جن کو تعلیم دینی چاہیے، اُنہیں ہم بھیک کیوں دیتے ہیں؟ ذرا سوچیے
انٹرنیٹ کیفے میں داخل ہونے سے قبل نادر نے اپنی اُنگلی پر شمار کیا، یہ آٹھویں جگہ تھی جہاں وہ کوئی کام مانگنے کے لیے داخل ہورہا تھا۔
اُس نیٹ کیفے میں رکھی میز پر بیٹھا ہوا ایک نوجوان لڑکا کمپیوٹر اسکرین پر نظریں جمائے ہوئے تھا، وہ کمپیوٹر کی روشن اسکرین کو دیکھنے میں اتنا منہمک تھا کہ دو بار آواز دینے پر بھی متوجہ نہیں ہوا، نادر چُپ چاپ اُس کے سامنے سے ہٹ کر نوجوان کے پیچھے کی جانب آ کھڑا ہوا اور انتظار کرنے لگا کہ کب نوجوان اسکرین چھوڑ کر اس کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔
نادر نے دیکھا کہ وہ نوجوان ایک شارٹ فلم دیکھنے میں مصروف ہے، اس فلم کی کمال عکاسی ہی تھی جس نے نوجوان کو نظریں جمانے پر مجبور کردیا تھا، لمحہ بھر میں اس شارٹ فلم نے نادر کی توجہ بھی حاصل کرلی اور نادر اور نوجوان دونوں ہی کی نظریں اب اسکرین پر جمی ہوئی تھیں۔
نادر کو لگا کہ جیسے کمپیوٹر پر چل رہی فلم اُسی کی زندگی کی عکاسی کر رہی ہے۔ اُس مختصر سی فلم میں ایک 12 سے 14 برس کا بچہ بالکل اُسی کی طرح جگہ جگہ دکانوں پر جاکر اپنے لیے کام مانگ رہا تھا اور کام مانگنے پر دھتکارا جارہا تھا، یہ دیکھ کر اُسے وہ جھڑکیاں یاد آئیں جو آج صبح سے وہ نجانے کتنی بار کئی دکانداروں سے سُن چکا تھا۔
فلم میں بچہ پھرتا پھراتا ایک دکان میں وارد ہوتا ہے، جہاں بیٹھا ایک دکاندار اُس بچے کو دیکھ کر کہتا ہے کہ جو کام دوں گا وہ کرے گا؟ اِس جملے کے بعد اُس فلم کا منظر ختم ہوجاتا ہے، اور فلم کے آخری منظر میں کام مانگنے والا وہی بچہ اسکول کی وردی پہنے، گلے میں بستہ لٹکائے اسکول جارہا ہوتا ہے!
نادر فلم کے مناظر دیکھنے میں اِس قدر کھو گیا کہ کیفے والے کے پُکارنے پر بھی جواب نہیں دیا، لیکن جب نوجوان نے تھوڑی بلند آواز میں پوچھا کہ کون ہو بھائی؟ یہاں میرے پیچھے ایسے کیوں کھڑے ہو؟ تب نادر کو لگا کہ جیسے اس کی تلخ اور حقیقی زندگی نے دستک دی ہو۔
کیفے والے کے اِس سوال کے جواب میں اپنے بچپن کو کب کا دفن کردینے والے نادر نے وہی سوال دُہرایا جسے آج صبح سے وہ نجانے کتنی بار دکانوں اور کارخانوں پر دہرا چکا تھا، ‘بھائی کوئی کام ملے گا؟ صاف صفائی سے لے کر جو کہو گے وہ سب کرلوں گا۔‘
مگر اُس نیٹ کیفے میں بھی اُس کی امیدوں کا قتل ہوا، یہاں بھی اُسے وہی جواب سُننے کو ملا جو صبح سے اب تک سُننے کو مل رہا تھا کہ کوئی کام نہیں، مگر اُس نیٹ کیفے والے کے جواب میں ایک مشورہ بھی شامل ہوگیا تھا کہ ’بیٹا ابھی پڑھنے کی عمر ہے، جاکر کسی اسکول وغیرہ میں داخلہ لو،‘ شاید نوجوان پر چند لمحے قبل دیکھی جانے والی فلم کا تازہ اثر ہی تھا کہ وہ اور کچھ نہیں تو پڑھائی کا مشورہ ہی دے سکا، لہٰذا نادر چُپ چاپ سر جھکائے اُس نیٹ کیفے سے بھی باہر نکل آیا۔
