پاکستان، افغان جنگ میں ’قربانی کا بکرا‘ نہیں بنے گا: وزیراعظم
نیو یارک: وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے عالمی سربراہان مملکت پر واضح کردیا کہ پاکستان افغانستان سمیت کسی بھی ملک کے لیے ’قربانی کا بکرا‘ نہیں بنے گا۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی افغان پالیسی پر پاکستانی مؤقف کی دو ٹوک وضاحت کی۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی بےشمار قربانیوں کے بعد افغانستان میں سیاسی اور فوجی تعطل کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرایا جانا پریشان کن ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم کسی کے لیے بھی قربانی کا بکرا بننے کے لیے تیار نہیں‘۔
وزیراعظم نے مزید کہا کہ ’پاکستان، افغانستان کی جنگ اپنی سرزمین پر لڑنے کے لیے تیار نہیں، نہ ہی ہم کسی ایسی ناکام حکمت عملی کی تائید کرتے ہیں جو افغانستان اور پاکستان سمیت خطے کے دیگر ممالک کو درپیش مسائل میں اضافے کا سبب بنے‘۔
یہ بھی پڑھیں: نئی افغان پالیسی: ٹرمپ کا پاکستان پر دہشت گردوں کو پناہ دینےکاالزام
اپنے خطاب میں انہوں نے بتایا کہ 11 ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کے آغاز سے لے کر آج تک 27 ہزار پاکستانی دہشت گردوں کے ہاتھوں مارے جاچکے ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان نے 120ارب ڈالر سے زائد کا معاشی نقصان بھی اٹھایا اور تیز تر اقتصادی و سماجی ترقی کے اہداف کے حصول کے لیے دہشتگردی کا خاتمہ نہایت ضروری ہے۔
انہوں نے داعش اور القاعدہ سمیت دیگر انتہاپسند گروہوں کے ترجیحی خاتمے اور طالبان کے ساتھ سیاسی حل تلاش کرنے کی اہمیت پر بھی زور دیا۔
’طالبان کی محفوظ پناہ گاہیں پاکستان میں نہیں‘
اپنے خطاب میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے ایک بار پھر پاکستان میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کی موجودگی کی تردید کی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں موجود نہیں‘ بلکہ یہ پناہ گاہیں افغان سرزمین کے ان حصوں میں موجود ہیں جہاں طالبان کا کنٹرول قائم ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ زیادہ تر سرحد پار حملے افغانستان میں موجود پاکستان مخالف دہشت گردوں کی پناہ گاہوں سے ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’تمام سرحد پار حملوں کے خاتمے کے لیے ہم افغان حکومت اور اتحادی فورسز سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ پاکستان کی نگرانی اور سرحدی کنٹرول کی کوششوں کے ساتھ تعاون کریں‘۔
شاہد خاقان عباسی کے مطابق ’افغانستان میں 16 سال جاری رہنے والی جنگ میں یہ ثابت ہوچکا ہے کہ فوجی طاقت کا استعمال کرکے امن بحال نہیں کیا جاسکتا‘۔
واضح رہے کہ امریکی اور افغان حکام طویل عرصے سے پاکستان پر دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنے کا الزام عائد کرتے رہے ہیں۔
گذشتہ ماہ (22 اگست) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان، پاکستان اور جنوبی ایشیائی خطے کی نئی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے پاکستان پر دہشت گردوں کو پناہ دینے کا الزام عائد کیا تھا جس کو پاکستان کی جانب سے رَد کردیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: امریکا سے تعلقات افغانستان کی بنیاد پر نہیں: شاہد خاقان عباسی
خطاب کے دوران امداد میں کمی کی دھمکی دیتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ’ہم پاکستان کو اربوں ڈالر ادا کرتے ہیں مگر پھر بھی پاکستان نے اُن ہی دہشت گردوں کو پناہ دے رکھی ہے جن کے خلاف ہماری جنگ جاری ہے‘۔
امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کے اس رویے کو تبدیل ہونا چاہیے اور بہت جلد تبدیل ہونا چاہیے‘۔
بھارت پر تازہ دم تنقید
سابق وزیراعظم کی برطرفی کے بعد گذشتہ ماہ وزیراعظم کا منصب سنبھالنے والے شاہد خاقان عباسی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی مظالم کی سخت مذمت کی۔
بھارت کو مقبوضہ کشمیر میں ’وسیع پیمانے پر بلا امتیاز کارروائی‘ کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے ان مظالم کی بین الاقوامی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کی جانب سے تحمل کا مظاہرہ کیا جاتا رہا ہے لیکن اگر بھارت لائن آف کنٹرول کے پار مہم جوئی یا پاکستان کے خلاف محدود جنگ کے نظریے پر عمل کرتا ہے تو اس کا بھرپور جواب دیا جائے گا‘۔
’پاکستان نے بھارت کے بعد جوہری ہتھیار تیار کیے‘
وزیراعظم نے اپنے خطاب میں جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے حوالے سے بھی بات کی۔
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ پاکستان ایک امن پسند ملک ہے اور کم سے کم قابل اعتماد دفاعی صلاحیت برقرار رکھنے کے لیے پُرعزم ہے کیونکہ اسے ایک جارحانہ اور بڑھتی ہوئی فوجی قوت کے حامل ہمسایہ ملک کاسامنا ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان نے پڑوسی ملک بھارت کی جانب سے ایٹمی تجربات کے بعد ہی جوہری ہتھیاروں کی تیاری کا پروگرام شروع کیا۔
شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ ’ہمارے اسٹریٹجک اثاثے اکثر دی جانے والی جارحیت کی دھمکیوں سے نمٹنے کے انتہائی ضروری ہیں، ہمارے اثاثے مؤثر اور مضبوط کنٹرول میں ہیں اور ماہرین اس کے معترف ہیں‘۔
’روہنگیا افراد کے خلاف نسلی فسادات انسانی اقدار کے منافی‘
اپنے خطاب میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔
روہنگیا مسلمانوں کے خلاف نسلی فسادات کی مذمت کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ یہ نہ صرف تمام انسانی اقدار کے منافی ہے بلکہ ہمارے اجتماعی ضمیر کے لیے بھی بہت بڑا چیلنج ہے۔
مسئلہ فلسطین پر بات کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ فلسطینی علاقوں پر اسرائیل کے طویل قبضے اور غیرقانونی یہودی بستیوں کی توسیع سے خطے میں بڑے پیمانے پرجنگ چھڑ سکتی ہے۔
ماحولیاتی تبدیلی سے درپیش مسائل پر بات کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ یہ ہمارے اجتماعی مفاد میں ہے کہ پیرس معاہدے کے اہداف حاصل کیے جائیں اور شرح نمو میں بہتری اورترقی کے لیے نئی اورماحول دوست فضا کی فراہمی کوممکن بنایا جائے۔
انہوں نے میکسیکو میں حالیہ زلزلے سے متاثرہ افراد اور سمندری طوفان ارما اور ماریا سے متاثرہ تمام لوگوں کے لیے بھی پاکستانی عوام اور حکومت کی جانب سے دلی ہمدردی کا اظہار کیا۔
’ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات مثبت رہی‘
خطاب کے بعد وزیر خارجہ خواجہ آصف کے ہمراہ ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر اہم امور پر موثرطریقے سے اپنا مؤقف پیش کیا۔
ان کا کہنا تھا ’پاکستان کے نکتہ نظر کو مثبت طور پر دیکھا گیا اور ہم نے ڈومور کی کوئی آواز نہیں سنی‘۔
وزیراعظم نے صحافیوں کو بتایا کہ امریکا کے ساتھ مختلف سطح پر بات چیت کی گئی جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے عالمی رہنماؤں کے اعزاز میں دیئے گئے استقبالیے میں اُن سے ہونے والی ملاقات انتہائی مثبت رہی۔
شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ امریکہ کو بتا دیا گیا ہے کہ افغانستان کے مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں اور افغان قیادت میں مصالحتی عمل وہاں قیامِ امن کا واحد راستہ ہے۔