یورپ پہنچنے کی کوشش میں سمندر برد ہونے والے طارق کی داستان
15 سالہ محمد طارق کی ماں آج بھی اپنے بیٹے کی تصویر کے سامنے بیٹھی اس امید پر آنسو بہا رہی ہے کہ ایک دن اُن کا بیٹا گھر لوٹ آئے گا، مگر وہ اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ ان کے بیٹے کی زندگی کی سانسیں ترکی کے ایک بے رحم سمندر نے چھین لی ہیں۔
محمد طارق کا تعلق دہشت گردی سے متاثرہ پاکستان کے قبائلی علاقے مہمند ایجنسی سے تھا، 2005 میں اس نے غربت کو شکست دینے اور اپنے خاندان کی تقدیر بدلنے کا خواب آنکھوں میں سجائے غیر قانونی طریقے سے یورپ جانے کا فیصلہ کیا، لیکن ترکی کے سمندر میں کشتی اُلٹنے سے موت کے منہ میں چلا گیا۔
محمد طارق کے بھائی کو آج بھی یہ امید ہے کہ ایک دن اُس کی لاش کو گھر پہنچا دیا جائے گا، جسے قبر میں دفنا کر ان کو سکون مل جائے گا، طارق کے بھائی بسولی خان کہتے ہیں 'میں شمالی وزیرستان کے ایک ہسپتال میں ڈیوٹی پر مامور تھا، جب مجھے اطلاع دی گئی کہ طارق نے غیر قانونی طریقے سے یورپ جانے کا فیصلہ کیا ہے، میں نے اس بات کو زیادہ سنجیدہ نہیں لیا، کیوں کہ طارق بہت کم عمر تھا اور مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ میرا بھائی کوئی ایسا قدم بھی اُٹھا سکتا ہے'۔
بسولی خان نے بتایا، '2 مہینے بعد جب میں گھر لوٹا تو میرا بھائی گھر میں نہیں تھا ، والد صاحب نے بتایا کہ طارق پشاور کے تجارتی مرکز نمک منڈی میں ایک اٖفغانی ایجنٹ مولا شربت کے توسط سے براستہ ایران یورپ جانے کے لیے روانہ ہوگیا ہے، میرے والد نے بتایا کہ ہم نے افغان ایجنٹ کو 5 لاکھ روپے ادا کیے ہیں اور ایجنٹ نے وعدہ کیا کہ طارق ایک مہینے کے اندر اندر لندن پہنچنے میں کامیاب ہوجائے گا، 2 مہینے طارق ہمارے ساتھ رابطے میں تھا، جس نے ہمیں بتایا کہ ایجنٹ نے پشاور میں ہمارے ساتھ جو وعدے کیے تھے وہ سب کے سب جھوٹے تھے، کیوں کہ یہاں راستے بہت مشکل ہیں، ہمارے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا جاتا ہے اور نہ ہی کھانے کا کوئی مناسب انتظام ہے'۔
40 سالہ بسولی خان کہتے ہیں 'وہ دن بہت مشکل تھا جب طارق نے راستوں کی مشکلات کاذکر کیا، میں نے اسے کہا پانچ لاکھ روپے کو گولی مارو ، تم گھر لوٹ آؤ، مگر وہ بضد رہا کہ میں واپس نہیں آؤں گا، کیوں کہ مجھے اپنے گھر والوں کا مستقبل سنوارنا ہے، 2 مہینے بعد طارق کا ہم سے رابطہ منقطع ہوگیا اور اسی طرح 5 مہینے گزر گئے، مگر طارق کا کوئی پتہ نہ چل سکا، ہم نے پشاور کے نمک منڈی میں ایجنٹ کے پاس جرگہ لے جانے کا فیصلہ کیا اور انھیں بتایا کہ طارق کے ساتھ ہمارا رابطہ نہیں ہورہا، آپ مہربانی کرکے مزید رقم بھی لے لیں، لیکن ہمارے بھائی کو واپس پاکستان بلائیں'۔
یہ بھی پڑھیں: 'پاکستان میں انسانی سمگلنگ میں مسلسل اضافہ'
طارق کے بھائی نے مزید بتایا کہ 'افغان ایجنٹ مولا شربت نے ہمیں ایک ہفتے کی مہلت دی کہ ایک ہفتے بعد طارق سے آپ کا رابطہ ہوجائے گا اور اس طرح ایک اور مہینہ گزر گیا، ہم نے مولا شربت کو مجبور کیا کہ ہمارے بھائی سے ہمارا رابطہ کروائے، آخر انہوں نے تنگ آکر ایک پاکستانی ایجنٹ کو بتایا کہ طارق 30 دیگر پاکستانیوں سمیت ترکی میں کشتی سمندر میں اُلٹ جانے سے جان بحق ہوگیا ہے'۔