سامنے بنے ایک فُٹ پاتھ پر بیٹھ کر وہ اپنی معصوم خواہشوں اور خوابوں کے بجائے فکرِ معاش کی الجھنوں میں مشغول ہوگیا۔ بارہ سے تیرہ برس کی عمر کے نادر کی صحت کی حالت ویسی ہی تھی جیسی کسمپرسی کے حالات میں زندگی گزارتے ہوئے ایک غریب گھر کے بچے کی ہوسکتی ہے، مناسب غذا کہاں نصیب اُسے، بس 2 وقت کا کھانا کھانے کی رسم بمشکل ہی ادا کرپاتا ہے، اِسی لیے وہ اپنی عمر سے بھی دو، تین سال کم ہی دکھائی دیتا تھا۔
نادر کو اِسی پریشانی کا سامنا اُس وقت بھی ہوا تھا جب اماں اچھے دنوں کی خواہش میں اُس کو آٹھ سال کی عمر میں رحمان بھائی کے آٹو ورکشاپ پر کام سیکھنے کے لیے بٹھا گئی تھی جہاں ہمہ وقت درجنوں گاڑیوں مرمت کے لیے آتی تھیں، شاید کام کی اِسی زیادتی اور اماں کی منت سماجت پر اُس آٹو ورکشاپ کے مالک رحمان بھائی نے بھی کچھ خاص مزاحمت نہیں دکھائی اور نادر کو اپنی ورکشاپ پر رکھ لیا جہاں کام کے اوقات صبح نو بجے سے رات نو بجے تک تھے۔
شروع شروع میں تو ورکشاپ کے مکینک اُس سے کبھی چائے منگوارہے ہوتے تو کبھی وہ کسی کے کھانے کے لیے کچھ لارہا ہوتا، کچھ عرصے بعد وہ اُن بدنصیب چھوٹوں کی فہرست میں شامل ہوگیا جو صبح سے دیر رات تک مختلف جگہوں پر اپنے استادوں کا ہاتھ بٹاتے ہیں، بس تو پھر یہ اُس نادر کی شناخت 'چھوٹے' کے نام میں سمٹ گئی اور اُسے مرمت میں مصروف کسی استاد کے پاس کھڑا کردیا جاتا کہ بغور اُستاد کو کام کرتے ہوئے بھی دیکھے اور ضرورت کے تحت مختلف نمبر کے پانے، پلاس اور دیگر آلات اُٹھا اُٹھا کر دیتا جائے اور یوں اُس کا بچپن چھالوں، گریس اور تیل کی کالک میں بتدریج کہیں بھسم ہوتا جارہا تھا۔
آٹو ورکشاپ کے بالکل سامنے بچوں کا ایک اسکول تھا جب بھی نادر کو تھوڑی بہت فراغت ملتی تو وہ اپنی نظریں اسکول کی جانب جمائے بیٹھ جاتا، خاص طور پر اُس وقت جب دوپہر میں بچوں کی چھٹی ہوتی تو اُن کو یوں اسکول سے نکلتا دیکھ کر اُسے ایک عجیب سی خوشی کا احساس ہوتا۔ دراصل اُسے یہ خوشی اُن خیالوں سے ملتی جو نادر کو ان ہنستے اسکول کے بچوں کو دیکھ کر ملتی تھی، وہ خود کو بھی خیالوں میں اسکول کی صاف ستھری وردی پہنے ہوئے، گلے میں بستہ لٹکائے ہوئے دیگر بچوں کے ہمراہ اسکول سے باہر آتا ہوا دیکھتا، اُس کے خیالوں کا سلسلہ اُس وقت ٹوٹتا جب رحمان بھائی کی اُس پر نظر پڑتی اور اُسے یوں خیالوں میں کھویا ہوا دیکھ کر وہ اپنے پاس پڑی ہوئی کوئی بھی چیز اُس کی جانب پھینک کر متوجہ کرتے۔
