بلوچستان نے بُلایا اور ہم چلے آئے
میں آج کل اسلام آباد میں رہتا ہوں، جبکہ عمر کا غالب حصہ کراچی میں گزرا ہے۔ میرا آبائی تعلق سندھ کے ضلع جیکب آباد سے ہے۔ جیکب آباد پاکستان بننے سے پہلے بلوچستان کا حصہ تھا۔ چنانچہ اِس تعلق سے میں بھی کسی نہ کسی حد تک بلوچ ہوں، بلکہ بلوچستان کے لوگ تو کراچی کو بھی اپنا حصہ مانتے ہیں، یوں یہ تعلق دوطرفہ ہوگیا۔
میں نے 1992ء میں کراچی سے تہران و شمالی ایران تک کا سفر براستہ بلوچستان کیا تھا، اِس کے بعد 2000ء میں آذربائیجان کے دارالحکومت باکو Baku تک سفر بھی آر سی ڈی ہائی وے کے ذریعے براستہ بلوچستان و ایران کیا تھا۔ یہ ایسے انوکھے، سُہانے اور یادگار سفر تھے کہ اِن میں پیش آنے والے حالات و واقعات کی سہانی یادیں آج تک دل کی چٹکیاں لیتی رہتی ہیں۔
تقریباً ہر برس جی چاہتا کہ ایک بار پھر اِنہی راستوں پر گامزن ہوا جائے، لیکن حالات، ہائے یہ ظالم حالات کی وجہ سے کبھی اِن راستوں پر جانے کی مجھ میں ہمت ہی پیدا نہ ہوسکی۔ ہاں اِس دوران مکران کوسٹل ہائی وے پر کراچی سے گوادر تک سفر کا ایک موقع ضرور ملا تھا، لیکن کوسٹل ہائی سے ملحق یہ علاقے بلوچستان کا ایک الگ ہی روپ ہیں۔ مکران کوسٹل ہائی وے ابتداء ہی سے سیکیورٹی اداروں کی نظر میں ہونے کے باعث بدامنی سے محفوظ رہا ہے۔
آج، جبکہ ہر طرف سی پیک کا غلغلہ ہے اور اِس سی پیک کا اہم ترین حصہ بلوچستان میں تعمیر ہونے جارہا ہے تو اِس حوالے سے خطے میں جن تبدیلیوں کا امکان ہے، اِن کا سب سے زیادہ اثر بلوچستان پر ہی پڑنے کا امکان ہے۔ مستقبل میں آنے والی اِن تبدیلیوں کے آثار بلوچستان میں ابھی سے محسوس ہونا شروع ہوگئے ہیں اور امن وامان کی صورتحال بہتر ہوجانے کے باعث ہم جیسے سیاح اب اپنے اندر بلوچستان کی سہانی سیاحتوں کی ہمت پیدا کرنے میں بھی کامیاب ہو رہے ہیں۔
رواں سال ہم رمضان المبارک اور عید کی چھٹیاں گزارنے اسلام آباد سے کراچی آئے۔ عید کے بعد اسلام آباد واپسی کے لیے میرے ذہن میں یہ اچھوتا خیال آیا کہ کیوں نہ واپسی کا سفر سندھ و پنجاب کی روایتی شاہراہوں کے بجائے بلوچستان کے غیر روایتی راستے کے ذریعے کیا جائے۔ یہ راستہ اختیار کرنے کا ایک فائدہ تو یہ تھا کہ عید کے بعد کراچی سے پنجاب کی طرف جانے والی گاڑیوں پر رش سے بھی بچا جاسکتا تھا اور ساتھ ہی اِس سفر میں ہم پاکستان کے چاروں صوبوں سے بھی گزر سکتے تھے، وہ اس طرح کہ جب ہم کراچی سے نکلتے تو صوبہ سندھ میں ہوتے، لسبیلہ سے بلوچستان میں داخل ہوتے اور خضدار و قلات سے ہوتے ہوئے کوئٹہ پہنچتے۔