بسولی خان کہتے ہیں 'میرے منہ سے اچانک ایک چیخ نکل گئی اور میں زار و قطار رونے لگا کہ میرا پھول جیسا بھائی کیسے سمندر میں ڈوب سکتا ہے؟ میں نے صبر سے کام لیا ،مگر میرے لیے سب سے زیادہ مشکل یہ تھا کہ اب یہ قیامت خیز خبر میں اپنے گھر والوں کو کیسے بتاؤں گا؟'
انہوں نے بتایا، 'خیر خدا خدا کرکے میں نے رات کو سب گھر والوں کو اکھٹا کرکے یہ بُری خبر سنا دی، والد نے تو اُس وقت یہ صدمہ برادشت کرلیا، مگر والدہ اسے برداشت نہ کرسکیں اور سنتے ہی بے ہوش ہوگئیں، پھر مستقل طور پر بلڈ پریشر جیسے مرض کا شکار ہوئیں اور اب اپنی زندگی کی سانسیں گن رہی ہیں کہ اللہ مجھے جلد طارق کے پاس پہنچا دے'۔
بسولی خان اب ہر شام اپنے والد کی قبر پر دعائیں کرنے جاتے ہیں جو طارق کی موت کی خبر سن کرپہلے ذیابیطس اور پھر کینسر کا شکار ہوگئے اور آخر میں یہ دنیا چھوڑ کر چلے گئے۔
طارق کے بھائی بسولی خان کہتے ہیں، 'جب میرے والد بسترِ مرگ پر تھے تو ہمیشہ خود کو قصور وار ٹھہراتے تھے کہ اگر میں طارق کو پانچ لاکھ روپے نہ دیتا تو وہ کبھی بھی بے رحم موجوں کی خوراک نہ بنتا'۔ بسولی کے مطابق ان کے والد کہتے تھے، 'وہ لمحہ آج بھی مجھے یاد ہے جب میں نمک منڈی پشاور میں اسے لندن کے لیے رخصت کر رہا تھا، کاش میں طارق کی جگہ مرسکتا'۔
بسولی خان کے ایک اور بھائی کے مطابق طارق کی موت صرف ہمارے خاندان کی موت نہیں تھی، بلکہ یہ ہمارے سارے رشتہ داروں کی موت ہے، اس موقع پر بسولی خان کی انکھوں میں آنسو نمودار ہوئے اور ایک چھوٹی سی سسکی لیتے ہوئے انہوں نے کہا، 'اب تو بس ایک ہی ارمان ہے کہ طارق کی لاش کو گھر لایا جائے، تاکہ ہم اس کی قبر بناکر وہاں فاتحہ خوانی کریں تو کچھ سکون ملے'۔
30 سالہ صادق، جو مہمند ایجنسی کے تجارتی بازار میاں منڈی میں ایک چھوٹے سے جنرل اسٹور میں کام کرتے ہیں، اپنے کزن طارق کے ساتھ اس سفر میں شریک تھے، وہ آج بھی اُس تاریک رات کو نہیں بھولے جب طارق سمیت 30 پاکستانی ترکی میں کشتی اُلٹنے سے اپنی زندگیاں گنوا بیٹھے تھے، صادق 5 مہینے بعد لندن پہنچنے میں کامیاب ہوگئے مگر آج بھی وہ اس صدمے سے باہر نہیں نکلے۔
صادق کہتے ہیں، 'یہ 2005 کی بات ہے، ہم دوستوں سے لندن کی کہانیاں سنتے تھے کہ لندن میں خوشحالی، صفائی، خوبصورتی اور ایک بہترین روزگار ہے ،جہاں ہم اپنی زندگی خوشی خوشی گزار سکتے ہیں، ان ہی کہانیوں اور فلموں سے متاثر ہوکر میں نے اپنے چھوٹے کزن اور بچپن کے جگری دوست طارق کے ساتھ مشورہ کیا کہ لندن چلتے ہیں، مشکلات ہوں گی لیکن ایک دن ہم اپنی منزل پر پہنچ جائیں گے، ہم دونوں نے لوگوں سے کچھ پیسے قرض لیے اور کچھ گھر میں رکھے زیور وغیرہ بیچ کر باقی پیسوں کا انتظام کیا اور لندن جانے کے لیے ایجنٹ کی تلاش شروع کی اور بالآخر کار ہم نمک منڈی کے مشہور ایجنٹ مولا شربت تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے'۔