کتنی بار تو اُن کی جانب سے یوں پھینکی جانے والی چیزیں اُس کی اچھی خاصی چوٹوں کا سبب بن چکی تھیں اور نجانے کتنی مرتبہ تو وہ اُس کے یوں اسکول کی جانب نظریں لگائے بیٹھے رہنے کی شکایت اماں سے بھی کرچکے تھے کہ، بہن لگتا ہے تمہارے بچے کا دل کام سے زیادہ پڑھائی میں اٹکا رہتا ہے، ہر وقت اسکول کی جانب اپنی نظریں لگائے بیٹھا رہتا ہے اور اِس کی تعلیم حاصل کرنے کے شوق سے واقف اماں ایک ٹھنڈی آہ بھر کر رہ جاتی تھیں مگر وہ کچھ کر بھی نہیں سکتی تھیں کیونکہ وہ جانتی تھیں کہ اگر اِسے پڑھنے لکھنے کے لیے بٹھا دیا تو معلوم نہیں کب اِس کی تعلیم مکمل ہوگی اور کب یہ کسی روزگار پر لگے گا؟ تب تک تو اچھے دنوں کی آس لیے اُس کی بوڑھی ہڈیاں قبر کی مٹی میں گَل چکی ہوں گی۔
اُن کا خیال تھا کہ اُن کے جیسے طبقے میں موجود بچوں کا پڑھنے کے بجائے کوئی ہنر سیکھنا ہی بہتر ہے، کم از کم پانچ چھ سال کی محنت کے بعد وہ مکمل کاریگر تو بن جاتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ وہ جانتے بوجھتے بھی ہر بار رحمان بھائی کی شکایت پر اُنہیں درگزر کرنے کی درخواست کرکے بات سنبھال لیتی تھیں اور نادر چپ چاپ سرجھکائے کھڑا اماں کو رحمان بھائی کی منت سماجت کرتے ہوئے سُنتا رہتا۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ آج شام کو اُس کو گھر پہنچنے پر اماں کی ڈانٹ سُننے کو ملے گی کہ وہ اسکول کی جانب آخر دیکھتا ہی کیوں ہے اور پھر اُس کے کچھ جواب نہ دینے پر ایک بار پھر اُسے گلے سے لگا کر نجانے کتنی دیر خاموشی کے ساتھ آنسو بہاتی رہیں گی۔
مگر دو سال بعد نادر اتنا کام سیکھ چکا تھا کہ گاڑیوں میں آئی چھوٹی موٹی خرابی کو خود بھی ٹھیک کرنے لگا اور یوں رحمان بھائی نے اُسے سو روپے روزانہ بطور اُجرت دینا شروع کردیے۔ گھر کے نظام کو اکیلے چلانے کے لیے دن بھر سلائی کرنے والی اماں کو اِن سو روپوں سے سہارا ہی نہیں ملا بلکہ اُنہیں اپنا وہ فیصلہ بھی دُرست دکھائی دینے لگا کہ بچے کو تعلیم دلانے سے بہتر ہے کہ کوئی ہنر سکھایا جائے۔ مگر اِس عرصے میں نادر بھی تعلیم کے حصول کی خواہش بھول چکا تھا، بلکہ اب جب وہ ہر روز شام کو اُجرت کے سو روپے لے کر گھر کی جانب جارہا ہوتا تو زیادہ سے زیادہ کی طلب کے نتیجے میں اُس کی خواہش ہوتی ہے کہ سو روپے کم ہیں، اُسے زیادہ سے زیادہ پیسے کمانے ہیں۔
