• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am

اعلیٰ سطحی سول-ملٹری اجلاس میں مظاہرین سے 'سیاسی مذاکرات'کا فیصلہ

شائع November 26, 2017

وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی زیرصدارت اعلیٰ سطحی سول-ملٹری اجلاس میں فیض آباد انٹرچینج میں دھرنے کے شرکا کے خلاف طاقت کا استعمال نہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے ان سے سیاسی مذاکرات کا فیصلہ کیا گیا۔

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی زیر صدارت مشاورتی اجلاس ہوا جس میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، ڈی جی آئی ایس آئی نوید مختار، وزیر داخلہ احسن اقبال اور وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے شرکت کی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اجلاس میں اسلام آباد دھرنے کے معاملے سمیت ملک کی موجودہ امن و امان کی صورت حال پر گفتگو کی گئی جبکہ سیکیورٹی ذرائع کے مطابق اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ مظاہرین سے سیاسی مذاکرات کیے جائیں گے اور ان کے خلاف طاقت کا استعمال نہیں کیا جائے گا۔

اس کے علاوہ اجلاس میں یہ بھی طے پایا کہ مظاہرے میں شریک مذہبی جماعتوں کے معتبر رہنماؤں کو دھرنے کے شرکا سے مذاکرات میں شامل کیا جائے گا۔

ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق اجلاس میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا تھا کہ گذشتہ کئی گھنٹوں سے ملک میں نجی چینلز کی جاری بندش کو ختم کیا جائے اور انھیں فوری طور پر بحال کیا جائے گا۔

تاہم سیکیورٹی ذرائع کی جانب سے دی گئیں مذکورہ رپورٹس کی حکومتی ذرائع سے تصدیق نہیں ہوسکی۔

واضح رہے کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ متحدہ عرب امارات کے دورے پر تھے جسے وہ مختصر کرکے پاکستان واپس پہنچے اور اجلاس میں شرکت کی۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد دھرنا: فوج تیار ہے لیکن ’چند امور غور طلب‘

خیال رہے کہ اجلاس میں اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم پر واقع فیض آباد کے مقام پر 20 روز سے جاری مذہبی جماعت کے دھرنے کے حوالے سے گفتگو کی گئی، ساتھ ہی دھرنا مظاہرین کے مطالبات پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔

اس سے قبل وفاقی حکومت نے اسلام آباد کے فیض آباد انٹر چینج پر جاری دھرنے سے نمٹنے اور سول انتظامیہ کی مدد کے لیے فوج کو طلب کرنے کے لیے نوٹیفکیشن جاری کیا تھا۔

وزارت داخلہ کی جانب سے فوج کی طلبی سے متعلق جاری ہونے والے نوٹی فکیشن کے مطابق ضلعی انتظامیہ کی درخواست پر فوج کو آئین کے آرٹیکل 245 کے سیکشن 4 اور 5 اور انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے تحت طلب کیا گیا ہے، جو امن وامان کے قیام کے لیے سول انتظامیہ کی مدد کرے گی۔

حکومتی مراسلے کے جواب میں پاک فوج کا کہنا تھا کہ مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے روایتی طور پر فوج استعمال نہیں کی جاتی لیکن فوج پھر بھی تیار ہے مگرچند امور غور طلب ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد دھرنا: فیض آباد کے اطراف رینجرز تعینات

ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق جوابی مراسلے کے مطابق فوج کا کہنا تھا کہ عدلیہ نے آتشیں اسلحے کے بغیر کارروائی کا حکم دے رکھا ہے۔

ذرائع کے مطابق پاک فوج کے سربراہ متحدہ عرب امارات کے دورے پر تھے تاہم اسلام آباد میں مذہبی جماعت کے مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کے بعد دورہ مختصر کرکے وطن واپس پہنچے تھے۔

خیال رہے کہ پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر باجوہ اور وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے درمیان اتوار 26 نومبر کی شام کو ملاقات متوقع ہے،ملاقات میں اسلام آباد کے دھرنے سمیت ملک میں جاری امن و امان کی صورتحال پر غور کیا جائے گا۔

فیض آباد مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن

واضح رہے کہ گذشتہ روز فیض آباد انٹرچینج پر مذہبی جماعت کا دھرنا آپریشن سے قبل 18 روز سے جاری تھا، دھرنا ختم کروانے کے لیے عدالتی حکم پر جب انتظامیہ نے مظاہرین کے خلاف آپریشن کیا گیا تو مشتعل افراد کی جانب سے مزاحمت کی گئی، جس کے بعد مظاہرین کے حامیوں کی جانب سے پورے ملک میں مظاہرے شروع کردیے گئے۔

سیکیورٹی فورسز کی جانب سے کیے گئے آپریشن کو 7 گھنٹے طویل آپریشن کے بعد اسے معطل کر دیا جبکہ سیکڑوں مظاہرین کو گرفتار بھی کیا گیا۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024