انہوں نے بتایا، 'مولا شربت نے ہمیں کہا کہ ایران تک آپ اپنی ذمہ داری پر جائیں گے اور پھر وہاں سے میرے ایجنٹ آپ کے لیے انتظام کردیں گے، ہم نے ایران کے ویزے لیے اور گھر والوں کو پشاور میں خیر آباد کہہ کر براستہ بلوچستان ایران پہنچے، جہاں ہماری ملاقات مولا شربت کے ایجنٹ سے ہوئی، اس نے ہمیں خوش آمدید کہا اور ہمیں ایک ایسے گھر میں لے گیا، جہاں 10 افراد کے رہنے کی گنجائش تھی، مگر وہاں پر 50 سے 60 افراد کو رکھا گیا تھا، ہم نے اُن سے احتجاج کیا کہ یہ کیسا مکان ہے ؟مولا شربت نے ہم سے پانچ لاکھ روپے لے کر وعدہ کیا تھا کہ آپ کو ہر چیز صحیح ملے گی، مگر یہاں تو سب اُلٹا ہے، جس پر اس ایجنٹ نے ہمیں ڈراتے ہوئے کہا کہ اپنا منہ بند رکھو ورنہ مار مار کے پولیس کے حوالے کردوں گا'۔
مزید پڑھیں: ایف آئی اے اہلکاروں پر انسانی اسمگلنگ کا الزام
صادق مزید کہتے ہیں کہ 'پشاور میں ایجنٹ نے جو سبز باغ دکھائے تھے ان کی حقیقت ایران میں ہی سمجھ آنے لگی تھی، طارق چوں کہ چھوٹا تھا تو میں نے اسے حوصلہ دیا کہ مشکلات کے بعد ہی آسانیاں آتی ہیں اور یوں ہم نے خاموشی میں ہی فائدہ سمجھ کر چپ کا روزہ رکھ لیا۔ ایک ہفتے بعد ایجنٹ نے ہمیں اطلاع دی کہ تیاری کرو کشتی آج رات روانہ ہونے والی ہے، ہم بہت خوش تھے اور ایسا لگ رہا تھا جیسے ابھی اسی رات کو ہم لندن پہنچ جائیں گے، جب ہم سمندر پہنچے تو کچھ پاکستانیوں اور کچھ افغانستانیوں کو ایک ساتھ ایک کشتی میں بٹھا دیا گیا، ہم سمندری کشتی کے آخری حصے میں بیٹھ گئے، جہاں بہت سارا اسلحہ اور منشیات کو چھپایا گیا تھا، تب ہم نے اندازہ لگایا کہ یہ اسمگلنگ کی کشتیاں ہیں اور ایجنٹ نے پیسے بچا کر ہمیں اس موت کی وادی میں دھکیل دیا ہے'۔
صادق نے ایک تھکاوٹ بھری آہ لی اور کہا، 'خدا خدا کرکے یہ مشکل سفر رات کے 3 بجے شروع ہوا، ہم نہایت خوفزدہ تھے، ابھی تقریباً 20 سے 25 منٹ کا راستہ طے ہوا تھا کہ کشتیوں پر ایران بارڈر فورس کی جانب سے فائرنگ شروع ہوئی اور کشتی واپس کنارے کی جانب تیزی سے بھاگنے لگی، کنارے پر پہنچتے ہی ہم کشتی سے اُتر گئے ، مگر فائرنگ کا سلسلہ جاری تھا، ہم مسلسل پیدل بھاگ رہے تھے کہ اس دوران طارق کے منہ سے ایک چیخ نکلی، ایسا لگا جیسےاس کو کوئی گولی لگی ہو، مگر محفوظ مقام پر پہنچنے کے بعد پتہ چلا کہ اس کا پاؤں کسی پتھر کے ساتھ لگ کر زخمی ہوا تھا'۔
انہوں نے مزید بتایا، 'بھاگتے بھاگتے ہم اپنی رہائش گاہ پر پہنچے، مگر بعد میں پتہ چلا کہ کچھ پاکستانی اور افغانی دوست راستے میں بھاگتے ہوئے گولیوں کی زد میں آکر ہلاک ہوگئے تھے، وہ رات بہت بھاری تھی جب ہمارے دوست ہم سے بچھڑ گئے اور اُن کی لاشوں تک کا بھی پتہ نہیں چل سکا، پوری رات ہم سو نہ پائے کیوں کہ اس درد ناک واقعے کا منظر ہمارے سامنے تھا، صادق کہتے ہیں وقت گزرتا رہا اور ہم استنبول پہنچنے میں کامیاب ہوگئے، ہم نے ترکی کے لوگوں کی زندگی اور خوبصورتی دیکھی تو رشک کرتے رہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقے میں ہم نے زندگی کے اتنے سال کیوں ضائع کیے؟'
