ہسپتالوں سے گزارش ہے کہ کاروبار کیجیے لیکن ڈھنگ سے
میں اب یہ بات پورے یقین اور وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ کسی بھی شخص کے لیے باپ بننے کی خوشی سب خوشیوں سے بڑھ کر ہوتی ہے، اِس کا احساس مجھے گزشتہ ماہ اپنے بیٹے کی ولادت کے بعد ہوا۔
جہاں یہ موقع کسی بھی شخص کو خوشیوں سے سرشار کردیتا ہے وہیں ہمارے کچھ مسیحاؤں اور ہسپتال انتظامیہ کے ناقص رویوں اور برتاؤ کی وجہ سے ایسے خوشگوار موقعے بھی بے مزہ ہوجاتے ہیں۔
یہ ساری باتیں کرنے کی وجہ ذاتی تجربہ ہے، جسے اِس تحریر کے ذریعے آپ کے سامنے پیش کررہا ہوں۔
ہمیں ڈاکٹرز نے پورے اعتماد کے ساتھ بچے کی پیدائش کی تاریخ 2 نومبر دی، جس کو مدِنظر رکھتے ہوئے میری والدہ نے مجھ سے کہا کہ چاند کی تاریخوں کے حساب سے 22 اکتوبر کے بعد کبھی بھی اللہ تعالیٰ خوشخبری دیں گے۔
22 اکتوبر کی رات کو ہی میری بیگم کو زچگی کی تکلیف شروع ہوگئی تھی۔ اِس سے قبل ہم نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ پرائیوٹ کلینک کے بجائے ہم کسی اچھے ہسپتال سے یہ کیس کروائیں گے، کیونکہ یہ ہمارا پہلا بچہ تھا اور میں اِس ضمن میں کوئی بھی رسک لینے کے لیے تیار نہیں تھا۔
اِس دوران میری بیگم کا چیک اپ علاقے کے بہترین پرائیوٹ کلینک سے ہورہا تھا۔ اب میری بیگم ایک جانب اپنی سہیلیوں سے اِس حوالے سے پوچھ رہی تھی اور اُن کی رائے پر بغور توجہ دے رہی تھی، جبکہ دوسری جانب میں لاہور کے ہسپتالوں کو کھنگال رہا تھا۔
سرکاری ہسپتالوں کا حال تو بد سے بدتر ہوچکا ہے، وہاں کا رخ کرنے کے بارے میں تو سوچنا بھی گوارہ نہ کیا جبکہ اکثر پرائیوٹ ہسپتالوں کا مسئلہ یہ تھا کہ انہوں نے یہ کہہ کر کیس لینے سے انکار کرنا شروع کردیا کہ چونکہ آپ نے ہم سے چیک اپ نہیں کروایا ہے لہٰذا ہم آخری وقت میں کیس نہیں لیں گے۔
ابھی ہم اِن مسائل کا سامنا کر ہی رہے تھے کہ مجھے اچانک لاہور کے صف اول میں شمار ہونے والے بڑے ہسپتال کا خیال آیا۔ مجھے اِس ہسپتال کا خیال دو وجوہات کی بناء پر آیا۔ پہلی یہ کہ یہ مہنگا ہسپتال ہے لہٰذا علاج بھی اچھا ہی ہوگا جبکہ دوسری بڑی وجہ یہ تھی کہ آغاز کے دو ایک اور آخری بار چیک اپ اِسی ہسپتال سے ہوا تھا۔
تکلیف شروع ہونے کے بعد ہم صبح ہسپتال پہنچے، شاید اتوار کا دن ہونے کی وجہ سے وہاں عملہ کم تھا۔ میں نے ایمرجنسی میں موجود ایک نرس کو کہا کہ میری اہلیہ کو لیبر روم میں لے کر جانا ہے۔
ہم لیبر روم پہنچے تو وہاں سینئر ڈاکٹرز موجود نہیں تھے۔ میں باہر راہداری میں بیٹھا تھا جبکہ میری والدہ اور میری بڑی سالی اندر میری بیگم کے ساتھ موجود تھیں۔ ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹرز نے بیگم کو دیکھا اور کہا کہ ابھی وقت ہے لہذا اِن کو زچگی کی تکلیف لینے دیں، انشااللہ دوپہر کو دو تین بجے تک آپ صاحبِ اولاد ہوجائیں گے۔ استفسار پر انہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ انشاءاللہ بچہ نارمل ہی ہوگا۔
