• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

مشکوک باؤلنگ ایکشن کا شکار کون کون؟

شائع December 5, 2017
محمد حفیظ کے باؤلنگ ایکشن کیریئر میں تیسری مرتبہ پابندی لگی— فوٹو: اے پی
محمد حفیظ کے باؤلنگ ایکشن کیریئر میں تیسری مرتبہ پابندی لگی— فوٹو: اے پی

جب حال ہی میں انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے مشکوک باؤلنگ ایکشن کے سبب محمد حفیظ کو تیسری مرتبہ معطل کیا تو یہ ان کھلاڑیوں کی فہرست میں ایک اور اضافہ تھا جن کے کیریئر تنازعات کا شکار ہوئے۔

حفیظ پہلے کھلاڑی نہیں جنہیں اس طرح کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا ہو۔ ان کے ساتھی کھلاڑیوں سعید اجمل، شبیر احمد اور شعیب اختر کے ساتھ ساتھ ویسٹ انڈیز کے سنیل نارائن، نیوزی لینڈ کے موجودہ کپتان کین ولیمسن، زمبابوین پراسپر اتسیا، سچترا سنانائیکے اور جنوبی افریقہ کے جوہان بوتھا کے کیریئر بھی اس تنازع کا شکار رہے۔

اس فہرست کا اختتام یقیناً یہاں نہیں ہوتا۔ جون 2014 میں آئی سی سی کے سربراہان کی ایک بیٹھک ہوئی جس میں یہ تجویز پیش کی گئی کہ مشکوک ایکشن کو رپورٹ کرنے، اس کا جائزہ لینے اور اس کو کلیئر کرنے کا جو طریقہ کار ہے، اسے رسمی ٹیسٹ کے بعد نتیجے تک پہنچنے کے بجائے اس عمل میں توسیع کرتے ہوئے ایکشن کا بغور جائزہ لیا جائے اور اس کے بعد سے تیزی سے مشکوک ایکشن رپورٹ ہونے کا سلسلہ شروع ہوا۔

2014 میں سعید اجمل کے شاندار انٹرنیشنل کیریئر کو اس وقت دھچکا لگا جب پاکستان کے دورہ سری لنکا کے دوران ان کا ایکشن رپورٹ ہوا اور فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے آف اسپنر کی کہنی میں 43ڈگری تک کا خم پایا گیا جو آئی سی سی کی جانب سے مقررہ 15 ڈگری کی حد سے تقریباً تین گنا زیادہ تھا۔ ان کی دوسرا میں کہنی کا خم 42 ڈگری، آف اسپن میں 43 ڈگری اور تیز گیندوں میں کہنی کا خم 39ڈگری تک پایا گیا۔

تاہم حیران کن امر یہ کہ 2009 میں سعید اجمل کا ایکشن رپورٹ ہوا تھا تو طبی معائنے کے بعد ان کی کہنی میں انجری کا انکشاف ہوا تھا اور اسی بنیاد پر ان کے ایکشن کو کلیئر کر دیا گیا تھا۔

سعید اجمل کا کیریئر مشکوک باؤلنگ ایکشن کے سبب اختتام پذیر ہوا— فوٹو: اے ایف پی
سعید اجمل کا کیریئر مشکوک باؤلنگ ایکشن کے سبب اختتام پذیر ہوا— فوٹو: اے ایف پی

یہ ایک مختصر کہانی تھی کہ آخر کن وجوہات نے آئی سی سی کو قابل اعتراض باؤلنگ ایکشن کے حامل باؤلرز کے خلاف کارروائی پر مجبور کیا جو کھیل پر اپنی بالادستی قائم رکھنے کیلئے غیرقانونی طریقوں کا استعمال کر رہے تھے۔ آئی سی سی کے قوانین اور ضابطوں کے حوالے سے امپائرز اب پہلے سے کہیں زیادہ محتاط ہو گئے ہیں۔ اس کے نتیجے میں آف اسپنرز سب سے زیادہ نشانہ بنے کیونکہ اکثر ان پر غلط حربوں کے استعمال کا الزام عائد کیا جاتا ہے خصوصاً جب وہ 'دوسرا' گیند پھینک رہے ہوتے ہیں جہاں گیند پھینکنے کیلئے کہنی کو آف اسپن گیند کے مقابلے میں زیادہ خم دینا پڑتا ہےچ اور یہی چیز سعید اجمل کے خلاف گئی۔

حالانکہ 32 سال کی عمر میں انٹرنیشل کرکٹ میں قدم رکھنے والے سعید اجمل کی ثقلین مشتاق کے ہمراہ ایکشن درست بنانے پر کام کرنے کے بعد مختصر وقت کیلئے کرکٹ میں واپسی ہوئی لیکن اس مرتبہ وہ اپنی سابقہ افادیت کھو بیٹھے تھے جس کی بدولت انہوں نے عالمی کرکٹ میں کمال عروج و مرتبہ حاصل کیا۔

