• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm
شائع October 23, 2017 اپ ڈیٹ October 24, 2017

جِس طرح سوکھے ہوئے پھول فیس بُک میں ملیں

عثمان جامعی

ہم فیس بُک کے عہد میں زندہ ہیں، بلکہ ہم میں سے بہت سے تو بس فیس بُک پر زندہ ہیں۔ اِس سماجی ویب سائٹ نے ہمارے طور طریقوں کو بدل کر رکھ دیا ہے، محبت ہی کے چلن کو لیجیے۔

کبھی محبت پہلے دیدار اور نظروں کے وار سے شروع ہوتی تھی، کئی روز تک پیچھا کرکے اپنی سنجیدگی کا یقین دلایا جاتا تھا، پھر ڈائجسٹوں کے شعری انتخاب سے شعر منتخب کرکے بڑی محنت سے خط لکھا جاتا، جس پر ناپید مصورانہ صلاحیت صَرف کرکے بھدّا سا دل بنایا اور اُس میں تیر پیوست کیا جاتا، اُس کے بعد ڈرتے ڈرتے اور اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے خط محبوبہ کو تھمایا جاتا، جس کے بعد کڑی دھوپ میں سڑتے ہوئے محبوب کے انتظار کا سلسلہ شروع ہوتا تھا۔ اب یہ قسمت تھی کہ خط کا جواب آتا ہے یا محبوبہ کے بھائی کا عتاب۔

اب فیس بُک نے محبتوں کو بہت آسان کردیا ہے۔ جس سے محبت کرنے کی ٹھانی جائے اُس کی طرف بڑھنے کا آغاز اُس کی پوسٹوں کو لائیک کرنے سے ہوتا ہے، پھر کمنٹ کرکے جتایا جاتا ہے کہ ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں، اگلا مرحلہ پیغامات کا ہوتا ہے، اِن باکس میں 'ہائے' کا پہلا پیغام بھیجا جاتا ہے، جوابی 'ہائے' آجائے تو دل کا پھول اور خود 'فول' کِھل اُٹھتا ہے، اور کوئی جواب نہ آئے تو کچھ روز تک ہائے ہائے کی تکرار کے بعد ہدف کو بائے بائے کرکے 'تو نہیں اور سہی اور نہیں اور سہی' کہتے ہوئے پیار کا رُخ کسی اور پروفائل کی طرف موڑ دیا جاتا ہے۔

اب محبوب اور اُس کے جواب کے لیے دھوپ میں جلنے، پیچھے چلنے یا اُس کی گلی کے کسی فارغ نوجوان سے زبردستی کی دوستی کرنے کی ضرورت نہیں۔ انتظار کے مراحل آن لائن فرینڈز کی فہرست دیکھتے اور اُس دوران دوسری خواتین سے پینگیں بڑھانے کی کوشش کرتے ہوئے طے ہوجاتے ہیں۔

ایک زمانہ تھا کہ پہلی ملاقات میں گھر کا پتہ پوچھا جاتا تھا، اب فیس بُک کی آئی ڈی مانگی جاتی ہے۔ بدلاؤ یہیں تک محدود نہیں، کبھی کبھی ہم خوش ہوکر سوچتے ہیں کہ اِس سوشل میڈیا سائٹ نے جینا کتنا آسان کردیا ہے۔

یہ کوئی آسانی سی آسانی ہے کہ آپ کو مبارک باد دینے کے لیے فون بھی نہیں کرنا پڑتا، فیس بک جنم دن کی اطلاع فراہم کردیتا ہے اور آپ 'سال گرہ مبارک' اور کیک یا گُل دستے کی خوب صورت تصویر کے ساتھ صاحبِ سال گرہ کی وال پر مبارک باد کی رسم نمٹا دیتے ہیں۔

اِسی طرح تعزیت کا فریضہ ہو یا کسی سانحے پر غم کا اظہار، بالمشافہ پُرسہ دینا پُرانی وضع ٹھہری، اب تو موت یا المیے کی خبر دیتی پوسٹ پر ایک آنکھ سے آنسو بہاتا عکسی اظہاریہ (اموجی) افسوس کے جذبات ٹرخا دیتا ہے، دوستوں اور اقارب کی خیریت اُن کے کمنٹس اور پوسٹس دیکھ کر معلوم ہوجاتی ہے، یہ جان کر دل کو اطمینان ہوتا ہے کہ نہ صرف زندہ ہیں، بہ خیر ہیں، بلکہ 'فیلنگ ناٹی' بھی۔