بس ڈاکٹرز کی ہدایات کے مطابق میری بیگم نے تکلیف لینا جاری رکھیں۔ اِس حوالے سے بتاتا چلوں کہ یہ دس پوائنٹس ہوتے ہیں اور اگر 6 پوائنٹس بھی ہوجائیں تو 90 فیصد نارمل ڈلیوری کا چانس ہوتا ہے۔
صبح 10 بجے سے دوپہر 2 بجے تک میری بیگم 4 پوائنٹس سے آگے جا چکی تھی اور ہم سب کو یہ یقین ہوچلا تھا کہ اب نارمل ڈلیوری ہی ہوگی۔ ہسپتال کی سینئر ترین اور معروف ڈاکٹر ہمارے کیس سے متعلق اپنے عملے سے رابطے میں بھی تھیں۔
نارمل ڈلیوری کا یقین اُس حد تک پہنچ گیا تھا کہ مجھ سے وہاں موجود اسٹاف نے بیگم کو ’ایپی ڈرل‘ لگانے کی اجازت تک مانگ لی جس کی میں نے بھی اجازت دے دی۔ یہ ایک انجکشن ہوتا ہے جو نارمل ڈلیوری کی صورت میں ریڑھ کی ہڈی میں لگایا جاتا ہے۔ یہاں تک تمام معملات ٹھیک چل رہے تھے اور ڈاکٹر بھی کہہ رہے تھے کہ کچھ ہی دیر میں نارمل طریقے سے بچے کی پیدائش ہوجائے گی۔
لیکن اچانک صورتحال تبدیل ہونا شروع ہوئی۔
نجانے اچانک کیا ہوا کہ سینئر ڈاکٹرز نے کہنا شروع کردیا کہ نارمل ڈلیوری کے امکانات کم ہیں اور اب بچے کی پیدائش سی سیکشن کے ذریعے کی جائے گی۔ یہ بات میرے لیے تو پریشان کن تھی ہی لیکن میری بڑی سالی بھی اِس کو بات کو سمجھنے سے قاصر تھیں۔
یاد رہے کہ میری بڑی سالی کے ماشاءاللہ 5 بچے ہیں اور وہ اِن تمام مراحل سے گزر چکی ہیں۔ لہٰذا انہوں نے اپنے تجربے کی بنیاد پر کہا کہ نہیں، ڈلیوری تو نارمل ہی کرنی ہے، آپ اِسی کے لیے کوشش کیجیے۔
لیکن ہمارے ملک میں کچھ ڈاکٹرز خواتین و حضرات ڈر کا کاروبار کرنا خوب جانتے ہیں۔ اُنہوں نے مجھے ڈرانا شروع کردیا اور کہا کہ آپ کی بیگم کی جان اب خطرے میں ہے اور بچے کی ہارٹ بیٹ بھی کم ہو رہی ہے، اِس لیے ہم ایسی صورت میں رسک نہیں لے سکتے ہیں، لہٰذا فوری طور پر آپریشن کرنا ہوگا۔
میں نے اُن کو کہا کہ آپ مجھے مطمئن تو کیجیے کہ اچانک ایسا کیا ہوگیا؟ لیکن انہوں نے مطمئن کرنے کے بجائے ٹال مٹول شروع کردی۔ فون پر سینئر ڈاکٹرز سے بات کروائی تو انہوں نے بھی اِسی خدشے کا اظہار کیا لیکن کسی مشین پر ایسا کچھ بھی نہیں دکھایا گیا۔
میری بیگم چونکہ شدید تکلیف میں تھیں، لہٰذا میں نے اللہ کا نام لیتے ہوئے سی سیکشن (آپریشن) کی اجازت دے دی، حالانکہ میری بڑی سالی اُس وقت بھی یہی کہہ رہی تھیں کہ یہ سی سیکشن جان بوجھ کر کررہے ہیں۔ بچہ نیچے کی جانب آ رہا ہے اور اُس کے پوائنٹس بھی بہتر ہو رہے ہیں، جبکہ ابتداء میں تو وہاں موجود ڈاکٹرز بھی یہی کہہ رہے تھے کہ یہ نارمل کیس ہے۔
