• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

پاکستان کی ایٹمی صلاحیت، پاکستان کی حفاظت کی ضامن

شائع October 6, 2017
پاکستانی سپاہی یومِ پاکستان کے موقع پر طویل فاصلے تک مار کرنے والے شاہین 2 بیلسٹک میزائل کے ساتھ کھڑے ہیں۔ — فوٹو اے ایف پی/عامر قریشی
پاکستانی سپاہی یومِ پاکستان کے موقع پر طویل فاصلے تک مار کرنے والے شاہین 2 بیلسٹک میزائل کے ساتھ کھڑے ہیں۔ — فوٹو اے ایف پی/عامر قریشی

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کے بارے میں نہایت سخت لہجہ اپنایا، مگر انہوں نے اب تک پابندیاں نہیں عائد کی ہیں، جیسا کہ ایران کے ساتھ ہوا، نہ ہی انہوں نے پاکستان کو شمالی کوریا کی طرح 'مکمل طور پر تباہ' کر دینے کی دھمکی دی۔

پاکستانی سفارتکاروں کا ماننا ہے کہ واشنگٹن کے ساتھ گرمجوش تعلقات نہ سہی مگر پھر بھی کام کی حد تک تعلقات کی گنجائش موجود ہے۔ مگر یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔

اسلام آباد افغانستان سے متعلق امریکا کی 'نئی' پالیسی سے متفق نہیں ہے۔ یہ افغانستان کی جنگ اپنی زمین پر نہیں لڑے گا۔ یہ افغانستان میں ہندوستان کے وسیع کردار کی مخالفت کرتا رہے گا۔ اسلام آباد افغان طالبان اور کابل کے درمیان طویل تنازعے کے بجائے تنازعے کا سیاسی حل چاہتا ہے، جبکہ افغانستان میں اپنے محفوظ ٹھکانوں سے پاکستان کے خلاف کام کر رہے دہشتگرد گروہوں دولتِ اسلامیہ، القاعدہ، تحریکِ طالبان پاکستان، جماعت الاحرار اور بلوچستان لبریشن آرمی کے خاتمے کے لیے بھرپور ایکشن بھی چاہتا ہے۔

اگر پاکستان اور امریکا افغانستان پر اپنے حد درجہ مختلف مؤقف کو ہم آہنگ کرنے میں کامیاب ہو بھی جائے، تب بھی ان اسٹریٹجک شراکت داریوں میں تبدیلی ہوتی نظر آتی جو کہ ایشیاء میں پالیسیوں کا تعین کریں گی۔

امریکا نے ایشیاء میں چین کے اثر و رسوخ کے مقابلے کے لیے ہندوستان کو اپنا اسٹریٹجک شراکت دار منتخب کرلیا ہے۔ نتیجتاً پاکستان کی سلامتی کے لیے ہندوستان کی جانب سے کیا خطرات پیدا ہوتے ہیں، اِس سے امریکا کو یا تو کوئی فرق نہیں پڑتا، یا پھر خطے میں ہند امریکی بالادستی کے خلاف پاکستان کی مزاحمت کو کمزور کرنا اِس کی پالیسی کا حصہ ہے۔

امریکی سیکریٹری دفاع کے حالیہ دورہءِ ہندوستان نے اِس اسٹریٹجک اتحاد کی تصدیق کرتے ہوئے افغانستان میں اُن کے تعاون پر مہر ثبت کردی ہے۔

ہندوستانی ڈکٹیشن کی مزاحمت اور امریکا کی اسٹریٹجک پالیسیوں کی مخالفت کرنے کی قابلیت پاکستان میں ایک اہم وجہ سے موجود ہے۔ وہ اہم وجہ پاکستان کی ایٹمی اور میزائل صلاحیت ہے۔ اس کے بغیر پاکستان پر یا عراق کی طرح حملہ کردیا جاتا یا پھر ایران کی طرح پابندیاں لگا دی جاتیں۔ دوسری جانب شمالی کوریا اپنی تنہائی کے باجود امریکا کو نیچا دکھانے میں اِس لیے کامیاب ہے کیوں کہ وہ ایک ایٹمی قوت اور میزائل ٹیکنالوجی کی ماہر قوم ہے۔