کوئٹہ سے آگے کچلاک، قلعہ سیف اللہ اور ژوب سے گزر کر جب ہم صوبہ بلوچستان سے باہر نکلتے ہیں تو خود کو صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں پاتے، پھر مزید آگے سفر کرتے ہوئے پنجاب کے ضلع میانوالی میں داخل ہوجاتے اور بالآخر تلہ گنگ کے راستے اسلام آباد موٹروے پر جا چڑھتے جو ہمیں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد تک پہنچا دیتی۔ یعنی سندھ، بلوچستان، خیبرپختونخوا، پنجاب اور وفاق تک کا بین الصوبائی سفر، گریٹ آئیڈیا۔ تو یہ طے ہوگیا کہ ہم اسلام آباد واپسی کا سفر بلوچستان ہی کے راستے سے کریں گے۔
میرے آبائی شہر، جیکب آباد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ برِصغیر پاک و ہند میں سب سے زیادہ گرمی جیکب آباد میں پڑتی ہے، لہٰذا گرمی سے بچنے کے لیے ہمارے جیکب آبادی عزیز ہر سال گرمیوں کے دن کوئٹہ میں گزارتے ہیں، کیونکہ سطحِ سمندر سے ساڑھے 5 ہزار فِٹ بلندی پر واقع ہونے کے باعث یہاں گرمی بہت کم پڑتی ہے اور موسم عام طور پر ٹھنڈا ٹھار ہی رہتا ہے۔ میرے جیکب آبادی عزیز اُس وقت کوئٹہ میں موجود تھے، اِس لیے کراچی سے اسلام آباد تک کے اِس سفر کے بیچ کوئٹہ میں بھی چند دن گزارے جا سکتے تھے۔
کراچی سے کوئٹہ جانے کے لیے کئی سفری ذرائع دستیاب ہیں۔ بذریعہ ٹرین جانا چاہیں تو براستہ جیکب آباد جایا جاسکتا ہے لیکن یہ راستہ خاصا طویل ہے، جبکہ بذریعہ سڑک کراچی سے براستہ لسبیلہ، خُضدار اور قلات آپ 8 سے 10 گھنٹے میں کوئٹہ پہنچا جا سکتا ہے۔ کراچی میں کوئٹہ جانے والی بسوں کے اڈے پرانی سبزی منڈی، صدر اور لی مارکیٹ میں موجود ہیں جہاں نان اے سی کوچ سے لے کر ٹو سیٹر لگژری ایئر کنڈیشنڈ آرام دہ بسوں تک ہر طرح کی سواریاں دستیاب ہیں۔ اِن گاڑیوں کے علاوہ کار سروس بھی دستیاب ہوتی ہے جو آپ کو کراچی میں گھر سے اٹھائے گی اور کوئٹہ میں گھر پر اتار ے گی۔ البتہ اِن کاروں کا معاوضہ ڈیمانڈ اینڈ سپلائی کے مطابق اوپر نیچے ہوتا رہتا ہے۔
عید کے بعد چونکہ کوئٹہ جانے والوں کا رش کم ہوجاتا ہے اِس لیے اِن کاروں کا معاوضہ بھی خاصا نیچے آجاتا ہے۔ ہمیں پانچ سیٹیں درکار تھیں۔ بس میں 1500 روپے فی کس کے حساب سے یہ ساڑھے سات ہزار روپے بنتے تھے، جبکہ مجھے ایک نئی کار صرف 9 ہزار روپے میں مل گئی۔ اگلے دن صبح سویرے یہ گاڑی کراچی میں ہمیں لینے کے لیے گھر کے دروازے پر پہنچ گئی۔
ایئرپورٹ کے پیچھے واقع ایکسپریس وے سے ہوتے ہوئے ہم سُپر ہائی وے پر چڑھے اور پھر ناردرن بائی پاس سے ہوتے ہوئے کچھ ہی دیر میں حب ندی کے پُل پر پہنچ گئے، ندی عبور کرتے ہی بلوچستان شروع ہوگیا۔