لیکن اِس تمام تر پریشانی اور مسائل کے بعد اللہ نے مجھے بیٹے کی نعمت سے نوازا۔ رات کو مجھے میری کزن کی کال موصول ہوئی جو خود ایک گائنا کولوجسٹ ہیں اور کیوبا کی بہترین یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں۔ اِس سارے دورانیے میں میری بیگم کو کنسلٹنسی بھی اُنہوں نے ہی فراہم کی ہے لہٰذا وہ پورے کیس سے نہ صرف واقف تھیں بلکہ پورا کیس اُن کی فنگر ٹپس پر تھا۔
ڈاکٹر مائدہ کے مطابق بھی یہ نارمل کیس تھا، لیکن اُنہوں نے ساری بات غور سے سنی اور کہا کہ اُن کے تجربے اور مشاہدے کی روشنی میں یہ عین وقت میں ہونے والی تبدیلی اور نارمل کیس کو آپریشن بنانے کے پیچھے صرف پیسے کی لالچ کا راز چھپا ہے۔
چونکہ میرے لیے یہ سب حیران کن تھا اِس لے میں اُن سے یہ پوچھے بغیر نہ رہ سکا کہ وہ کیسے؟ تو انہوں نے بتایا کہ جب نارمل تکلیف شروع ہوتی ہے تو تب ہی اندازہ ہوجاتا ہے کہ سی سیکشن ہوگا یا نارمل؟ آپ کو ڈاکٹرز نے کہا تھا کہ نارمل ہوگا کیونکہ اُن کو اِس بات کا یقین تھا اور اِسی لیے انہوں نے ایپی ڈرل کا انجکشن دیا تھا۔ آپ کی بیگم کو تکلیف بھی قدرتی طریقے سے ٹھیک آ رہی تھی اور پوائنٹس بھی 6 کی حد سے آگے جاچکے تھے۔
دوسری صورت میں سی سیکشن اُسی صورت میں ہوتا ہے جب یا تو بچے کی ہارٹ بیٹ بند ہو رہی ہو یا عورت مزید تکلیف برداشت کرنے کے قابل نہ ہو۔ لیکن ایسا نہیں تھا جبکہ تیسرا معاملہ یہ ہوتا ہے کہ بچہ ماں کے پیٹ میں ہی گندگی کردے یا بچے کی پوزیشن ٹھیک نہیں ہو لیکن ایسا تو بالکل بھی نہیں ہوا تھا کیونکہ نہ تو بچے نے اندر گندگی کی تھی اور بچے کی پوزیشن بھی بالکل ٹھیک تھی۔
تو کیسے انہوں نے سی سیکشن کردیا؟
اگر ڈاکٹرز نے آپریشن ہی کرنا تھا تو پھر میری بیگم کو انہوں نے نارمل زچگی کی تکلیف کیوں دی؟ یہ وہ سوالات تھے جن کے جوابات میں ڈاکٹرز آئیں بائیں شائیں کرنے لگے تھے۔ جب میری بیگم ہوش میں آئی اور گفتگو شروع کی تو اُنہوں نے بتایا کہ اندر موجود جونیئر ڈاکٹرز تو کہہ رہی تھی کہ یہ نارمل کیس ہے مگر سینئرز نے اِس آسان سے کیس کو سی سیکشن بنادیا۔ اب چونکہ ہم اِس فیلڈ کے ماہر نہیں ہیں لہٰذا کوئی دعویٰ تو نہیں کرسکتے کہ یہ کیوں اور کس کے کہنے پر ہوا ہے لیکن یہ ضرور جانتا ہوں کہ ڈاکٹرز کے لالچ کی وجہ سے میری بیوی کو شدید تکلیف کا سامنا کرنا پڑا۔
اِس کیس کے حوالے سے اہم بات یہ کہ میرے بیٹے کے سر پر دباؤ کا نشان موجود ہے، اگر بچہ نیچے کی جانب نہیں آرہا تھا تو کیا دباؤ فرشتے ڈال گئے ہیں؟
میں نے وہ دباؤ کئی ڈاکٹرز کو دکھایا ہے اور انہوں نے کہا ہے کہ یہ اِس وجہ سے ہے کیونکہ بچہ قدرتی طریقے سے کافی نیچے آچکا تھا جس کا مطلب یہ تھا کہ نارمل ڈلیوری ممکن تھی۔ صرف باہر کے ڈاکٹرز کی بات کیوں کی جائے؟