انہوں نے بتایا کہ 'ترکی سے دوسرے ملک کے لیے روانہ ہوتے وقت مجھے اور طارق کو الگ الگ کشتیوں میں بٹھا دیا گیا، جہاں سے ہم ہمیشہ ہمیشہ کے لیے الگ ہوگئے، جیسے ہی ہم نے کشتیوں میں عمان کے لیے سفر شروع کیا تو کئی گھنٹوں کی مسافت کے بعد ہم وہاں پہنچ گئے، مگر طارق جس کشتی میں سوار تھا وہ کشتی ابھی تک نہیں پہنچی تھی، ورنہ ہم تو ایک ساتھ ہی نکلے تھے۔ میں نے ایجنٹ سے جھگڑا کرکے پوچھا کہ دوسری کشتی جس میں طارق سوار ہے، وہ کہاں ہے تو اس نے جواب دیا کہ اُن کو ترک نیوی نے اپنے تحویل میں لے لیا ہے اور جلد ہی ان کو واپس پہنچا دیں گے، مگر میرے دل کو سکون نہیں آرہا تھا'۔
وہ بتاتے ہیں کہ 'مجھے دوستوں نے اگلی صبح بتایا کہ ضرور کچھ برا ہوگیا ہے کیوں کہ ہمارا ایجنٹ پوری رات نہیں سویا اور مسلسل سگریٹ پی رہا تھا، عمان میں ہمیں دوسرے ایجنٹ کے حوالے کیا گیا اور جس نے سب کو حکم دیا کہ تم میں سے ہر شخص تین تین ہزار امریکی ڈالر میرے حوالے کردو ، ہم نے اسے کہا کہ ہم نے تو پاکستان میں پورے پانچ لاکھ روپے مولا شربت کو ادا کیے ہیں، لیکن اس نے پھر ہمیں حکم دیا کہ اگر کل صبح تک تین تین ہزار ڈالر ہمیں نہیں ملے تو میں آپ سب کو قتل کردوں گا'۔
صادق خان نے مزید کہا کہ 'وہ رات بہت درد ناک تھی، ہم نے اس ایجنٹ سے بھاگنے کا فیصلہ کیا، اور زندگی کو داؤ پر لگا کر ہم سب بھاگ گئے، وہاں سے ہم نے دوسرے ایجنٹ کو کال کی کہ ہمارے ساتھ ایسا دھوکا ہوا ہے، پھر اس نے دوسرے ایجنٹ کو ہماری طرف بھیج دیا اور ہم راستوں کی سختیوں کو برداشت کرکے لندن پہنچنے میں کامیاب ہوگئے'۔
یہ بھی پڑھیں: جعلی دستاویزات بنانے والے افراد گرفتار
انہوں نے بتایا کہ 'وہاں پہنچ کر میں نے طارق کے بارے میں دریافت کرنے کے لیے پاکستان میں مولا شربت کو ٹیلیفون کیا، اس نے جواب دیا کہ اپنے گھر والوں کو یقین کراؤ کہ وہ ترکی میں کشتی اُلٹنے سے دیگر 30 پاکستانیوں سمیت جاں بحق ہوچکا ہے، یہ سن کر ایسا لگا جیسے میری روح نکل گئی ہو، میں اس حادثے کی وجہ سے مسلسل صدمے کا شکار رہا اور 3 سال لندن گزارنے کے باوجود میں نے کبھی دل سے انجوائے نہیں کیا، کیوں کہ ایک طرف طارق میرا جگری دوست تھا تو دوسری جانب میں خاندان کی وجہ سے پریشان تھا کہ گھر والوں کو میں کیا جواب دوں گا'۔ صادق کہتے ہیں، 'لندن سے واپسی کے بعد میں کبھی طارق کے گھر نہیں گیا کیوں کہ مجھ سے ان کی والدہ کی حالت دیکھی نہیں جاتی کہ 12 سال گزرنے کے باوجود بھی آج تک وہ اس اُمید پر زندہ ہیں کہ طارق گھر لوٹ آئے گا'۔
ان کا کہنا تھا، 'سب کچھ دیکھنے اور برداشت کرنے کے بعد اب میں مہمند ایجنسی میں ایک دکان پر کام کررہا ہوں اور بہت خوش ہوں، اگرچہ یہ دہشت گردی سے تباہ شدہ علاقہ ہے، مگر جیسا بھی ہے زندگی سکون سے گزر رہی ہے، یہ علاقہ اُن وادیوں سے تو اچھا ہے جہاں ہم نے ہر قدم پر موت ہی موت دیکھی'۔
آخر میں صادق نے کہا، 'میں سب انسانوں اور خاص طور پر پاکستانیوں کو یہی پیغام دینا چاہتا ہو کہ کبھی بھی ان جھوٹے ایجنٹوں کے وعدوں اور باتوں میں نہ آئیں، کیوں کہ یہ پیسوں کے بھوکے ایجنٹ چند لاکھ روپوں کی خاطر کئی خاندان تباہ کردیتے ہیں، یقین مانیں اگر ہم ان ایجنٹس پر اعتبار کرنا چھوڑ دیں تو وہ خود بخود لوگوں کی زندگیوں سے کھیلنا بند کردیں گے'۔
تبصرے (1) بند ہیں