• KHI: Maghrib 5:50pm Isha 7:12pm
  • LHR: Maghrib 5:06pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:06pm Isha 6:35pm
  • KHI: Maghrib 5:50pm Isha 7:12pm
  • LHR: Maghrib 5:06pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:06pm Isha 6:35pm
شائع November 28, 2017 اپ ڈیٹ November 30, 2017

لاہور کا باغِ جناح: میری خوشگوار یادوں کا امین

رمضان رفیق

لاہور کا کوئی ٹؤر ہو اور باغِ جناح سے ملاقات کیے بغیر واپس آجاؤں، ایسا ممکن نہیں۔ باغِ جناح لاہور کے دل میں بستا ہے، کئی برس قبل جب میں اِسی باغ میں زرعی افسر تھا، تب اِس باغ کے متعلق ایک فقرہ لکھا تھا کہ باغِ جناح لاہور کا دل ہے اور اِس کے پھیپھڑوں کا کام بھی کررہا ہے، بس یہ خیال اور فقرہ باغ کی یاد کے ساتھ جڑا رہتا ہے۔

میں نے پہلی بار باغِ جناح غالباً 15 یا 16 برس کی عمر میں دیکھا تھا۔ یونیورسٹی ٹؤر کا بہانہ بنا اور اِس باغ کے درشن ہوئے۔ اِسے پاکستان کا سب سے بڑا باٹنیکل باغ بھی سمجھا جاسکتا ہے۔ یہاں موجود سینکڑوں درخت، جھاڑیاں، بیلیں، پھول، نہ صرف اِس باغ کو خوشنما بنائے ہوئے ہیں بلکہ پاکستان کی نباتات کے لیے ایک محفوظ بینک کی صورت بھی ہیں۔

باغِ جناح سے دوسرا رابطہ 2006 کے اوائل میں ہوا، جب سی ایس ایس کی تیاری کے سلسلے میں قائدِاعظم لائبریری سے استفادہ کرنے ہم روز باغِ جناح آیا کرتے تھے۔ وہ ایک سال باغ کی چہچہاتی شامیں، بچپنے کی کسی یاد کی طرح ذہن کا حصہ ہیں۔ اِس شاداب ماحول میں خُشک ملکی مسائل اور سی ایس ایس سے جڑے درجنوں سوالات، نئے جوابوں سے روشناس ہوتے۔ اِسی باغ نے زندگی کے کئی خوبصورت دوستوں سے نوازا، ذوالفقار، ساجد، حسنین، فہد، جواد، اور درجنوں دوست جو سی ایس ایس کی تیاری کے بہانے یادداشت سے جڑ گئے اور پیاروں سے زیادہ پیارے بن گئے۔

قائد اعظم لائبریری—تصویر رمضان رفیق
قائد اعظم لائبریری—تصویر رمضان رفیق

پھر 2008 کے قریب محکمہءِ زراعت میں ملازمت کے توسط سے مجھے اِس باغ میں کچھ ذمہ داریاں سونپ دی گئیں۔ اُس زمانے میں باغِ جناح محکمہءِ زراعت کے زیرِ اہتمام ہوا کرتا تھا، جس پر اب Parks and Horticulture Authority (پی ایچ اے) نے ٹیک اوور کرلیا ہے۔ باغِ جناح کو قریب سے دیکھنے کے یہ سال زندگی کے نہایت خوبصورت سال تھے۔

ادارہ دارالسلام لائبریری اور مسجد، جہاں جمعہ کی تیاری ہورہی ہے—تصویر رمضان رفیق
ادارہ دارالسلام لائبریری اور مسجد، جہاں جمعہ کی تیاری ہورہی ہے—تصویر رمضان رفیق

علم کی پیاس بجھاتے ہوئے کچھ لوگ—تصویر رمضان رفیق
علم کی پیاس بجھاتے ہوئے کچھ لوگ—تصویر رمضان رفیق