مایہ ناز آف اسپنر ثقلین مشتاق نے گھٹنے کی اجری کے سبب کیریئر کے اختتام سے قبل اپنے شاندار انٹرنیشنل کیریئر میں 1995 سے 2004 کے دوران پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے 49 ٹیسٹ میں 209 اور 169 ون ڈے میں 288 وکٹوں سمیت مجموعی طور پر 496 شکار کیے لیکن وہ بلا شک و شبہ 'دوسرا' کے مستند موجد تصور کیے جاتے ہیں جو آف اسپنر کی ایک ایسی گیند ہے جو دراصل لیگ بریک ہوتی ہے۔

پیدائشی طور پر نقص کے سبب کہنی میں غیرمعمولی خم کے کی وجہ سے کیریئر کے دوران متعدد تنازعات کا شکار بننے والے عظیم سری لنکن اسپنر متیاہ مرلی دھرن کے برعکس ثقلین مشتاق کے ایکشن پر کبھی بھی سوالات کھڑے نہیں کیے گئے۔

133 ٹیسٹ میں 800 وکٹیں لینے کے بعد جولائی 2010 میں ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ لینے والے مرلی دھرن اس وقت دنیا بھر میں شہ سرخیوں کی زینت بنے تھے جب متنازع آسٹریلین امپائر ڈیرل ہیئر نے 1995 کے باکسنگ دے ٹیسٹ کے دوران باؤلنگ اینڈ پر کھڑے ہو کر ان پر گیند تھرو کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے گیندوں کو نوبال قرار دیا تھا حالانکہ باؤلنگ ایکشن کی درستگی کے بارے میں فیصلہ کرنا اسکوائر لیگ امپائر کا کام ہوتا ہے۔

یہ صورتحال اس وقت قابو سے باہر ہو گئی جب ڈیرل ہیئر نے تین اوورز کے وقفے کے دوران مرلی کی گیندوں کو سات مرتبہ نوبال قرار دیا جس پر سری لنکن کپتان ارجنا رانا ٹنگا احتجاجاً اپنی ٹیم کو میدان سے باہر لے گئے تھے اور انہوں نے آسٹریلین امپائر پر متصبانہ رویے کا الزام عائد کیا تھا۔

اس واقعے کے تین سال بعد ایک اور آسٹریلین امپائر روز ایمرسن نے بھی ڈیرل ہیئر کی پیروی کرتے ہوئے ایڈیلیڈ میں انگلینڈ کے خلاف ون ڈے میچ میں سری لنکن اسپنر کی گیند کو نوبال قرار دیا۔ اس مرتبہ بھی معاملہ اس وقت سنگین شکل اختیار کر گیا جب راناٹنگا آسٹریلین آفیشل سے الجھ پڑے اور اس کے بعد کچھ دیر کیلئے اپنی ٹیم کو میدان سے باہر لے گئے۔

عظیم سری لنکن اسپنر متیاہ مرلی دھرن اپنے پورے کیریئر کے دوران مشکوک ایکشن کی وجہ سے نظر میں رہے— فوٹو: اے ایف پی
عظیم سری لنکن اسپنر متیاہ مرلی دھرن اپنے پورے کیریئر کے دوران مشکوک ایکشن کی وجہ سے نظر میں رہے— فوٹو: اے ایف پی

ریتائرمنٹ کے کافی عرصے بعد 63 سالہ ایمرسن نے اس معاملے پر دوبارہ لب کشائی کرتے ہوئے یہاں تک کہہ گئے کہ مرلی دھرن ون ڈے اور ٹیسٹ کرکٹ میں جس ریکارڈ کے مالک ہیں، اس کے مستحق نہیں۔

2010 میں سڈنی کے روزنامہ ٹیلی گراف کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ 15 سال میں میرے خیالات نہیں بدلے، وہ اس ریکارڈ کے مستحق نہیں۔ آپ ان کا موازنہ شین وارن سے نہیں کر سکتے کیونکہ کوئی بھی شخص شین وارن کے باؤلنگ ایکشن کی قانونی حیثیت پر سوال نہیں اٹھا سکتا۔ مرلی ایک بہترین مقابل اور اچھے باؤلر تھے لیکن کئی مواقعوں پر انہوں نے قانونی دائرہ کار میں رہتے ہوئے باؤلنگ نہیں کی۔

انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کی جانب سے 1996 میں دو مواقعوں پر مرلی دھرن کے بائیو مکینیکل ٹیسٹ کیے گئے اور پرتھ اور ہانگ کانگ کی جامعات میں یے گئے علیحدہ ٹیسٹ میں انہیں کھیل کی عالمی گورننگ باڈی نے کلیئر کر دیا تھا لیکن اپنے عجیب و غریب باؤلنگ کے انداز کے سبب وہ کیریئر کے اکثر حصے کے دوران ماہرین کی نظروں میں رہے۔