برِصغیر میں انگریزوں کی آمد سے قبل بلوچستان ایک آزاد ریاست کی حیثیت رکھتا تھا اور یہاں خان آف قلات میر محراب خان کی حکومت تھی۔ انگریزوں نے 1939ء میں قلات پر حملہ کردیا اور میر محراب خان کو قتل کردیا۔ انگریزوں نے بلوچستان کو دو حصوں ’ریاستی بلوچستان‘ اور ’برٹش بلوچستان‘ میں تقسیم کردیا۔ ریاستی بلوچستان میں قلات، خاران، مکران اور لسبیلہ کی ریاستیں شامل تھیں، جبکہ برٹش بلوچستان میں ڈیرہ بگٹی، سبی، کوئٹہ، نوشکی، لورالائی، ژوب، پشین، قلعہ عبد اللہ اور جھل مگسی وغیرہ شامل تھے۔ پھر جب برِصغیر میں تحریک آزادی شروع ہوئی تو بلوچستان بھی اِس میں پیش پیش رہا۔
1945ء میں قائدِاعظم محمد علی جناح نے بلوچستان کا دورہ کیا تو جدوجہد آزادی میں مزید تیزی آگئی۔ بالآخر پاکستان آزاد ہوا اور خان آف قلات، جام آف لسبیلہ، نواب آف خاران اور نواب آف مکران نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کردیا۔ 1970ء میں جب ون یونٹ ختم کیا گیا تو بلوچستان کو صوبے کا درجہ دیا گیا اور کوئٹہ کو صوبائی دارالحکومت بنا دیا گیا۔
بلوچستان اپنے رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ اِس کے شمالی حصے میں کوہِ سلیمان کا طویل پہاڑی سلسلہ پھیلا ہوا ہے جو بلوچستان کو صوبہ پنجاب سے جدا کرتا ہے، جبکہ کیرتھر کا پہاڑی سلسلہ سندھ اور بلوچستان کے درمیان حد بندی کرتا ہے۔ بلوچستان زیادہ تر پہاڑی، ناہموار اور خشک ہے، لیکن قدرت نے اِسے معدنی وسائل سے مالامال کر رکھا ہے۔ قائداعظم نے ایک بار کہا تھا:
’بلوچستان کو اللہ تعالیٰ نے زمین کے اندر دولت دی ہے اور باقی علاقوں کو زمین کے اوپر‘
یہاں قدرتی گیس، کوئلہ اور سنگِ مرمر کے وسیع ذخائر پائے جاتے ہیں۔ پاکستانی ایٹمی دھماکے کے حوالے سے معروف علاقے چاغی میں جہاں دنیا کا بہترین سبز سنگِ مرمر نکلتا ہے وہیں سیندک کے مقام پر تانبے، سونے اور چاندی کے ذخائر بھی دریافت ہوئے ہیں۔
ہم جس سڑک پر سفر کر رہے تھے وہ قدیم آر سی ڈی ہائی وے تھی جو کہ حَب، اوتھل، لسبیلہ، خُضدار، قلات اور مستونگ سے ہوتی ہوئی کوئٹہ تک جاتی ہے۔ بلوچستان میں سفر کرنے کے لیے چار مرکزی سڑکیں ہیں جو مختلف اطراف سے صوبے میں داخل ہوتی ہیں اور تمام کوئٹہ میں ملتی ہیں۔
کراچی سے کوئٹہ اور آگے پاک افغان بارڈر چمن تک جانے والی سڑک نیشنل ہائی وے N-55 ہے جس کا کراچی سے کوئٹہ تک کا حصہ قدیم بین الاقوامی شاہراہ آر سی ڈی ہائی وے (RCD Highway) کا پہلا حصہ ہے۔ آر سی ڈی ہائی وے کا دوسرا حصہ کوئٹہ سے نوشکی، دالبندین، نوکنڈی اور تفتان سے ہوتا ہوا ایران کے شہر زاہدان تک جاتا ہے۔ یہ سڑک پاکستان کو ایران اور ترکی سے ملاتی ہے۔ برِصغیر سے یورپ جانے کے لیے یہ راستہ صدیوں سے استعمال ہوتا آیا ہے۔ بوڑھے بلوچ تو آج بھی اِس سڑک کو لندن روڈ ہی کہتے ہیں۔
