مجھے معاف کردیں، میں چھوٹا سا، منّا سا، پیارا سا بچہ ہوں!
عام طور پر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس سے دور رہنے کو ہی پسند کرتا ہوں، لیکن وہ کہتے ہیں نا کہ ہر کام میں کچھ بہتری ہی ہوتی ہے سو ہفتے کی شام میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ کسی ضروری کام سے ٹوئیٹر کا رخ کیا تو مجھے یہ ’افسوسناک‘ خبر پڑھنے کو ملی کہ وطن کو دشمنوں سے پاک رکھنے کی ذمہ داری پر مامور ڈاکٹر عامر لیاقت حسین نے ایک اور ادارے کو خیرباد کہہ دیا۔
ابھی میں اِسی دکھ میں گھلا جا رہا تھا کہ اب ملک کا کیا ہوگا کہ اچانک اُن کی تازہ اور گرما گرم ویڈیو بھی سامنے آگئی جس میں ویسے تو بہت ساری باتیں کی گئیں تھی مگر جو سب سے دردناک پہلو تھا وہ یہ کہ انہوں نے جن جن حضرات کے بارے میں جو کچھ بھی کہا تھا، درحقیقت وہ یہ سب کچھ خود سے نہیں کہنا چاہتے تھے، بلکہ وہ تو انتہائی ’سوفٹ‘ یعنی نرم نرم سے ہیں اور دباؤ کی وجہ سے وہ یہ سب کچھ کہہ گئے۔
میری ایک اور بدقسمتی یہ بھی رہی کہ وطن کے دفاع میں ڈاکٹر صاحب کی قربانیوں کو دیکھنے سے محروم رہا ہوں، لہٰذا فوری طور پر اپنی غلطی کا ازالہ کرنے کے لیے میں نے یوٹیوب سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا۔
وہاں کیا دیکھتا ہوں کہ رنگیلے، سجیلے، چمکیلے اس ’عالم فاضل‘ نے بھڑکیلے، نکیلے اور ہٹیلے انداز میں اپنی متعدد ویڈیوز بھی جاری کی ہیں جن کا اُن کے ’بدخواہ‘ سوشل میڈیا پر خوب پوسٹ مارٹم کررہے ہیں۔ لیاقت تو اُن کی باندی ہے اور صداقت کو اُن کا جوہر کہہ سکتے ہیں۔ یہ بھی ڈرتے ورتے کسی سے نہیں۔ وردی پہنی ہوئی تصویر تو آپ نے بھی دیکھی ہوگی۔ سیاست بھی اِن کا ایک حوالہ ہے، لیکن چند دن پہلے تک اپنے جذبہءِ حب الوطنی کی وجہ سے خوب پہچانے جارہے تھے۔
یہ وطن کو صرف دشمنوں سے بچانے کی ذمہ داریاں نہیں انجام دے رہے تھے بلکہ سیاستدانوں کا مکروہ چہرہ سامنے لانے کے ساتھ ساتھ انہوں نے صحافت کی کالی بھیڑوں کو بھی بے نقاب کیا۔ ہم تو اِن کے مداح تھے اور رہیں گے، لیکن اِن کی ٹوئیٹ اور ویڈیوز سامنے آنے کے بعد جہاں کچھ بدبخت اِن کا مذاق اُڑا رہے ہیں، وہیں بے شمار چاہنے والے اِن کا دفاع بھی کر رہے ہیں۔
اُن کے ایک مداح سے بات ہوئی تو اُس نے کہا کہ عامر بھائی ایک شریف النفس، سچے، کھرے اور باکردار انسان ہیں اور انہوں نے اب تک ہمیں سیاستدانوں اور میڈیا کے بارے میں جو کچھ بتایا وہ درست ہے، لیکن سب ایسے نہیں۔ ہم نے پوچھا یہ کب پتا چلا؟ مداح بولا، اِن کی تازہ ویڈیو سے۔
