کیا نواز شریف پارٹی صدر بننے کا اخلاقی جواز رکھتے ہیں؟
انتخابی قوانین میں ہونے والی حالیہ ترمیم نے اگرچہ نواز شریف کو ایک بار پھر پارٹی صدارت کی کرسی پر بٹھادیا ہے لیکن اِس ترمیم سے جمہوری اقدار کو ٹھیس بھی پہنچی ہے۔
یقیناً، حکومت کو کرپشن کے الزامات کا سامنا ہے اور اُسے سابق وزیرِاعظم کی سیاسی حیثیت بحال کرنے کی کچھ زیادہ ہی جلدی تھی۔ جہاں تک مسلم لیگ ن کا تعلق ہے تو اب اُس کی لگام بھی سابق وزیر اعظم کے ہاتھوں میں ہے جنہیں سپریم کورٹ کے حکم نامے کی نافرمانی کرتے ہوئے حکمران جماعت کی کمان سونپی گئی ہے۔
بلاشبہ، نواز شریف کی دوبارہ تاج پوشی سے پارٹی حلقوں میں اتحاد قائم رکھنے میں مدد ملے گی اور اس طرح خاندانی سیاسی سلسلے کی قیادت خاندان کے کسی دوسرے فرد کو منتقل بھی نہیں کرنی پڑے گی۔ لیکن کیا اس طرح ان کی اخلاقی حیثیت بھی بحال ہو سکتی ہے؟ پارٹی قیادت سنبھالنے سے وہ ان الزامات سے بری نہیں ہوں گے جن کا سامنا وہ عدالتوں میں کر رہے ہیں۔
اس سے بھی پریشان کن بات تو یہ ہے کہ قانون میں جس طرح فرد واحد کے لیے ترمیم لائی گئی اور جس طریقہ کار کے تحت لائی گئی ہے، اُس نے جمہوری معیار کو کافی ٹھیس پہنچائی ہے۔ اب عدالت سے سزا یافتہ کوئی بھی شخص سیاسی جماعت تشکیل دے سکتا ہے اور اُس کی قیادت بھی کر سکتا ہے۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ، ایک شخص جس پر عوامی عہدہ رکھنے پر پابندی ہے وہ بھی اب کنگ میکر بن سکتا ہے اور اپنے نمائندوں کے ذریعے حکومت کو چلا سکتا ہے۔
بظاہر تو ترمیم کی اِس طرح جلد بازی میں منظوری کا مقصد عدالتوں کو دباؤ میں لانا تھا، لیکن خیال یہ ہے کہ یہ طریقہ کار کچھ زیادہ مددگار ثابت نہیں ہوگے، بلکہ لگتا ہے کہ ایک نئی قانونی جنگ چھڑ جائے گی، کیونکہ عدالتوں میں اِس ترمیم کو پہلے ہی چیلنج کردیا گیا ہے۔
بے شک، پرویز مشرف کی فوجی حکومت نے بے نظیر بھٹو کو پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی قیادت سے دور رکھنے کے اپنے درپردہ مقصد کو پورا کرنے کی خاطر اِس قانون کا استعمال کیا تھا۔ لیکن یہاں اِس قانون میں ترمیم کا مقصد کسی ناجائز اقدام کی درستگی نہیں بلکہ ایک نااہل رہنما کو فائدہ پہنچانا تھا۔
یہ عمل ہماری سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوری کلچر کے فقدان کو بھی ظاہر کرتی ہے جو اب زیادہ سے زیادہ خاندانی جاگیر کی صورت اختیار کر چکی ہیں اور جنہیں چند افراد کے مفادات کے تحفظ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ جمہوریت اپنی طاقت قانون کی حکمرانی سے حاصل کرتی ہے، اِس کی مزاحمت سے نہیں۔ جمہوریت صرف اُسی صورت مؤثر انداز میں کام کر سکتی ہے جب سیاسی جماعتیں اپنے رہنماؤں کو غلط کام کرنے پر مذمت کرنے کے قابل ہوتی ہیں اور اُن کی قسمت کے فیصلے کے لیے عدالت کا انتظار نہیں کرتیں۔
