سمن سرکار کا میلہ: جس کا عقیدت مند رام بھی ہے رحیم بھی
قوس قزح جیسے سندھ کے ثقافتی رنگوں میں اگر وادئ مہران کے میلوں کو شامل نہ کیا جائے تو مذہبی رواداری اور سماجی تنوع کے رنگ کچھ پھیکے سے نظر آئیں گے۔ سندھ صدیوں سے مذہبی رواداری کا امین رہا ہے۔
مذہبی و فرقہ وارانہ رواداری کا رنگ ہمیں صدیوں سے سندھ کی مختلف درگاہوں پر لگنے والے میلوں ملاکھڑوں میں نمایاں نظر آتا ہے۔ آپ سندھ میں جس کسی درگاہ پر بھی چلے جائیں، وہاں موجود عقیدت مندوں میں آپ کو کسی قسم کی نسلی و مذہبی تفریق نہیں ملے گی۔ اڈیرو لال سے لے کر لال شہباز قلندر اور شاہ عبداللطیف بھٹائی کی درگاہ تک مذہبی رواداری کا ایک خوبصورت سماں بندھا نظر آئے گا۔
سندھ میں لگنے والے تقریباً تمام میلے ملاکھڑے یہاں کی سماجی ثقافت کا حصہ بن چکے ہیں۔ جہاں یہ میلے لوگوں کے لیے تفریحی کا باعث بنتے ہیں وہیں یہ میلے چند دنوں کے لیے ہی سہی مگر لوگوں کی آمدن کا ذریعہ بھی بن جاتے ہیں۔
چند روز قبل جنوبی سندھ کے ضلع بدین کے قریب واقع شہر پنگریو میں سَمن سرکار کا میلہ منعقد ہوا تھا۔ سَمن سرکار کا میلہ سندھ میں لگنے والے چند بڑے میلوں میں سے ایک ہے۔ اِس درگاہ کی ایک خاص بات یہ ہے کہ پانچ روزہ میلے کے دوران یہاں نذرانے کے طور پر کوئی بیل یا بکرا نہیں لایا جاتا بلکہ ہزاروں کی تعداد میں مرغ لائے جاتے ہیں، جنہیں سَمن سرکار کے عقیدت مند اپنی مَنتیں پوری ہونے پر لاتے ہیں۔
سَمن سرکار کی پیدائش کے حوالے سے آج تک کوئی بھی مستند تاریخ موجود نہیں ہے۔ انہیں “مرغ والی سرکار” اور “مرغ کے پیر” کے طور بھی یاد کیا جاتا ہے۔ اُن کا حقیقی نام سید سَمن شاہ تھا۔ نذرانے کے طور پر یہاں پر صرف دیسی مرغ ہی لائے جاتے ہیں۔ سندھ میں جیسے ہی کپاس کی فصل تیار ہوجاتی ہے ویسے ہی میلے کے دن بھی قریب آنے لگتے ہیں۔ ہر سال کی طرح اُن کے عقیدت مند مرغوں کو پالتے ہیں اور اُن کی خاطر مدارات کرتے ہیں۔ جس کے بعد اُس مرغ کو درگاہ کے احاطے میں ہی میلے کے دنوں میں ذبح کیا جاتا ہے۔
ایک روایت کے مطابق سمن سرکار کی زندگی میں جب بھی اُن کے عقیدت مند اُن سے ملنے آتے تھے تو وہ انہیں مرغ لانے کی فرمائش کرتے تھے۔ اگر کوئی عقیدت مند مرغ کے بغیر آتا تو اُسے تاکید کرتے تھے کہ اگلی بار مرغ لیتے آنا۔ شاید اُنہیں مرغ کھانے میں بہت پسند تھا، لہٰذا یہ روایت اُن کی وفات کے بعد بھی آج تک قائم و دائم ہے۔
چند روز قبل میں نے بھی سمن سرکار کے میلے کا رخ کیا۔