ایک اسلامی ایٹمی قوت امریکا اور زیادہ تر مغربی ممالک کے لیے ہمیشہ سے گلے کی ہڈی کی طرح تھی۔ یہاں تک کہ جب پاکستان امریکا کا قریبی اتحادی تھا، تب بھی امریکا کی پوری کوشش تھی کہ کسی نہ کسی طرح اِس کے ایٹمی اور میزائل پروگرام کو بتدریج کم کرتے ہوئے ختم ہی کردیا جائے۔ امریکا کے ہندوستان کے ساتھ اتحاد کے بعد اِن کوششوں میں تیزی آئی ہے۔

پاکستان کے اسٹریٹجک پروگرامز کے خلاف تفریق پر مبنی ٹیکنولوجیکل اور سیاسی پابندیوں کے علاوہ امریکا اب مطالبہ کر رہا ہے کہ پاکستان اکیلے ہی ایٹمی مواد اور تھوڑے اور طویل فاصلے تک مار کرنے والے ایٹمی میزائلوں کی تیاری بند کردے۔

مگر اِس کے ساتھ ہی یہ ہندوستان کی اِس کے ایٹمی اسلحے میں اضافے اور جدت لانے، اِس کی میزائل اور اینٹی بیلسٹک میزائل صلاحیتوں میں اضافے، اور اِس کی فضائی و بحری افواج اور سیٹلائٹ اور خلائی پروگرام میں ترقی کے لیے بھرپور مدد کر رہا ہے۔

باوثوق رپورٹس جو کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، موجود ہیں کہ امریکا نے کسی تنازعے یا بحران کے دوران پاکستان کے ایٹمی اسلحے پر قبضہ کرنے یا اِسے برباد کرنے کا منصوبہ بنا رکھا ہے۔ امریکی تھنک ٹینکس نے پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے دہشتگردوں کے ہاتھ لگ جانے، یا اِس سے بھی زیادہ مضحکہ خیز طور پر پاک فوج کے 'انتہاپسند' فوج میں تبدیل ہوجانے کے خیالی پلاؤ بنا رکھے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اِس طرح کی خوفناک صورتحال پیدا کی جاسکتی ہے تاکہ 'قبضہ کرو اور تباہ کرو' کے منصوبے کو عملی جامہ پہنایا جاسکے۔

اگر پاکستان اور ہندوستان کے درمیان ایک اور جنگ ہوگئی، تو حالات میں مزید خرابی آئے گی۔ کشمیر دونوں ممالک کے بیچ ایک جاری تنازع ہے جو ایٹمی جنگ کو ہوا دے سکتا ہے۔ چوںکہ دونوں ممالک کی فوجی قوت میں عدم توازن موجود ہے، اِس لیے پاک و ہند جنگ کے فوری طور پر ایٹمی جنگ میں تبدیل ہونے کا خطرہ موجود ہے۔ اِس لیے جنگ کا تو سوچا بھی نہیں جانا چاہیے۔

مگر پھر بھی ہندوستان کے سیاسی اور عسکری قائدین پاکستان کے خلاف 'سرجیکل اسٹرائیکس' اور 'محدود' جنگ کی باتیں کرتے رہتے ہیں۔ اگر ہندوستان نے کبھی پاکستان کے خلاف جنگ چھیڑنے کا فیصلہ بھی کیا تو اُسے پہلے پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو ختم کرنے کے لیے حملہ کرنا ہوگا، یا پھر ہندوستان کے لیے یہ کام امریکا سرانجام دے گا؟ پاکستان کو دونوں ہی طرح کی صورتحال کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

اسلام آباد کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ماضی میں اپنے ایٹمی اثاثوں کی 'سلامتی و تحفظ' کے لیے امریکا سے 'تعاون' کی وجہ سے امریکا کو پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے بارے میں اچھی خاصی انٹیلیجنس حاصل ہے۔ مگر پاکستانی حکام امریکا کی پاکستان کے اثاثوں پر قبضہ کرنے کی صلاحیت کو درست طور پر مسترد کرتے ہیں۔ ہمارے پاس کئی ہتھیار، کئی جگہوں پر پھیلے ہوئے اور اچھی طرح محفوظ ہیں، اِس لیے اِن پر قبضہ، یا اِن پر حملہ کرکے اِنہیں برباد نہیں کیا جاسکتا۔ مگر ایٹمی ہتھیار ڈیلیور کرنے والے سسٹم (میزائل وغیرہ) کو چھپانا یا محفوظ رکھنا مشکل ہوتا ہے۔

