• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

بابری مسجد کی شہادت: عدالتی فیصلے سے قبل بھارتی تنظیم کا مندر قائم کرنے کا اعلان

شائع November 29, 2017 اپ ڈیٹ March 8, 2019

نیو دہلی: بھارت میں ایودھیا کی زمین کے تنازع سے متعلق مقدمے کی سپریم کورٹ میں آخری سماعت سے قبل ملک کی بڑی قوم پرست تنظیم راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) نے اعلان کیا ہے کہ اس متنازع زمین پر صرف رام مندر تعمیر کیا جائے گا۔

واضح رہے کہ بھارتی سپریم کورٹ میں اس مقدمے کی آخری سماعت 5 دسمبر کو متوقع ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایک صدی سے زائد عرصے سے بھارتی ریاست اتر پردیش میں ایودھیا کے مقام پر ہندو اور مسلمانوں کے درمیان بابری مسجد کے معاملے پر جھگڑا چل رہا ہے۔

ہندو دعویٰ کرتے ہیں کہ مسجد ان کے بھگوان رام کی جائے پیدائش کی جگہ پر ہے اور اسے مسلمان بادشاہ بابر نے 1582 میں مندر کو تباہ کرکے تعمیر کیا تھا۔

مزید پڑھیں: بابری مسجد شہادت: بی جے پی رہنماؤں کےخلاف مقدمات بحال

خیال رہے کہ الہ آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو جس میں انہوں نے 2.77 ایکڑ متنازع اراضی کو مرکزی دیوتا رام لالا، سنی وقف اور نرموہی اکھاڑا کے درمیان تقسیم کرنے کا حکم دیا تھا جسے چیلنچ کیا گیا۔

یاد رہے کہ 25 برس قبل 6 دسمبر 1992 کو بابری مسجد کو زمین بوس کردیا گیا تھا، جس کے نتیجے میں ہونے والے فسادات میں 2 ہزار لوگ مارے گئے تھے۔

مسلمانوں کا کہنا تھا کہ وہ دسمبر 1949 تک اس مسجد میں نماز پڑھتے تھے جبکہ کچھ بتوں کو مسجد میں رکھا گیا تھا، برطانوی حکمران نے 1859 میں تنازعات کو روکنے کے لیے عبادت کے لیے حصہ تیار کیا تھا جبکہ بھارتی حکومت کی جانب سے 1949 میں اس کے دروازے بند کردیے گئے تھے۔

1984 میں ہندؤوں کی جانب سے مندر تعمیر کرنے کے لیے ایک کمیٹی قائم کی گئی جبکہ دو برس بعد عدالت کے حکم پر متنازع مسجد کے دروازے ہندؤوں کی عبادت کے لیے کھول دیے گئے، جس پر مسلمانوں نے بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے ساتھ احتجاج شروع کیا۔

2014 میں بھارتی جنتا پارٹی ( بی جے پی ) کے سانگھ خاندان کی جانب سے ایودھیا میں مندر کی تعمیر کے لیے ریلی نکالی گئی جبکہ اتر پریش کے لیے تیار کیے گئے انتخابی منشور میں بھی اس بات کا وعدہ کیا گیا۔

ان سرگرمیوں کے بعد حکمران جماعت بی جے پی کو رواں سال اتر پردیش میں بڑی کامیابی ملی جس کے نیتجے میں ادتیا ناتھ کو وزیر اعلیٰ کے طور پر منتخب کیا گیا جس کے بعد مندر کی تعمیر کے معاملے کو مزید فروغ ملا۔

واضح رہے کہ ادتیا ناتھ ایک متنازع ہندو مذہبی رہنما ہیں جو مسلمانوں کے خلاف بیانات کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: بابری مسجد کیس:بھارتی عدالت کا تنازع مذاکرات سے حل کرنے کا مشورہ

گزشتہ ہفتے آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھگوت نے تمام شک و شہبات کو دور کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ایودھیا میں مندر کی تعمیر اب حقیقت بننے جارہی ہے۔

معروف مسلم رہنما اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن اسدالدین اویسی کا کہنا تھا کہ یہ قدم ماحول کو خراب کرے گا۔

انہوں نے کہا کہ یہ ماحول کو خراب کرنے کی دانستہ سازش ہے، کوئی ایسا بیان کیسے دے سکتا جب کہ معاملہ سپریم کورٹ میں ہے اور آر ایس ایس اسے ایمان کا معاملہ کہہ رہی ہے جو خطر ناک ہے، امید ہے سپریم کورٹ اس معاملے کا نوٹس لے گی۔

اس سے قبل بھارتی چیف جسٹس جے ایس کھیہر نے مشورہ دیا تھا کہ اس تنازع میں شامل پارٹیاں عدالتی جنگ لڑنے کے بجائے اس معاملے کا مذاکرات کے ذریعے پر امن حل نکالیں۔

صدیوں پرانے اس معاملے میں ایک نیا موڑ اس وقت پیش آیا جب ایک شیعہ وقف بورڈ مسجد کے نئے دعویدار کے طور پر سامنے آئے، انہوں نے دعویٰ کیا کہ سنی بادشاہ بابر کی فوج کے کمانڈر مق بقی شیعہ تھے، جنہوں نے یہ مسجد تعمیر کی تھی۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024