سڑکولیا کا خوبصورت تنا—تصویر رمضان رفیق
سڑکولیا کا خوبصورت تنا—تصویر رمضان رفیق

دوسروں کے لیے باغِ محض درختوں اور پودوں کا ایک جُھنڈ ہوسکتا ہے لیکن میرے لیے دوستوں کی ایک محفل ہے۔ مال روڈ لاہور سے باغِ جناح میں داخل ہوں تو قائدِ اعظم لائبریری کے داہنی طرف والے دروازے کے دائیں طرف پام گارڈن ہے، جہاں پام کی کئی ایک اقسام کو اکٹھا کیا گیا ہے۔ فین پام، کنگھی پام، فوکس ٹیل، لیڈی فنگر، واشنگٹونیا اور ٹریولر پام کے کئی خوبصورت پودے اِس حصے کی زینت بڑھاتے ہیں۔

اِسی پام گارڈن سے پیچھے کیکر کی طرز کا ایک پودہ ہے جسے پرانے مالی کتھا سمجھا کرتے تھے، پھر جن دنوں میں فلورا آف جناح گارڈن کی تالیف کا کام کررہا تھا، میں نے اِس پودے کو ڈھونڈ نکالا، یہ کیکر کی ایک قسم کا پودہ ہے اور اکیسیا نامی خاندان کا فرد ہے، اِس کا کوئی مقامی نام بھی ہو سکتا ہے، مگر میں نے کتاب ترتیب دیتے ہوئے اِس کے پیلے رنگوں کی مناسبت سے اِس کا مقامی نام، ’رخ زرد‘ کردیا، اب معلوم نہیں کہ کوئی اِس کو رخ زرد کے نام سے پکارتا بھی ہے یا نہیں، لیکن میں جب بھی وہاں سے گزرتا ہوں تو یہ درخت مجھے دیکھ کر مسکراتا ہے اور کہتا ہے، ساڈا ناں رکھ کے کتھے ٹُر گئے او، اور میں بس نظریں جھکا کر مسکرا دیتا ہوں۔ سچ پوچھیے تو اِس کا یوں بلانا مجھے نہیں بھولتا۔

بارہ دری میں لگا ہوا سنبل کا یہ درخت ایک الگ شان رکھتا ہے—تصویر رمضان رفیق
بارہ دری میں لگا ہوا سنبل کا یہ درخت ایک الگ شان رکھتا ہے—تصویر رمضان رفیق

شاخ تراشی میں مصروف باغبان—تصویر رمضان رفیق
شاخ تراشی میں مصروف باغبان—تصویر رمضان رفیق

سی ایس ایس امیدواران کا مسکن، قائد اعظم لائبریری—تصویر رمضان رفیق
سی ایس ایس امیدواران کا مسکن، قائد اعظم لائبریری—تصویر رمضان رفیق

للی کے پھول، جو آنے والے مہنوں میں جوبن پر ہوں گے—تصویر رمضان رفیق
للی کے پھول، جو آنے والے مہنوں میں جوبن پر ہوں گے—تصویر رمضان رفیق

اِسی پام گارڈن کے سامنے جہاں اب کچّا جوگنگ ٹریک بنا ہوا ہے، وہاں پر بہت سی جھاڑیوں کی اقسام کو اکٹھا کیا گیا ہے۔ یہاں کچھ ایسی جھاڑیاں بھی ہیں جو آپ کو باہر نرسریوں پر باآسانی نہیں ملتی تھیں، ہر جھاڑی کے گرد درانتا یا ننتھرے کی مدد سے ایک دائرہ سا لگایا گیا تھا۔ اب بھی اُن جھاڑیوں کے پاس سے گزرتا ہوں تو اُن کے بھولے بسرے نام ذہن میں گردش کرنے لگتے ہیں، کسی کا نام ذہن میں آجاتا ہے تو دیکھ کر مسکرا دیتا ہوں اور کئی ایک ہاتھ ہلاتی رہ جاتی ہیں، نام اب یاد نہیں آتے۔

