سندھ لٹریچر فیسٹیول کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
اگر کہا جائے کہ صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں پورے ملک کے تمام شہروں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ادبی، ثقافتی، سماجی و صحافتی فیسٹیول اور پروگرامات منعقد کیے جاتے ہیں تو کچھ غلط نہ ہوگا۔
ساحل سمندر پر واقع اِس رومانوی شہر میں ’کراچی لٹریچر فیسٹیول‘ (کے ایل ایف)، ’عالمی ادبی مشاعرہ‘، ’اردو کانفرنس‘، ’سندھ حکومت کے کلچرل فیسٹیول‘،’سندھی ثقافتی دن‘، ’بلوچی ثقافتی دن‘، ’پختون ثقافتی دن‘ اور ’عالمی کتاب میلے‘ سمیت دیگر پروگرامات بھی ہوتے ہیں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ صوبہ سندھ کو ایک سے زائد اقوام یا ثقافتوں کے صوبے کے طور پر ملک بھر میں پہچانا جاتا ہے۔ صوبہ سندھ پاکستان کا وہ واحد صوبہ ہے، جہاں نہ صرف ملک کے چاروں صوبوں، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی ثقافتیں دیکھنے کو ملتی ہیں، بلکہ اِس رومانوی شہر میں دنیا کے دیگر ممالک اور خطوں کی ثقافتوں کی جھلک بھی نظر آتی ہے۔
سندھ اِس وقت کثیرالثقافتی صوبہ بن چکا ہے، جس وجہ سے یہاں کی مقامی یا اصل سندھی آبادی کی ثقافت کو اپنی پہنچان برقرار رکھنے میں کچھ مشکلات ضرور پیش آئی ہیں۔
جس طرح سندھ کی ثقافت کو مشکلات درپیش ہیں، اِسی طرح سندھ کے ادب کو بھی کچھ چیلنجز کا سامنا ہے، اور یہ معاملہ صرف سندھ تک محدود نہیں، بلکہ یہ معاملہ ملک کے دیگر صوبوں کے علاقائی ادب و ثقافت کو بھی درپیش ہے۔
اگرچہ سندھ کے دارالحکومت میں ہونے والے پاکستان کے سب سے بڑے ادبی میلے ’کراچی لٹریچر فیسٹیول‘ میں بھی ’سندھی ادب، زبان و ثقافت‘ کے حوالے سے چند پروگرامات مختص کیے جاتے ہیں، مگر اِس کے باوجود ’سندھ لٹریچر فیسٹیول‘ (ایس ایل ایف) کا انعقاد کیا گیا اور بعض لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال ہے کہ آخر سندھ لٹریچر فیسٹیول کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
اِس برس دوسرا سندھ لٹریچر فیسٹیول منعقد کیا جارہا ہے، جس کا آغاز آج یعنی 27 اکتوبر 2017 کو شام ساڑھے 4 بجے سے ہوگا، جو 29 اکتوبر کی رات 11 بجے تک جاری رہے گا۔
کے ایل ایف کی طرح ایس ایل ایف کے پروگرامات بھی تین دن تک اُسی ہوٹل یعنی بیچ لگژری میں منعقد ہوتے ہیں، جہاں کراچی ادبی میلے کے پروگرامات منعقد ہوتے ہیں۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ سندھ لٹریچر فیسٹیول کو کراچی لٹریچر فیسٹیول کے مقابلے میں ایک مخصوص سوچ کے تحت شروع کیا گیا، لیکن ایس ایل ایف کی انتظامیہ اِس تاثر کو مسترد کرتے ہوئے کہتی ہے کہ اگر وہ ایک مخصوص سوچ کے تحت اِس ادبی میلے کو شروع کرتے تو اِس میں سندھی زبان کے علاوہ دیگر زبان و ادب کے پروگرامات نہ ہوتے۔
ڈان ڈاٹ کام سے بات کرتے ہوئے سندھ لٹریچر فیسٹیول کی کو آرڈینیٹر ناجیا میر کا کہنا تھا کہ اگرچہ کراچی میں کئی طرح کے بڑے بڑے ادبی پروگرامات اور فیسٹیول ہوتے ہیں، لیکن اُنہیں اِن پروگرامات میں سندھی ادب، ثقافت و زبان کے حوالے سے سیشنز کی کمی محسوس ہوئی اور انہوں نے شدت سے محسوس کیا کہ سندھ میں ہی ہونے والے ادبی پروگرامات میں سندھ کی ثقافت و ادب کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔
انہوں نے تسلیم کیا کہ اگرچہ کراچی لٹریچر فیسٹیول میں سندھی ادب کے حوالے سے چند نشستیں منعقد کی جاتی رہی ہیں، تاہم وہ اتنی محدود ہوتی ہیں کہ اُن میں سندھی زبان، ادب و ثقافت کی گہرائی اور وسعت کو بیان نہیں کیا جاسکتا۔
