متنازع ٹوئیٹ کے بعد مِس ترکی اپنے اعزاز سے محروم
استنبول: ترکی کے قومی مقابلہ حسن کی فاتح حسینہ کو گذشتہ برس ملک میں ہونے والی ناکام فوجی بغاوت کی کوشش پر اپنے خیالات کا اظہار کرنا مہنگا پڑگیا اور انہیں اپنے اعزاز سے ہاتھ دھونا پڑے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق 18 سالہ اِتر ایسن سے گذشتہ روز 'مِس ترکی' کا اعزاز واپس لے لیا گیا۔
واضح رہے کہ 18 سالہ حسینہ 21 ستمبر کو استنبول میں منعقد ہونے والی ایک تقریب میں مِس ترکی 2017 منتخب ہوئی تھیں اور چین میں ہونے والے مِس ورلڈ کے مقابلے میں اپنے ملک کی نمائندگی کرنے والی تھیں۔
مِس ترکی ایونٹ کا انعقاد کرنے والے آرگنائزرز کا کہنا ہے کہ 15 جولائی 2016 کو صدر رجب طیب اردگان کی حکومت کے خلاف بغاوت کی کوشش کے ایک سال مکمل ہونے پر ترک حسینہ نے ’ناقابل قبول‘ ٹوئیٹ کی تھی۔
منتظمین کے مطابق اس ٹوئیٹ کے سامنے آنے کے بعد ان کا یہ اعزاز رکھنا ممکن نہیں رہا۔
واضح رہے کہ اپنی ٹوئیٹ میں اِتر ایسن نے ناکام فوجی بغاوت کے دوران جان سے ہاتھ دھو بیٹھنے والے 249 افراد کی خون ریزی کو اپنے ایامِ حیض کے خون سے تشبیہہ دی تھی۔
ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے نتیجے میں جان سے جانے والے ان افراد کی قربانی کو عظیم الفاظ میں یاد کرتے ہوئے شہید قرار دیا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: امریکی مقابلہ حسن میں تاریخ رقم کرنے والی پہلی حجابی لڑکی
ایونٹ کے منتظمین کا کہنا تھا کہ انہوں نے یہ متنازع ٹوئیٹ مقابلہ حسن کے نتائج جاری کرنے کے بعد دیکھی اور اس پیغام کی تصدیق کے لیے کئی گھنٹے طویل اجلاس کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ’اس مقابلے کا انعقاد کرانے والی تنظیم کا مقصد دنیا بھر میں ترکی کو فروغ دینا ہے اور اس قسم کا بیان برداشت نہیں کیا جاسکتا‘۔
18 سالہ اتر ایسن سے اعزاز لیے جانے کے بعد اسے دوسری پوزیشن حاصل کرنے والی اصلی سومن کے حوالے کردیا گیا اور اب اصلی سومن ہی 18 نومبر کو چین میں اپنے ملک کی نمائندگی کریں گی۔
دوسری جانب اعزاز سے ہاتھ دھو بیٹھنے والی ترک حسینہ کا اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر کہنا تھا کہ انہوں نے یہ ٹوئیٹ ’بےدھیانی‘ میں کی تھی اور اس کا کوئی سیاسی مقصد نہیں تھا۔
اتر ایسن نے انسٹاگرام پوسٹ میں اس غلط فہمی پر معذرت کرتے ہوئے لکھا، ’میں کہنا چاہتی ہوں کہ بحیثیت 18 سالہ لڑکی میری ٹوئیٹ کا کوئی سیاسی مقصد نہیں تھا، میں نے حساس وقت میں اپنے معصومانہ خیالات کا ذکر کیا، میرے اہل خانہ نے مجھے اپنے وطن اور قوم کا احترام کرنا سکھایا ہے جبکہ میری شخصیت ایسی نہیں کہ میں شہداء کی بےحرمتی کروں‘۔
مزید پڑھیں: فوجی افسر امریکی ملکہ حسن بن گئیں
لیکن یہ پہلا موقع نہیں جب کسی ترک حسینہ کو سوشل میڈیا پوسٹ کی وجہ سے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا ہو۔
2015 میں پراسیکیوٹرز کی جانب سے مِس ترکی بیوٹی کوئین میروی بیوکسارک کے خلاف بھی رجب اردگان کی مخالفت میں پوسٹ کرنے پر تحقیقات کا آغاز کیا گیا تھا۔
میروی بیوکسارک کو استنبول کی عدالت نے 14 ماہ قید کی سزا سنائی تھی جسے اسے شرط پر معطل کردیا گیا تھا کہ وہ اگلے 5 سال کے دوران ایسی کوئی متنازع بات نہیں کریں گی۔
اُدھر ترک صدر کے ناقدین اردگان دور میں اظہار آزادی رائے کو محدود کیے جانے کے خلاف آوازیں بلند کررہے ہیں کیونکہ ترک رہنما کے حوالے سے سوشل میڈیا پوسٹ پر ہزاروں افراد کے خلاف مقدمات چلائے جاچکے ہیں۔