درگاہ کے ارد گرد چند دنوں کے لیے ایک ایسی دنیا قائم ہوجاتی ہے، جہاں ہزاروں رنگ نظر آتے ہیں، ہوٹل قائم کرلیے جاتے ہیں، رہنے کا بندوبست بھی ہوتا ہے، دیگر میلوں ملاکھڑوں کی طرح راگ رنگ، گھوڑوں کی دوڑ، مختلف اشیاء بیچنے والوں کے اسٹال اور سرکس سمن سرکار کے میلے کے بھی اہم ترین جز ہیں۔
زائرین دور دراز علاقوں سے بسوں اور دیگر گاڑیوں میں بھر بھر کر یہاں کا رُخ کرتے ہیں۔ ہر ایک عقیدت مند اپنے ساتھ ایک اور ایک سے زائد مرغ لے کر آتا ہے، اُنہیں ذبح کرنے اور پھر پکا کر کھانے کا بندوبست بھی وہیں پر کیا جاتا ہے۔ مرغ کا سالن اور مرغ پلاؤ میلے کے خاص پکوان ہوتے ہیں۔
علی محمد چانڈیو بھی سمن سرکار کے عقیدت مند ہیں، وہ میلے کے خاص دنوں میں یہاں آتے ہیں اور لوگوں کو مرغ ذبح کرکے دیتے ہیں۔ ایک مرغ ذبح کرنے کے عوض انہیں 30 سے 50 روپے مل جاتے ہیں۔ بچوں سے لے کر نوجوان اور بوڑھوں تک یہاں ہر عمر کے لوگ میلے میں شرکت کرنے آتے ہیں۔
یہاں پر کوئی آپ کا مذہب نہیں پوچھتا اور نہ ہی ذات پات۔ ایک ہی برتن میں سب کے لیے کھانا بنتا ہے تو کھایا بھی ساتھ جاتا ہے۔ یہاں پر مسلم ذاتوں کے علاوہ کولہی، بھیل، میگھواڑ، باگڑی اور دیگر کئی ہندو ذاتوں کے عقیدت مند بھی بڑی تعداد میں شریک ہوتے ہیں۔
اِسی میلے میں گھومتے گھومتے میری ملاقات رام کولہی سے ہوئی جس کے بغل میں ایک بڑا سا دیسی مرغ تھا۔ اُس کے چہرے کی مسکراہٹ بتا رہی تھی کہ وہ اِس درگاہ پر پہنچ کر بہت خوش ہے۔
میں نے پوچھا کہ آپ کب سے درگاہ کی حاضری بھر رہے ہیں۔ رام نے بتایا کہ وہ یہاں 5 برسوں سے آ رہے ہیں، سمن سرکار پر انہوں نے جو بھی مَنت مانگی وہ پوری ہوئی ہے، اِس لیے اِس سال بھی وہ انہیں نذارنے کے طور پر مرغ دینے آئے ہیں۔
میں نے رام سے مسکراتے ہوئے پوچھا کہ اِس بار کون سی منت پوری ہوئی ہے؟
کہنے لگا کہ اُس نے اپنی شادی کی منت مانگی تھی اور پچھلے برس ہی اُسے سہرا باندھا گیا تھا۔
رام کی خوشی دیکھنے کے لائق تھی، میں نے رام سے پوچھا کہ تو کیا آپ کو لگتا ہے کہ سمن سرکار کی درگاہ پر آنے والے ہر شخص کی دعا قبول ہوجاتی ہے؟
رام کی عقیدت کا اندازہ اُس کے لب و لہجے سے ہو رہا تھا۔ کہنے لگا کہ، ہاں کیوں نہیں دیکھو میری دعا قبول ہوئی ہے اور یہاں جتنے بھی لوگ آئے ہوئے ہیں یہ بھی اپنی مَنتیں پوری ہونے کے بعد آئے ہیں اور کچھ لوگ پھر دعائیں مانگ کر جائیں گئے اور اُن کی دعائیں بھی قبول ہوں گی، پھر وہ اگلے برس آپ کو دوبارہ اِسی میلے میں نظر آئیں گے۔
رام کولہی کی باتوں سے اندازہ ہو رہا تھا کہ یہاں پر کوئی بھی عقیدت مند خالی ہاتھ نہیں جاتا۔