پاکستان، ایران اور ترکی کے مابین ہونے والے معاہدے ’علاقائی تعاون برائے ترقی‘ کے بعد اِس سڑک کا نام آر سی ڈی ہائی وے رکھ دیا گیا تھا۔ پہلے پاکستان سے یورپ جانے والے سیاح درہ خیبر اور افغانستان کے راستے ایران پہنچتے تھے اور پھر ترکی سے ہوتے ہوئے یورپ میں داخل ہوجاتے تھے، لیکن افغان جنگ کے بعد سے جب یہ راستہ غیر محفوظ ہوا تو یورپ کے لیے آر سی ڈی ہائی وے ہی واحد زمینی راستہ رہ گیا ہے۔
کوئٹہ سے تفتان تک یہ سڑک 6 سو کلومیٹر طویل ہے۔ یہ راستہ ایک تاریخی اہمیت بھی رکھتا ہے۔ 16ویں صدی میں جب شہنشاہ ہمایوں شکست کھا کر ہندوستان سے ایران کی طرف فرار ہوا تب یہی راستہ اُس کی گزرگاہ تھا۔ اِس ویران راستے پر سفر شروع کرنے سے قبل اُس نے اپنی ملکہ حمیدہ اور اپنے نوزائیدہ بچے اکبر کو کوئٹہ ہی میں چھوڑ دیا۔ دو برس بعد جب وہ ایران سے واپس آیا تو اکبر 3 برس کا ہوچکا تھا۔ یہ وہی اکبر تھا جو بعد میں 'شہنشاہ اکبر اعظم‘ کے نام سے معروف ہوا۔
یہاں کوئٹہ سے زاہدان جانے والی ریلوے لائن کا ذکر بھی کرتا چلوں کہ یہ ریلوے لائن بھی پہاڑوں میں مڑوان راستوں سے گزرتی ہے اور اِسی سڑک کے ساتھ ساتھ آنکھ مچولی کھیلتی چلتی ہے۔ یہ ریلوے لائن 80 برس سے زیادہ پرانی ہے اور اِس کی کہانی بھی بڑی ہی دلچسپ ہے۔ پہلی جنگِ عظیم میں جب انگریز فوج کو جنگی ساز و سامان کی تیزی سے نقل و حرکت کی ضرورت پڑی تو کوئٹہ اور زاہدان کے درمیان ریلوے لائن بچھانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اگست 1916ء میں یہ لائن بچھنا شروع ہوئی اور 1918ء تک صرف دو برس میں ساڑھے 7 سو کلومیٹر تک مکمل ہوگئی۔
تاہم اُس وقت تک جنگ کا الاؤ بھی سرد ہونے لگا تھا اور چونکہ یہ خالصتاً فوجی مقاصد کے لیے بنائی گئی تھی اِس لیے اِس کا استعمال بھی محدود ہوگیا۔ حتیٰ کہ اِسے غیر ضروری قرار دے کر نوکنڈی اور زاہدان کے درمیان 200 کلومیٹر طویل ریلوے لائن کی پٹریاں بھی اُکھاڑ لی گئیں، لیکن جب دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی تو اُس حصے میں پھر پٹریاں بچھا کر اُسے زاہدان تک مکمل کردیا گیا۔ یوں 1942ء میں یہ لائن دوبارہ کھل گئی اور آج تک زیرِ استعمال ہے۔