قارئین کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ یہ انکشاف ہسپتال کے اپنے ڈاکٹر بھی کرچکے تھے جن کا کہنا تھا کہ بچے کے سر پر یہ نشان اِس وجہ سے ہے کہ وہ قدرتی طریقے سے آخری حد تک نیچے آچکا تھا۔
مجھے پریشانی محض ڈاکٹرز کے رویوں اور اُن کی دھوکہ دہی سے ہی نہیں ہوئی، بلکہ ہسپتال کا ماحول اور وہاں موجود عملے کی کارکردگی نے بھی مجھے کافی مایوس کیا۔ اِس ہسپتال کا شمار لاہور کے مہنگے ترین ہسپتالوں میں ہوتا ہے۔ اپنی سہولت کے لیے ہم نے پرائیوٹ روم لینے کو ترجیح دی، لیکن کمرے کی حالت دیکھ کر تو یقین ہی نہیں آیا کہ ہم صف اول کے ہسپتالوں کے ایک پرائیوٹ روم میں ہیں، مجھے وہ کمرہ اور اُس کی حالت سرکاری ہسپتال سے بھی گئی گزری معلوم ہورہی تھی۔
ایسا لگ رہا تھا کہ وہ کمرہ کئی عرصے سے بند ہے، جب ہمارے آنے کی اطلاع ملی تو وہاں کا عملہ صفائی کے لیے پہنچا۔ ہم نے سوچا کہ جب تک صفائی ہورہی ہے تو ہم نیچے سے سامان لے آئیں، لیکن سامان لے کر اوپر پہنچے تو معلوم ہوا کہ عملہ تو چابی اپنے ساتھ ہی لے گیا، جس کا اب کوئی اتا پتا نہیں۔
صورتحال یہ تھی کہ میں اپنی والدہ اور دیگر رشتہ داروں کے ساتھ راہداری میں کھڑا تھا لیکن جس کے پاس کمرے کی چابی تھی اُس کا کوئی ٹھکانہ معلوم نہیں ہورہا تھا۔ استقبالیے والے اِس غفلت کو ایک دوسرے پر ڈال کر بری الذمہ ہو رہے تھے۔
اِس انتہائی بُرے رویے کو دیکھ کر میرے صبر نے دامن چھڑوا دیا اور پھر اُس عملے کو اُنہی کی زبان میں جب سمجھایا تو اگلے ایک منٹ میں وارڈ بوائے چابی سمیت ہمارے سامنے کھڑا تھا۔ میں نے استقبالیے پر واضح الفاظ میں کہا کہ آپ کے لیے ہم ’کسٹمرز‘ ہیں، پیسے پہنچانے میں ذرا سی بھی تاخیر ہوجائے تو آپ علاج کرنے سے انکار کردیتے ہیں، تو جب پیسے بروقت مل رہے ہیں تو کم از کم اپنی سروس تو کچھ ٹھیک کیجیے۔
اب اِس سے بھی بُری صورتحال کا سامنا اُس وقت ہوا جب کمرے میں آئے اور واش روم کھولا تو بدبو کے جھونکے نے جیسے دماغ کو ماؤف کردیا۔ حالت دیکھیے کہ عملے نے شکایت کرنے پر کمرہ تو صاف کردیا لیکن واش روم ویسے ہی چھوڑ دیے۔ شکایت کی تو واش روم تو صاف ہوگیا مگر وہاں ایک ٹوکری موجود رہی جس میں بلڈ بیگز، سینٹری پیڈز سمیت نجانے کیا کچھ موجود تھا، جس کے بعد ایک بار پھر شکایت کی تو تب کہیں جاکر وہ ٹوکری بھی اُٹھائی گئی۔
اِس ہسپتال نے حفاظتی انجکشن کا بھی اپنا ہی شیڈول بنایا ہوا ہے۔ یہ حفاظتی انجیکشن پیدائش کے فوراً بعد لگتے ہیں اور اِس حوالے سے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی گائڈ لائنز واضح طور پر موجود ہیں۔ انہوں نے ایک انجکشن لگایا اور باقی کے لیے 8 دن بعد کی تاریخ دی۔
