خیبرپختونخوا: ضلعی حکومتیں بلدیاتی نظام میں آمدن بنانے میں ناکام
پشاور: خیبرپختونخوا کی ضلعی حکومتیں بلدیاتی نظام کے حوالے سے آمدن بنانے میں ناکام ہوگئیں۔
اس بات کا جائزہ صوبائی حکومت اور دیہی ترقی کے شعبہ نے نیشنل گورننس پروگرام کی مدد سے خیبرپختونخوا میں ضلعی حکومتی نظام کی تشخیص کے عنوان سے رپورٹ میں کیا۔
جائزہ رپورٹ میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) حکومت کی جانب 2013 میں بنائے گئے سسٹم کا جائزہ لیا گیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ تقریباً تمام اضلاع میں آمدن کی پیداوار کے بارے میں خطر ناک صورتحال موجود ہے، جس کی اہم وجہ تمام معاملات سے لاعلمی ہے۔
رپورٹ کے مطابق صوبائی حکومت خیبر پختونخوا لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 کے سیکشن 43 کے تحت ماڈل ٹیکس شیڈول کو فریم کرنے میں ناکام رہی۔
مزید پڑھیں: ‘خیبر پختونخوا میں ایک ارب 18 کروڑ درخت لگائے’
اس طرح کا کوئی میکینزم نہ ہونے کے باعث ضلعی حکومت کسی طرح کا نیا ٹیکس لینے یا پہلے سے طے شدہ شرح پر ٹیکس جمع نہیں کراسکی۔
رپورٹ میں تجویز دی گئی کہ مجوزہ آمدنی میں اضافے کے لیے مقامی حکومت کی جانب سے شیڈول اور ہدایات کے تحت ایک فریم ورک بنایا جائے۔
رپورٹ کے مطابق 2016 میں منظور کیے گئے مقامی حکومت محصولات کے قانون میں نامزد اکاؤنٹس میں ٹیکس جمع کرنے کے حوالے سے فقدان تھا جبکہ ٹیکس جمع کرنے والے افسر کی تعیناتی کے حوالے سے بھی قانون میں کوئی بات موجود نہیں تھی۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ ضلعی حکومتوں کو قانون کے تحت اپنے وسائل بڑھانے کے لیے اضافی ذرائع کو ڈھونڈنا چاہیے تاکہ جمع شدہ آمدنی کے حوالے سے ایک طریقہ کار بنایا جاسکے۔
رپورٹ میں یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ خیبرپختونخوا لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 کے سیکشن 18 کے تحت بنائی جانے والی تمام کمیٹیاں ضلعی حکومتوں کی کارکردگی کی نگرانی کرنے میں ناکام رہی۔
قانون کے مطابق 13 کمیٹیاں بنائی گئی تھی، جس میں قائمہ کمیٹی، فنانس، ڈسٹرکٹ اکاؤنٹس، بزنس، ضابطہ کار و دیگر کمیٹیاں شامل تھی، لیکن بہت سے اضلاع ان کمیٹیوں کے حوالے سے لاعمل تھے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ ضلعی کونسل کی جانب سے کونسل کے اجلاسوں اور کاروبار کے لیے قانونی اجازت دی تھی۔
رپورٹ کے مطابق ضلع شانگلہ میں قانون کے ماڈل میں ترمیم کرکے اپوزیشن لیڈر کو تبدیل کیا گیا تاکہ وہ ضلعی اکائونٹس کمیٹی کی خزانہ بینچ کی صدارت کرسکیں،ساتھ ہی چارسدہ، ڈیرہ اسماعیل خان، ہنگو اور طورگھر اضلاع بھی قانون کے نفاذ میں ناکام رہے۔
یہ بھی پڑھیں: خیبر پختونخوا کا 603 ارب روپے کا بجٹ پیش
رپورٹ کے مطابق مردان، پشاور، لکی مروت، شانگلہ اور کوہاٹ کے اضلاع میں جرمانہ کرنے والے افسران کی تعیناتی کی گئی،تاہم صرف کوہاٹ اور مردان میں ہیں جرائم کی بنیاد پر جرمانے کیے گئے۔
صوبائی حکومت کی جانب سے ضلعی حکومت کو فنڈ جاری کرنے کے بارے میں رپورٹ کا کہنا تھا کہ 2016- 2017 میں ایک جولائی کو فنڈز کی پہلی قسط جاری کی گئی لیکن دوسری اور تیسری قسط میں دو سے تین ماہ تاخیر کا سامنا دیکھا گیا۔
صرف فنڈز کے اجرا میں ہی تاخیر نہیں کی گئی بلکہ 21 ارب روپوں میں سے صرف 6 ارب 6 کروڑ روپے جاری کیے گئے جو پہلی سہ ماہی میں بہت کم تھے۔
رپورٹ میں یہ بات واضح کی گئی اپریل 2017 کے آخر تک ترقیاتی بجٹ کی مد میں ایبٹ آباد، بنو، بٹگرام اور ٹانک اضلاع میں ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کیا گیا۔
ترقیاتی منصوبہ بندی کے بارے میں رپورٹ کا کہنا تھا سیاسی کشمکش میں وزارت خزانہ اور اپوزیشن کے درمیان فنڈز کے معاملے پر مقدموں نے منصوبے ’سائیکل‘ کو بھی روک دیا.
یہ خبر 12 نومبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی