سی پیک کے تحت پاکستان کو ڈیجیٹل اور محفوظ بنانے کا منصوبہ
پاکستان میں ہر جگہ پاک-چین اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے کا چرچا ہے، مگر لوگ اس منصوبے کے حوالے سے مزید جاننا چاہتے ہیں، عوام جاننا چاہتے ہیں کہ سی پیک کے لیے اسلام آباد اور بیجنگ کیا سوچ رہے ہیں اور انہوں نے اس کے لیے کیا منصوبہ بنا رکھا ہے، سی پیک کے تحت پاکستان کو ڈیجیٹل اور محفوظ بنانے کا منصوبہ کسی حد تک دستاویزات کی صورت میں موجود ہے، جسے ہم یہاں پیش کر رہے ہیں۔
جب ڈان کو دستیاب اس طویل المدتی منصوبے (ایل ٹی پی) کی دستاویزات کا جائزہ لیا گیا تو اس میں دونوں ممالک کی جانب سے مؤثر مواصلاتی فریم ورک قائم کرنے کا منصوبہ سامنے آیا جس میں پاکستان اور چین کو آپس میں ملانے کے لیے فائبر آپٹک کیبل، انٹرنیٹ ٹریفک کے بہاؤ کے لیے ایک نیا سب میرین اسٹیشن اور ڈیجیٹل ٹیلی ویژن منصوبے شامل ہیں۔
سی پیک منصوبے کا روڈ میپ جو نومبر 2013 سے دسمبر 2015 کے درمیان دونوں ممالک کے ماہرین کی جانب سے بنایا گیا، 21 صفحات پر مشتمل تفصیلی دستاویزات پر مشتمل ہے۔
مزید پڑھیں:پاک چین اقتصادی راہداری کا ماسٹر پلان کیا ہے؟
مواصلات کے لیے مخصوص ان دستاویزات میں 15 سالہ منصوبہ تیار کیا گیا ہے جس کا آغاز 2016 سے ہوا جبکہ اختتام 2030 میں ہوگا۔
تاہم ان دستاویزات کا اہم اور نیا جزو فائبر آپٹک ہے جو پاکستان سے گزر کر چین سے جا ملے گی، جس سے دونوں ملکوں میں براہِ راست انٹرنیٹ رابطہ ہوگا۔
سرحد پار اقدام
جیسا کہ ماسٹر پلان میں موجود ہے کہ سرحد کے دونوں جانب فائبر آپٹک کے فعال ہونے سے پاکستان اور چین کو درپیش مسائل سامنے آئیں گے۔
دستاویزات کے مطابق سب سے پہلے دونوں ممالک کے درمیان مواصلات کا نظام بہتر ہوگا اور یہ پاکستان اور چین کے درمیان بڑھتے ہوئے رابطوں کو بھی سنبھالے گا۔
جامع اسٹریٹیجک تعاون کو وسیع کرنے کے ساتھ دونوں ممالک کے درمیان تیز اور با اعتماد انٹرنیٹ رابطے کی ضرورت درپیش ہے جو یورپ، امریکا یا بھارت سے نہیں بلکہ سیدھا پاکستان سے ہو کر چین پہنچے۔
چین نے بھی اپنی بین الاقوامی ٹیلی کمیونیکیشن سروس کی بڑھتی ہوئی طلب کو ملحوظِ خاطر رکھا ہوا ہے اور اگر اس حوالے سے اقدامات نہیں کیے جاتے تو چین کی بین الاقوامی بینڈ وِدتھ ایک بڑے فرق کے ساتھ بے نقاب ہو جائے گی۔
اگر ایل ٹی پی کو نافذ کر دیا جاتا ہے تو یہ نیٹ ورک پاکستان کے لیے فائدہ مند ہوگا جس کی وجہ سے ملک میں انٹرنیٹ براہِ راست داخل ہو جائے گا اور اس کی اسپیڈ بھی بڑھے گی خاص طور پر گلگت بلتستان اور بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں جہاں انٹرنیٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔
اس منصوبے سے پاکستان میں انٹرنیٹ کی قیمت پر بھی واضح فرق پڑے گا اور قیمتیں ناقابل حد تک کم ہوجائیں گی۔