مگر پاکستان میں صورتحال بالکل مختلف ہے، یہاں کرپشن کے الزامات کا سامنا کرنے والے اہم عہدہ پر فائز تو ہوتے ہی ہیں بلکہ اُن کے حامی اُن کے قصیدہ خواں بنے بیٹھے ہیں۔ مثلاً، وہ شخص جس پر منی لانڈرنگ کا الزام ہے وہ کس طرح ملکی اقتصادی اور مالیاتی معاملات سنبھال سکتا ہے؟ ہاں آگے سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اسحاق ڈار کو ابھی مجرم قرار نہیں دیا گیا، بلکہ مقدمے کی غیر جانبداری پر بھی سوال اٹھایا جاسکتا ہے، لیکن کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ تمام الزامات سے بری ہونے تک وہ اپنے عہدے سے دستبردار رہیں؟
یقیناً، ایک داغدار وزیر خزانہ ایک ایسی معیشت کے معاملات کو مؤثر انداز میں نہیں سنبھال سکتا ہے جو مسلسل زوال کا شکار ہے۔ جبکہ ترسیل رقم میں گراوٹ اور برآمدات میں کمی کے باعث غیر ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر میں پریشان کن حد تک کمی واقع ہو رہی ہے۔ جب ادائگیوں کے توازن میں ریکارڈ خسارے کی وجہ سے آئی ایم ایف کا دروازہ کھٹکھٹانا حکومت کے لیے ناگزیر بن چکا ہے۔ قرضے کا بوجھ اب حد سے زیادہ بڑھتا جا رہا ہے۔ مقدمے میں الجھے وزیر خزانہ کے لیے غیر ملکی اداروں کے ساتھ مذاکرات کرنا انتہائی مشکل ہوگا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کئی ماہ سے وزارت خزانہ مفلوج بنی ہوئی ہے۔
حکومت، جو اس وقت سابق وزیر اعظم کی سیاسی حیثیت بحال کرنے میں مصروف ہے، وہ تیزی کے ساتھ اپنا دائرہ اختیار بھی کھوتی جا رہی ہے۔ اداروں کے درمیان تصادم نے صورتحال کو مزید بگاڑ دیا ہے۔ پیر کے روز سابق وزیرِاعظم کی پیشی کے دوران احتساب عدالت کے باہر جو انوکھا واقعہ پیش آیا، وہ کافی نامبارک ہے۔ رینجرز کی تعیناتی پر اٹھنے والا تنازعہ لاقانونیت کی سی صورتحال کو ظاہر کرتا ہے۔
بلاشبہ، یہ ایک سنگین مسئلے کا باعث ہے کہ وزیر داخلہ کو پتہ ہی نہیں تھا کہ رینجرز کو کس نے بلایا، بلکہ اُس وقت تو مزید عجیب و ٖغریب صورتحال تب پیدا ہوگئی جب رینجرز نے احسن اقبال کو عدالت کی حدود میں داخل ہونے سے روک دیا۔ حقیقت تو یہ بھی ہے کہ رینجرز کسی کے احکامات کے بغیر تو یہاں آئی نہیں تھی اور عوام کے آگے وزیرِ داخلہ کا غصہ اور ریاست کے اندر ایک ریاست موجود ہونے کا بیان دینا دراصل اُن کی بے بسی کو ظاہر کرتا ہے۔