جہاں عمومی طور پر آف اسپنرز کے خلاف کیے گئے اس کریک ڈاؤن کا سب سے بڑا شکار متیاہ مرلی دھرن نظر آتے ہیں، وہیں کرکٹ کی تاریخ میں دیگر طرح کے باؤلرز بھی اس قانون کی زد میں آ کر تنازع کا شکار ہوئے اور ان میں سے دو نام جیوف گریفین اور آئن میکف کے ہیں جن کے نام بھی شاید ہماری موجودہ نسل نے نہ سنے ہوں۔

گریفین دائیں ہاتھ کے فاسٹ باؤلر تھے جو صرف دو ٹیسٹ میچ کھیل سکے اور ٹیسٹ ہیٹ ٹرک کرنے والے واحد جنوبی افریقی باؤلر ہیں لیکن 1958 میں دورہ انگلینڈ میں لارڈز ٹیسٹ کے دوران گیند تھرو کا الزام لگنے کے بعد وہ دوبارہ اپنے ملک کی نمائندگی نہ کر سکے۔

میکف بھی ایک فاسٹ باؤلر تھے جنہوں نے شہرت اور بدنامی دونوں ہی خالصتاً کرکٹ کی وجوہات کی بنیاد پر حاصل کی۔ دسمبر 1960 کے سنسنی خیز گابا ٹیسٹ میں وہ آؤٹ ہونے والے آخری آسٹریلین بلے باز تھے جب جو لولومون کی ڈائریکٹ تھرو کی وجہ سے کرکٹ کی تاریخ کا پہلا ٹیسٹ میچ ٹائی ہوا۔

لیکن تین سال بعد 18 ٹیسٹ میچوں پر مشتمل میکف کا کیریئر اس وقت افسوسناک انداز میں اختتام پذیر ہوا جب برسبین میں جنوبی افریقہ کے خلاف پہلے ٹیسٹ میچ میں امپائر کولن ایلگر نے ان کے میچ میں کرائے گئے واحد اوور میں چار مرتبہ تھرو کا الزام عائد کیا۔

1960-61 میں دورہ بھارت کے موقع پر بمبئی میں میزبان کے خلاف کھیلے گئے پہلے ٹیسٹ میچ میں حسیب احسن وہ پہلے پاکستانی باؤلر بنے جن پر تھرو کا الزام عائد کیا گیا۔ گیند کو ٹرن کی خداداد صلاحیتوں کے حامل حسیب احسن کا انٹرنیشنل کیریئر اس وقت متنازع انداز میں اختتام پذیر ہوا جب 1962 کے دورہ انگلینڈ کے موقع پر کپتان جاوید برکی سے اختلافات یا تھرو کا الزام لگنے کے خوف جیسی متضاد اطلاعات کے سبب وہ دورے میں ایک بھی میچ نہ کھیل سکے۔

شعیب اختر پر 1999 میں دورہ آسٹریلیا کے دوران گیند تھرو کرنے کا الزام لگا— فوٹو: اے ایف پی
شعیب اختر پر 1999 میں دورہ آسٹریلیا کے دوران گیند تھرو کرنے کا الزام لگا— فوٹو: اے ایف پی

حسیب احسن نے 12 ٹیسٹ میچوں میں 27 وکٹیں حاصل کیں اور انہیں 1984 میں چیئرمین آف سلیکٹرز کے طور پر عظیم وسیم اکرم کو متعارف کرانے کیلئے بھی یاد رکھا جائے گا۔

راولپنڈی ایکسپریس کے نام سے مشہور شعیب اختر اب تک کرکٹ کھیلنے والے دنیا کے تیز ترین باؤلر ہیں لیکن ان کا کیریئر بھی اس تنازع کا شکار ہوا۔ اعدادوشمار دیکھیں جائیں تو وہ کبھی بھی اپنے ہم عصر فاسٹ باؤلر وسیم اکرم اور وقار یونس جیسی بلندیوں تک تو نہ پہنچ سکے لیکن ان کی انتہائی تیز باؤلنگ کے سبب باؤلرز ان سے سب سے زیادہ خوف کھاتے تھے۔

رنگا رنگ شخصیت کے حامل شعیب اختر اس وقت تنازع کا شکار ہوئے جب دسمبر 1999 میں دورہ آسٹریلیا کے دوران ان پر گیند تھرو کرنے کا الزام لگا لیکن پاکستان کرکٹ بورڈ میں لیفٹیننٹ جنرل توقیر ضیا کے دور میں ان کے معاملے کو بہتر انداز سے ڈیل کرنے کے سبب آئی سی سی کو ان پر پابندی کا فیصلہ تبدیل کرنا پڑا۔