یہاں سے ڈائریکٹر باغِ جناح کے دفتر کی طرف کچّے ٹریک کے ساتھ ساتھ چلنا شروع کردیں تو اسٹار فروٹ کے درخت کے سامنے جہاں بڑے بڑے ارجن کے درخت ہیں وہاں اب بھی چمگادڑیں اُلٹی لٹکا کرتی ہیں۔ اِس سے ذرا آگے وہ نرسری ہے جس کا میں کچھ وقت انچارج رہ چکا ہوں۔ اِس نرسری میں دو گرین ہاؤس ہوا کرتے تھے جس کے اندر سب سے خوبصورت پودہ رنگ برنگے انناس کا ایک پودہ تھا۔ اِسی نرسری کی باڑ کے ساتھ لونگ کی کئی ایک جھاڑیاں ہیں۔

ایک درخت پر لٹکتی ہوئی چمگادڑیں—تصویر رمضان رفیق
ایک درخت پر لٹکتی ہوئی چمگادڑیں—تصویر رمضان رفیق

بیڑی پتے کے درخت کچے ٹریک کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں—تصویر رمضان رفیق
بیڑی پتے کے درخت کچے ٹریک کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں—تصویر رمضان رفیق

ایک آبشار جو جانے کب سے ویران پڑی ہے—تصویر رمضان رفیق
ایک آبشار جو جانے کب سے ویران پڑی ہے—تصویر رمضان رفیق

ایک چھاوں بھرا راستہ—تصویر رمضان رفیق
ایک چھاوں بھرا راستہ—تصویر رمضان رفیق

ایک دن میں نے ایک پرانے مالی سے کہا کہ میرے لیے ایک مسواک بنا لاؤ، وہ لونگ کی ٹہنی کی مسواک بنا کر لایا تھا، کبھی نہ کبھی آپ نے لونگ چبایا ہوگا، بس ایسے ہی خوشبودار ہوا کرتی ہے لونگ کی مسواک بھی۔ اِس کے بعد اِن نئے نویلے لونگ کے پودوں کی حالت دیکھ کر میں نے اُس کو منع کیا تھا کہ اب اِن پودوں سے مزید مسواک نہ بنائے جائیں۔

یہیں جہاں نرسری آنے کا راستہ ہے وہاں کنگھی پام کے بہت شاندار پودے ہوا کرتے تھے اور دس قدم آگے دائیں طرف بوڑھ کا ایک پرانا درخت ہوا کرتا تھا، جس کی جگہ پر آج کل ایک کانٹے دار نمائشی پودہ لگایا گیا ہے، وہاں اِس بوڑھے بوڑھ کی زمین سے باہر پڑی جڑیں ایک عجیب نظارہ پیش کیا کرتی تھیں۔

جوگنگ ٹریک—تصویر رمضان رفیق
جوگنگ ٹریک—تصویر رمضان رفیق

لونگ کا ایک پودہ—تصویر رمضان رفیق
لونگ کا ایک پودہ—تصویر رمضان رفیق

چھاوں میں لوگ سوئے ہوئے ہیں—تصویر رمضان رفیق
چھاوں میں لوگ سوئے ہوئے ہیں—تصویر رمضان رفیق

چاندنی کا ایک پودا، درانتے کے حالے میں—تصویر رمضان رفیق
چاندنی کا ایک پودا، درانتے کے حالے میں—تصویر رمضان رفیق

اِس کے پیچھے کولونی میں بابا عالم خان رہا کرتا تھا، بڑا قابل آدمی تھا۔ باغ کے پودوں سے اُس کی محبت کا ایک عالم گواہ تھا۔ اریتھرینا کی دیگر اقسام کے بارے میں اُسی نے مجھے بتایا تھا، بلکہ اُس سے میری شدید نوعیت کی بحث بھی ہوئی تھی۔ اُس نے ہی مجھے شیشم کے ایک دو رشتے دار درختوں سے ملوایا تھا، پھر اُسی کے نام پر میں نے شیشم کی اِس کم مقبول قسم کا مقامی نام عالمی ٹالی رکھ دیا تھا۔