علاوہ ازیں فائبر آپٹک بچھائے جانے کے بعد پاکستان، چین کے ذریعے انٹرنیٹ کی دنیا سے رابطے میں ہوگا جبکہ زیرِ سمندر موجود فائبر آپٹک پر پاکستان کا انحصار کم ہو جائے گا۔
دستاویزات کے مطابق زیرِ آب موجود کیبل میں خرابی آنے کے باعث (جیسا کے ماضی میں بھی دیکھا گیا ہے) انٹرنیٹ کے لیے دوسرا راستہ اختیار کیا جائے گا۔
وسیع پیمانے پر اس نیٹ ورک سے وسط ایشیائی ممالک کو بھی کم قیمت میں بہتر انٹرنیٹ حاصل ہوجائے گا۔
سیکیورٹی خدشات
موجودہ فائبر آپٹک نیٹ ورک، جس کے ذریعے پاکستان دنیا سے رابطے میں ہے، اب اس میں شراکت داری آگئی ہے، جس میں ممکنہ طور پر بھارت کی کچھ کمپنیاں شراکت دار ہیں یا پھر اس نیٹ ورک میں اسٹیک ہولڈر ہیں۔
بھارت کی فائبر آپٹک نیٹ ورک میں شمولیت کے بعد اسے پاکستان کے لیے ایک خطرے کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے، خاص کر جب بات مواصلاتی نظام کی خفیہ نگرانی کی آتی ہو۔ رواں برس جنوری میں ڈائریکٹر جنرل اسپیشل کمیونیکیشن آرگنائزیشن (ایس سی او) میجر جنرل عامر عظیم باجوہ نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کو آگاہ کیا تھا کہ پاکستان کے باہر سے آنے والا انٹرنیٹ ٹریفک پہلے بھارت جاتا ہے اور پھر پاکستان کی طرف بھیجا جاتا ہے جو پاکستان کی سلامتی کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔
تاہم چین کا راستہ اختیار کرتے ہوئے پاکستان انٹرنیٹ کی دنیا میں بھارت سے متعلق خطرے کو کم کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔
لیکن اگر تصویر کا دوسرا رخ دیکھا جائے تو چینی انٹرنیٹ ماڈل کی وجہ سے پاکستان میں انٹرنیٹ صارفین کے لیے آزادی رائے کا خطرہ چین کی جانب سے بڑھ سکتا ہے۔
براستہ خنجراب
ایل ٹی پی دستاویزات کے مطابق سرحد پار سے آنے والی اس فائبر آپٹک کا آغاز چین کے علاقے تاشکرگن سے ہوگا جو تاجک اکثریتی علاقہ ہے جس کے بعد یہ کیبل 135 کلومیٹر تک کا سفر طے کرتے ہوئے پاک-چین سرحد پر واقح خنجراب پاس پہنچے گی جس کے بعد یہ کیبل مزید 125 کلومیٹر تک کا سفر طے کرتے ہوئے گلگت بلتستان کے ایک اہم قصبے ’سست‘ تک پہنچے گی۔
گلگت بلتستان کے علاقے سست سے مزید 650 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرتے ہوئے یہ کیبل اسلام آباد پہنچے گی جس کے بعد اسے پاکستان کے موجودہ نیٹ ورک کے ساتھ ملایا جاسکتا ہے۔
اس منصوبے کا افتتاح اُس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے مئی 2016 میں کیا جبکہ سی پیک ویب سائٹ کے مطابق اس منصوبے پر کُل 4 کروڑ 40 لاکھ ڈالر کی لاگت آئے گی۔
سی پیک ویب سائٹ کے مطابق اس منصوبے میں 820 کلومیٹر طویل کیبل کے 450 کلومیٹر طویل حصے کو بچھا دیا گیا ہے جبکہ اسے رواں برس کے اختتام تک مکمل کرلیا جائے گا۔
گوادر سے رابطہ
ایل ٹی پی دستاویزات کے مطابق فائبر آپٹک کا منصوبہ چین سے پاکستان کے دارالحکومت تک محدود نہیں بلکہ اس منصوبے کے تحت سکھر سے گوادر تک 804 کلومیٹر طویل ٹرانسمیشن نیٹ ورک کو مزیر بہتر کیا جائے گا جو اس فائبر آپٹک منصوبے کے لیے ریڑھ کی ہڈی ہے۔
طویل المدتی منصوبے کے تحت سکھر سے گوادر تک نئی 370 کلومیٹر طویل کیبل بچھائے جائے گی جس کا مقصد موجودہ کیبل نیٹ ورک کو مزید بہتر کرنا ہے۔
گوادر سے پوری دنیا تک
دستاویزات میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کے واحد سب میرین کیبل لینڈنگ اسٹیشن، جو کہ کراچی میں موجود ہے، میں خرابی کی صورت میں انٹرنیٹ کی بندش کے خطرے ختم کرنے کا بھی منصوبہ تیار کیا گیا ہے۔
اس وقت دنیا بھر کا انٹرنیٹ ٹریفک فائبر آپٹک کے ذریعے کراچی آتا ہے تاہم اس اسٹیشن میں خرابی کے نتیجے میں پورے ملک کا انٹرنیٹ بند ہوجاتا ہے۔
اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے گوادر پورٹ پر سب میرین کیبل لینڈنگ اسٹیشن تعمیر کیا جائے گا جس کا مقصد پاکستان میں بین الاقوامی مواصلاتی نیٹ ورک کی سیکیورٹی کو مزید بڑھانا ہے۔
تاہم منصوبے کے تحت گوادر اسٹیشن 10 ہزار مربع میٹر پر مشتمل ہوگا اور نیشنل ٹیلی کمیونیکیشن کارپوریشن (این ٹی سی) کے چیئرمین وقار راشد خان کے مطابق اس منصوبے پر کام کا آغاز کیا جا چکا ہے۔
ڈیجیٹل ٹی وی پر منتقلی
پاکستان کی 90 فیصد آبادی کے لیے مقامی ڈیجیٹل ٹیلی ویژن نیٹ ورک کا قیام بھی ایک اہم منصوبہ ہے جو سال 2020 تک مکمل کر لیا جائے گا۔
اس منصوبے کی تکمیل کے فوراً بعد چینی کمپنیاں پاکستان کو ڈیجیٹل ٹیلی ویژن فعال کرنے کے لیے ڈیجیٹل ٹیرسٹیریئل ملٹی میڈیا براڈ کاسٹ (ڈی ٹی ایم بی) ٹیکنالوجی فراہم کریں گی۔
اس منصوبے سے یہ صاف ظاہر ہے کہ بیجنگ اور اسلام آباد چینی ڈی ٹی ایم بی طرز کی ٹیکنالوجی پاکستان لانے کے لیے پر جوش ہیں جس کی مدد سے پاکستان میں ٹی وی چینلز کی براڈکاسٹنگ کا معیار واضح فرق کے ساتھ بہتر ہو جائے گا۔
اگر یہ منصوبہ پاکستان میں مکمل کیا جاتا ہے تو یہ پاکستان میں ٹی وی براڈ کاسٹنگ میں بہت اہم پیش رفت ہوگی جس کا میڈیا انڈسٹری پر بہت گہرا اثر ہوگا۔
ایل ٹی پی دستاویزات کے مطابق ڈیجیٹل ٹی وی کا یہ منصوبہ چار مرحلوں پر مشتمل ہوگا: پہلے مرحلے میں اسلام آباد اور اس کے اطراف کے علاقوں کو سہولت فراہم کی جائے گی، دوسرے مرحلے میں کراچی اور لاہور جیسے بڑے شہروں کو یہ سہولت مہیا کی جائے گی، تیسرے مرحلے میں ملک کے گنجان آباد علاقوں کو سہولت فراہم کی جائے گی جبکہ چوتھے مرحلے میں پاکستان کے دور دراز کے علاقوں سمیت پورے ملک میں یہ سہولت فراہم کی جائے گی۔