یہ خبر بھی مل جاتی ہے کہ کون عزیز اِن دنوں کس طرح کے کھانے کھا رہا ہے، اُس کی شیئر کی ہوئی مرغن غذاؤں اور مہنگے پیزا اور برگر کی تصاویر دیکھ کر مالی حالات سے بھی آگاہی حاصل ہوجاتی ہے۔

اور تو اور اب شیطان بھی ہماری عملی زندگی سے زیادہ فیس بُک پر ہماری سرگرمیوں پر توجہ دینے لگا ہے۔ چنانچہ جب بھی نیکی اور تقویٰ پر مبنی کسی پوسٹ کی رونمائی ہوتی ہے، ساتھ خبردار بھی کیا جاتا ہے کہ 'اِس پوسٹ کو شیئر یا لائیک کرنے سے شیطان آپ کو روکے گا۔' ایسی پوسٹ دیکھ کر ہم خود ہی اِس پر پسندیدگی کا نشان ثبت کرنے یا اُسے آگے بڑھانے سے رُک جاتے ہیں، کیونکہ ہماری غیرت ایمانی گوارہ نہیں کرتی کہ شیطان ملعون کے روکنے سے رُک کر اُسے خوش کریں۔

فیس بُک نے لوگوں کو سماجی، اخلاقی، سیاسی اور مذہبی خدمات انجام دینے کا موقع دیا ہے، جس سے پورا پورا فائدہ اُٹھایا جارہا ہے۔ آپ اپنے کاموں سے فارغ ہوکر یا سوکر اُٹھیں، ایک بھرپور انگڑائی لیں اور پھر فیس بُک پر آکر جس قسم کی خدمت کے لیے بے تاب ہیں اُس میں مگن ہوجائیے۔

معاشرے کی فلاح و بہبود کا خیال آپ کو بے کَل کیے ہوئے ہے تو اصلاحی مواد پر مبنی پوسٹیں اور وڈیوز کی بھرمار کردیجیے، اِس طرح معاشرے کی عملی خدمت میں ضائع ہونے والا وقت بھی بچے گا اور سماجی برائیوں کے خلاف عملاً کچھ کرنے پر ہونے والے مخالفانہ ردِعمل سے بھی محفوظ رہیں گے۔

مذہبی تعلیمات کے فروغ کا نیک جذبہ دل میں انگڑائیاں لے رہا ہے تو آیات اور احادیث نہ صرف شیئر کیجیے بلکہ دوسروں کے اِن باکس میں بھی بھیج کر ثواب کماتے رہیے، لیکن حقیقت کی دنیا میں (جس میں کبھی کبھی ہی آنا ہوگا) حرام خوری سے متعلق کوئی آیت یا حدیث سُنا کر اپنے کسی پڑوسی، دوست یا عزیز کی حرام کمائی پر سوال مت اٹھائیے، ورنہ آپ فیس بک پر اپنی خدمات کا سفر ادھورا چھوڑ کر دنیا سے اُٹھ بھی سکتے ہیں۔

فیس بک کی اِس گراں قدر سہولت کی وجہ سے ہمارے یہاں مصلحین، دانشوروں اور سماجی خدمت گزاروں کی تعداد دن دوگنی رات چوگنی بڑھ رہی ہے۔ اب تک ہر گھر سے بھٹو نکلتا تھا اب ہر گھر سے مصلح اور دانش ور نکل رہا ہے اور اپنی اصلاح اور دانش فیس بُک پر اُگل رہا ہے۔

اِس سماجی نیٹ ورک کی صورت میں ہم پاکستانیوں کو لڑنے جھگڑنے کا ایک محفوظ پلیٹ فارم بھی میسر آگیا ہے۔ اب مسلکی سرپھٹول اور فرقہ وارانہ جدال کے لیے کوئی 'لشکر' تیار کرنے کی ضرورت نہیں، ایسے نیک مقاصد کی تکمیل فیس بُک پر پیج بنا کر کی جاسکتی ہے، پھر اُس ڈیڑھ اینٹ کی مسجد میں بیٹھ کر جتنی چاہے آگ اُگلیے کوئی پوچھنے والا نہیں۔