یہاں سے ٹریک کے ساتھ ساتھ چلتے پہاڑی کے پہلو سے گزریں تو پرانے بوہڑ کے نیچے برڈ آف پیراڈائز کے پھول لگے ہوئے ہیں، یہاں سے بائیں طرف اسٹرکولیا کا بہت ہی خوبصورت درخت ہے جس کا تنا اپنی مثال آپ ہے۔ دائیں طرف بابا ترت کے مزار کی طرف جانے والا راستہ ہے۔ اِس مزار کے بالکل ساتھ باغِ جناح کا سب سے پرانا پودہ ہے جس کی عمر ساڑھے تین سو سال کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے۔ بابا جی کے مزار کے سامنے ایک پیپل اور شریں ایک دوسرے سے بغلگیر کھڑے ہیں، یہ کچھ اِس طرح ملے ہوئے ہیں کہ ایک درخت کو دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔

منفرد پودہ، ایک شریں اور ایک پیپل، تنا ایک ہے اور اوپر سے درخت مختلف—تصویر رمضان رفیق
منفرد پودہ، ایک شریں اور ایک پیپل، تنا ایک ہے اور اوپر سے درخت مختلف—تصویر رمضان رفیق

سائیکس ریمفس ساڑھے تین سو سال پرانا پودہ—تصویر رمضان رفیق
سائیکس ریمفس ساڑھے تین سو سال پرانا پودہ—تصویر رمضان رفیق

باغ جناح میں فیملی ٹائم—تصویر رمضان رفیق
باغ جناح میں فیملی ٹائم—تصویر رمضان رفیق

چند گھڑیاں سکھ کی ایک شجر سایہ دار تلے—تصویر رمضان رفیق
چند گھڑیاں سکھ کی ایک شجر سایہ دار تلے—تصویر رمضان رفیق

یہاں پر ٹریک پر چلتے چلتے بائیں مڑیں تو بدھا کے درخت آج کل پھولوں پر ہیں، یہ درخت میرے دیکھتے دیکھتے اِس ٹریک پر رنگ بکھیرنے لگے ہیں، یہاں ٹریک پر کچھ آگے بائیں ہاتھ پہاڑی کی جانب بانس کی کچھ اچھی اقسام لگائی گئیں تھیں، اور ہاں اگر آپ اِس پہاڑی پر نہیں چڑھے اور بوڑھے برگد کی چھاؤں میں نہیں بیٹھے تو آپ نے باغِ جناح نہیں دیکھا۔

چلتے چلیے دارالسلام لائبریری کی بائیں طرف جہاں ایک کینٹین بھی ہے وہاں بھی اسٹار فروٹ کے ایک دو درخت ہیں، جن لوگوں کو اِس پھل کی قدر و قیمت پتہ ہے وہ مالیوں سے اپنے تعلقات اچھے رکھتے ہیں اور تحفے وصول کرتے ہیں۔

خواہش برگ و بار ہے مجھے بھی—تصویر رمضان رفیق
خواہش برگ و بار ہے مجھے بھی—تصویر رمضان رفیق

بدھا ٹری کے نیچے بیٹھنا—تصویر رمضان رفیق
بدھا ٹری کے نیچے بیٹھنا—تصویر رمضان رفیق