وزارتِ اطلاعات و نشریات نے پاکستان میں چینی ڈی ٹی ایم بی کو نافذ کرنے کے لیے چین کے قومی ترقی و اصلاحاتی کمیشن کے ساتھ مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کیے تھے اور اسی مقصد کے لیے چینی کمپنی زی ٹی ای اور پاکستان کے سرکاری ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) کے درمیان اسلام آباد اور اس کے گرد و نواح میں ابتدائی منصوبے کے آغاز کے لیے ایک معاہدہ بھی کیا جا چکا ہے۔
سی پیک ویب سائٹ کے مطابق اس ابتدائی منصوبے پر 20 لاکھ ڈالر کی لاگت آئے گی۔
ای گورنمنٹ کا پھیلاؤ
انتظامی امور کو بہتر بنانے کے لیے حکومت کی جانب سے ایک ماسٹر پلان بھی تشکیل دیا گیا ہے، جس کے تحت ایک معیاری نیشنل ڈیٹا سینٹر کا قیام کیا جائے گا، جو ای گورنمنٹ کے تمام معاملات کی مانیٹرنگ کے لیے نہ صرف ایک مرکزی سینٹر ہوگا، بلکہ اس کے ذریعے ای گورنمنٹ کے معاملات کی محفوظ نگرانی بھی کی جائے گی، اس سینٹر کو شمالی پاکستان میں 2016 سے 2020 تک تعمیر کیا جانا ہے اور یہ مجموعی طور پر 8 ہزار اسکوائر میٹر پر تعمیر ہوگا۔
یہ سینٹر حکومت اور دیگر کلیدی تنظیموں کو مختلف قسم کی سہولیات اور مسائل کا حل فراہم کرنے سمیت مواصلات کے بہترانتظامات، انٹرنیٹ تک رسائی، مختلف معاملات کی نگرانی میں مدد اور شہریوں کو آن لائن سروس کی بہتر سہولیات فراہم کرنے کے لیے کام کرے گا، طویل المدتی منصوبے کے تحت اسی سینٹر کی جانب سے ڈیٹا بیک اَپ کے لیے ملک کے دوسرے شہروں میں بھی چھوٹے سینٹرز قائم کیے جائیں گے۔
منصوبے کی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ ای گورنمنٹ منصوبے کے تحت وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں کے درمیان مختلف روابط کے پروگرام بھی بنائیں جائیں گے، اس کے ذریعے حکومتی اداروں، ایجنسیز اور یہاں تک کہ میٹروپولیٹن شہروں کی ٹاؤن کمیٹیوں کے اداروں تک عوام کی آسان رسائی کو بڑھایا جائے گا۔
اس حوالے سے پیش رفت کے طور پر گزشتہ برس چینی کمپنی ہیواوے کی جانب سے منعقدہ ایک ایونٹ کے دوران نیشنل ٹیلی کمیونیکیشن کارپوریشن (این ٹی سی) نے اسلام آباد میں پہلے نیشنل ڈیٹا سینٹر کا افتتاح کیا تھا، رواں برس مارچ میں وفاقی دارالحکومت میں اُس وقت کے وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال اور پاکستان میں تعینات چینی سفیر سن ویونگ نے سی پیک سینٹر آف ایکسی لینس کا افتتاح بھی کیا تھا۔
رہائش کے لیے محفوظ شہر
منصوبے میں شہری علاقوں کے تحفظ پر بھی زور دیا گیا ہے، جس کے لیے ایک اسمارٹ سیکیورٹی سسٹم تیار کیا جائے گا، جس کے تحت جدید ترین نگرانی، اسمارٹ الرٹ سسٹم اور ویژول کمانڈ کے ذریعے شہروں میں مجرمانہ اور دہشت گردی کی سرگرمیوں پر نظر رکھی جائے گی۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس نظام کے تحت حساس علاقوں، مرکزی شاہراہوں اور زیادہ آبادی والے علاقوں میں خفیہ کیمروں، ڈیٹیکٹرز اور اسکینرز کی تنصیب کی جائے گی، یہ آلات تمام تر معلومات مقررہ وقت پر کنٹرول سینٹر کو منتقل کردیں گے، جہاں موجود اسٹاف اس معلومات کی فوری جاچ پڑتال کرنے کے بعد ضرورت کے مطابق اقدامات اٹھائے گا۔
