• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

خیبرپختونخوا سے فوج کی واپسی کی درخواست کریں گے: عمران خان

شائع October 7, 2017
عمران خان پشاور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے — فوٹو / ڈان اخبار
عمران خان پشاور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے — فوٹو / ڈان اخبار

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا میں ان کی حکومت ایک ایسے منصوبے پر غور کر رہی ہے جس کے تحت صوبے کے ان علاقوں سے فوج کو واپس بلانے کے لیے درخواست کی جائے گی جہاں امن بحال ہو چکا ہے۔

پشاور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے کہا کہ خیبر پختونخوا حکومت صوبے کے ان علاقوں کا کنٹرول سول انتظامیہ کو دینے کے حوالے سے فوج سے بات چیت کرے گی جہاں امن قائم ہو چکا ہے۔

خیال رہے کہ 2007 میں ملا فضل اللہ اور ان کے زیر اثر سوات طالبان کی جانب سے ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے کے بعد اس وقت صوبے میں قائم متحدہ مجلسِ عمل (ایم ایم اے) کی حکومت نے مالاکنڈ اور سوات ڈویژن میں فوج کی تعیناتی کی درخواست کی تھی۔

مزید پڑھیں: وفاقی کابینہ کی ’فاٹا اصلاحات بل‘ پارلیمنٹ میں پیش کرنے کی منظوری

بعد ازاں 2009 میں پاکستان آرمی نے دہشت گردوں کے خلاف پوری قوت سے آپریشن کا آغاز کیا اور ان دہشت گردوں کو سوات اور دیگر ملحقہ علاقوں سے مار بھگایا جبکہ اس وقت فوج، سوات کی سول انتظامیہ کے ساتھ مل کر اس علاقے میں اپنے فرائض انجام دے رہی ہے۔

سربراہ تحریک انصاف کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک، کور کمانڈر پشاور سے جلد رابطہ کریں گے اور ان علاقوں سے فوج کی واپسی کی درخواست کی جائے گی جہاں امن قائم ہو چکا ہے۔

عمران خان نے اپنے اس پلان پر تفصیلی گفتگو نہیں کی تاہم انہوں نے یہ واضح کیا کہ صوبے میں پولیس کا نظام بہت بہتر ہوگیا ہے اور وہ ان علاقوں کا کنٹرول سنبھال سکتی ہے جہاں امن و امان کی صورتحال بہتر ہو چکی ہے۔

یاد رہے کہ خیبرپختونخوا حکومت نے 2013 میں بھی اسی طرح کا ایک منصوبہ پیش کیا تھا جس میں مرحلہ وار فوج کی اُن علاقوں سے واپسی شامل تھی جہاں امن بحال ہوگیا تھا تاہم اب تک اس منصوبے پر عمل نہیں کیا جاسکا۔

یہ بھی پڑھیں: عالمی بینک کی فاٹا میں بحالی کیلئے 11کروڑ ڈالرکی منظوری

مالا کنڈ اور دیگر علاقوں میں دہشت گردوں کی نگرانی اور سیکیورٹی صورتحال پر قابو رکھنے کے لیے اب بھی فوجی چوکیاں قائم ہیں۔

فاٹا-خیبر پختونخوا انضمام

پریس کانفرنس کے دوران چیئرمین تحریک انصاف نے وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے (فاٹا) کے خیبر پختونخوا کے ساتھ انضمام کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جغرافیائی لحاظ سے کے پی کے اس وقت فاٹا انضمام کو خوش آمدید کہنے کے لیے تیار ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ فاٹا نمائندگان کی صوبائی اسمبلی میں شمولیت بھی لازمی ہونی چاہیے۔

پی ٹی آئی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ فاٹا انضمام کو 2023 تک موخر کرنے سے فاٹا کے عوام بہت زیادہ متاثر ہوں گے جبکہ صوبے میں موجود کرپٹ عناصر کو، جو اس وقت قبائلی علاقوں کے وسائل کو لوٹ رہے ہیں، اس علاقے میں نافذ کمزور قانونی نظام کی وجہ سے بہت زیادہ فائدہ پہنچے گا۔

انہوں نے فاٹا سیکریٹریٹ کو کرپشن کا اڈا قرار دیتے ہوئے کہا کہ فاٹا میں موجود نظام کی وجہ سے صرف کرپٹ لوگوں اور کرپٹ بیوروکریٹس کو فائدہ پہنچ رہا ہے جبکہ اس نظام سے فاٹا کے عوام کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو رہا۔

تحریک انصاف کے سربراہ نے پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے چیئرمین محمود خان اچکزئی کو فاٹا کے خیبر پختونخوا کے ساتھ انضمام کی مخالفت کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہا کہ یہ مخالفت افغانستان کے مفادات کو تحفظ دینے کا منصوبہ ہے۔

انہوں نے اسلام آباد میں فاٹا سے تعلق رکھنے والے پارلیمنٹیرینز کی جانب سے رواں ماہ 9 اکتوبر کو ہونے والے حکومت مخالف مظاہرے کی حمایت کا اعلان کردیا۔

عمران خان نے خدشہ ظاہر کیا کہ فوجی آپریشن کے بعد قبائلی علاقوں میں حاصل ہونے والے فوائد فاٹا انضمام میں تاخیر کی وجہ سے ضائع ہو سکتے ہیں۔


یہ خبر 7 اکتوبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024