ایک شاخ گل، بدھا ٹری—تصویر رمضان رفیق
ایک شاخ گل، بدھا ٹری—تصویر رمضان رفیق

شاخ تراشی—تصویر رمضان رفیق
شاخ تراشی—تصویر رمضان رفیق

یہیں کونے پر ڈھاک کے دو تین پودے ہیں، وہی ڈھاک جس کے تین پات ہوا کرتے ہیں۔ ڈھاک کے پتے، تین پتوں کی صورت میں نکلتے ہیں، اِس لیے جو شخص اپنے اطوار نہ بدلے اُس کے لیے ڈھاک کے تین پات کا محاورہ بولا جاتا ہے۔ کبھی ڈھاک پر پھولوں کی بارش دیکھیے تو ایک بھی پتہ نہیں بچتا، بس پھول ہی پھول ہوتے ہیں، ایسے میں ڈھاک کو دیکھنا ایک الگ تجربہ ہے، یہیں سے ٹریک پر چلتے چلیے بیڑی پتے کے کئی پودے ایک خوبصورت نظارہ بنائے ہوئے ہیں۔

چلیے بس آج کے لیے اتنا ہی، 121 ایکڑ پر محیط ایک ایک پیڑ، ہم انسانوں کی طرح ایک نام اور خاندان سے جڑا ہوا ہے۔ پودوں کی اِس دنیا سے جس کی شناسائی ہے، اُسے وہاں موجود دیگر کاموں سے سروکار بہت کم ہوجاتا ہے۔ میرے لیے خوشی اِن پودوں سے ملنا ہے، اِن کی نئی کونپلوں سے ملاقات کرنا ہے، اِن کے تازہ پھولوں کو سراہنا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مجھے ہر موسم میں باغِ جناح کے رنگ دل کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔

اب بھی روزانہ سینکڑوں لوگ اِس باغ میں آتے ہیں، ہر کوئی اپنی مراد پاتا ہے۔ صبح ٹریک پر چلتے قرآن مجید کی تلاوت کرنے والے، سی ایس ایس کی تیاری کرنے والے، سیر و تفریح کرنے والے، شہر کے تنگ محلوں سے فیملی کے ساتھ پکنک منانے والے، اپنی پہلی پینٹنگ کے لیے منظر تلاشنے والے، اپنی پہلی محبت کے لیے جگہ تلاش کرنے والے، اسکول سے بھاگ کر وقت گزارنے والے، اپنے شہروں سے دور آئے ہوئے مسافر، کام نہ ملنے پر مایوس مزدور، کھلی ہوا میں اخبار پڑھنے کے عادی، بڑھاپے کی بے فکر محفلیں سجانے والے، مدرسوں کا سبق دہراتے بچے، گرمی سے بھاگ کر چھاؤں چاہنے والے، کمال تو یہ ہے کہ آپ جیسے ہیں وہاں ویسے ہی لوگ مل جاتے ہیں۔

باغ جناح کی سیر کو آئے مدرسے کے بچے—تصویر رمضان رفیق
باغ جناح کی سیر کو آئے مدرسے کے بچے—تصویر رمضان رفیق

اور ہاں اگر راجہ گدھ کی کہانی نے آپ کے دل پر اثر کیا تھا، تو وہ کافور کا درخت وہیں پہاڑی کے پاس کھڑا ہے، چمگادڑیں اب بھی وہاں درختوں پر الٹی لٹکی دکھائی دیتی ہیں اور بابا ترت کا مزار بھی کچھ فاصلے پر موجود ہے۔ بس یہ کہ اپنے تخیل کے کینوس پر تصویروں کو بنتے رہنے دیجیے، ذہن کو اِس چمن سے اور اِس کی ہوا سے آشناس ہوتے رہنے دیجیے، یہ خود اپنی کہانیاں سناتا ہے، آپ کو خود دور سے بلاتا ہے، جیسے باغ کے پودے، درخت اپنے چاہنے والے کو جانتے پہچانتے ہیں، باتیں کرتے ہیں اور پاس بلُاتے ہیں۔


رمضان رفیق کوپن ہیگن میں رہتے ہیں، اور ایگری ہنٹ نامی ویب سائٹ چلاتے ہیں۔

انہیں فیس بک پر یہاں فالو کریں


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

رمضان رفیق

رمضان رفیق دنیا گھومنے کے خواہشمند ہیں اور اسی آرزو کی تکمیل کے لیے آج کل مالمو، سویڈن میں رہائش پذیر ہیں۔

انہیں فیس بُک پر فالو کریں: ramzanblog.انہیں یوٹیوب پر سبسکرائب کریں Aazadtv.