ہوا یہ ہے کہ ہمارے اِس پیارے نرم مزاج، سنجیدہ اور سچے عامر لیاقت کی شرافت اور نرمی کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے کوئی اتنے عرصے سے غلط کام لے رہا تھا۔ اِس حلیم الطبع اور نرم گفتار انسان کو جیسے ہی توفیق ہوئی اس نے اپنے ساتھ کام کرنے والوں کو نیکی کا درس دیتے ہوئے درست راستہ بتایا، لیکن وہ نہ مانے۔ تب ایک ویڈیو بنائی اور اپنی راہ تبدیل کرنے کا اعلان کردیا۔
شیطانی قوتوں کا زور ٹوٹا تو عامر بھائی نے جانا کہ (اپنے سوا) ہر ادارے کو ملک دشمن اور غیروں کی مالی امداد سے چلنے والا اور ہر اینکر پرسن کو ملک دشمنوں کے ایجنڈے پر عمل پیرا بتانا کسی طور درست نہیں۔ صرف یہی نہیں ربیع الاول کی آمد کے ساتھ ہی عامر لیاقت پر یہ راز بھی آشکار ہوا کہ اُن کا ادارہ جھوٹا، اُس کا مالک غیر قانونی دھندوں میں ملوث ہے اور اِس باکردار اور روشن ضمیر نے فوری الگ ہونے کا فیصلہ کرلیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ ہمارے پیارے، اعلی ظرف والے، باکردار اور نرم نرم سے عامر بھائی نے ایک قدم آگے جاکر اُن تمام لوگوں سے معافی بھی مانگی جن کا انہوں نے دل دکھایا۔
ٹیلی ویژن پر مذہب سے لے کر سیاست، سیاست سے لے کر سماج تک ہر موضوع پر گیان بانٹنے والے عامر لیاقت کے بے تکلف دوست تو یوں کہتے ہیں کہ ہمارا بھائی ہر قسم کا چورن پرائم ٹائم میں بیچنے کا ماہر ہے۔ رمضان اُن کا پسندیدہ ترین مہینہ رہا ہے۔ اِس مہینے میں اُن کی ’تجارتی لیاقت‘ عروج پر ہوتی ہے۔ لیکن باقی مہینوں میں بھی اُن کی نیرنگیاں، اٹھکیلیاں اور ادائیں اپنے جوبن پر نظر آتی ہیں اور ٹی وی چینل کی رونقیں بڑھاتی ہیں۔
ابھی میں یوٹیوب پر اُن کی تازہ ویڈیو کا مزہ لے رہا تھا جس میں خود کو علیحدہ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے انہوں نے اُن لوگوں سے بھی معافی مانگی ہے جن کی اپنے پروگرام 'ایسا نہیں چلے گا' میں درگت بنا چکے ہیں۔ یقیناً یہ سب اُس زمانے کی بات ہے جب اُن پر کشف نہیں ہوا تھا۔
ابھی میں مزید ویڈیوز میں ڈاکٹر صاحب پر ہونے والی زیادتی جاننا چاہ رہا تھا کہ میرے ایک دوست آگئے جو اُن کے بڑے مداح بھی ہیں۔ میں نے تفریح طبع کے لیے کہا ڈاکٹر صاحب کے بارے میں جو کچھ چل رہا ہے اُس پر آپ کیا سوچتے ہیں۔
وہ بولے، بھئی ڈاکٹر صاحب کی فہم و فراست اور تدبر میں کیا کلام۔ انہوں نے ایک مرتبہ پھر حق و صداقت کا پرچم بلند کردیا۔ اِس محفل میں کوئی اُن سا ہو تو سامنے لائیں۔