اب تو موٹر خانے پر کام کرتے ہوئے پیسے کمانے کی دُھن میں اُسے یہ بھی یاد نہیں رہتا تھا کہ اُس نے نجانے کتنے دنوں سے اسکول کی طرف نہیں دیکھا بلکہ صورتحال تو یہ ہوگئی تھی کہ جمعہ کا دن قریب آتے ہی اُسے فکر لاحق ہوجاتی تھی کہ چھٹی کا دن آنے والا ہے اور اُس دن اُسے دہاڑی نہیں ملے گی۔
لیکن یہ روز سو روپے ملنے کی خوشی اور اُس کے ساتھ بننے والے خوابوں کا محل اُس دن گرگیا جب آج سے 20 دن قبل وہ حسبِ معمول کام پر پہنچا تو اُسے پتہ چلا کہ رات رحمان بھائی کا دل کا دورہ پڑنے کے باعث انتقال ہوگیا ہے۔ رحمان بھائی کے سوئم کے بعد بھی وہ تین چار روز تک ورکشاپ کے چکر لگاتا رہا کہ شاید آج ورکشاپ کھل جائے کیونکہ اکثر رحمان بھائی کی غیر موجودگی میں اُن کے دو بیٹے ورکشاپ سنبھالتے تھے مگر جب آٹھ دس دن گزرنے کے بعد بھی ورکشاپ دوبارہ نہیں کُھلی تو اُس کو اب یہ وسوسے ڈرانے لگے کہ پتہ نہیں اب ورکشاپ واپس کُھلے گی بھی یا نہیں؟ اُس کو گھر بیٹھے ہوئے پورے 19 دن ہوچکے تھے اور اب اُسے رحمان بھائی کے مرنے سے زیادہ اپنے اُن روز کے سو روپے نہ ملنے کا دُکھ کھانے لگا تھا۔
اپنے روز کے ہونے والے اِسی نقصان کو پورا کرنے کی خاطر آج صبح وہ گھر سے یہ ٹھان کر نکلا تھا کہ آج اُسے ہر حال میں کسی دوسری آٹو ورکشاپ پر لگنا ہے یا کوئی بھی دوسرا کام ڈھونڈنا ہے لیکن وہ جدھر بھی گیا اُسے انکار ہی سُننے کو ملا۔ سامنے اسکول سے اُٹھنے والے بچوں کے شور نے اُس کے خیالوں کا سلسلہ توڑ دیا اور آج نجانے کتنے عرصے بعد بچوں کو یوں اسکول سے نکلتے دیکھ کر وہ ایک بار پھر خیالوں کی اُسی دُنیا میں پہنچ گیا جہاں وہ اپنے آپ کو دیگر بچوں کے ہمراہ اسکول سے ہنستا مسکراتا ہوا باہر آتے ہوئے دیکھنے لگا اور آج اِس خیال کی شدت اُسے پہلے سے کہیں زیادہ محسوس ہوئی کیونکہ اُس لمحے میں وہ اُس سو کے نوٹ کی محبت سے آزاد ہوچکا تھا۔
دوسری وجہ یقیناً وہ شارٹ فلم رہی تھی جو اُس نے آج نیٹ کیفے پر دیکھی تھی، وہ بچوں کے ساتھ نکلتے ہوئے اُن کے والدین یا اُن عزیزوں کو دیکھ رہا تھا۔ نادر نے سوچا کہ وہ بھی کسی بچے کے باپ سے کام مانگنے کا سوال کرتا ہے ممکن ہے کسی بچے کا باپ اُس کو ڈانٹتے ہوئے یہ بولے کہ ’اتنی سی عمر میں کام کروگے؟ یہ تو پڑھنے کی عمر ہے، کل صبح یہاں ملنا میں تمہیں بھی اِس مہنگے اسکول میں نہ سہی مگر کسی ڈھنگ کے اسکول میں داخلہ دلادوں گا۔‘