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (30) بند ہیں

Khalid Nov 28, 2017 06:07pm
Ramzan Sab, Very well written. It reminded me my childhood. I also visited daily to Bage Jinnah during school and college days Thanks for writing an informative essay. Khalid
Imran Nov 28, 2017 06:18pm
Good.
Hamid Nov 28, 2017 06:27pm
شکر ہے بلاگ کے آخر میں آپ نے کا فور کا ذکر کر ھی دیا ۔ ورنہ یہ بلاگ اپنی تمام تر خوبصورتی کے با وجود ادھورا رہتا ۔
manzoor hussain Nov 28, 2017 06:37pm
Its really nice :)
Shehryar Khawar Nov 28, 2017 06:50pm
Waah Ramzan Sahab Waah.......kia kehne hain.....maza aa gaya.....yaadon ke jharokon se najaane kitne maasoom lamhaat muskaraate nazar aaye
Mateeb Ahmad Nov 28, 2017 06:51pm
Wounderfull article. Aisa lagta hai banda bagh e jinnah mai ghom raha hai.
محمد عامر مشتاق Nov 28, 2017 06:56pm
باغِ جناح واقعی لاہور کا دل ہے۔ میں جب بھی دفتری کاموں سے اکتا جاتا ہوں تو چند لمحات یہاں گزارنے کے لیے رک جاتا ہوں۔ یہاں آکر اک عجیب سی خوشی کا احساس ہوتا ہے۔ بہت خوب لکھا ہے۔ جگ جگ جیو رمضان بھائی۔
Ahmed Zarar Nov 28, 2017 07:21pm
EAST or WEST .... HOME is the BEST..... Ultimate at home ground .... WELCOME aboard.
راشد احمد Nov 28, 2017 07:38pm
سبحان اللہ،بہت خوب صورت مضمون
Ch Ali Mohammad Nov 28, 2017 07:42pm
Sir your sweet memories of Bagh i Jinnah are refreshing but you will certainly feel concerned to know that Chief Minister of Punjab has approved the construction of Horticulture Institute over 7 acres including the residence of Director of Bagh .Rupees 100 million been sanctioned .It will destroy the Bagh. I as a lawyer and a lover of Bagh have filed W.P. No. 85507-17 in the Lahore High Court to save the Bagh yet pending. Ch. Ali Muhammad Advocate Supreme Court of Pakistan 2-Farid Kot Lahore. Kindly send your email id at my email [email protected] so that I may send you the copy of writ petition.
KHAN Nov 28, 2017 07:49pm
کراچی میں بھی پہلے بہت ہی خوبصورت درخت ہوتے ہیں مگر اب صرف ایک Conocarpus erectus ہی نظر آتا ہے، بچے تو درختوں کے نام تک بھول گئے ہیں، کراچی میں ایک خوبصورت سایہ دار اور میوہ دار درخت ( جسے مقامی طور پر بادام یا جنگلی بادام کہا جاتا ہے) Terminalia catappa بہت ہوتا تھا، چوڑے چوڑے پتوں کی وجہ سے اس کا اچھا خاصہ سایہ ہوتا اور اس سے جو پھل ملتا اسے بادام کہا جاتا، 15 سال میں اس درخت کی کوئی سرکاری شجرکاری نہیں ہوئی سوائے کراچی ایکسپو سینٹر کے باہر۔۔ کراچی کے کرتا دھرتاؤں سے گزارش ہے کہ اچھے اچھے پودوں اور درختوں کی شجر کاری کریں۔ خیرخواہ
Syed Mohiuddin Nov 28, 2017 08:42pm
great article about Jinnah Garden Lahore
M.Tahir Nov 28, 2017 09:08pm
excellent. bht acha laga.kash betay din wapis asaktay.
M.Tahir Nov 28, 2017 09:09pm
Excellent Anaylasis