شبیر احمد کو وہ مقام نہ ملا جو شعیب اختر کو حاصل تھا۔ 1999 اور 2004 میں بالترتیب دو مرتبہ ایکشن کا جائزہ لیے جانے کے بعد دسمبر 2005 میں خانیوال سے تعلق رکھنے والے فاسٹ باؤلر پر انگلینڈ کے خلاف ملتان ٹیسٹ میں ایک سال میں دوسری مرتبہ ایکشن رپورٹ کے سبب 12 ماہ کی پابندی عائد کر دی گئی۔

آئی سی سی کی جانب سے غیرقانونی باؤلنگ ایکشن کے خلاف کارروائی کا دائرہ کار ڈومیسٹک کرکٹ تک بھی پھیلا گیا۔ سعید اجمل پر پابندی کے کئی ماہ بعد پاکستان کرکٹ بورڈ نے مزید شرمندگی سے بچنے کیلئے ڈومیسٹک سطح پر مشکوک باؤلنگ ایکشن کے حامل کھلاڑیوں کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا اور مشکوک ایکشن کے حامل 29 باؤلرز کو معطل کردیا گیا۔

ان تمام کھلاڑیوں کو ایکشن درست کرنے کیلئے لاہور کی نیشنل کرکٹ اکیڈمی بھیجا گیا کیونکہ بورڈ کے زیر اہتمام بننے والی بائیو مکینک لیبارٹری سات سال گزرنے کے باوجود عضو معطل بنی ہوئی تھی۔ یہ لیب گزشتہ سال اس وقت حرکت میں آئی جب اسے تین سال کیلئے لمس کے سپرد کر دیا گیا۔

صرف مرد کرکٹرز ہی نہیں جو مشکوک ایکشن کی وجہ سے قانون کی زد میں آئے ہوں بلکہ اپنی بیٹنگ صلاحیتوں کیلئے مشہور پاکستانی باؤلر جویریہ ودود کا ایکشن 2010 میں جاری ورلڈ ٹی20 کے دوران مشکوک رپورٹ ہوا اور وہ اب تک واحد پاکستانی خاتون کرکٹر ہیں جن کا ایکشن مشکوک رپورٹ ہوا۔ سری لنکا کے خلاف سینٹ کٹس میں کھیلے گئے میچ میں جویریہ کا ایکشن آئی سی سی کی مقررہ حد 15ڈگری سے زیادہ پایا گیا تھا۔

اس کے علاوہ بھارت کی سنیہل پردھان وہ دوسری اور جویریہ کے بعد واحد خاتون کرکٹر ہیں جنہیں مشکوک ایکشن کی وجہ سے معطلی کا سامنا کرنا پڑا۔ 2011 میں انگلینڈ کے خلاف ڈربی میں کھیلے گئے ون ڈے میچ میں ان کا ایکشن مشکوک رپورٹ ہوا تھا۔

مجموعی طور پر آئی سی سی کی جانب سے کریک ڈاؤن کے بعد آف اسپنرز سامنے آنا بند ہو رہے ہیں۔ خصوصاً محدود اوورز کی کرکٹ میں 'دوسرا' کا فن بھی دم توڑتا نظر آ رہا ہے اور اس سیکھنے کی کوشش بھی نظر نہیں آ رہی کیونکہ اس کے نتیجے میں معطلی یا پابندی کا خطرہ سر پر منڈلانے لگتا ہے۔

ناتھ لایون آسٹریلیا کی تاریخ کے کامیاب ترین آف اسپنر ہیں اور ان کے بچنے کی کی وجہ یہ ہے کہ وہ پرانے خیالات کے مالک ہیں اور کبھی بھی کوئی خلاف فطرت یا احمقانہ چیز کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ لایون سے قبل اب اس دم توڑتے فن پر مہارت رکھنے والے کئی عالمی شہرت یافتہ باؤلرز تھے جن میں جم لیکر، ہگ ٹے فیلڈ، سونی رمادھن، لانس گبز، ایراپالی پرسنا، سری نواس وینکٹ راگھون، ژقلین مشتاق، ہربھجن سنگھ اور گریم سوان جیسے چند بڑے نام شامل ہیں۔

حال ہی میں ٹیسٹ میں تیز ترین 300 وکٹیں حاصل کرنے کا عالمی ریکارڈ اپنے نام کرنے والے روی چندرن ایشون کے پاس 'کیرم بال' کے نام سے ایک خاص ہتھیار ہے جسے اکثر قابل اعتراض ایکشن سے پھینکتے ہوئے دیکھا گیا ہے لیکن چند 'خاص' وجوہات کی بنا پر آئی سی سی کے بھارت کی جانب جھکاؤ کے سبب دیگر کی طرح ایشون کے مشکلات کا شکار ہونے کے امکانات نظر نہیں آتے۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024