مںصوبے میں یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ اس تمام تر ڈیجیٹل سیکیورٹی منصوبے کا عملہ کون ہوگا، اس لیے یہ خدشات پیدا ہوتے ہیں کہ ممکنہ طور پر چین، پاکستان کے اندرونی معاملات یا سیکیورٹی میں دخل اندازی کرسکتا ہے۔
اس منصوبے کو پشاور سے شروع کیا جائے گا، جہاں کامیابی کے بعد اسے دیگر بڑے شہروں تک توسیع دی جائے گی، منصوبے سے پتہ چلتا ہے کہ شہروں کو محفوظ اور ڈیجیٹل سٹی مینجمنٹ میں تبدیل کرنے کے لیے وہاں عوام کو سہولیات یا معلومات فراہم کرنے کے لیے مختلف پلیٹ فارمز مثلا روڈ ٹرانسپورٹیشن مینیجمنٹ سسٹم اور ایسے ہی دیگر سسٹمز تیار کیے جائیں گے۔
رواں برس فروری میں وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک نے محکمہ داخلہ، منصوبہ بندی و ترقی، پولیس عہدیداروں اور چینی کمپنیوں کے نمائندوں کو ہدایت کی تھی کہ ’پشاور سیف سٹی‘ منصوبے پر کام کی رفتار کو تیز کیا جائے، وزیراعلیٰ نے منصوبے پر کام کرنے والی چینی کمپنی کے نائب صدر سے بھی اس حوالے سے بات چیت کی تھی۔
رواں برس مارچ میں خیبرپختونخوا حکومت نے چین کی سرمایہ کار کمپنیوں کے ساتھ مختلف معاہدوں پر دستخط کیے تھے، جن میں 2 ارب ڈالر کا سیف اینڈ اسمارٹ سٹی منصوبہ بھی شامل تھا، پشاور میں سیف سٹی منصوبے کے کئی کام تکمیل کے آخری مراحل میں ہیں۔
’اسلام آباد سیف سٹی‘ منصوبہ پہلے ہی مکمل ہوچکا ہے، جس کا افتتاح گزشتہ برس جون میں کیا گیا، اس منصوبے کی منظوری پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی حکومت نے 2009 میں اُس وقت دی تھی، جب چین کی ایک کمپنی نے اس منصوبے کے لیے آسان شرائط پر 12 کروڑ 40 لاکھ ڈالر کا قرض اس شرط پر فراہم کیا کہ منصوبے کے لیے تمام آلات اسی کمپنی سے ہی خریدے جائیں گے۔
گزشتہ برس اکتوبر میں وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے اعلان کیا تھا کہ ’لاہور سیف سٹی‘ منصوبے کا پہلا مرحلہ مکمل ہوچکا، ان کا کہنا تھا کہ یہ کام چینی کمپنی ہیواوے کی مدد سے مکمل ہوا، جس نے اس منصوبے کے لیے 12 ارب روپے فراہم کیے۔
رواں برس مئی میں شہباز شریف نے اعلان کیا تھا کہ سیف سٹی منصوبے کو صوبے کے دیگر 6 شہروں تک بڑھادیا گیا ہے، جب کہ ’لاہور سیف سٹی‘ منصوبے پر کام جاری ہے اور وہ 2018 تک مکمل ہوجائے گا۔
