'مریم نواز کے بیانات توہین عدالت ہیں'
ماہر قانون اور ایڈووکیٹ سپریم کورٹ عارف چوہدری نے کہا ہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کی نااہلی سے متعلق دائر نظر ثانی درخواست کا فیصلے آنے کے بعد ان کی صاحبزادی مریم نواز کی جانب سے سخت درِ عمل کا آنا کرنا ’بظاہر توہین عدالت‘ ہے۔
ڈان نیوز کے پروگرام 'نیوز آئی' میں گفتگو کرتے ہوئے ایڈووکیٹ عارف چوہدری کا کہنا تھا کہ نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کے اندازِ گفتگو سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک دکاندار اقتدار میں رہا اور اُس نے وزارتِ عظمیٰ کو دکانداری کی طرح ہی چلایا۔
انھوں نے کہا کہ 'اگر کوئی شخص ملک میں حکمرانی کرچکا ہو اور پھر وہ یہ کہے کہ مجھے 5 ججوں نے نکال دیا تو اس بات سے واضح ہوجاتا ہے کہ اُس شخص نے ملک کے لیے کچھ نہیں کیا، بلکہ صرف اپنی دکان چلائی ہے'۔
مزید پڑھیں: نواز شریف کی نااہلی:نظر ثانی درخواست کا تفصیلی فیصلہ جاری
عارف چوہدری نے واضح کیا کہ کسی صورت بھی عدالت کی توہین کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ فیصلہ آتے ہی مریم نواز کا یہ کہنا کہ یہ کسی دباؤ کا نتیجہ ہے، بہت ہی نامناسب بات ہے، لہذا اگر انہیں ایسا لگتا ہے تو اس شخص کا نام بھی بتائیں جس کے دباؤ پر عدالت نے ایسا کیا ہے۔
خیال رہے کہ گذشتہ روز سپریم کورٹ نے سابق وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے نااہلی کے فیصلے پر نظر ثانی کے لیے دائر کی گئی درخواست کا تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان سے متعلق حقائق غیر متنازع تھے۔
سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز افضل خان نے 23 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ تحریر کیا جس میں کہا گیا ہے کہ پاناما مقدمے کے فیصلے میں کسی سقم یا غلطی کی نشاندہی نہیں کی گئی جس پر نظر ثانی کی جاتی۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ نواز شریف کی نا اہلی سے متعلق حقائق غیر متنازع تھے اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ فیصلے سے نواز شریف کو حیران کر دیا گیا۔
سپریم کورٹ کے بینچ کا کہنا تھا کہ نواز شریف 80 کی دہائی سے سیاست اور کاروبار میں ہیں، قابل قبول نہیں کہ نواز شریف اکاؤنٹنگ کے سادہ اصولوں کو بھی نہیں سمجھتے ہیں اور ساڑھے چھ سال کی تنخواہ نواز شریف کا اثاثہ تھی۔
نواز شریف کی جانب سے نااہلی کے فیصلے پر نظرثانی کےجواب میں کہا گیا کہ نواز شریف نے جھوٹا بیان حلفی دیا، اس اقدام کو عمومی انداز سے نہیں دیکھا جاسکتا، کاغذات نامزدگی میں تمام اثاثے بتانا قانونی ذمہ داری اور اس کی اہلیت کا امتحان ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:پاناما کیس فیصلہ: نواز شریف نے نظرثانی اپیلیں دائر کردیں
یاد رہے کہ نواز شریف نے 15 اگست کو سپریم کورٹ میں ان کی نااہلی کے حوالے سے پاناما فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست دائر کی تھی جس میں انھوں نے سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کے فیصلے کو چیلنج کردیا تھا۔
نظر ثانی کی اس اپیل میں درخواست کی گئی تھی کہ نظر ثانی اپیل کے فیصلے تک پاناما کیس کے فیصلے پر مزید عمل درآمد کو روک دیا جائے۔
قبل ازیں 28 جولائی کو سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کیس کے حوالے سے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ پر سماعت کے بعد فیصلہ سناتے ہوئے نواز شریف کو بطور وزیراعظم نااہل قرار دے دیا تھا، جبکہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار سمیت ان کے خاندان کے افراد کے خلاف نیب میں ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا تھا۔