ناجیا میر نے واضح کیا کہ سندھ لٹریچر فیسٹیول میں صرف سندھی زبان و ثقافت کے سیشنز نہیں، بلکہ اردو، بلوچی، سرائیکی، انگریزی ادب پر بھی سیشنز رکھے جاتے ہیں، جب کہ تاریخ، خواتین کی خودمختاری، سوشل میڈیا کے رجحانات، قومی میڈیا کے مسائل اور سائنس سمیت دیگر اہم اور حساس ملکی موضوعات پر بھی سیشنز رکھے جاتے ہیں۔
انہوں نے اِس بات کا بھی اعادہ کیا کہ آنے والے سندھ لٹریچر فیسٹیول میں پشتو، پنجابی، ہزاروی سمیت پاکستان اور خصوصی طور پر سندھ میں بولی جانے والی دیگر زبانوں پر بھی ادبی سیشنز رکھے جائیں گے۔
ناجیا میر کے مطابق اگر انہوں نے تنگ نظری اور ایک مخصوص سوچ کے تحت اِس فیسٹیول کو شروع کیا ہوتا تو اِس کا نام ’سندھ‘ کے بجائے ’سندھی‘ لٹریچر فیسٹیول ہوتا، سندھ کا مطلب ہے کہ یہ کثیرالثقافتی اور مختلف زبانوں کا ادبی پروگرام ہے۔
ناجیا میر نے بتایا کہ اُنہیں ادبی فیسٹیول کرانے میں حکومت سندھ کے محکمہ ثقافت اور کراچی میں موجود غیر ملکی قونصل خانوں کی بھی مدد حاصل ہے، تاہم محکمہ ثقافت سندھ اور غیر ملکی قونصل خانے اِن کے مرکزی اسپانسرز نہیں۔
اِس بار سندھ لٹریچر فیسٹیول ایسے موقع پر منعقد کیا جا رہا ہے، جب کراچی میں کوئی بڑا ادبی فیسٹیول نہیں ہو رہا، البتہ کراچی بینل آرٹ فیسٹیول کی نمائش جاری ہے، جو آئندہ ماہ 5 نومبر تک جاری رہے گی۔
سندھ لٹریچر فیسٹیول کا یہ دوسرا سیزن ہے، گزشتہ برس اِس ادبی میلے کا پہلا سیزن منعقد کیا گیا تھا، جس میں قریباً 50 ہزار افراد نے شرکت کی تھی، لیکن اِس بار خیال کیا جا رہا ہے کہ میلے میں ایک لاکھ یا اِس سے بھی زائد افراد شرکت کریں گے۔
تین روزہ سندھ لٹریچر فیسٹیول کی افتتاحی تقریب میں چیئرمین جے ایس بینک جہانگیر صدیقی، صوبائی وزیر اطلاعات سید ناصر حسین شاہ، صوبائی وزیر ثقافت سید سردار حسین شاہ، ڈان میڈیا گروپ کے حمید ہارون، حمید آخوند، ڈرامہ لکھاری نورالہدی شاہ اور دیگر اعلیٰ شخصیات شرکت کریں گی۔
دوسرے سندھ لٹریچر فیسٹیول میں تین دنوں کے دوران 36 مختلف موضوعات پر 130 سیشنز منعقد کیے جائیں گے، جن میں ملک کے چاروں صوبوں سے آنے والے مہمان گفتگو کریں گے، ایس ایل ایف میں کتابوں کی تقریبِ رونمائی سمیت، ثقافتی اشیاء، کتابوں اور کھانوں کے اسٹال بھی ہوں گے، جب کہ فیسٹیول کے پہلے اور آخری روز موسیقی کا اہتمام بھی ہے۔
اِس بار سندھ لٹریچر فیسٹیول کے پروگرامات میں سینیٹ چیئرمین میاں رضا ربانی، ڈاکٹر فوزیہ سعید، ڈاکٹر پرویز ہود بھائی، اظہر عباس، حامد میر، سینیٹر حاصل بزنجو، ایاز لطیف پلیجو، سید جلال محمود شاہ، سید شاہ محمد شاہ، امر جلیل، وسعت اللہ خان، زرار کھوڑو، مبشر زیدی، مہناز محمود، ماروی مظہر، فیصل کپاڈیہ، عامر خاکوانی، اشفاق آذر، نثار کھوکھر، اختر بلوچ، نورالہدیٰ شاہ، مدد علی سندھی، امر سندھو، ڈاکٹر فوزیہ خان، حلیم باغی، انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ پولیس اللہ ڈنو (اے ڈی) خواجہ، اے آئی جی مشتاق مہر، صنم بلوچ، ماہین ہیسبانی، سنبرین ہیسبانی، ڈاکٹر فہمیدہ حسین، وحیدہ مہیسر، سینیٹر سسئی پلیجو، رکن سندھ اسمبلی نصرت سحر عباسی، نصرت ہارث،رکن سندھ اسمبلی سورٹھ تھیبو، اعجاز منگی، ڈاکٹر کمال جامڑو، عبدالرزاق سروہی، ڈاکٹر عبدالجبار خٹک اور اقبال ڈیتھو سمیت دیگر شخصیات سیشنز کے دوران گفتگو کریں گی۔
ایس ایل ایف انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ جن افراد کو یہ شک ہے کہ اُن کا ادبی میلہ محدود ادب، زبان اور ثقافت پر مبنی ہے، اُن لوگوں کو ایک بار سندھ لٹریچر فیسٹیول میں شرکت کرکے حالات کا جائزہ لیا چاہیے۔
تبصرے (4) بند ہیں