میں نے اِس ضمن میں لاہور کے ہی دیگر ہسپتالوں اور ڈاکٹرز سے رابطہ کیا تو اُن سب کی متفقہ رائے تھی کہ ہسپتال نے ایسا صرف پیسہ بنانے کے لیے کیا ہے، درحقیقت یہ حفاظتی انجیکشن حکومت کے کسی بھی سینٹر سے لگ سکتے ہیں، جو کہ بالکل مفت ہوتے ہیں اور حکومت کا یہ منصوبہ ڈبلیو ایچ او کی براہِ راست نگرانی میں ہے۔
اب جب ہسپتال سے دوبارہ رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ آپ بچہ لے آئیں، ہم انجکشن لگا دیں گے جبکہ فیس کی بابت اُن کا کہنا تھا کہ اِس کام کے ’صرف‘ 2 ہزار روپے فیس ہے۔
یہ بات بھی میری سمجھ میں نہیں آئی اور اپنی رہنمائی کے لیے جب میں نے اپنے علاقے کے قومی توسیعی پروگرام برائے حفاظتی ٹیکہ جات کے مرکز سے رابطہ کیا تو وہاں موجود شخص نے ہمیں کارڈ بنا کردیا اور بتایا کہ ٹیکے اِس شیڈول کے مطابق لگنے ہیں۔
اس کے مطابق پیدائش کے بعد ہی تمام انجکشن لگتے ہیں اور اُس کے 6 ہفتے کے بعد ہی دوسرا کورس ہوگا۔ اب ہسپتال کی اِس حرکت کو بھلا اور کیا نام دیا جائے کہ محض مریض سے زیادہ سے زیادہ پیسہ نکلوانے کے لیے وہ بچے کو نقصان پہنچانے سے بھی باز نہیں آتے۔
میرا خیال تھا کہ شاید یہاں میرا ہی تجربہ خراب رہا ہے لیکن جن جن لوگوں سے میری بات ہوئی تو ہر کوئی ایسی پریشانی میں مبتلا تھا۔ اکثریت کا ماننا تھا کہ جب یہ اتنا مہنگا علاج کر رہے ہیں تو اِن کی حرکتیں سرکاری ہسپتال سے بھی بدتر کیوں ہیں؟ کسی کے واش رومز میں مچھر ہیں تو کوئی عملے کے رویے سے نالاں ہے۔ کسی کو ڈاکٹرز کے رویے سے شکایت ہے تو کوئی معاون عملے سے گلہ رکھتا ہے۔
ہم بطور عام شہری یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ جب ہسپتال سروسز ہی ٹھیک نہیں دے سکتے تو لاکھوں روپے کس بات کے لیے جاتے ہیں؟ صرف نام کے؟
میں تو اب بھی ہسپتال انتظامیہ سے کہتا ہوں کہ اگر پیسہ کمانا ہی مقصود ہے تو کمائیے کہ یہ آپ کی اپنی جائیداد ہے جو چاہے آپ کرسکتے ہیں، اور اگر پیسہ کمانے کے لیے نارمل کیس کو آپریشن تک پہنچانے سے بھی آپ باز نہیں آتے تو کوئی بات نہیں، لیکن خدارا اپنی ’سروس‘ کو تو ٹھیک کردیجیے۔
فیسیں اور اخراجات آپ نے فائیو اسٹار ہوٹلز والے رکھے ہوئے ہیں اور سروس آپ کی گلی کے کونے پر موجود ڈھابے سے بھی کم ہیں۔
پوری دنیا میں آپریشن کے بعد ٹانکے مفت میں کھولے جاتے ہیں لیکن آپ کے ہسپتال میں اُس کے بھی پیسے ہیں، پاکستان بھر میں ویکسینشن مفت ہے لیکن آپ کے ہسپتال میں اِس کے بھی ٹھیک ٹھاک پیسے وصول کیے جاتے ہیں۔
اِدھر مریض اندر علاج کے لیے جاتا ہے اور اُدھر آپ کا ’حکم‘ آتا ہے کہ استقبالیہ سے جاکر فوری فائل بنوائیں۔
آخر میں بس یہی کہہ سکتے ہیں کہ لوگوں کی جانوں کے ساتھ یوں مت کھیلیے۔
تبصرے (8) بند ہیں