میں شامل ہے ۔
رپورٹ میں تفصیلات بتائی گئی کہ دنیا کے صرف 10 ممالک کل 6 کھرب ٹن کاربن میں سے 60 فیصد سے زائد کاربن پایا جاتا ہے۔
ان ممالک میں امریکا، کینیڈا،چین، انڈونیشا، برازیل، روس، آسٹریلیا، ارجنٹائن، کانگو اور کرغزستان شام ہیں۔
ایف اے او نے مذکورہ ممالک پر زور دیا کہ وہ ماحول میں قدری کاربن پر مشتمل زمین کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔
واضح رہے کہ کاربن کے ساتھ نامیاتی مواد زمین کے لیے سود مند ہوتا ہے جس سے زمین کی صحت میں بہتر ، پیداواری صلاحیت میں اضافہ اور پانی کی منتقلی و برقراری قائم رہتی ہے.
اقوام متحدہ نے بتایا کہ دنیا کے زمین کا ایک تھائی حصہ متاثر ہونے سے بڑی مقدار میں کاربن خارج ہوا اور متاثرہ زمین کی بحالی سے 63 ارب ٹن کاربن زائل کیا جا سکتا ہے جو موسمی تبدیلی کے لحاظ سے غیر معمولی عمل ہوگا۔
یہ خبر ڈان اخبار میں 8 دسمبر 2017 کو شائع ہوئی