کسی بھی تنازعے کی صورت میں ابتدائی حملے کا شکار یہ ڈیلیوری سسٹم ہی بنیادی ہدف ہوں گے۔ کسی بھی تنازعے کی صورت میں جب انہیں الگ رکھے گئے وارہیڈز سے ملایا جارہا ہوگا، تو اُن کی جگہوں کا پتہ لگانا آسان ہوجائے گا۔ اِس کے علاوہ، جیسا کہ حال ہی میں کوریا میں دیکھا گیا، میزائل لانچ کو سائبر حملوں اور دیگر تکنیکی ذرائع سے سبوتاژ کیا جاسکتا ہے۔

اِس اسٹریٹجک صورتحال میں پاکستان کے ایٹمی اثاثے ہی بیرونی خطرات اور دباؤ کے خلاف پاکستان کی سب سے بڑی قوت ہیں۔

پاکستان کو اپنی ایٹمی صلاحیت کو قابلِ اعتبار بنائے رکھنے کے لیے کئی اقدامات کرنے چاہیے۔ پہلا، شمالی کوریا کی طرح آرٹلری اور تھوڑے فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کی ہندوستان کے کولڈ اسٹارٹ حملے کے خلاف مزاحمت کی پہلی صف کے طور پر تنصیب۔ اِس سے ہندوستانی حملہ ناکام ہوجائے گا اور ایٹمی حملے کی نوبت اوپر چلی جائے گی۔

دوسرا، پاکستان کو ایٹمی حملوں کی صلاحیت رکھنے والے طویل، درمیانے اور مختصر فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کی تعداد بڑھانی ہوگی تاکہ ہندوستان کے کسی بھی بیلسٹک میزائل سسٹم کا توڑ کیا جاسکے۔

تیسرا، پاکستان کو اپنے میزائلوں پر ایٹمی وارہیڈز کی تنصیب کے لیے لگاتار ایٹمی مواد تیار کرتے رہنا ہوگا۔

چوتھا، جوابی حملے کے لیے کم از کم کچھ میزائل ایٹمی وارہیڈز سے لیس کرکے اُنہیں پوشیدہ رکھ کر تیار رکھنا ضروری ہے۔ اِس کے علاوہ آبدوزوں پر نصب بیلسٹک میزائل پاکستان کو دوسرا حملہ کرنے کی صلاحیت فراہم کرسکتے ہیں۔

پانچواں، مؤثر فضائی دفاعی نظام اور محدود اینٹی بیلسٹک میزائل سسٹمز کی تنصیب ضروری ہے تاکہ کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹرز کو محفوظ بنایا جاسکے۔

چھٹا، سائبر جنگ کے لیے حملے اور دفاع، دونوں کی صلاحیت پیدا کی جانی چاہیے۔ اِس سب کے علاوہ، پاکستان کو جلد سے جلد خبردار کرنے والے سسٹمز، جن میں سیٹلائٹس، طیارے اور ڈرونز شامل ہیں، حاصل کرنے چاہیے۔ اِس دوران پاکستان کو چین کے ایسے سسٹمز سے مدد لینی چاہیے۔

آخر میں یہ کہ چین کی بری، بحری اور فضائی افواج کے ساتھ اسٹریٹجک اور روایتی مزاحمت کی صلاحیت بڑھانی چاہیے تاکہ کم وقت اور کم خرچ میں فوائد حاصل کیے جاسکیں۔

ایک بار پاکستان اپنے ایٹمی اثاثوں کے مکمل طور پر قابلِ اعتبار ہونے کو واضح کردے گا، تو جنوبی ایشیاء میں قیامِ امن اور مسئلہ کشمیر کے حل کی اس کی کوششوں پر ہندوستان اور امریکا، دونوں ہی کی جانب سے مثبت ردِ عمل کی توقع ہے۔ اِس کے بعد پاکستان اپنے سماجی و اقتصادی مقاصد کو بیرونی جارحیت، مداخلت اور دباؤ کے خوف کے بغیر حاصل کرسکے گا۔

انگلش میں پڑھیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 1 اکتوبر 2017 کو شائع ہوا۔

منیر اکرم

لکھاری اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیر رہ چکے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024