کوئٹہ جانے کے لیے دوسرا اہم راستہ وہ ہے جو سکھر سے شروع ہوکر جیکب آباد سے گزرتا ہوا ڈیرہ اللہ یار کے مقام پر بلوچستان میں داخل ہوتا ہے اور پھر سبی سے گزر کر درہ بولان کی پرپیچ چڑھائیوں کو عبور کرتا ہوا کوئٹہ پہنچتا ہے، جبکہ خیبر پختونخوا سے کوئٹہ آنے والی سڑک ژوب، قلعہ سیف اللہ اور مسلم باغ کے راستے آتی ہے۔ اِسی طرح پنجاب سے آنے والی سڑک ڈیرہ غازی خان سے نکل کر فورٹ منرو کے قریب بلوچستان میں داخل ہوتی ہے اور پھر لورالائی، زیارت اور کچلاک کے راستے کوئٹہ آتی ہے۔
ہم حب ندی کو عبور کرکے تھوڑا ہی آگے چلے ہوں گے تو حَب چوکی کا قصبہ آگیا۔ بے شمار ہوٹل، دوکانیں، پیٹرول پمپس، ریڑھے، پتھارے، چائے، پراٹھے اور گندگی و بے ترتیبی سے گزر کر آگے نکلے تو حب انڈسٹریل ایریا شروع ہوگیا۔ سڑک کے دائیں بائیں فیکٹریاں، کارخانے اور گودام نظر آئے۔ حب ضلع لسبیلہ کی تحصیل ہے، یہ بلوچستان کا سب سے بڑا صنعتی زون ہے اور اِس کی وسعت کی وجہ اِس کا کراچی سے ملحق ہونا ہے۔ حب چوکی سے چند کلومیٹر آگے گڈانی موڑ تھا۔ یہاں مرکزی سڑک سے ایک تنگ سڑک بائیں طرف نکل رہی تھی اور گڈانی کے ساحل تک جا رہی تھی۔ گڈانی جہاں اپنی شپ بریکنگ انڈسٹری کی وجہ سے خاصا معروف ہے وہیں اِس کا خوبصورت نیلا ساحل بھی کراچی کے پکنک منانے والوں میں بہت مقبول ہے۔
سڑک اونچے نیچے راستوں اور پہاڑی نشیب و فراز سے گزر رہی تھی۔ اِن موڑ در موڑ اونچائیوں سے بار بار جھاگ دار سمندری لہروں کی جھلکیاں نظر آتیں تو دل خوش ہوجاتا تھا، سڑک کبھی کبھی سمندر کے بالکل قریب بھی چلی جاتی۔ صبح صبح کا وقت اور دو دن پہلے ہونے والی موسلادھار بارش کے باعث موسم خوشگوار اور ہوا ٹھنڈی تھی۔ خیر ہم تو گاڑی کے اندر تھے اور اُس کے اے سی کی خوشگوار ٹھنڈک میں تھے۔
وِندر سے تھوڑا آگے آئے ہوں گے کہ زیرو پوائنٹ آگیا۔ یہ جگہ زیرو پوائنٹ اِس لیے کہلاتی ہے کہ یہاں سے بائیں طرف مڑنے والی سڑک مکران کوسٹل ہائی وے ہے۔ یہ جگہ چونکہ اِس سڑک کا اسٹارٹنگ پوائنٹ ہے اِس لیے زیرو پوانٹ کہلاتی ہے۔ ساڑھے 6 سو کلومیٹر طویل مکران کوسٹل ہائی وے بلوچستان کی ایک ایسی سڑک ہے جو کوئٹہ نہیں بلکہ گوادر جاتی ہے۔ یہ سڑک اِس مقام سے شروع ہوتی ہے اور ہنگول نیشنل پارک، کُنڈ ملیر، اورماڑہ اور پسنی سے ہوتی ہوئی گوادر تک جاتی ہے۔ میں نے 2008ء میں اِس سڑک پر گوادر تک کا یادگار سفر کیا تھا اور نیلگوں ساحلوں کے ساتھ ساتھ اِس حسین سفر کے بعد میرے دل نے اِس علاقے کو ’سنہرے ساحلوں کی سرزمین‘ کا نام دیا تھا۔
جب اوتھل پہنچے تو دیکھا کہ سڑک کے دونوں اطراف دوکانیں تھیں، بچوں نے شور مچادیا کہ ہمیں جوس، چپس اور بسکٹ لینے ہیں اور ڈرائیور نے گاڑی روک دی۔ دکان میں پاکستانی پروڈکٹس کے ساتھ ساتھ ایرانی اشیاء بھی رکھی نظر آئیں۔ قیمتیں حیرت انگیز طور پر بڑی مناسب تھیں۔