اب اُس کی نظریں اپنے اپنے بچوں کی انگلیاں تھامے لوگوں میں سے رحم دل دکھائی دینے والے کسی ایسے شخص کی متلاشی تھیں جس کے آگے جاکر وہ اپنا یہ سوال رکھ سکے۔ عین اُسی وقت پانچ چھ سال کے بچے کا ہاتھ تھامے ہوئے ایک شخص اُسے اپنی جانب آتا دکھائی دیا۔ جس فُٹ پاتھ کے کنارے وہ بیٹھا ہوا تھا اس کے ساتھ ہی اُس شخص کی گاڑی پارک تھی، جیسے ہی وہ شخص اپنی گاڑی کی جانب بڑھا تو نادر بھی فوراً اُٹھ کر اُس کی جانب بڑھا اور اُس شخص کے متوجہ ہوتے ہی اُس نے اپنا سوال اُس کے سامنے پیش کردیا، ’صاحب کوئی کام ملے گا؟‘
اُس شخص نے افسوس اور ملامتی نظروں سے بنا کچھ کہے اُس کی جانب دیکھتے ہوئے اپنی جیب سے سو روپے کا نوٹ نکال کر اُس کے ہاتھ میں تھما دیا، وہ حیرت سے وہیں کا وہیں کھڑا رہ گیا۔ وہ اُس شخص کو بتانا چاہتا تھا کہ وہ بھیک نہیں بلکہ کرنے کو کوئی کام مانگ رہا ہے، مگر قبل اِس کے کہ نادر کچھ کہتا وہ شخص اپنی گاڑی میں بیٹھ کر چلابھی گیا اور وہ حیرت کے عالم میں قریب کھڑی ایک گاڑی کو ٹیک لگائے سو روپے کے نوٹ کو چُپ چاپ گھورنے لگا۔
ابھی وہ حیرانی کے عالم سے باہر ہی نہیں آیا تھا کہ اُس گاڑی کا مالک آگیا جس گاڑی سے وہ ٹیک لگائے کھڑا تھا، اپنی کار سے اُسے یوں لگا دیکھ اُس نے تند و تیز لہجے میں نادر کو ایک جانب ہونے کا اشارہ کرتے ہوئے بولا کہ، ’ایک تو تم لوگ مانگنے کے چکر میں کہیں بھی راستہ روک کر کھڑے ہوجاتے ہو، اب ایسے میرا مُنہ کیا تک رہا ہے ہٹ گاڑی نکالنی ہے مجھے اور گاڑی کے سامنے سے ہٹنے پر اُس نے ایک نظر اُس کی جانب دیکھا اور پھر نجانے کیا سوچ کر پچاس روپے کا ایک نوٹ اُس کے ہاتھ پر رکھ دیا اور یوں ایک بار پھر نادر پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔
کافی دیر بعد جب وہ اپنی اِس کیفیت سے باہر نکلا تو اُس کی آنکھیں کسی خیال کے تحت چمک رہی تھیں اور پھر اسکول سے تمام بچے نکلنے تک وہ مختلف گاڑیوں کے سامنے جاکر کھڑا ہوتا رہا اور جب اُسے یقین ہوگیا کہ اب اسکول خالی ہوچکا ہے تو اُس نے واپس فُٹ پاتھ پر جاکر بیٹھتے ہوئے اپنی جیب سے تمام نوٹ نکالے اور اُنہیں گننے بیٹھ گیا اور تمام روپے گننے کے بعد نادر کی آنکھیں حیرت سے کُھلی رہ گئیں کہ اُس نے تھوڑی ہی دیر میں 780 روپے جمع کرلیے تھے اور اب وہ رحمان بھائی کے ورکشاپ پر برباد کیے اُس وقت کو کوس رہا تھا جہاں پورے دن کام کرنے کی اُجرت ایک اکلوتے سو روپے کی صورت میں ملتی تھی اب اُس نے اپنے کام ڈھونڈنے کے خیال پر لعنت بھیجی، خوشی سے جھومتے ہوئے نادر کے قدم اپنے گھر کی جانب بڑھ رہے تھے ساتھ ہی اُس کا دماغ آنے والے کل کے لیے یہ منصوبہ بندی کرنے میں لگا ہوا تھا کہ کل صبح وہ یہاں اور بھی جلدی پہنچے گا تاکہ آج کے مقابلے میں زیادہ پیسے کماسکے۔
