آلودہ پانی کیس: مراد علی شاہ کی مسائل حل کرنے کی یقین دہانی
سپریم کورٹ آف پاکستان کی کراچی رجسٹری میں آلودہ پانی کی فراہمی اور نکاسی آب سے متعلق کیس کے سلسلے میں چیف جسٹس نے وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو شہریوں کے مسائل حل کرنے کی ہدایت جاری کردی جس پر انہوں نے عدالت کو یقین دلایا کہ مسائل جلد حل کر لیے جائیں گے۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس فیصل عرب اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے سپریم کورٹ کی کراچی رجسٹری میں کراچی کو آلودہ پانی کی فراہمی اور نکاسی آب سے متعلق کیس کی سماعت کی۔
سماعت کے دوران وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور سابق ناظم کراچی مصطفیٰ کمال عدالت پیش ہوگئے۔
کیس کی سماعت کے آغاز میں کمرہ عدالت میں موجود افراد کے سامنے ایک دستاویزی فلم دکھائی گئی تھی جس میں دکھایا گیا تھا کہ صوبہ سندھ کے تمام اضلاع میں لوگ آلودہ پانی پی رہے ہیں۔
اس دستاویزی فلم میں دکھایا گیا کہ صوبے کے 80 سے 90 فیصد عوام فضلاء ملا پانی استعمال کرنے پر مجبور ہے۔
مزید پڑھیں: آلودہ پانی سے سندھ کے لوگ کینسر اور ہیپاٹائیٹس کا شکار ہو رہے ہیں، چیف جسٹس
اس موقع پر جیف جسٹس نے خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس موقع پر پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بھی ہوتے تو وہ یہ دستاویزی فلم دیکھ سکتے تاکہ انہیں اس بات کا علم ہوتا کہ لاڑکانہ کی کیا صورتحال ہے۔
چیف جسٹس نے وزیرِ اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس کیس کو مخاصمانہ طور پر نہ لیں کیونکہ عدالت نے انہیں عزت و وقار کے ساتھ یہاں بلایا ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالت چاہتی ہے کہ لوگوں کو اس آلودہ پانی سے نجات دلائی جائے اور انہیں پینے کے لیے صاف پانی فراہم کیا جائے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر آلودہ پانی سے نجات نہ دلائی گئی تو اپنے بچوں کو کیا مستقبل دیں گے جبکہ انہوں نے استفسار کیا کہ دریائے سندھ کے پانی کو کراچی کے لوگوں کی ضروریات کیلئے کیوں استعمال نہیں کیا جاتا جس پر وزیراعلیٰ سندھ کا کہنا تھا کہ دریائے سندھ میں پانی بہت کم ہوتا ہے، جب سیلاب آتا ہے تو ہم ڈوبتے ہیں اور جب پانی کم ہوتا ہے تو ہم سوکھتے ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پانی کی قلت کے باعث بدین اور ٹھٹہ کے علاقے تباہ ہورہے ہیں کیونکہ دریائی پانی میں کمی کے باعث سمندر بڑھتا جارہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی کا 99 فیصد پانی مضر صحت
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سمندر کو روکنے کیلئے جتنے پانی کی ضرورت ہے وہ ہمارے پاس نہیں ہے۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ آپ کی کچھ ذمہ داریاں بھی ہیں لہٰذا ہمیں بتایا جائے کہ یہ مسائل کب حل ہوں گے کیونکہ لوگوں کو جواب دینا ہماری ذمہ داری ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ کا کہنا تھا کہ تمام کام 6 ماہ میں مکمل نہیں ہو سکتے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اپ کام کرکے دکھائیں، اور اگر مہلت مانگی جائے گی تو وقت بھی بڑھا دیا جائے گا۔
وزیر اعلیٰ سندھ نے اقرار کیا کہ صوبے بھر میں 953 اسکیمز غیر فعال ہیں جبکہ عدالت کو یقین دہانی کرائی کہ عدالت کو قابل عمل پلان بنا کر اس پر عمل بھی کر کے دکھایا جائے گا۔
عدالت نے وزیراعلیٰ سندھ پر واضح کیا کہ جب تک شہریوں کو بینے کے لیے صاف پانی کی فراہمی اور سمندر کی آلودگی ختم کرنے کے لیے اقدامات نہیں کیے جائیں گے تب تک انہیں عدالت عالیہ میں طلب کیا جاتا رہے گا علاوہ ازیں عدالت نے وزیر اعلیٰ سندھ کو سیوریج ٹریٹمنٹ پلان 15 روز میں پیش کرنے کی ہدایت جاری کردیں۔
مزید پڑھیں: 80 فیصد پاکستانی آلودہ پانی پینے پر مجبور
عدالت نے وزیراعلیٰ سندھ کو محمود آباد ٹریٹمنٹ پلانٹ کی اراضی الاٹ کرنے کے معاملے پر تحقیقات کروانے کا حکم دیتے ہوئے اس کی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت جاری کردی۔