اب ہم بیلہ آن پہنچے تھے۔ یہاں سے بائیں جانب اَواران کے لیے سڑک مڑ رہی تھی۔ وہی اَواران جہاں 2013ء میں زلزلے نے بڑی تباہی مچائی تھی اور تقریباً ایک ہزار افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ میں اُس زلزلے کے کچھ عرصے بعد ایک این جی او کے ساتھ اِس راستے پر اَواران گیا تھا۔
وَڈھ سے سڑک بلندیوں کی طرف چڑھنا شروع ہوگئی۔ یہی تو وہ چڑھائیاں ہیں جن سے گزرتے بلکہ بلندی پر چڑھتے ہوئے مسافر رفتہ رفتہ کوئٹہ کی ساڑھے 5 ہزار فٹ بلندی تک پہنچ جاتا ہے، لیکن ابھی تو کوئٹہ بہت دور تھا۔ جب ہم پنجاب کی طرف جاتے ہیں تو جہلم تک میدانوں میں سفر کرتے ہیں، دریائے جہلم عبور کرنے کے بعد کہیں جا کر چڑھائیاں شروع ہوتی ہیں جو رفتہ رفتہ بلند ہوتی ہوئی پاک چین سرحد پر درّہ خنجراب کی 16 ہزار فٹ بلندی تک چلی جاتی ہیں۔ لیکن اگر ہم پاکستان کے شمال کی طرف سفر کرنے کے لیے بلوچستان کا راستہ اختیار کریں تو کراچی سے تھوڑا سا سفر کرنے کے بعد ہی سطح بلند ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ اب یہ پہاڑی سڑکیں خیبر پختونخوا تک آپ کا ساتھ نہیں چھوڑتیں۔
خُضدار پہنچتے پہنچتے دوپہر ہوگئی، شہر کے شروع ہی میں ڈرائیور چمروک ہوٹل کے احاطے میں داخل ہونے کے لیے مُڑ گیا اور گاڑی روک دی۔ وہاں میری یادوں کے تار جھنجھنا اُٹھے، یہ تو وہی چمروک ہوٹل تھا کہ جہاں میں نے 1992ء میں ایران جاتے ہوئے رات کا کھانا کھایا تھا، یعنی اِس بات کو آج 25 سال گزر گئے، ہم کہاں سے کہاں پہنچ گئے مگر یہ قدیم ہوٹل اُسی مقام پر اپنے قدم مضبوطی سے جمائے کھڑا ہے۔ ہم گاڑی سے اُتر کر ہوٹل کے خنک ہال میں چلے آئے۔ کھانا تو ہم گھر سے ساتھ لے کر چلے تھے لیکن میں نے تبرک کے طور پر پھر بھی ہوٹل کا کھانا منگوالیا۔
خُضدار آج کل ملکی سیاحوں، خصوصاً کراچی والوں میں اپنے معروف پکنک پوائنٹ 'مولا چٹوک' کی وجہ سے خاصا مقبول ہو رہا ہے۔ مولا چٹوک خضدار شہر سے 80 کلومیٹر کے فاصلے پر سطح سمندر سے ساڑھے 3 ہزار فٹ کی بلندی پر شفاف پانی کے جھرنوں اور آبشاروں سے گھرا ہوا ایک ایسا قدرتی سوئمنگ پول ہے کہ جس کی تصویروں کی پہلی جھلک ہی آپ کو بے چین کردیتی ہے۔ دل ہی دل وہاں جانے کی تمنا بھی کرلی۔