nasr Nov 28, 2017 09:26pm
انتہایٔ خوبصورت مضمون اور منظر کشی۔
محمد عبد الباسط Nov 29, 2017 07:58am
میرے بھائی کمال کردیا ہے آ پ نے۔
Hanzala Malik Nov 29, 2017 08:17am
Bhat khoob
Kamran Khan Nov 29, 2017 10:11am
Nice Dear... Very Nice... Thanks for Info. Keep it up .... Regards,
Kamran Khan Nov 29, 2017 10:16am
EAST or WEST .... HOME is the BEST....Wonderful article...about Jinnah Garden Lahore. Keep it up... Kamran Khan.K.S.A from..Pakistan...Ali Pur
طارق طفیل Nov 29, 2017 11:07am
واہ ! کوئی پھول پودوں کا عاشق ہی 'دیارِیار' کی ایسی سیر کرا سکتا ہے کہ اسے رقیب سے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا بلکہ خوشی ہوتی ہے۔
javeed akhtar Nov 29, 2017 11:22am
Remzan Rafiq Sahib Great Article, I lived very close to this place and we almost daily visited this place , to sit and take tea. If I correctcly remember there was an open air cafetaria here . I am not aware if it is there now or has been discontiued. As it was very close to WAPDA house , my place of posting for some years , I usually visited it to have some peace from the oppicial problems.
hazrat bilal' Nov 29, 2017 12:08pm
too good
Ali Hammad Rizvi Nov 29, 2017 01:04pm
Ramzan Sab wakai ap ney tou dil ko lajwab kardiya bhut he pursakoon jaga hai
ابرار حیدر Nov 29, 2017 01:53pm
اب کس حال میں ہے باغ جناح،مدت سے درشن نہیں ہوے،لاہور ہی بدل گیا ہے باغ جناح کس حال میں ہو گا۔۔۔۔ کوی بتا سکتا ہے؟
Sher khan Nov 29, 2017 05:05pm
Lush Green Garden
muhammad kashif munir bhatti Nov 29, 2017 07:48pm
Great one Mr. Rafique
Ali Abid Nov 29, 2017 10:08pm
بہت خوب تبصرہ اور باغ جناح میں گزارے وقت کی یادیں, واہ رمضان رفیق صاحب...
محمد رمضان رفیق Nov 29, 2017 10:22pm
محترم ابرار صاحب، باغ جناح اب بھی خوبصورت ہے، حامد بھائی کافور پر تو ایک الگ سے مضمون لکھا جا سکتا ہے، شہر یار خاور صاحب آپ سے ملنے والی تحسین اعزاز سے کم نہیں، جی خان صاحب پودوں کی ڈائیورسٹی پر کام کیا جانا چاہیے، پنجاب میں بھی کونو کارپس خاصا پھیلایا جا رہا رہا ہے، ، جی جاوید صاحب باغ جناح میں دو تین اوپن ائیر کیفے ہیں، مطیب بھائی، خالد ،عمران، منظور حسین، محمد عامر مشتاق، احمد ضرار، راشد احمد، سید محی الدین، محمد طاہر، نصر، حنظلہ ملک، کامران خان، طارق طفیل، علی احمد رضوی، آپ کے خوبصورت تبصروں کا شکریہ، اس سے ہی مزید سفر کرنے اور لکھنے کا حوصلہ ملتا ہے۔
Salman Qamar Nov 30, 2017 07:32pm
Ramzan Sir, Very Nicely written, I thoroughly enjoyed the whole article. Keep up the good work. Stay Blessed.
Faisal Nov 30, 2017 08:13pm
Salam Ramzan sb, U are doing such a great job in promoting positive things about our beautiful country. Your articles are very well written and photography is just amazing. Stay blessed and continue providing such an interesting articles. Regards, Faisal