رواں برس اگست میں سندھ حکومت نے خفیہ کیمروں کے ذریعے کراچی کی نگرانی کے منصوبے کا اعلان کیا، جو آگے چل کر ’کراچی سیف سٹی‘ منصوبے کا حصہ بن جائے گا، اس منصوبے پر 10 ارب روپے لاگت آئے گی، جس کے ذریعے شہر کے 2 ہزار مقامات پر اعلیٰ کوالٹی کے 10 ہزار خفیہ کیمرے نصب کیے جائیں گے۔
کوئٹہ اور گوادر کو سیف سٹیز بنانے کے لیے بھی 10 ارب روپے کا منصوبہ تیار کرلیا گیا ہے۔
تربیت کے ذریعے تبدیلی
طویل المدتی منصوبے سے پتہ چلتا ہے کہ مختلف افراد کی صلاحیتوں کو ابھارنے اور ان میں پیش ورانہ بہتری کے لیے انہیں انفارمیشن، کمیونیکیشن و ٹیکنالوجیز سمیت دیگراقسام کی تربیت دی جائے گی، اس کے لیے پہلے مرحلے میں 2 ہزارافراد کو ٹریننگ فراہم کی جائے گی، جن میں سے 200 افراد کو چین بھیجا جائے گا، جب کہ متعدد افراد کو پاکستان میں موجود چین کے تربیتی مراکز میں تربیت دی جائے گی۔
خیال کیا جاتا ہے کہ اس کام کے لیے چائنا-پاکستان ٹیکنیکل ٹریننگ سینٹر کی تعمیر کی جائے گی، جو ٹیلی کمیونیکیشن، انفارمیشن اور ٹیکنالوجی سے متعلق تربیت فراہم کرے گا، طویل المدتی منصوبے کے تحت ممکنہ طور پر ایسے تربیتی مراکز، کالجوں اور یونیورسٹیوں کی سطح پر بھی تیار کیے جائیں گے، اگر کسی بھی رکاوٹ کے باعث ٹریننگ سینٹر کا قیام نہ ہوسکا تو متبادل کے طور پر پاکستانی اور چینی یونیورسٹیاں مشترکہ طور پر تکنیکی تربیت کے لیے کردار ادا کریں گی۔
یہ بھی پڑھیں: سی پیک کے تحت 3 نئی جامعات کا قیام
اس سارے معاملے کے لیے ایک ایسا مکینزم بھی تیار کیا جائے گا، جس کے ذریعے پاکستانی شہریوں کو چینی وسائل کے ذریعے اعلیٰ درجے کی تکنیکی تربیت فراہم کرنے کے لیے چین کے اعلیٰ اداروں میں بھیجا جائے گا۔
اس حوالے سے پاکستان کی وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اور چین کی وزارت انڈسٹری اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اعلیٰ عہدیداران ایک دوسرے کے ساتھ تجربات اور معلومات کا تبادلہ بھی کریں گے، یہی نہیں بلکہ دونوں ممالک کی وزارتیں کئی کام اور ٹاسک بھی مشترکہ طور پر پایہ تکمیل تک پہنچائیں گی۔
چینی کمیونیکیشن کا پاکستان میں فروغ
منصوبے سے حاصل شدہ معلومات
سی ایم پاک موبائل نیٹ ورک جو ملک میں زونگ کے نام سے کام کر رہا ہے، وہ چائنا موبائل کی ملکیت ہے اور اب پاکستان کا تیسرا بڑا موبائل نیٹ ورک بن چکا ہے۔
ہیواوے کے پاکستان میں کمیونی کیشن آلات کے سب سے زیادہ شیئرز (45 فیصد) ہیں، یہی نہیں بلکہ وہ 5 مقامی کمپنیوں کے ساتھ مل کر بھی کام کر رہی ہے جبکہ ملک میں اس کے 3 تربیتی مراکز بھی ہیں۔
زیڈ ٹی ای کی پاکستان میں 9 برانچز ہیں، جن میں 220 چینی جب کہ 620 پاکستانی ملازمین کام کرتے ہیں، یہ کمپنی 85 مقامی کمپنیوں یا ذیلی کمپنیوں کے ساتھ کام کر رہی ہے۔
یکم اکتوبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہونے والی اس رپورٹ کی تیاری میں امر ایاز نے بھی معاونت کی