بلاشبہ یہ حکومت کے لیے اچھا شگون نہیں ہے۔ یہ واقعہ حکومت کے سکڑتے دائرہ اختیار کے خیال کو تقویت بخشتا ہے، جبکہ حکومت نے اپنا زیادہ تر دھیان معزول وزیر اعظم اور ان کے خاندان کے دفاع پر مرکوز رکھا ہوا ہے۔ چھت پر چڑھ کر کسی ’غائب ہاتھ’ کے بارے میں چلانا کافی نہیں۔ یہی تو انتظامیہ ہے، احمق۔ ہم تو پہلے ہی یہ دیکھ چکے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ زیادہ سے زیادہ اختیار حاصل کرتی جا رہی ہے۔
نواز شریف نے سیاسی جماعتوں کے درمیان ایک اعلیٰ سطحی قومی مذاکرات کا مطالبہ کیا ہے، اور اِس تجویز سے تو کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا۔ کیونکہ جمہوری عمل کو مضبوط بنانے کے لیے بڑی سیاسی جماعتوں کو کسی قسم کے فریم ورک پر متفق ہونے کی اشد ضرورت ہے۔ لیکن نواز شریف کو یہ مطالبہ کرنے میں شاید دیر ہوچکی ہے اور وہ ایسے وقت پر مطالبہ کر رہے ہیں جب انہیں صادق اور امین نہ ہونے پر نااہل قرار دیے جاچکا ہے اور وہ مقدمے کا سامنا کر رہے ہیں۔ یوں دیگر سیاسی جماعتیں اُن کے اِس ارادے کو شک کی نگاہ سے دیکھتی ہیں۔ شکوک شبہات یہ بھی ہیں کہ وہ خود کو کٹھن حالات سے نکالنے کے لیے یہ سب کر رہے ہیں۔
نواز شریف کے پاس گزشتہ 4 برس کے دوران دستور کے مطابق جمہوری عمل کو مضبوط کرنے کا سنہری موقعہ تھا۔ لیکن اس کے برعکس وہ پارلیمنٹ کو غیر مؤثر اور دیگر سویلین اداروں کو کمزور کرنے کی وجہ بنے، یوں غیر منتخب عناصر کو اپنے اختیارات کا دائرہ کار وسیع کرنے کا موقعہ مل گیا۔ جبکہ سابق وزیر اعظم نے خاندان کے قریبی افراد کی مدد سے اپنی ذات تک محدود حکمرانی کو قائم کیا۔ کابینہ کا اجلاس بھی کبھی کبھار ہی ہوتا اور بعد میں وہ کابینہ بھی ربر اسٹیمپ میں بدل گئی۔ اِس وقت عدلیہ کے ساتھ چل رہی اُن کی لڑائی کی وجہ سے وہ زیادہ تر سیاسی جماعتوں کو ایک جگہ جمع نہیں کر پائیں گے۔
بلاشبہ سویلین بالادستی کے قیام اور طاقت میں موجود اِس عدم توازن کو ختم کرنے کے لیے میثاق جمہوریت یا اعلیٰ سطحی مذاکرات درکار ہیں، جس کے باعث غیر منتخب اداروں کو منتخب سویلین حکومتوں کو کھوکھلا کرنے کا موقعہ مل جاتا ہے۔ لیکن اپنی ذات تک محدود طاقت کا نام سویلین بالادستی نہیں ہے۔ جمہوریت صرف انتخابی مینڈیٹ جیتنے کا نام نہیں بلکہ جمہوریت کا مطلب قانون کی حکمرانی اور جمہوری احتساب پر عملدرآمد ہونا ہے۔ کاش کہ نواز شریف اِس بات کو سمجھتے۔
اہم ترین بات یہ کہ سیاسی جماعتوں کے درمیان ایک معاشی معاہدے کی اشد ضرورت ہے تاکہ اقتصادی پالیسیوں میں کوئی رکاوٹ پیش نہ آئے، پھر چاہے اقتدار میں کوئی بھی جماعت ہو۔ شاید، یہ کام انتخابات کے بعد ممکن ہوپائے گا۔
یہ مضمون 4 اکتوبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
ترجمہ: ایاز احمد لغاری
تبصرے (2) بند ہیں