رام جیسے کئی ہندو اور اُس کے ساتھ ساتھ مسلمان عقیدت مندوں کی ایک بڑی تعداد مرغ لیے درگاہ پر آئے ہوئے تھے۔ ایک بڑے سے میدان میں لگے میلے میں سجاوٹ کا خاص انتظام کیا گیا تھا، وہاں موجود مختلف اسٹال سے ہوتے ہوئے آپ سمن سرکار کی درگاہ کی دہلیز پر پہنچ جاتے ہیں۔
مزار میں کسی کو بھی اِس بات کی اجازت نہیں ہے کہ یہاں آئے عقیدت مند سے کوئی مذہبی بھید بھاؤ کرے۔ ہر چہرا خوشیوں سے کھلتا نظر آتا ہے۔
اِس میلے میں دو دن عورتوں کے لیے مخصوص کیے جاتے ہیں مگر میلے کے دیگر دنوں میں بھی خواتین حاضری بھرنے آتی ہیں۔
سندھ میں یہ میلے جہاں سندھ کی سماجی و ثقافتی روایات کی عکاسی کرتے ہیں وہاں یہ لوگوں کے لیے آمدن کے مواقع بھی فراہم کرتے ہیں۔ چند دنوں کے اِس پُررونق میلے میں آپ کو کھیس بیچنے والے، کھلونے بنانے والے، میوشیوں کی گھنٹیاں اور دیگر سجاوٹ کا سامان بنانے والے، مٹھائی والے، فوٹو کھینچنے والے اور کئی قسم کے کھیل تماشے دکھانے والے جا بجا نظر آئیں گے۔ اُن کے لیے یہ میلہ سال بھر کی کمائی کا ذریعہ بنا رہتا ہے۔
آج جب سندھ سے لے کر پورے ملک میں مذہبی انتہاپسندی کے خلاف ملک کے تمام تر طبقات اِس دلدل سے نکلنے کی کوشش میں جٹ گئے ہیں، وہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ سندھ جس صوفی مزاج کے ذریعے صدیوں سے انتہاپسندی سے لڑتا آر رہا ہے، اُس میں صوفیائے کرام کا تو پیغام شامل ہے ہی لیکن اِس کے ساتھ درگاہوں پر لگنے والے میلوں میں شریک اِس عام عقیدت مند کا کردار بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا جو کبھی اپنے ساتھ کھڑے عقیدت مند سے اُس کا دین دھرم پوچھنے کو درگاہ کے تقدس کی توہین سمجھتا ہے۔
سندھ میں اِس قسم کی رواداری کی مثالیں آج تک برقرار ہیں۔ ظاہر ہے کہ لوگوں کو بنیادی سہولیات میسر نہیں ہیں، اِس لیے یہ لوگ اِن درگاہوں پر اپنی روحانی اور جسمانی شفا کی فریاد لیے پہنچتے ہیں اور رام کولہی جیسے کئی لوگ عقیدت کے اظہار کے لیے ہر سال سمن سرکار کی درگاہ پر حاضر ہوتے ہیں۔
سمن سرکار کا میلہ آج بھی مذہبی روایات کو سندھ میں برقرار رکھے ہوئے ہے۔ اِس قسم کے میلے سندھ میں بڑھتی ہوئی انتہاپسند سوچ کو ختم کر پائیں یا نہ کر پائیں، مگر کسی بھی سماج میں عدم برداشت کے رویوں کو کم کرنے میں ضرور مددگار ثابت ہوسکتے ہیں، جس کی مدد سے ہم ایک بار پھر اُسی بھائی چارے کی فضاء کو پروان چڑھا سکتے ہیں جو صدیوں سے سندھ کی پہچان ہے۔
اختر حفیظ سندھی زبان کے افسانہ نگار اور صحافی ہیں، اور ایک سندھی روزنامے میں کام کر ریے ہیں۔ ان سے ان کے ای میل ایڈریس [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
تبصرے (8) بند ہیں