خضدار سے تقریباً 50 کلومیٹر آگے آئے ہوں گے کہ سوراب نامی ایک چھوٹا قصبہ آگیا۔ کبھی گمنام ہوگا مگر اب مشہور ہوگیا ہے کیونکہ یہاں ایک نئی شاہراہ N-85 زیرِ تعمیر ہے جو اَواران، تربت اور پنجگور سے ہوتی ہوئی گوادر تک جائے گی۔ اِس سڑک کی تعمیر کے بعد کوئٹہ سے گوادر جانے والوں کو وِندر میں کوسٹل ہائی وے کے زیرو پوائنٹ تک جانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
اب ہم قلات کی سطح مرتفع میں سفر کر رہے تھے، سڑک تقریباً ہموار تھی جس پر ہماری ٹویوٹا فیلڈر فراٹے لیتی چلی جا رہی تھی۔ قلات اپنی ساڑھے 6 ہزار فٹ بلندی کے باعث ایک ٹھنڈا علاقہ ہے۔ سردیوں میں یہاں درجہ حرارت منفی 4 ڈگری سینٹی گریڈ تک چلا جاتا ہے اور جون جولائی میں بھی یہاں 16 یا 17 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ اوپر نہیں جاتا۔ ٹھنڈی آب و ہوا محسوس کرتے ہی ڈرائیور نے فوراً گاڑی کا اے سی بند کردیا اور کھڑکیاں کھول دیں۔
اب ہم مستونگ میں تھے، یہاں سے ایران کی طرف سڑک جاتی ہے۔ اِس بین الاقوامی دوراہے کے باعث یہ قصبہ ترقی کرتے ہوئے رفتہ رفتہ ایک شہر کی شکل اختیار کرتا جارہا ہے۔ مستونگ پہلے قلات کی تحصیل تھا، اب خود ایک ضلع بن گیا ہے۔ میری عمر 5 سے 6 برس تک ہوگی جب ابّا گرمیاں گزارنے کے لیے خیرپور سے مستونگ ہمیں ساتھ لائے تھے۔ ماضی کا مستونگ نہ جانے کہاں گیا، بلکہ اپنے وجود میں بھی جب اِس 5 سال کے بچے کو ڈھونڈتا ہوں تو وہ بھی کہیں نظر نہیں آتا۔
مستونگ سر سبز ہے اور پُررونق بھی۔ مستونگ میں ایران کی خوشبوئیں آتی ہیں۔ مستونگ میرے ایران و آذربائیجان کی دو یادگار سیاحتوں کا گواہ ہے۔ مستونگ تُو خوش رہے، تُو آباد رہے۔
یہی نہیں بلکہ مستونگ کوئٹہ کی قربتوں کی علامت بھی ہے۔ یہاں ایران جانے والی سڑک ہم سے بے نیاز بائیں طرف کو مڑ گئی۔ میں گردن گھما گھما کر اُس کو حسرت سے دیکھتا رہ گیا۔ تھوڑا سا ہی آگے چلے ہوں گے کہ لک پاس ٹول پلازہ آگیا۔ لک پاس قلات اور کوئٹہ کے درمیان 6 ہزار فٹ بلند پہاڑی درّہ ہے۔ لک پاس ٹول پلازہ کے بعد کوئٹہ کا فاصلہ صرف 25 کلو میٹر ہی رہ جاتا ہے، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ شہروں میں تیزی سے بڑھتی آبادیاں مضافات کو نگلتی جارہی ہیں۔ تو جناب کوئٹہ بھی اب لک پاس سے آ ٹکرایا ہے۔ ہم نے درّہ ابھی عبور بھی نہیں کیا ہوگا کہ کوئٹہ نے ہمیں اپنے گھیرے میں لے لیا۔
عبیداللہ کیہر پیشے کے لحاظ سے میکینیکل انجینیئر، مگر ساتھ ہی سیاح، سفرنامہ نگار، پروفیشنل فوٹوگرافر اور ڈاکومنٹری فلم میکر ہیں۔ آپ کی اب تک 7 کتابیں بھی شائع ہوچکی ہیں۔ آبائی تعلق سندھ کے شہر جیکب آباد سے ہیں۔ عمر کا غالب حصہ کراچی میں گزارا اور اب اسلام آباد میں رہتے ہیں ۔
تبصرے (6) بند ہیں