اِس سائٹ نے ہماری ہمت اور جرات کو وہ بلندیاں عطا کی ہیں کہ ہم پورے طنطنے کے ساتھ فیس بک کے نیلے گگن پر اُڑ رہے ہوتے ہیں۔ جو لوگ بالمشافہ اختلاف کے نام پر چوں بھی نہیں کرپاتے، وہ اِس سائٹ پر اختلاف رائے کا آغاز ہی گالی سے کرتے ہیں۔ یہ ڈیجیٹل بہادر اور سورما اکثر اپنے نام کے بجائے جعلی آئی ڈیز کے ساتھ دلیری کے مظاہرے کرتے نظر آتے ہیں، دراصل اِن کی جرات بڑی باحیا ہوتی ہے، سو پردہ کیے رکھتی ہے۔

فیس بُک کے آنے کے بعد احمد فراز کا یہ شعر پوری طرح سمجھ میں آگیا ہے:

اب کے ہم بچھڑیں تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں

جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں

زندگی اور اُس کی حقیقتوں سے بچھڑ جانے والے لوگ اب خوابوں اور خواہشات کی اِس کتاب میں پائے جاتے ہیں جس کا نام ہے فیس بُک۔


عثمان جامعی شاعر، قلم کار، مزح نگار، بلاگر، صحافی ہیں۔ آپ کی ایک کتاب ’کہے بغیر‘ بھی شائع ہوچکی ہے۔ آپ اِس وقت ایک اخبار میں بطور ’سنڈے میگزین‘ انچارج ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

عثمان جامعی

عثمان جامعی شاعر، قلم کار، مزاح نگار، بلاگر، صحافی ہیں۔ آپ کی تین کتابیں شائع ہوچکی ہیں، جن میں فکاہیہ مضامین کا مجموعہ ’کہے بغیر‘، شعری مجموعہ ’میں بس ایک دیوار‘ اور کراچی کے حوالے سے ناول ’سرسید، سینتالیس، سیکٹرانچارج‘ شامل ہیں۔ آپ اس وقت ایک اخبار میں بطور ’سنڈے میگزین‘ انچارج ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (9) بند ہیں

Samo shamshad Oct 23, 2017 01:09pm
zbbrdast..............................reality
قادر خان افغانؔ Oct 23, 2017 01:44pm
فیس بک نے ہمارے سماجی و اخلاقی معیار کو مکمل تبدیل کرکے رکھ دیا ہے ۔ تمام مکالمے کی تمام باتوں سے مکمل اتفاق ہے ۔ تاہم فیس بک کی وجہ سے فوائد بھی میسر ہیں ، کم ازکم بات جب خطوط کی نکلتی ہو اور نامہ بر کی ناز برداریوں کی ہو ، اور سالگرہ کا دن اپنی مصروفیات کی وجہ سے بھول جانے کا ہو تو فیس بک یاد دلاِدیتا ہے کہ میاں ، اٹھو ، پیزا کھلاتے وقت رات ٹھیک بارہ بجے مبارک دے ڈالو ۔ ورنہ نقصان کافی اٹھانا پڑے گا ، برسوں کی محنت ، تحفے تحائف ، مہنگی تفریحات ، فون کی بڑے بڑے بل ، کانوں کا علاج ، رات کی بے خوابی ، دن میں انتشاری سب کچھ رائیگاں چلی جائے گی ، اس لئے جتنے پاپڑ بیلنے پڑے تھے وہ کچھ وقت تک کےلئے کارآمد بن جاتے ہیں۔ عثمان جامعی بھائی اتنا سچا بھی لکھا کرو ، انہیں پتہ لگ جاتا ہے ۔ کوئی نیا نسخہ بھی بتادیا کریں تاکہ حفظ ماتقدم کے طور پر کام لایا جاسکے ۔۔
Mudassir Iqbal umair Oct 23, 2017 01:53pm
جامعی صاحب نے بڑا جامع لکھا-
babar ali Oct 23, 2017 02:40pm
بہت عمدہ عثمان بھائی
noman ghafoor Oct 23, 2017 02:49pm
Facebook is an uncontrolled forum. The good thing is that most of the time people express their frustration at the forum and minimize their depression. The interesting thing is that NOBODY read what others are writing there. Few people believe that they are the change agents through such forums. Anyways, until such forums are not used for destruction of society these forums are helpful to utilize the energy of young generation. Usman sahib have done a balanced analysis. Great work Sir.
Syeda SaimaUsman Oct 23, 2017 04:37pm
Aik bar pher chaa gae jamaie .
فرحین شیخ Oct 23, 2017 06:53pm
طنز و مزاح سے بھر پور ایک خوب صورت تحریر ۔۔۔
muhammad usman jamaie Oct 23, 2017 07:53pm
آپ سب کا شکر گزار ہوں
Syeda Saima Usman Oct 24, 2017 06:32pm
@muhammad usman jamaie