وزیر قانون زاہد حامد کا استعفیٰ منظور
اسلام آباد میں گذشتہ 20 روز سے جاری مذہبی جماعتوں کے دھرنے اور حال ہی میں ملک میں ہونے والے مظاہروں کے باعث وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو اپنا استعفیٰ پیش کیا جو منظور کر لیا گیا۔
استعفے کے حوالے سے وفاقی وزیر زاہد حامد نے موقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ قومی مفاد کی خاطر وزارت سے استعفیٰ دیا اور یہ فیصلہ ذاتی حیثیت میں کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کا قانون تمام پارلیمانی اور سیاسی جماعتوں نے متفقہ طور پر بنایا تھا،اس ایکٹ میں براہ راست میرا کوئی تعلق نہیں۔
سرکاری ٹی وی کے مطابق وزیر قانون نے استعفیٰ ملکی استحکام کے لیے پیش کیا، اس حوالے سے وہ آج تفصیلی بات بھی کریں گے جبکہ وزیر اعظم کی جانب سے آج استعفے کی منظوری کا امکان ہے۔
واضح رہے کہ فیض آباد پر مذہبی جماعت کے دھرنا مظاہرین کا اولین مطالبہ تھا کہ وفاقی وزیر قانون کا استعفیٰ لیا جائے کیونکہ وہ ختم نبوت حلف نامے میں ہونے والی تبدیلی کا ذمہ دار زاہد حامد کو ٹھہرا رہے تھے۔
مزید پڑھیں: اسلام آباد دھرنا: پولیس کاآپریشن معطل، 150 افراد گرفتار
دوسری جانب زاہد حامد کے استعفیٰ دینے کے بعد اسلام آباد میں جاری مذہبی جماعتوں کے دھرنے کے قائدین نے فیض آباد کے علاوہ ملک بھر میں دھرنا اور مظاہروں کا سلسلہ ختم کرنے کا اعلان کردیا۔
ذرائع کے مطابق زاہد حامد کے استعفیٰ کے بعد حکومت اور مذہبی جماعت کے درمیان 6 نکاتی معاہدہ طے پاگیا۔
اس معاہدے پر حکومت کی جانب سے وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال اور وفاقی سیکریٹری داخلہ ارشد مرزا، تحریک لبیک پاکستان کی جانب سے مرکزی امیر علامہ خادم حسین رضوی، سرپرست اعلیٰ پیر افضل قادری اور مرکزی ناظم اعلیٰ محمد وحید نور نے دستخط کیے جبکہ میجر جنرل فیض حمید کے بھی معاہدے پر دستخط موجود ہیں۔
معاہدے کے نکات
وفاقی وزیر قانون زاہد حامد، جن کی وزارت کے ذریعے اس قانون کی ترمیم پیش کی گئی، کو فوری اپنے عہدے سے برطرف (استعفیٰ لیا جائے) کیا جائے، تحریک لبیک پاکستان ان کے خلاف کسی قسم کا کوئی فتویٰ جاری نہیں کرے گی۔
الحمد اللہ تحریک لبیک پاکستان کے مطالبے کے مطابق حکومت پاکستان نے الیکشن ایکٹ 2017 میں 7بی اور 7 سی کو مکمل متن مع اردو حلف نامہ شامل کرلیا ہے، جن اقدام کی تحریک لبیک پاکستان ستائش کرتی ہے تاہم راجا ظفر الحق کی انکوائری رپورٹ 30 دن میں منظر عام پر لائی جائے گی اور جو اشخاص بھی ذمہ دار قرار پائے گئے ان پر ملکی قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔
6 نومبر 2017 سے دھرنے کے اختتام پذیر ہونے تک ہمارے جتنے بھی افراد ملک بھر میں گرفتار کیے گئے ہیں، ایک سے تین دن تک ضابطہ کی کارروائی کے مطابق رہا کردیے جائیں گے اور ان پر درج کیے گئے مقدمات اور نظر بندیاں ختم کردی جائیں گی۔
25 نومبر 2017 کو ہونے والے حکومتی ایکشن کے خلاف تحریک لبیک پاکستان کو اعتماد میں لے کر ایک انکوائری بورڈ تشکیل کیا جائے جو تمام معاملات کی چھان بین کرکے حکومت اور انتظامیہ کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کا تعین کرے اور 30 روز کے اندر انکوائری مکمل کرکے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا جائے۔
6 نومبر 2017 سے دھرنے کے اختتام تک جو سرکاری و غیر سرکاری املاک کو نقصان ہوا، اس کا تعین کرکے ازالہ وفاقی و صوبائی حکومت کرے گی۔
حکومت پنجاب سے متعقلہ جن نکات پر اتفاق ہوچکا ہے، ان پر من و عن عمل کیا جائے گا،( نکات لف ہذا ہیں)۔
علاوہ ازیں ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) پنجاب رینجرز میجر جنرل اظہر نوید حیات نے اسلام آباد میں فیض آباد انٹر چینج کا دورہ کیا اور یہاں جاری مذہبی جماعتوں کے دھرنے کے شرکاء سے ملاقات کی اور ان کی خیریت دریافت کی۔
اس موقع پر سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے جبکہ موقع پر موجود میڈیا کے نمائندوں سے مختصر بات چیت کرتے ہوئے ڈی جی رینجرز نے کہا کہ سڑک کھلوانے کا فیصلہ تو ہوچکا ہے لیکن ابھی طریقہ کار طے کرنا ہے۔
اس کے علاوہ گرفتار افراد کی رہائی کا آغاز کردیا گیا جبکہ ڈی جی رینجرز میجر جنرل اظہر نوید حیات نے رہا ہونے والے ہر فرد کو ایک ایک ہزار روپے کرائے کی مد میں بھی دیئے اور رپورٹس کے مطابق ابتدائی طور پر 20 افراد کو رہا کیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ گذشتہ ہفتے حکومت اور مظاہرین کے درمیان مذاکرات ناکام ہونے اور عدالتی حکم کے بعد انتظامیہ کی جانب سے مظاہرین کے خلاف آپریشن کیا گیا تھا جس میں متعدد افراد کو گرفتار کیا گیا تھا جبکہ پولیس اہلکار بھی زخمی ہوئے تھے جس کے بعد آپریشن کو معطل کردیا گیا تھا۔
اس آپریشن کے بعد ملک بھر میں مظاہرے اور دھرنے شروع ہوگئے تھے جبکہ مشتعل مظاہرین نے وزیر قانون زاہد حامد کے گھر پر پتھراؤ اور توڑ پھوڑ بھی کی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: اعلیٰ سطحی سول-ملٹری اجلاس میں مظاہرین سے 'سیاسی مذاکرات'کا فیصلہ
بعد ازاں وفاقی حکومت نے فیض آباد انٹر چینج دھرنے سے نمٹنے اور سول انتظامیہ کی مدد کے لیے آئین کے آرٹیکل 245 کے سیکشن 4 اور 5 اور انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے تحت فوج کو طلب کیا تھا۔
حکومت کے مراسلے کے جواب میں پاک فوج کا کہنا تھا کہ مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے روایتی طور پر فوج استعمال نہیں کی جاتی لیکن فوج پھر بھی تیار ہے مگرچند امور غور طلب ہیں۔