کسی بھی تحریر کے آخر میں لکھے ختم شُد سے مُراد اُس کہانی کے اختتام سے لی جاتی ہے۔ یہ فقط ایک رسم کے سوا اور کچھ نہیں جس کے تحت ایک لکھاری اپنے قارئین کو یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ کہانی اور اُس کہانی سے وابستہ تمام کردار اپنے انجام کو پہنچے، حالانکہ ایسا قطعی نہیں۔
اِس کی مثال یوں دی جاسکتی ہے کہ جب کبھی آپ کوئی ناول یا افسانہ پڑھ رہے ہوتے ہیں اور اُس کہانی کے اختتام پر پہنچتے ہیں تو آپ اُس کے انجام سے مطمئن نہیں ہوپاتے، آپ کے ذہن میں طرح طرح کے خیالات آرہے ہوتے ہیں کہ ابھی کہانی کو یہ موڑ دیا جاسکتا تھا، یوں مزید آگے بڑھایا جاسکتا تھا، ایسے لوگ کسی لکھاری کی تحریر میں اپنی سوچ و فکر سے تبدیلی کے خواہشمند ہوتے ہیں مگر چاہ کر بھی اُن کے لیے یہ تبدیلی ممکن نہیں تاوقتیکہ یہ خود کچھ لکھنے کا عزم نہ کرلیں!
لیکن اِس طرح کی تعمیری سوچ رکھنے والے دس مختلف قارئین میں سے بمشکل دو ہی ہوتے ہیں جبکہ باقی کے آٹھ قارئین میں سے چار لکھاری کے تحریر کردہ انجام سے مطئمن ہوجاتے ہیں جبکہ باقی چار ایسے ہوتے ہیں جو کسی بھی کہانی کے ختم ہونے پر سُکھ کا سانس لیتے ہیں۔ لہٰذا اِن تینوں قارئین کے رویوں کی مختصراً وضاحت کی جائے تو پہلے وہ ہیں جو کوئی تحریر پڑھتے وقت صرف اپنی نگاہ ہی نہیں دماغ کا بھی استعمال کرتے ہیں جبکہ دوسرے وہ ہیں جو صرف نگاہ کا استعمال کرتے ہیں اور آخر میں رہ گئے وہ لوگ جو کوئی تحریر پڑھتے وقت نہ نظر کا استعمال کرتے ہیں نہ دماغ کا، اُن کے مطالعے کا مقصد صرف اور صرف فراغت کے لمحات کو گزارنا ہوتا ہے۔
اِس لمبی چوڑی تہمید باندھنے کی وجہ صرف اور صرف اتنی ہے کہ ہم اُس بچے کی زندگی کی کہانی کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی ذات کو پرکھ سکیں کہ بحثیت ایک قاری یا انسان، مذکورہ کہانی میں ہم مندرجہ بالا تین اقسام میں خود کو کس خانے میں رکھا ہوا محسوس کرتے ہیں؟
کیونکہ اِس ختم شُد پر کہانی ختم نہیں ہوئی بلکہ شروع ہوئی، ایک جذبہ ہمدردی کے تحت کی جانے والی مدد کے نتائج کتنے منفی ثابت ہوسکتے ہیں اِس کا اندازہ اُسی صورت ہوسکتا ہے کہ جب ہم ایک بھکاری کی زندگی کا مشاہدہ کریں کہ کس طرح کبھی کبھار ہم مدد کے لیے کیے جانے والے ایک سوال کے عوض معاشرے میں ایک نیا بھکاری پیدا کرنے کی وجہ بن جاتے ہیں!
تو ایسی صورتحال میں ہمیں قطعی یہ حق نہیں پہنچتا کہ ہم بھیک مانگنے کے پیشے کو بُرا بولیں یا کسی بھکاری کو حقارت کی نظر سے دیکھیں۔ ہمیں کُھلے دل کے ساتھ اِس حقیقت کا اعتراف کرلینا چائیے کہ یہ پیشہ لاکھ بُرا سہی مگر چل تو ہماری بدولت ہی رہا ہے۔
تبصرے (1) بند ہیں