میں نے کہا کچھ دیر پہلے تک تو میں بھی اِسی بھرم میں تھا کہ وہ جو کہتے ہیں خود کہتے ہیں، اور میں اِس بھرم میں کیوں نہیں رہوں کہ وہ بار بار اپنے پروگرام میں دیگر اینکر حضرات پر صرف اِس لیے تنقید کرتے تھے کہ یہ سب وہی کہتے ہیں جو ٹیلی پرامپٹر پر چل رہا ہوتا ہے، لیکن انہوں نے یہ نیچ حرکت کبھی نہیں کی اور وہ جو کہتے ہیں خود سے کہتے ہیں، اُنہیں کسی سے مدد کی کبھی ضرورت نہیں پڑی۔ لیکن اب وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ ایسے بندے نہیں بلکہ ’سوفٹ‘ سے یعنی نرم نرم سے ہیں اور یہ سب اُن سے کروایا جارہا تھا، اگر اُن پر زور زبردستی نہ کی جاتی تو وہ کبھی مخالف میڈیا گروپس اور اینکر پرسنز کے لیے یہ سب نہیں کہتے۔
میری اِس بات پر اُن کے پرستار نے خوب جواب دیا۔ وہ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ دیکھیے نا ملازمت تو ملازمت ہوتی ہے۔ انہوں نے جو معاہدہ کیا اُس کی پابندی کی۔ اسکرپٹ اور ہدایت کار کی مرضی پر چلے۔ ایسے لوگ اب کہاں ملتے ہیں؟ اب تو لوگ معاہدہ کرکے توڑ دیتے ہیں، لیکن میرے پیارے سے اور نرم نرم سے ڈاکٹر صاحب کا شمار اُن دھوکے بازوں میں نہیں ہوتا۔
میں نے یاد دلایا کہ وہ ایک مذہبی اسکالر بھی ہیں۔ دینی مسائل اور اخلاقیات پر علم و فضل کے موتی لٹاتے رہے ہیں۔ جھوٹ اور فریب سے دور رہنے کی تلقین ہزار بار کرچکے ہیں۔ تو اپنے لیے کیا پیمانہ اور معیار ہے اُن کا؟
مداح نے نسبتاً دھیمے لہجے میں کہا کہ آپ اِس بات کو سمجھیے کہ یہ سب ڈاکٹر صاحب کے ساتھ عالمی سازش کا حصہ ہے۔ اب دیکھیے نا کہ مختلف یونیورسٹیوں نے زبردستی اُن کے نام کی ڈگریاں جاری کردی تھیں۔ اب آپ خود ہی بتائیے کہ اِس جعل سازی میں بھلا اِن کا کیا قصور؟ ہمارے ڈاکٹر صاحب تو اِس قدر نرم دل والے ہیں کہ صرف اِس لیے یہ ڈگریاں قبول کرلیں کہ اُن یونیوسٹیوں کو دکھ اور غم نہ لگ جائے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ اگر میں ہفتے کو اپنے ضروری کام سے ٹوئیٹر کا استعمال نہیں کرتا تو شاید میں اب بھی اکثریت کے کہنے پر ڈاکٹر صاحب کو دھوکے باز اور مفاد کے لیے کچھ بھی کرجانے والا سمجھتا رہتا اور کبھی بھی اُن کے اندر چھپے نرم سے انسان کو نہیں پہچان سکتا۔
میں ابھی ڈاکٹر صاحب پر ہونے والے مظالم کے بارے میں مزید جاننا چاہتا ہوں اِس لیے سوچا کہ اُن کے پرستار سے اُن کی تعریف سننے کے بجائے سارے معاملے کو خود سے جاننے کی کوشش کروں۔ اِس لیے میں نے اُن کے مداح سے بات ختم کرنا مناسب سمجھا۔ مگر جاتے جاتے چھیڑنا نہیں بھولا۔ وہ دروازے سے باہر قدم رکھ رہے تھے جب میں نے پوچھا
آم کھائے گا آم؟
یہ طنزیہ بلاگ ہے۔
تبصرے (6) بند ہیں