چیف جسٹس نے پاک سرزمین پارٹی (پی ایس پی) ک سربراہ اور سابق ناظم کراچی مصطفیٰ کمال کو محمود آباد ٹریٹمنٹ پلانٹ کی اراضی الاٹ کرنے سے متعلق طلب کیا۔
سابق سٹی ناظم کراچی مصطفی کمال پر الزام تھا کہ انہوں نے اپنے دورِ نظامت میں مبینہ طور پر ٹریٹمنٹ پلانٹ کی 100 ایکڑ اراضی سیاسی بنیادوں پر لوگوں کو الاٹ کردی گئی تھی۔
اس موقع پر کراچی پولیس چیف مشتاق مہر بھی عدالت پہنچے جبکہ پی ایس پی رہنما انیس قائم خانی بھی عدالت میں موجود تھے اس کے علاوہ ایڈووکیٹ جنرل سندھ، سیکریٹری داخلہ اور منیجنگ ڈائریکٹر (ایم ڈی) واٹر بورڈ بھی موجود تھے۔
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری نے وزیراعلیٰ سندھ کی رپورٹ آنے تک سماعت ملتوی کردی۔
گزشتہ سماعت میں سپریم کورٹ نے وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اورسابق ناظم کراچی مصطفیٰ کمال کو 6 دسمبر کو طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی تھی۔
مصطفیٰ کمال کی گفتگو
عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پی ایس پی کے سربراہ مصطفیٰ کمال کا کہنا تھا کہ شہر میں پانی کی فراہمی کا ذمہ دار صوبے کا وزیرِ اعلیٰ یا گورنر نہیں ہوتا بلکہ شہر کا میئر ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے عدالت میں بتایا کہ کراچی کی آبادی ڈیڑھ کروڑ نہیں بلکہ ڈھائی کروڑ سے بھی زیادہ ہے اور یہ 2020 تک تقریباً 3 کروڑ ہوجائے گی۔
انہوں نے بتایا کہ کراچی میں اس وقت 1240 ملین گیلن پانی کی ضرورت ہے لیکن شہر کو صرف 640 ملین گیلن پانی فراہم کیا جارہا ہے جس میں سے 540 ملین گیلن دریائے سندھ اور کینجھر جھیل جبکہ 100 ملین گیلن پانی حب ڈیم سے فراہم کیا جاتا ہے۔
کراچی کو پانی فراہم کرنے والے منصوبے کے فور کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ منصوبہ انہوں نے اپنے دورِ حکومت میں شروع کیا تھا جس کی لاگت 7 ارب 90 کروڑ روپے تھی جو مختلف انتظامیہ کی جانب سے اپنا ’ٹوپ اپ‘ جمع کر کے اب اس کی لاگت 42 ارب روپے تک پہنچ گئی جس میں سے ساڑھے 3 ارب روپے بھی خرچ کر لیے گئے ہیں۔
آلودہ پانی کیس اور کمیشن کا قیام
خیال رہے کہ سندھ میں نکاسی آب سے متعلق سماعت گزشتہ برس سے جاری ہے، عدالت نے درخواست گزار شہاب اوستو کی درخواست پر ’جڈیشل واٹر کمیشن‘ بھی تشکیل دیا تھا۔
جسٹس اقبال کلہوڑو کی سربراہی میں قائم عدالتی کمیشن نے مارچ 2017 میں سپریم کورٹ میں اپنی رپورٹ بھی جمع کرائی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ صوبہ سندھ کے شہریوں کو فراہم کیے جانے والے پینے کے پانی میں ہیپاٹائٹس بی، جگر کے سرطان، خون کی کمی اور بچوں کی نشوونما میں رکاوٹ ڈالنے والے وائرس کی موجودگی کا انکشاف ہوا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: 80 فیصد پاکستانی آلودہ پانی پینے پر مجبور
اس کمیشن کا مقصد سندھ میں پینے کے صاف پانی، صحت و صفائی کی صورت حال اور صحت مند ماحول کے حوالے سے انتظامیہ کی ناکامی پر کیے گئے خدشات کی تحقیقات کرنا تھا۔
اسی کمیشن نے 4 جنوری 2017 کو پاکستان کونسل آف ریسرچ اینڈ واٹر ریسورس (پی سی آر ڈبلیو آر) کو صوبے کے عوام کو فراہم کیے جانے والے پانی کی حیاتیاتی اور کیمیائی جانچ کی ہدایت کی تھی.
عدالتی کمیشن کی ہدایات کے بعد پی سی آر ڈبلیو نے تحقیقات کے بعد 4 مارچ 2017 کو اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ سندھ کے 13 اضلاع میں شہریوں کو فراہم کیے جانے والا پینے کا پانی مضر صحت ہے.
پاکستان کونسل آف ریسرچ اینڈ واٹر ریسورس (پی سی آر ڈبلیو آر) نے سکھر، لاڑکانہ، شکارپور، ٹنڈو محمد خان، بدین ، تھرپارکر، حیدرآباد اور کراچی کے 6 اضلاع، جن میں شرقی، غربی، جنوبی، وسطی، ملیر اور کورنگی شامل ہیں، سے پانی کے 300 نمونے حاصل کرکے ان کا ایک تفصیلی بیکٹیریل تجزیہ کیا تھا۔
پی سی آر ڈبلیو آر کی جانب سے تحقیقات کے بعد سندھ کے ان اضلاع میں زمین کی سطح پر اور زیر زمین موجود پانی کے بیشتر نمونوں کو انسانی استعمال کے لیے غیر محفوظ قرار دیا گیا تھا۔