لندن میں قائد اعظم کے مجسمے کی تقریب رونمائی
وسطی لندن میں قائم برطانوی میوزیم میں قائد اعظم محمد علی جناح کے مجسمے کی رونمائی کی تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں 400 کے قریب افراد نے شرکت کی۔
افتتاحی تقریب کے بعد قائد اعظم کے مجسمے کو لنکونز ان (Lincoln’s Inn) منتقل کردیا گیا جہاں اسے نصب کردیا گیا۔
خیال رہے کہ کئی سالوں سے لنکونز ان آگہی مہم چلارہا ہے جس میں کہا گیا کہ لنکونز ان بار میں پاکستان کے بانی کے اعزاز میں سالانہ عشائیے کا اہتمام کیا گیا تھا۔
یاد رہے کہ قائد اعظم کو لنکونز ان کے بار میں 29 اپریل 1896 کو اعشائیہ دیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: قائد اعظم کی زندگی کے گمشدہ اوراق
تاہم تقریب رونمائی لنکونز ان میں تعمیراتی کام کی وجہ سے منعقد نہیں کی جاسکی تھی۔
لندن میں مقیم پاکستانی ہائی کمشنر سید ابن عباس کا کہنا تھا کہ 'ہم پاکستان کی 70 ویں آزادی پر قائداعظم کو خراج عقیدت پیش کرنا چاہتے ہیں'۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں کچھ رضاکارانہ طور پر چندے کی پیشکش ہوئی تھی لیکن اس مجسمے کے اخراجات پاکستانی ہائی کمیشن کی جانب سے ادا کیے گئے جبکہ اس منصوبے کی تیاری گذشتہ تین سالوں سے کی جارہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ مجسمے تیار کرنے کی ذمہ داری ایک اسکاٹش سنگ تراش فلپ جیکسن کو دی گئی تھی جبکہ اس کام کے لیے ہم نے قائد اعظم کی تمام تصاویر، فلموں اور ان لوگوں کی کتابیں جو ان سے مل چکے ہیں کو دیکھا جس کے بعد ہم اس کو تیار کر پائے'۔
فلپ جیکسن کے ہاتھوں سے تیار کردہ یہ مجسمہ قائد اعظم کے کردار کے ساتھ ان کی تصویر پیش کرتا ہے جس میں انہوں نے بل دار کوٹ پہنا ہے جو ان کی مغربی لباس سے محبت ثابت کرتا ہے۔
مجسموں میں موجود ایک آنکھ والا چشمہ بتاتا ہے کہ فلپ جیکسن قائد اعظم کو سیاسی شخصیت کے بجائے ذہین آدمی بتانا چاہتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان کو خوشحال بنانے کا قائدِاعظم کا منصوبہ کیا تھا؟
محمد علی جناح کے چہرے کے تاثرات بتاتے ہیں کہ تقسیم ہند کے وقت ان کے کندھوں پر بھاری ذمہ داری تھی۔
پاکستان کی 70 ویں آزادی کا جشن منانے کے لیے لندن میں پاکستان فیشن ویک کا بھی انعقاد کیا گیا جبکہ لندن کی ڈبل ڈیکر بسوں پر اشتہارات بھی لگائے گئے تھے۔
پاکستان کی جانب سے لندن میں اپنی آزادی کے جشن پر کچھ ہفتوں قبل آزاد بلوچستان کے پوسٹر نے داغ لگایا تھا۔
ہائی کمیشن کی جانب سے ان پوسٹرز کو ٹیکسی اور بسوں پر سے ہٹوا دیا گیا تھا تاہم اب بھی کچھ اشتہارات کو ہورڈنگز پر دیکھا جا سکتا ہے۔
یہ خبر 29 نومبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی
تبصرے (1) بند ہیں